میں اُسے واقفِ الفت نہ کروں
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیرِ غمِ الفت نہ کروں
اُس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں
سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں، خوگرِ آلام نہیں
سحرِ عیش میں اُس کی اثرِ شام نہیں
زندگی اُس کے لیے زہر بھرا جام نہیں
سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں
اُس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا
نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا
سوچتا ہوں کہ غمِ دل نہ سناؤں اُس کو
سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کروں
خلشِ دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں
اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں
سوچتا ہوں کہ جلا دے گی محبت اس کو
وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی
خود تو وہ آتشِ جذبات میں جل جائے گی
اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
___میں اُسے واقفِ الفت نہ کروں
۔۔۔۔۔۔۔۔
رخصت
ہے بھیگ چلی رات، پر افشاں ہے قمر بھی
ہے بارشِ کیف اور ہوا خواب اثر بھی
اب نیند سے جھکنے لگیں تاروں کی نگاہیں
نزدیک چلا آتا ہے ہنگامِ سحر بھی!
میں اور تم اس خواب سے بیزار ہیں دونوں
اس رات سرِ شام سے بیدار ہیں دونوں
ہاں آج مجھے دور کا در پیش سفر ہے
رخصت کے تصور سے حزیں قلب و جگر ہے
آنکھیں غمِ فرقت میں ہیں افسردہ و حیراں
اک سیلِ بلا خیز میں گم تار نظر آتا ہے
آشفتگیِ روح کی تمہید ہے یہ رات
اک حسرتِ جاوید کا پیغام سحر ہے
میں اور تم اس رات ہیں غمگین و پریشاں
اک سوزشِ پیہم میں گرفتار ہیں دونوں!
گہوارۂ آلامِ خلش ریز ہے یہ رات
اندوہِ فراواں سے جنوں خیز ہے یہ رات
نالوں کے تسلسل سے ہیں معمور فضائیں
سرد آہوں سے، گرم اشکوں سے لبریز ہے یہ رات
رونے سے مگر روح تن آساں نہیں ہوتی
تسکینِ دل و دیدۂ گریاں نہیں ہوتی!
میری طرح اے جان، جنوں کیش ہے تُو بھی
اک حسرتِ خونیں سے ہم آغوش ہے تُو بھی
سینے میں مرے جوشِ تلاطم سا بپا ہے!
پلکوں میں لیے محشرِ پُر جوش ہے تُو بھی
کل تک تری باتوں سے مری روح تھی شاداب
اور آج کس انداز سے خاموش ہے تو بھی
وارفتہ و آشفتہ و کاہیدۂ غم ہیں
افسردہ مگر شورشِ پنہاں نہیں ہوتی
میں نالۂ شب گیر کے مانند اٹھوں گا
فریادِ اثر گیر کے مانند اٹھوں گا
تو وقتِ سفر مجھ کو نہیں روک سکے گی
پہلو سے تیرے تیر کے مانند اٹھوں گا
گھبرا کے نکل جاؤں گا آغوش سے تیری
عشرت گہِ سر مست و ضیا پوش سے تیری!
ہوتا ہوں جدا تجھ سے بصد بیکسی و یاس
اے کاش، ٹھہر سکتا ابھی اور ترے پاس
مجھ سا کوئی ہو گا سیہ بخت جہاں میں
مجھ سا بھی کوئی ہو گا اسیرِ الم و یاس
مجبور ہوں، لاچار ہوں کچھ بس میں نہیں ہے
دامن کو مرے کھینچتا ہے ’’فرض‘‘ کا احساس
بس ہی میں نہیں ہے مرے لاچار ہوں مَیں بھی
تو جانتی ہے ورنہ وفا دار ہوں میں بھی!
ہو جاؤں گا مَیں تیرے طرب زار سے رخصت
اس عیش کی دنیائے ضیا بار سے رخصت
ہو جاؤں گا اک یادِ غم انگیز کو لے کر
اس خلد سے، اس مسکنِ انوار سے رخصت
تو ہو گی مگر بزمِ طرب باز نہ ہو گی
یہ ارضِ حسیں جلوہ گہِ راز نہ ہو گی
مَیں صبح نکل جاؤں گا تاروں کی ضیا میں
تُو دیکھتی رہ جائے گی سنسان فضا میں
کھو جاؤں گا اک کیف گہِ روح فزا میں
آغوش میں لے لے گی مجھے صبح درخشاں
"او میرے مسافر، مرے شاعر، مرے راشدؔ"
تُو مجھ کو پکارے گی خلش ریز نوا میں!
اُس وقت کہیں دور پہنچ جائے گا راشدؔ
مرہونِ سماعت تری آواز نہ ہو گی!
۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان (سانیٹ)
الٰہی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں
غریبوں، جاہلوں، مُردوں کی، بیماروں کی دنیا ہے
یہ دنیا بے کسوں کی اور لاچاروں کی دنیا ہے
ہم اپنی بے بسی پر رات دن حیران رہتے ہیں!
ہماری زندگی اک داستاں ہے ناتوانی کی
بنا لی اے خدا اپنے لیے تقدیر بھی تُو نے
اور انسانوں سے لے لی جرأت تدبیر بھی تُو نے
یہ داد اچھی ملی ہے ہم کو اپنی بے زبانی کی!
اسی غور و تجسس میں کئی راتیں گزری ہیں
میں اکثر چیخ اُٹھتا ہوں بنی آدم کی ذلت پر
جنوں سا ہو گیا ہے مجھ کو احساسِ بضاعت پر
ہماری بھی نہیں افسوس، جو چیزیں "ہماری" ہیں!
کسی سے دور یہ اندوہِ پنہاں ہو نہیں سکتا!
خدا سے بھی علاجِ دردِ انساں ہو نہیں سکتا!
۔۔۔۔۔۔۔۔