کلیم الدین احمد کی خودنوشت-دو حصوں میں

راشد اشرف

محفلین
اپنی تلاش میں
کلیم الدین احمد کی خودنوشت-دو حصوں میں

بہار ہندوستان کے معروف نقاد کلیم الدین احمد (م: 1983) کی خودنوشت کے حصہ اول (1975) اور حصہ دوم (1987) کہ ہند میں بھی اب نایاب ہے، کی تلاش راقم کو ایک عرصے سے تھی۔ راجھستان کے ایک دوست فاروق اعظم قاسمی نے جو دلی میں قیام پذیر ہیں، خدا جانے کیسے مطلوبہ کتابیں تلاش کیں اور پھر ان کی ترسیل کا مسئلہ درپیش ہوا۔ عرض کیا کہ ان کو میرے ایک کرم فرما پروفیسر اطہر صدیقی صاحب کو علی گڑھ میں بھیج دیں جہاں سے مجھ تک پہنچ جائیں گی لیکن پھر فاروق صاحب نے اس کا ایک حل نکالا۔ کتابیں اپنے دوست اظہر سعید کے ہاتھوں بنارس بھیجیں جہاں سے ان اظہر صاحب کے ساس و سسر منزلیں مارتے براستہ دلی، لاہور اور پھر کراچی پہنچے۔ گزشتہ جمعے کی سہہ پہر راقم نے کراچی کے دور افتادہ علاقے میں پہنچ کر ان بزرگ علیم صاحب سے ملاقات کی۔ ہندی کی آمیزش والی اردو سنی، بنارس کے حالات سے آگاہی حاصل کی ، اپنے فاروق اعظم قاسمی اور ان کے دوست اظہر سعید کو دعائیں دیں اور کتابیں وصول کیں۔

علیم صاحب نے اپنی صاحبزادی کی شادی چھ برس قبل کراچی میں کی تھی۔ کہنے لگے کہ جگر کا ٹکڑا علاحدہ کرکے دے دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے جگر کا ٹکڑا یہاں خوب پھل پھول رہا ہے، خاتون کے شوہر سعودی عرب میں ہیں اور تین پیارے بچے آنگن میں کھیلتے نظر آئے۔ علیم صاحب کہنے لگے کہ دیکھیے وہاں سے یہاں لڑکی شادی ہوکر آئے تو نبھ جاتی ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہوتا البتہ یہاں پاکستان سے جو لڑکیاں شادی ہو کر وہاں گئیں، ان میں سے بقول علیم صاحب، کم ہی نبھا پائیں۔ علیم صاحب کہنے لگے کہ ان کے یہاں کالج کی طالبات کو امتحان پاس کرنے کے بعد سرکار کی جانب سے بیس ہزار روپے اور ایک سائیکل دی جاتی ہے جبکہ طلبہ کو لیپ ٹاپ دیا جاتا ہے۔ وہاں پی ایچ ڈی کے طلبہ و طالبات کو سرکار بیس ہزار روپے ماہانہ دیتی ہے۔
یہ باتیں سن کر ہمارے تمام طبق رفتہ رفتہ روشن ہورہے تھے۔ لیکن اگلے بیان پر دو چار طبق بجھ بھی گئے۔ علیم صاحب نے کہا کہ آپ دیکھیے کہ ہند کی تقسیم غلط ہوئی۔ مسلمان بٹ گئے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو لگائیے حساب کہ کتنے مسلمان ہند کے، کتنے پاکستان کے اور کتنے بنگلہ دیش کے جو بٹ کر رہ گئے۔ آج وہ سب مل کر ہندوستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ کہلاتے اور پھر کسی کی مجال نہ تھی کہ ہمیں ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتا۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ علیم صاحب گجرات (گودھرا) کے واقعے پر آج بھی رنجیدہ نظر آئے تھے۔

مودبانہ عرض کیا کہ جواہر لال نہرو کہہ گئے تھے کہ "اگر بھارت کو واقعی ایک سیکولر، مستحکم اور مضبوط ملک بنانا ہے تو اسے اپنی اقلیتوں سے مکمل انصاف سے کام لینا ہوگا۔"
بہرکیف، یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بھارتی مسلمان کسی احساس کمتری کا شکار نہیں ہے۔ہمارے مسلمان بھائی ہند میں ترقی کریں، اس سے اچھی اور کیا بات ہوسکتی ہے۔

علیم صاحب پہلے شخص نہیں ہیں جنہوں نے راقم سے یہ کہا تھا کہ "آپ کے یہاں تو مسلمان، مسلمان کو مار رہا ہے"۔ یہ بات اس سے قبل بھی ہند سے آنے والے مہمان دوران گفتگو کہہ چکے ہیں۔
عرض کیا کہ حضرت! وہ مسلمان ہی کیا جو نچلا بیٹھ جائے، لہو گرم رکھنے کا کچھ بہانہ تو اسے درکار ہوتا ہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے۔ یہ آلہ کار بھی آسانی سے بنتا ہے اور کاسہ لیسی میں تو اپنی مثال آپ ہے۔
اور پھر کچھ عرصہ قبل تک ہمارے یہاں جو شہید کی تعریف وضع کرنے کے معاملے میں جو ہڑبونگ مچی تھی، اس کے تو کیا ہی کہنے۔ راقم علیم صاحب کو بی بی سی کے وسعت اللہ خان کی یہ سطور سنانا چاہ رہا تھا جو وقت کی تنگی کے باعث ممکن نہ ہوپایا۔ خیر آپ پڑھ لیجیے، لکھتے ہیں:

"مجھے یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ’شہید‘ کسے کہا جا سکتا ہے اور کسے نہیں۔ اور ایسے کون سے شہید ہیں جو جنت میں جائیں گے اور کن شہدا کو حصولِ جنت میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔
شروع شروع کے اسلامی معاشرے میں شہید کا تعین کرنا قدرے آسان تھا۔ یعنی جو کفار سے لڑتا ہوا، یا دین کی ترویج کرتا ہوا یا کسی بےگناہ کو بچاتا ہوا یا فسادِ عام یا وباءعام میں بےگناہ مارا جائے وہ شہید ہے۔ اور شہید قرار پانے کے بھی کئی درجات تھے جو ان حالات سے متعین ہوتے تھے کہ جن میں اس کی موت واقع ہوئی ہو۔
لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ سوال اٹھ گیا کہ اگر مسلمانوں میں باہم لڑائی ہو جائے تو شہید کسے کہیں اور کسے نہ کہیں۔
میں (وسعت اللہ خان) سوچ رہا ہوں کہ اللہ تعالی نے اگر ان تمام شہدا کے دعووں کو درست مان کر سب کو داخلِ جنت کر دیا تو کہیں وہ جنت بھی اس کی تخلیق کردہ دنیا جیسی نہ بن جائے۔"

دوران گفتگو علیم صاحب نے ہم سے پوچھا "میاں! یہ آپ کے ‘ہیاں‘ خود کش والے تو بڑے پاپی ہیں، نردوش لوگوں کی ایسی ہتیا ? مہا پاپ ہے یہ تو۔
اس پر ہم نے یہ قطہ علیم صاحب کی نذر کیا:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
دوسری صف میں کھڑا ہوگیا خود کش بمبار
ہوا پھر وہی جو اقبال نے فرمایا تھا
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

ایک موقع پر علیم صاحب کہنے لگے کہ میں وہاں سے "بھور سمے" نکلا تھا۔ یہ ترکیب سن کر جی خوش ہوگیا۔ جوابا" عرض کیا اچھا! تو آپ ‘تڑکے‘ نکلے تھے۔ یہ ٹکڑا لگانے کا یہی مقصد تھا کہ انہیں باور کرایا جاسکے کہ خاکسار ان کی گفتگو خوب سمجھ رہا ہے اور محظوظ بھی ہورہا ہے البتہ اس لاف گزاف کا یہ نتیجہ نکلا کہ وقت کے ساتھ ساتھ علیم صاحب کی ہندی گاڑھی ہوتی چلی گئی اور ایک موقع پر خاکسار نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضور، اب اس کا ترجمہ بھی کرتے جائیے کہ زبان ‘بزرگ‘ ہندی اور من ہندی نمی دانم والا معاملہ ہوگیا ہے, آنکھوں میں نمی ہے کہ اترتی جارہی ہے۔
آخر میں علیم صاحب کی ہندی کا مجھ غریب پر ایسا اثر ہوا تھا کہ وقت رخصت ان سے آگیا طلب کی، پرنام کیا اور ان کے چرن بھی چھوئے۔

اس قدر تگ و دو کے بعد حاصل ہونے والی کلیم الدین احمد کی خودنوشت "اپنی تلاش میں" کا اتنا حق بنتا تھا کہ انہیں اسکین کرکے ادب دوست احباب کے لیے پیش کیا جائے, بالخصوص ایسے اشخاص کے لیے جو اس صنف ادب میں تحقیق کررہے ہیں اور ان کی رسائی ہندوستانی خودنوشتوں تک نہیں ہے۔
سو دونوں حصے پیش خدمت ہیں:

اپنی تلاش میں-خودنوشت-حصہ اول
کلیم الدین احمد
کلچرل اکیڈمی گیا، بہار
اشاعت:جنوری 1975



اپنی تلاش میں-خودنوشت-حصہ دوم
کلیم الدین احمد
بہار اردو اکادمی، پٹنہ
اشاعت: 1987

 
آخری تدوین:

جیہ

لائبریرین
بہت خوب
مجھے لگ رہا ہے کہ آپ کو سوانح عمری جمع کرنے کا "جنون" ہے۔ اچھا ہے۔ آپ علم و ادب کی خدمت کر رہے ہیں ۔ جزاک اللہ
 

تلمیذ

لائبریرین
نایاب کتابیں، سوانح عمری کی صنف اور پھر آپ کا منفرد تبصرہ جسے پڑھنا شروع کریں تو جی کرتا ہے کبھی ختم نہ ہو۔ بھئی کس کس چیز کی تعریف کریں۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عنایت فرمائیں۔
 

فلک شیر

محفلین
سبحان اللہ۔
کیا خاصے کی چیز لائے ہیں راشد بھائی۔ کلیم الدین احمد کے بارے میں جاننا واقعی مزیدار تجربہ ہو گا۔ کہ آخر ایک نقاد کی زندگی کے احوال و آثار سے کچھ تو اندازہ ہو گا، کہ لوگ اس خشک کام کی طرف مائل فطری تقاضے سے ہوتے ہیں، علمی اثرات سے یا شخصی تقلید (اساتذہ ) یا کسی اور سبب۔
محترم تلمیذ صاحب نے سچ کہا ہے، کہ کس کس چیز کا شکر یہ ادا کیا جائے۔
اللہمم یبارک فیک اخی الکریم :)
 

تلمیذ

لائبریرین
جی ہاں، سوانح عمری (اور سفر نامے بھی) جناب راشد اشرف, کی اسپیشیلیٹی ہے، جویریہ جی۔۔ جہاں تک میرا خیال ہے، فی الوقت سوانح عمریوں کا جتنا بڑا ذخیرہ ان کے پاس ہے، شاید ہی کسی اردو دان کے پاس ہوگا۔ اور ہمارے لئے یہ ایک قابل رشک بات ہے۔ اگر آپ نے پہلے نہیں دیکھیں، تو ان کتابوں کے سرورقوں کی قوس قزح کے رنگوں کو دیکھنے کے لئےمندرجہ ذیل ویب سائٹوں کو ملاحظہ کریں:
http://www.wadi-e-urdu.com/urdu-autobiographies-part-1/
http://www.wadi-e-urdu.com/urdu-autobiographies-part-2/

فلک شیر, قیصرانی, فرحت کیانی, نیرنگ خیال, جیہ,
 
آخری تدوین:
Top