کل شب اِک شاعر نے بُلایا مُجھ کو

جعفر بشیر

محفلین
کل شب اِک شاعر نے بُلایا مُجھ کو
کلام اپنا زبردستی سُنایا مُجھ کو

اُس کو نہ جانے کون سا غم تھا
خُود بھی رویا اور رُلایا مُجھ کو

چند غزلیں ہی سُناؤں گا ، کہا تھا
خُوب اُس نے پِھر دِیوان سُنایا مُجھ کو

جب بھی مُجھ کو کبھی نیند کاجھونکا آیا
چائے کاجام بھی اُس نے ہی پلایامُجھ کو

کلام اُس کا کوئی شائع نہیں کرتا
حال اپنا بڑے دُکھ سے بتایا مُجھ کو

گھر میں غزلوں کو گوارا نہیں کرتے
حالتِ زار پہ اُس کی ترس آیا مُجھ کو

مجھےہاتھ رکھنے پڑے کانوں پہ آخر
اُس کی گائیکی نے تپایا مُجھ کو

اچھا ہُوا اُس کے گھر مہمان آ گئے
موقع گھر جانے کا دِلایا مُجھ کو

جعفر بشیر جعفرؔ
 

شمشاد

لائبریرین
گھر میں اترے ہیں مہمان خدا خیر کرے
ہاتھوں میں ہے ان کے دیوان خدا خیر کرے

بہت خوب جناب عالی
 
Top