قابل اجمیری کلیات قابل مکمل کلام

فاخر رضا

محفلین
اجل کی گود کے قابل ہوئی ہے عمر تمام
عجب نہیں کہ مری موت زندگی ہوجائے

تین کتب ہیں
دیدۂ بیدار صفحہ ۱۱ تا ۱۴۸
خونِ رگِ جاں صفحہ ۱۴۹ تا ۲۴۶
باقیاتِ قابل صفحہ ۲۴۷ تا ۲۹۸

دیدۂ بیدار
غزل نمبر 1

عشق میں تازگی ہی رہتی ہے
وہ نظر چھیڑتی ہی رہتی ہے
آک دل میں لگی ہی رہتی ہے
آنسوؤں کی کمی ہی رہتی ہے
میری راتیں اجڑ گئیں اے دوست
اب یہاں روشنی ہی رہتی ہے
جانے کیا ہو پلک جھپکنے میں
زندگی جاگتی ہی رہتی ہے
لاکھ وہ بے نیاز ہوجائیں
حسن میں دلکشی ہی رہتی ہے
جھوتے وعدوں کی لذتیں مت پوچھ
آنکھ در سے لگی ہی رہتی ہے
ہجر کی رات ہو کہ صبح نشاط
زندگی زندگی ہی رہتی ہے
درد خود آگہی نہ ہو جبتک
کائنات اجنبی ہی رہتی ہے
زہر بھی ہم نے پی کے دیکھ لیا
عشق میں تشنگی ہی رہتی ہے
حسن کرتا ہے مہر و ماہ سے چھیڑ
آنکھ لیکن جھکی ہی رہتی ہے
کچھ نئی بات تو نہیں قابل
ہجر میں بے کلی ہی رہتی ہے
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 2

دن پریشاں ہے رات بھاری ہے
زندگی ہے کہ پھر بھی پیاری ہے
تیرے مستوں کی زندگی اے دوست
اک سرور خود اعتباری ہے
دل کی دھڑکن کا اعتبار نہیں
ورنہ آواز تو تمہاری ہے
ان کے حسنِ ستم کا کیا کہنا
لوگ سمجھے خطا ہماری ہے
بے نیازی کو اپنی خو نہ بنا
یہ ادا بھی کسی کو پیاری ہے
لطفِ صبح نشاط مجھ سے پوچھ
میں کے شامِ الم گزاری ہے
اپنے لب ہی نہیں سیئے ہم نے
آپ کی زلف بھی سنواری ہے
کتنی شمعیں بجھا کے اے قابل
دل میں اک روشنی اتاری ہے
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 3

حدیثِ کاکل و رخسار ہم بھی رکھتے ہیں
کوئی سنے تو غمِ یار ہم بھی رکھتے ہیں
ہمیں بھی شہرِ نگاراں میں لے چلو یارو
کسی کے عشق کا آزار ہم بھی رکھتے ہیں
یہ چاک چاک گریباں، یہ داغ داغ جگر
متاعِ حسرت دیدار ہم بھی رکھتے ہیں
غمِ جہاں کے تقاضے شدید ہیں ورنہ
جنونِ کوچۂ دیدار ہم بھی رکھتےہیں
جبینِ وقت کو ہم نے بھی نور بخشا ہے
سلیقۂ نگہِ یار ہم بھی رکھتے ہیں
قدم قدم پہ چٹکتی ہیں شوق کی کلیاں
صبا کی شوخیِ رفتار ہم بھی رکھتے ہیں
جنونِ شوق ہی راحت طلب نہیں ورنہ
جلو میں سایۂ دیوار ہم بھی رکھتے ہیں
ذرا نگاہِ تغافل شعار اٹھنے دو
اک آرزوئے فسوں کار ہم بھی رکھتے ہیں
یہ اور بات کہ تقدیر سو گئی قابل
وگرنہ دیدۂ بیدار ہم بھی رکھتے ہیں
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 4

خیالِ سود نہ اندیشۂ زیاں ہے ابھی
چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی
ہمارے نقشِ قدم سے چمک اٹھے شاید
فضائے منزلِ جاناں دھواں دھواں ہے ابھی
نئے نئے ہیں عزائم نئی نئی ہے تلاش
جمالِ دوست سے دل مطمئن کہاں ہے ابھی
رکا رکا سا تبسم جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقۂ بیگانگی کہاں ہے ابھی
ہمارے کام نہ آئی متاعِ دیدۂ دل
نگارِ صبح کا جلوہ بہت گراں ہے ابھی
غمِ حیات کی پہنائیاں کسے دکھلائیں
زمانہ اپنی ہی وسعت سے سرگراں ہے ابھی
رخِ حیات کی افسردگی نہیں جاتی
نہ جانے کون سا غم تشنۂ بیاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 5

محبت داستاں ہو جائے گی کیا
خلش بڑھ کر فغاں ہو جائے گی کیا
مبارک عشرت دیدار لیکن
ہوس بھی شادماں ہو جائے گی کیا
ستارے ماند پڑتے ہی نہیں آج
شبِ غم جاوداں ہوجائے گی کیا
نہیں اب تیرے ملنے کا گماں بھی
قیامت ناگہاں ہو جائے گی کیا
نگاہِ یار برہم ہوتے ہوتے
مزاجِ گلستاں ہو جائے گی کیا
مٹا جاتا ہے دل راہِ طلب میں
تمنا بےکراں ہو جائے گی کیا
مسافر گم سہی تاریکیوں میں
سحر بھی بے نشاں ہو جائے گی کیا
چھلکتا ہی نہیں پیمانہ کوئی
بہار اب کے خزاں ہو جائے گی کیا
اڑا جاتا ہے قابل ذرہ ذرہ
زمیں بھی آسماں ہو جائے گی کیا
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 6

نئے چراغ لئے شامِ بےکسی آئی
کہ دل بجھا تو ستاروں میں روشنی آئی
جنونِ شوق نے پہنچا دیا کہاں مجھ کو
نگاہِ دوست بھی اکثر تھکی تھکی آئی
ہمارے پاس کہاں آنسوؤں کی سوغاتیں
کسی کو اپنا بنا کے بڑی ہنسی آئی
جہانِ دار و رسن ہو کہ بزمِ شعر و شراب
ہمارے سامنے اپنی ہی زندگی آئی
تمہاری یاد کو آرامِ جاں بنایا تھا
تمہاری یاد بھی لیکن کبھی کبھی آئی
ہزار رنگ دیے جس نے زندگانی کو
اسی نظر سے محبت میں سادگی آئی
مرے خلوص کا عالم نہ پوچھیے قابل
شکستِ جام سے آوازِ زندگی آئی
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 7
صراحی کا بھرم کھلتا نہ میری تشنگی ہوتی
ذرا تم نے نگاہِ ناز کو تکلیف دی ہوتی
جہاں بدلہ مگر آدابِ میخانہ نہیں بدلے
کبھی اے گردشِ دوراں ادھر بھی آگئی ہوتی
رہِ ہستی کے ہر منظر پہ رکتی ہے نظر اپنی
وہ مل جاتے تو کیا دنیا میں ایسی دلکشی ہوتی
مقامِ عاشقی دنیا نے سمجھا ہی نہیں ورنہ
جہاں تک تیرا غم ہوتا وہیں تک زندگی ہوتی
بھڑک اٹھی ہیں شاخیں پھول شعلے بنتے جاتے ہیں
ہمارے آشیانوں سے کہاں تک روشنی ہوتی
مری وحشت کا اندازہ تو ہوجاتا زمانے کو
جبینِ زندگی پر اک شکن ہی آگئی ہوتی
تمہاری آرزو کیوں دل کے ویرانے میں آپہنچی
بہاروں میں پلی ہوتی ستاروں میں رہی ہوتی
زمانے کی شکایت کیا زمانہ کس کی سنتا ہے
مگر تم نے تو آوازِ جنوں پہچان لی ہوتی
ہمارا ہی شعورِ بیکسی تھا درمیاں ورنہ
تری شانِ تغافل کی حقیقت کھل گئی ہوتی
حرم کی شان بڑھ جاتی صنم مغرور ہوجاتے
اگر ہم نے کوئی لغزش بقیدِ ہوش کی ہوتی
رضائے دوست قابل میرا معیارِ محبت ہے
انہیں بھی بھول سکتا تھا اگر ان کی خوشی ہوتی
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 8
کیسی رندوں کی طبیعت، کیسا پیمانوں کا رخ
گردشِ دوراں بدل دیتی ہے میخانوں کا رخ
ہم نے گلزاروں میں بھی دیکھی ہے خاک اڑتی ہوئی
ایک ہی جانب نہیں رہتا بیابانوں کا رخ
عاشقوں کے جھمگھٹے ہیں تیری بزمِ ناز تک
شمع بجھتے ہی بدل جاتا ہے پروانوں کا رخ
سوکھتی جاتی ہیں آنکھیں ڈوبتے جاتے ہیں دل
تیری محفل میں بدل جاتا ہے طوفانوں کا رخ
زندگی بڑھتی ہے آگے ان کے تیور دیکھ کر
وقت بھی پہچانتا ہے تیرے دیوانوں کا رخ
کیسی کیسی محفلوں میں زلزلے آنے لگے
جوشِ وحشت نے کیا ہے آج ایوانوں کا رخ
آج بھی وہ غرقِ مستی آج بھی ہم تشنہ کام
میکدہ بدلہ مگر بدلہ نہ پیمانوں کا رخ
کیا ہوا ہم کو اگر دو چار موجیں چھو گئیں
ہم نے بدلہ ہے نہ جانے کتنے طوفانوں کا رخ
قابل ان کی بے نیازی کا کرشمہ دیکھیے
اپنی جانب ہو گیا ہے سارے افسانوں کا رخ
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 9
دل جل رہا ہے چھاؤں میں دیوارِ یار کی
تصویر کھینچ لو ستمِ روزگار کی
یارو! امید و ساغر و توبہ کا ذکر کیا
اب کے تو دل بھی توڑ گئی رت بہار کی
کیوں بجھ گئے چراغ ستاروں کو کیا ہوا
رات اتنی مختصر تو نہ تھی انتظار کی
ہم بھی دلِ خراب سے بیزار ہیں مگر
کیا کیجیے کہ بات نہیں اختیار کی
دل بھی ہے چاک چاک جگر بھی ہے داغ داغ
لائی تھی شہر گل میں تمنا بہار کی
مڑ مڑ کے دیکھتے ہیں شبِ غم کے راہرو
آنکھوں میں روشنی ہے ابھی انتظار کی
دل انتہا پسند، خرد حوصلہ شکن
دیوانے کس سے بات کریں بزمِ یار کی
قابل لٹا کے خونِ تمنا کی سرخیاں
ہم نے چمن سے قید اٹھا دی بہار کی
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 10

وارفتگیٔ شوق فسوں کار نہ ہو جائے
جلووں کا سنبھلنا کہیں دشوار نہ ہو جائے
رہبر جو ہمیں ٹھوکریں کھانے نہیں دیتا
ڈرتا ہے کہیں راستہ ہموار نہ ہو جائے
مدت سے ترے لطف کا عالم نہیں دیکھا
دنیا کہیں لذت کشِ آزار نہ ہو جائے
میخانہ بھی اک کار گہِ شیشہ گری ہے
پیمانہ کہیں ٹوٹ کے تلوار نہ ہو جائے
اوسان نہ کھودے کہیں وحشت ترے آگے
دیوانہ تجھے دیکھ کے ہشیار نہ ہو جائے
شبنم کو نکالو نہ طرب زارِ چمن سے
کلیوں کا چٹکنا کہیں دشوار نہ ہو جائے
قابل کے شب و روز بدلنے نہیں پاتے
بدنام تری شوخیٔ گفتار نہ ہو جائے
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 11

تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
کچھ تو دل مبتلائے وحشت ہے
کچھ تری یاد بھی قیامت ہے
میرے محبوب مجھ سے جھوٹ نہ بول
جھوٹ صورت گرِ صداقت ہے
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے
حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے
اس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا
اب درو بام سے ندامت ہے
اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوبصورت ہے
راستہ کٹ ہی جائے گا قابل
شوقِ منزل اگر سلامت ہے
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 12

تری جستجو کا کرم دیکھتے ہیں
ستاروں کو زیرِ قدم دیکھتے ہیں
ہمارا شعورِ محبت تو دیکھو
تمہیں بھی محبت سے کم دیکھتے ہیں
یہ ظالم زمانہ دکھائے گا کیا کیا
تری آنکھ بھی آج نم دیکھتے ہیں
محبت ہے تجھ سے محبت ہے سب سے
ترے غم میں دنیا کے غم دیکھتے ہیں
مقاماتِ فکر و نظر کون سمجھے
یہاں لوگ نقشِ قدم دیکھتے ہیں
ذرا بزمِ عشرت سے باہر تو آؤ
تمہیں بھی دکھائیں جو ہم دیکھتے ہیں
تڑپ اٹھتی ہے انکی اک اک تجلی
کچھ اس بے نیازی سے ہم دیکھتے ہیں
تمہیں چشمِ مخمور پر ناز کیوں ہے
یہ خوابِ بہاراں تو ہم دیکھتے ہیں
بصد رشک قابل کی آوارگی کو
غزالانِ دیر و حرم دیکھتے ہیں
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 13
دلِ دیوانہ عرضِ حال پر مائل تو کیا ہو گا
مگر وہ پوچھ بیٹھے خود ہی حالِ دل تو کیا ہو گا
ہمارا کیا ہمیں تو ڈوبنا ہے ڈوب جائیں گے
مگر طوفان جا پہنچا لبِ ساحل تو کیا ہو گا
شرابِ ناب ہی سے ہوش اڑ جاتے ہیں انساں کے
ترا کیف نظر بھی ہو گیا شامل تو کیا ہو گا
ابھی تو راہرو محوِ سفر ہیں شوقِ منزل میں
مگر جب سامنے آ جائے گی منزل تو کیا ہو گا
یہ دریائے محبت ہے یہاں اہلِ سفینہ کو
غمِ طوفاں نہیں ہوتا غمِ ساحل تو کیا ہو گا
خود اس کی زندگی اب اس سے برہم ہوتی جاتی ہے
انہیں ہوگا بھی پاسِ خاطرِ قابل تو کیا ہو گا
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 14
شوق بے انتہا نہ دے جانا
بندگی کو خدا نہ دے جانا
ضبطِ غم کا صلہ نہ دے جانا
زندگی کو دعا نہ دے جانا
رات تاریک، راہ ناہموار
شمعِ غم کو ہوا نہ دے جانا
دلِ بیتاب کا بھروسا کیا
مجھ کو آہِ رسا نہ دے جانا
بے کسی سے بڑی امیدیں ہیں
تم کوئی آسرا نہ دے جانا
شوق کی ابتدا کو ٹھکرا کر
جراتِ انتہا نہ دے جانا
راستے میں قدم نہ رک جائیں
نالۂ نارسا نہ دے جانا
میرے شوقِ طلب کی بات ہے اور
تم طلب سے سوا نہ دے جانا
کوئی احسان کر کے قابل پر
دوستی کی سزا نہ دے جانا
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 15
لطف لیتا ہے مگر شکوہ سرا ہوتا ہے
شوق احسان فراموشِ جفا ہوتا ہے
اتنے بے درد نہیں وہ کہ تسلی بھی نہ دیں
ٹھیس لگنے سے مگر زخم ہرا ہوتا ہے
اے سکوتِ در و دیوار تو شاہد رہنا
شامِ غم سے مرا پیمانِ وفا ہوتا ہے
عالمِ شوق یونہی گوش بر آواز نہیں
بربطِ دل پہ کوئی نغمہ سرا ہوتا ہے
یہ ستارے یہ مہ و مہر کریں لاکھ جتن
جلوۂ دوست کا انداز جدا ہوتا ہے
درِ جاناں نہ سہی، سایۂ خنجر ہی سہی
سجدۂ شوق بہرحال ادا ہوتا ہے
شوق ہو راہنما تو کوئی مشکل نہ رہے
شوق مشکل سے مگر راہنما ہوتا ہے
اک دلِ تاب تجلی کو ترستی ہے نظر
صبح ہوتی ہے مگر صبح سے کیا ہوتا ہے
رخصتِ دوست پہ قابل دلِ مایوس کو دیکھ
اک سفینہ ہے کہ ساحل سے جدا ہوتا ہے
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 16
وہ خیالوں میں کہیں شعلہ، کہیں شبنم رہے
ایک اندازِ کرم کے مختلف عالم رہے
بات بھی تشنہ رہی، الفاظ بھی مبہم رہے
عہد و پیمانِ نظر لیکن بڑے محکم رہے
میہمانِ گل ہوئے ہم سایۂ شبنم رہے
دل سکوں دشمن رہا، قابل جہاں بھی ہم رہے
ربطِ خاطر کی نزاکت کو سمجھ سکتا ہے کون
آرزو کی آپ نے، محوِ تجسس ہم رہے
جلوہ گاہِ یار سے بھی تشنہ کام آئے ہیں لوگ
جانے امیدیں زیادہ ہیں کہ جلوے کم رہے
آؤ اپنے عارضِ روشن کا پرتو ڈال دو
میری راتوں کو ستاروں کے اجالے کم رہے
مجھ سے ہمدردی تو ہے لیکن کہیں ایسا نہ ہو
میری آنکھیں سوکھ جائیں تیرا دامن نم ہے
ہر قدم بھی حادثہ، ہر آرزو بھی حادثہ
حادثے پھر بھی ہمارے حوصلوں سے کم رہے
قابل اپنا دردِ محرومی سمجھ سکتا ہے کون
عمر بھر طوفاں سے کھیلے، تشنۂ شبنم رہے
 

فاخر رضا

محفلین
غزل نمبر 17
لی روح نے انگڑائی دل وجد میں آیا ہے
اکثر تری نظروں نے وہ گیت سنایا ہے
شاید کسی آنسو سے زنداں بھی چمک اٹھے
گلشن کے چراغوں کو شبنم نے جلایا ہے
اربابِ محبت کو دنیا کے تغافل سے
تسکین ہی پہنچی ہے آرام ہی آیا ہے
اے گردشِ دوراں آ تجھ کو بھی اماں بخشیں
ہم نے غمِ جاناں کو سینے سے لگایا ہے
آنکھوں میں فقط آنسو ہونٹوں پہ فقط آہیں
اندازِ جنوں دل کو اب تک نہیں آیا ہے
صحرا بھی مہک اٹھے زنداں بھی چمک اٹھا
طوفانِ بہار اب کے رکتا ہوا آیا ہے
اے کاش زمانے کی رفتار بدل سکتی
تو صبح کا پرتو ہے دل شام کا سایہ ہے
اک جھومتے بادل نے چپکے سے کہا قابل
ہنگامِ گل آیا ہے ساقی نے بلایا ہے
 
Top