کم عمری کی شادی کے نقصانات

جاسم محمد

محفلین
کم عمری کی شادی کے نقصانات
02/04/2019 فاطمہ نعیم



پاکستان مختلف قومیتوں، مذہب، ذاتوں، رنگ و نسل پر مشتمل آبادی والا ملک ہے۔ ہر علاقے، قوم، مذہب اور ذات کے الگ الگ رسم و رواج ہیں، یہ رسم و رواج جہاں اِن علاقوں یا اِن کے رہنے وانوں کی پہچان ہیں وہیں دوسری طرف یہ ہماری تہذیب کئی خوبصورتی بھی بڑھاتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ کچھ رسم و رواج جتنے پرانے اور پختہ ہیں اتنے ہی نقصان دہ بھی، اِن پر عمل پیرا ہونا اِن لوگوں کے لئے باعثِ اذیت اور تباہی ہیں جن پر یہ مسلط کیے جاتے ہیں۔

انہی پرانے اور منفی رسم و رواج میں میں سے ایک کم عمری میں کرائی جانے والی شادی ہے سندھ بلوچستان خاص طور پر اِس رسم کی لپیٹ میں ہیں اور کتنی ہی زندگیاں کم عمری کی شادی سے ہونے والے نقصانات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ 2017 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 16 سال سے کم عمر میں شادی کرائے جانے والے بچوں کی تعداد 7.3 ملین (% 6.0 ) اور 18 سال سے کم عمر میں شادی کرائے جانے والے بچوں کی تعداد 15.5 ملین (% 12.6 ) ہے جن میں زیادہ تعداد اُن بچیوں کی ہے جو اپنے خاندان کے کسی نہ کسی مرد کے کیے ہوئے کسی جرم کی پاداش میں ہرجانے کے طور اس سزا کے لئے منتخب کی جاتی ہیں یا اُن کی شادی کروانے کے لئے بدلے میں دی جاتی ہیں۔

اسے ان گنت کیسز پاکستان کے دیہی علاقوں میں روزانہ وقوع پذیر ہوتے ہیں پر ہمارے ذہنوں اور دلوں پر طاری بے حسی یا خوف کی وجہ سے رپورٹ نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ایسی شادیوں کے بارے میں معلومات بھی کم ہیں۔ کم عمری کی شادی کا زیادہ شکار وہ بچیاں ہیں جو کبھی اپنے سے عمر میں کئی گنا بڑے مرد سے بیاہی جاتی ہیں اور کبھی غربت کی وجہ سے ایک اضافی بوجھ کی طرح ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل کردی جاتی ہیں۔ ایک اور سروے کے مطابق پندرہ سال سے کم عمر کی دوران زچگی موت کا خطرہ اور تناسب پانچ گنا زیادہ ہوتا ہے۔

کم عمری کی شادی کا سب سے زیادہ اثر اُس بچی کئی صحت پر پڑتا ہے جس کو خوبصورت کپڑوں، گہنوں، نئے کمرے اور دیدہ زیب زندگی کا لالچ دے کر اس کے ہاتھوں سے کبھی گڑیا اور کبھی کتاب ایک طویل جدوجہد اور پُر اذیت زندگی کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ طبی نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو کم عمری میں ہونے والی شادی سے بچیوں میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماروں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کم عمری میں حاملہ ہونے کی وجہ سے تولیدی صحت متاثر ہوتی ہے۔

دورانِ زچگی ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے ماں کی موت واقع ہوجانا ایک عام بات ہے۔ خون کی کمی، فسٹیولہ، carvic cancer، اور اندرونی انفیکشن اِن بچیوں کی دورانِ زچگی ہونے والی موت کی وجوہات ہیں جن کی تصدیق میڈیکل سائنس کی مختلف ریسرچ کرتی ہیں کچھ اور وجوہات بھی ہیں جن کی وجہ سے کم عمری کی شادی نقصان دہ ہے یہ وہ وجوہات ہیں جو بحیثیت ایک سوشل ورکر میں نے اپنے کام کے دوران مشاہدہ کیا اور جن پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے سندھ کے کم عمری کی شادی کے روک تھام والے قانون جو 2013 میں سندھ اسمبلی میں منظور ہوا جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی کروانا قانونی جرم ہے، اس قانون کے بننے سے پہلے کے حالات و واقعات اور اِس قانون کے بننے کے پیچھے کے عوام پر غور کیا جائے تو جو وجوہات سامنے آئیں ان میں لڑکیوں کی تعلیم کی گرتی ہوئی شرح اور اسکولوں میں پرائمری کے بعد لڑکیوں کی تعداد کا بتدریج کم ہونا، دورانِ زچگی کم عمر ماں اور اُس کے نوزائیدہ بچوکی شرح اموات میں اضافہ اور نوجوان جوڑوں میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے دیہی علقوں میں خاص طور پر جہاں قبائلی نظام رائج ہے وہاں لڑکیوں کی تعلیم کو اتنا ضروری نہیں سمجھا جاتا اور اگر انھیں اسکول میں داخل کروا بھی دیا جائے تو پرائمری کے بعد آگے مڈل اسکول میں داخلہ دلوانے کے بجائے شادی کروادی جاتی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 57 % حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے پر المیہ یہ ہے کہ ہر سال کیے گئے مختلف سروے اپنی جو رپورٹ پیش کرتے ہیں اس میں ہمیشہ پاکستان میں لٹریسی ریٹ کم ہی ہوا ہے خاص طور پر صوبہ سندھ میں جس کا ایک بڑا سبب کم عمری کی شادی ہے۔

کم عمری کی شادی کی وجہ سے جہاں تعلیم کی شرح کم ہوئی ہے وہیں خواتین میں صحت سے متعلقہ مسائل میں اضافہ ہوا ہے صحت کے لئے ملنے والی سہولتیں ویسے ہی اتنی ناقص اور ناکارہ ہیں جو ایک بالغ عورت کی زندگی کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں اس صورتحال میں وہ بچی جو پہلے ہی متاثر ہو آپس کی صحت کو کیسے محفوظ کیا جاسکتا ہے پر جو سب سے کم زیرِ بحث آنے والی وجہ ہے وہ ہے نوجوان کپڑوں میں تنازعات جن کا نتیجہ کبھی طلاق اور کبھی قتل یا خودکشی نکلتا ہے۔

جس عمر میں بچے خود ابھی خوکو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتے اور نہ ہی معاشی مستحکم ہوتے ہیں کہ اُن کو ایک بڑی ذمہ داری میں الجھا دیا جاتا ہے وہ آنکھیں جو کچھ کرنے کچھ بننے کے خواب دیکھنا شروع ہی ہوتی ہیں کہ وہ خواب چھین کر سخن کو رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ اس وقت مجھے بہت حیرت ہوئی تھی جب کندھ کوٹ کایک گاؤں میں ایک کم عمر شادی شدہ جوڑے نے میرے جلدی شادی کی وجہ پوچھنے پر بتانا کے فصل کی کٹائی کے لئے ایک فرد کا اضافہ ہوگیا مزدوری بچ گئی۔

آج کے اس جدید ڈیجیٹل دور میں جہاں دنیا ایک گلوبل ولیج بن گلی ہے اس دور میں بچوں کو ناسمجھی والی عمر میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دینا وہ بھی چند خود غرض وجوہات کی وجہ سے شاید ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔ آپس دور میں جب وہ غیرمستقل مزاج ہوتے ہیں ہر نئی چیز کی جستجو اِن کو اپنی طرف کھینچتی ہے، اِس غیر مستقل مزاج عمر میں نکاح جیسے اہم اور سنجیدہ معاہدے میں انہیں پابند کرنا غلط ہے۔ 2013 میں جب کم عمری کی شادیوں کی روک تھام والا قانون Sindh child marriage restraint act منظور نہیں ہوا تھا تب بھی مختلف سماجی تنظیمیں کم عمری کی شادی سے ہونے والے نقصانات اور اس کی روک تھام کے بارے میں آگاہی مہم چلاتی تھیں اور اِس رسم کو روکنے کے لئے آواز اُٹھاتی تھیں پرتب وہ آواز اور مہم اتنی مضبوط نہیں ہوتی تھی پر SCMRA کے منظور ہونے کے بعد ایک قانون تشکیل دیے جانے کے بعد اِس آگاہی مہم میں تیزی اور مضبوطی آگئی مختلف سماجی تنظیموں نے اس مہم میں متعلقہ سرکاری اداروں کو بھی شامل کیا، اِس قانون کے بارے میں آگاہی مہم کی رسائی دیہی علاقوں تک ہوگئی، سندھ کے اُن اضلاع کو خاص طور پر مہم کا حصہ بنایا گیا جہاں یہ رسم بدنما شکل اختیار کر چکی تھی، خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین کو تربیت دی گئی اور اُن کو اِس مہم کا حصہ بنایا گیا۔

نکاح خواں اور مذہبی رہنماؤں کو بھی مہم میں شامل کیا گیاجس کا نتیجہ یہ رہا کہ کم عمری کی شادیوں میں بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ سماجی تنظیموں، سماجی بھلائی کے محکم اور عورتوں کی بھکاری کے محکمے کے اشتراک سے ضلعی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیوں کا قیام جاری ہے۔ مختلف اضلاع میں یہ کمیٹیاں قائم ہوچکی ہیں اور اپنا کام کر رہی ہیں۔ سماجی تنظیمیں، سوال ویلفیئر ڈپارٹمنٹ، وومین ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ، عکاسی، صحافی، پولیس ڈپارٹمنٹ، ہیومین رائٹس ڈپارٹمنٹ اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔ پر اب بھی اس قانون میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، کیونکہ شادی ہونے سے پہلے لیس رپورٹ ہرجائت تو اُس کو روک کر کرائی کئی جاسکتا ہے ہر اگر نکاح ہونے کے بعد رپورٹ ہو تو اُس صورتِحال کے لئے کوئی ذکر نہیں اس قانون میں۔ اِس قانون میں بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ کم عمر کی شادیوں کو روکا جاسکے.
 
Top