ننھے میاں گھر آ گئے۔ اداس اداس۔ امی نے بلائیں لیں۔ بچہ تھک گیا ہے شاید، انھوں نے سوچا۔ زیادہ کچھ پوچھا نہیں۔ شام کو ابا نے بات کرنے کی کوشش کی۔ ننھے میاں نے بتایا
"نئی ٹیچر بہت گندی ہے۔"
"اچھا"، ابا بولے۔ "وہ نہاتی نہیں ہے کیا؟"
"ابا"، ننھے میاں ناراض ہو گئے۔ ابا نے منانے کی کوشش کی اور ننھے میاں کو گود میں لے لیا۔ آخرننھے میاں بولے
"ابا، آپ نے کمپوٹر بھوت دیکھا ہے؟"
"کمپیوٹر بھوت"، ابا ہنس پڑے۔ "یہ کیا ہوتا ہے بھلا؟"
اور ننھے میاں نے اسکول کا پورا واقعہ دہرا دیا۔ ابا ایک لمحہ کو ہنسے، پھر خاموش ہو گئے۔ بولے
"کمپیوٹر تو بہت کام کا ہوتا ہے بیٹا۔ وہ تو ہماری بہت مدد کرتا ہے۔ اور بھوت ووت تو کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔ میں نے کتنی بارسمجھآیا ہے آپ کو۔"
"لیکن اس کے ہاتھ پیر تو تھے نہیں۔" ننھے میاں بولے، "وہ کام کیسے کرتا ہے؟"
ابا بولے
"اچھا ننھے میاں، ابھی آپ کھیلئے۔ میں ذرا باہر جا رہا ہوں۔ میں آپ کو رات میں سونے سے پہلے کمپیوٹر کے بارے میں بتاﺅں گا۔"
اور ابا باہر چلے گئے۔ اپنے کسی دوست سے ملنے۔ انہیں خود بھی تو معلوم کرنا تھا کہ کمپیوٹر آخر کام کیسے کرتا ہے؟
ابا کافی دیر بعد واپس آئے، بالکل رات کے کھانے کے وقت پر۔ ان کے ہاتھ میں کچھ کتابیں بھی تھیں جن کے ورق وہ کھانے کے دوران بھی پلٹتے رہے۔ کھانے کے بعد ننھے میاں کا سونے کا وقت ہوتا ہے، اور ابا کا کہانیاں سنانے کا۔ آج تو ابا کو کمپیوٹر کی کہانی سنانی تھی۔ کمپیوٹر کا خیال آتے ہی ننھے میاں کے پھر ہوش غائب ہو گئے۔ انہیں پھر ہر طرف کمپیوٹر بھوت ناچتے ہوئے نظر آنے لگے۔ ابا کچھ بتا رہے تھے، ننھے میاں کو سُن کر بھی کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ابا سمجھا رہے تھے، ننھے میاں کو سمجھ کر بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ابا کتابوں میں تصویریں دکھا رہے تھے، ننھے میاں کو دیکھ کر بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ ابا سناتے چلے گئے۔ ننھے میاں سنتے چلے گئے۔ بھوت سارے ناچتے چلے گئے۔ ابا کتابوں میں کھو گئے۔ ننھے میاں تکیہ میں دبک کر سو گئے۔ بھوت ہواﺅں میں ہوا ہو گئے۔
اچانک ایک زور کی آواز ہوئی۔ جےسے کمرے میں کوئی کودا ہو۔ ننھے میاں نے جلدی سے ابا کی طرف ہاتھ بڑھآیا۔ ہاتھ خالی بستر سے ٹکرا گیا۔ ابا وہاں نہیں تھے۔ ننھے میاں نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ سامنے کمپیوٹر بھوت کھڑا تھا۔ ننھے میاں نے زور کی چیخ ماری۔ مگر چیخ ان کے گلے سے نکلی نہیں۔ اندر ہی گھٹ کر رہ گئی۔ ان کا چہرہ سفید پڑ گیا، بالکل برف کی طرح۔ آنکھیں باہر کو آ گئیں، بڑی بڑی ہو گئیں۔ ننھے میاں کو لگا وہ کانپ بھی رہے ہیں۔ بھوت ہنس پڑا۔
"سلام ننھے میاں۔"
ننھے میاں کی حالت میں کوئی خاص فرق نہ آیا۔ بس ذرا ہوش سنبھل گئے ۔ کمپیوٹر بھوت کو انہوں نے ٹھیک سے دیکھا۔ یہ تو پورا آدمی تھا۔ سر کی جگہ پر ٹی وی تھا۔ ڈبے کا جسم۔ ہاتھوں میں وہ اے بی سی والا تختہ تھا نہ، وہ لے رکھا تھا۔ اس کے تو دم بھی تھی۔ اور تو اور۔ اس کی دم میں ایک چوہا لٹک رہا تھا۔ اور ننھے میاں ہنس پڑے۔ یہ کیسا بھوت ہے بھلا۔ اس کی تودم میں چوہا لٹک رہا ہے۔ اور ننھے میاں زور سے ہنس پڑے
"آپ کیسے بھوت ہیں؟ آپ کی دم میں تو چوہا لٹک رہا ہے۔"
"بھوت کیسا بھوت, یہ بھوت کیا ہوتا ہے ننھے میاں؟" کمپیوٹر بھوت نے پوچھا۔
"آپ۔ آپ بھوت ہیں۔ آپ بھوت نہیں ہیں کیا؟"
"بھوت؟ اچھا۔ ابھی دیکھتا ہوں۔"
بھوت کے ہاتھوں میں جو تختہ تھا اس نے اس پر کچھ بٹن دبائے۔اور اس نے چہرے پر سے آنکھ ، ناک، منھ ہٹ گئے اور ان کی جگہ تمام تصویریں اور عبارتیں ابھرنے لگیں۔ پھر دوبارہ اس کا چہرہ واپس آ گیا اور وہ بولا
"میں نے سب معلوم کر لیا۔ بھوت ووت کچھ نہیں ہوتا۔ یہ صرف بچوں کے دماغ کا ایک خیال ہے۔"
"اگر بھوت نہیں ہوتا تو آپ کیا ہیں؟" ننھے میاں نے پوچھا۔
"میں۔ میں تو کمپیوٹر ہوں۔ آپ چاہیں تو مجھے کمپیوٹر ماموں کہہ لیں۔ آپ کمپیوٹر کے بارے میں نہیں جانتے؟"
"نہیں ، نہیں، جانتا کیوں نہیں ہوں،" ننھے میاں کےونکر کہہ دیتے کہ انہیں کچھ نہیںمعلوم۔ "ابا نے بتایا ہے۔ مگر میں ذرا بھول گیا ہوں۔ آپ مجھے بتائیں گے اپنے بارے میں؟"
"ہاں ہاں۔ کیوں نہیں۔" کمپیوٹر بولا، "سب بچوں کو میرے بارے میں معلوم ہونا چاہئے۔ کمپیوٹر، اِنٹر نیٹ، ورلڈ وائڈ ویب وغیرہ تو آج کی زندگی کا حصہ ہی نہیں ضرورت بن چکے ہیں۔ میں آپ کو سب کے بارے میں بتاﺅں گا ۔ آپ سنیں گے؟"
"ہاں ہاں۔ کیوں نہیں سنوں گا؟" ننھے میاں فوراً بولے اور بستر پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ کمپیوٹر نے بولنا شروع کیا۔
"کمپیوٹر، یا جس کوآپ جنترمنتر بھی کہہ سکتے ہیں، آج کی دنیا میں کسی تعارف کی ضرورت نہیں رکھتا۔ جو کمپیوٹر کو جانتا ہو وہ انٹرنیٹ اور آفاقی تانے بانے سے واقف نہ ہو، ایسا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ کسی بھی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود شخص سے تفصیل سے تبادلہ خیال کرنا آدمی کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے۔ ہاں،اگر وہ موش کو بائیں ہاتھ سے پکڑتا ہے تو، ور نہ داہنے ہاتھ کا۔ صنعت و حرفت کی ترقی کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک عام آدمی کی پہنچ آسان ہوگئی ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ ادارے اور زیادہ سے زیادہ لوگ آج روزمرّہ کی زندگی اور کام کاج میں کمپیوٹر کا استعمال کر رہے ہیں۔"
"موش۔ وہ جو آپ کی دم میں لٹکا ہوا ہے؟ اس کو ہاتھ سے پکڑنا پڑتا ہے؟ یہ کاٹتا نہیں؟" ننھے میاں نے پوچھا۔
"نہیں ننھے میاں۔ آپ تو بہت ڈرتے ہیں۔ یہ تو بالکل کھلونا ہے ۔ اس میں ڈرنے کی کیا بات۔" کمپیوٹر بولا۔
"جی نہیں۔ میں کیوں ڈروں گا؟ میں تو بھوت سے بھی نہیں ڈرتا۔ اورپتہ ہے میرے ابا تو شیر سے بھی نہیں ڈرتے۔" ننھے میاں کہاں ہار ماننے والے تھے۔
"وہ سب تو میں نہیں جانتا۔" کمپیوٹر بولا،"مگر آپ کو موش سے ٹُک ٹُک کرنے میں بہت مزہ آئے گا۔ یہ میں ےقین سے جانتا ہوں۔ میرے پاس اور بھی مزے کی چیزیں ہیں۔ آپ نے جامِ جمشید یا جامِ جہاںنما کے بارے میں ضرور سنا ہوگا۔ ابا نے جامِ جمشید والا قصہ سنایا ہوگا۔ یہ سب قصّوں اور کہانیوں کی باتیںجب تھیں تب تھیں۔ اب یہ چیزیں ہمارے سامنے کمپیوٹر کی آرسی پر تانا باناورق کی شکل میں موجود ہیں۔ دنیا بھر کا حال اس پر دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔آپ کو معلوم ہے؟ آج سے کچھ ہی سال پہلے تک چھوٹی سی چھوٹی معلومات حاصل کرنے کے لیے گھنٹوں کسی لائبریری میں گذارنے پڑتے تھے۔ کبھی کبھی تو لائبریری در لائبریری بھٹکنا پڑتا تھا۔ نہ جانے کہا ں کہاں کے اخبارات چھاننے پڑتے تھے۔ اب آپ کمپیوٹر کھولیے، اس کو انٹرنیٹ سے جوڑ یے، کسی بھی اچھّے حربہ تلاش کو حکم دیجیے کہ وہ دنیا بھر سے وہ تمام معلومات ڈھونڈ لائے جس کی آپ کو ذرا سی ضرورت ہے۔اور چندہی لمحوں میں آپ کی ضرورت سے وابستہ ویب صفحات کی بارش شروع ہو جائے گی۔"
"آپ کے پاس الٰہ دین کا چراغ ہے کیا؟" ننھے میاں نے ٹوکا۔
"الٰہ دین کا جِن یاد آ گیا۔ ننھے میاں، جِن اگر آج ہوتا تو مجھ کو ساتھ لے کر گھومتا۔ میں تو اس سے بھی بڑا جن ہوں۔"
"ارے باپ رے۔ تو پھر میں آپ کو حکم کیسے دوں گا؟"
"آسان ہے ننھے میاں،" کمپیوٹر بولا۔ "یہ جو میرے ہاتھ میں بساط دیکھ رہے ہیں نہ۔ کلیدی بساط ۔ بس اس کے ذریعہ اپنا حکم داخل کر دیجیے۔ میں فوراً کام میں لگ جاﺅں گا۔"
"واہ۔ آپ تو بڑے کام کی چیز ہیں۔ پھر میں آپ سے ڈرتا کیوں ہوں؟" ننھے میاں کے منھ سے نکل ہی گیا۔
"اچھا۔" کمپیوٹر بولا۔ "آپ اب بھی ڈرتے ہیں مجھ سے؟"
"نہیں ، نہیں۔" ننھے میاں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً تن کر بیٹھ گئے۔ "میں تو آپ کی دم کھینچوں گا۔"
ننھے میاں بستر پر کھڑے ہو گئے۔ جےسے سچ مچ اس کی دم کھینچنے جا رہے ہوں ۔کمپیوٹر چلا پڑا۔
"نہیں میری دم نہ کھینچنا۔ پھر سب مجھے دم کٹا کہیں گے۔"
اور وہ بھاگ کر کھڑکی سے باہر کود گیا۔ ننھے میاں اس کو پکارتے رہ گئے۔
کمپیوٹر ماموں۔ مت جائیے۔ میں دم نہیں کھینچوں گا۔ میں صرف موش سے کھیلوں گا۔"
مگر کمپیوٹر تو اب ننھے میاں سے ڈر گیا تھا۔ وہ نہ ٹھہرا۔ البتہ یہ چیخ پکار سن کر ابا بھاگتے ہوئے آ گئے۔
"کیا ہوا ننھے میاں ؟ کون تھا؟" ابا نے پوچھا۔
"کمپیوٹر ماموں۔ وہ چلے گئے۔" ننھے میاں روہانسے ہو گئے۔
"کمپیوٹر ماموں؟" ابا کھڑکی کے پاس جاکر باہر جھانکتے ہوئے بولے۔
"آپ نے خواب دیکھا ہوگا ننھے میاں۔"
"نہیں ۔ خواب نہیں تھا۔" ننھے میاں اڑ گئے۔ "ابھی کمپیوٹر ماموں تھے یہاں۔"
"کون تھا؟ کیا خواب دیکھ لیا؟" امی اندر آتی ہوئی بولیں، "ننھے میاں، آپ جاگ پڑے۔ چلئے اچھا ہوا۔ اسکول کی تیاری شروع کرتے ہیں۔"
اسکول کا نام سنتے ہی ننھے میاں پھر سے بستر میں گھس گئے۔ "نہیں نہیں۔ میں تو ابھی سو رہا ہوں۔ ابھی تو ابا نے بتایا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں۔"
"اچھا۔" امی بولیں۔ "آپ تو کل بتا رہے تھے کہ آپ کے اسکول میں بہت سارے کمپیوٹر ہیں۔"
"ہیں۔ بالکل ہیں۔" ننھے میاں پھر سے اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ "بہت سارے۔ میں تواسکول جا رہا ہوں۔ جلدی سے تیار ہو جاتے ہیں ۔ کہیں دیر نہ ہو جائے۔"
دوسرا دن۔ ابا اسکول کے پھاٹک تگ آئے۔ ننھے میاں نے خوشی خوشی ان کو خدا حافظ کہا اور کلاس کی طرف چل دیے۔ گھنٹہ بجنے تک ننھے میاں اپنے سب دوستوں میں ہی نہیں بلکہ پورے درجہ میں اپنی نئی معلومات کی دھاک قائم کر چکے تھے۔ جب ٹیچر نے پوچھا۔
"آج کیا پڑھیں گے آپ لوگ؟" تو ننھے میاں نے فوراً ہاتھ کھڑا کر دیا اور زور سے بولے
"کمپیوٹر"۔
"اچھا؟" ٹیچر نے کہا۔ " کل تو آپ سب سے پیچھے چل رہے تھے۔"
"وہ اس لئے نہ ٹیچرکہ مجھے کمپیوٹر کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے نہ۔" ننھے میاں نے بڑے اعتماد سے کہا۔
"اچھا۔" ٹیچر نے ذرا حیرت سے کہا۔ "آپ کوکیا کیا معلوم ہے؟ ذرا یہاں آکر سب کو بتائیں گے۔"
ننھے میاں تو جیسے اس لمحہ کا ہی انتظار کر رہے تھے۔
"کمپیوٹر ماموں بہت سے کام کر سکتے ہیں۔ ان کو دنیا کی ہر بات معلوم ہے۔ جب ہمیں ان سے کچھ پوچھنا ہوتا ہے تو ہم کلیدی بساط کے ذریعہ لکھ کر ان کو حکم دے سکتے ہیں اور وہ اپنی آرسی پر فوراً جواب دکھا دیتے ہیں۔ اور ان کی دم میں ایک موش لٹکتا رہتا ہے جس سے ٹُک ٹُک کرنے میں بہت مزہ آتا ہے۔"
ننھے میاں سانس لینے کو بھی نہ رکے۔ اور ٹیچر کے منھ سے صرف ایک لفظ نکلا۔
"ایں۔"
یہ سب تو ان کو بھی نہ معلوم تھا۔ کچھ دیر تک تو وہ ننھے میاں کو دیکھتی رہیں، پھر ہنس پڑیں۔ انھوں نے ننھے میاں کو گود میں اُٹھا لیا اور پورے درجے سے مخاطب ہوئیں۔
"ننھے میاں کو تو واقعی کمپیوٹر کے بارے میں بہت کچھ آتا ہے۔ اب کے جب ہم کمپیوٹر کی پڑھائی پڑھیں گے تو ننھے میاں ہی سب کو پڑھائیں گے۔" وہ ننھے میاں سے مخاطب ہوئےں۔ "کیوں ننھے میاں؟"
"جی ہا ں ٹیچر۔" ننھے میاں نے زور سے کہا۔ وہ بہت خوش تھے۔ ان کی ٹیچر نے سب کے سامنے ان کی تعریف کی تھی۔ ان کو گود میں لیا تھا۔ کتنی پیاری ہیں یہ ٹیچر۔ ننھے میاں دل میں سوچ رہے تھے۔ اچھی ٹیچر