کلیاتِ اسماعیل میرٹھی۔ ص 251 تا 290

شاہ حسین

محفلین
صفحہ۔۲۵۱


باغباں کی کار فرمائی سے دیتا ہے خبر
گلشنِ عالم میں چلنا صرصرِ تغیر کا

اسُ کے آنے کی توقع کر رہی ہے نفخِ روح
صورِ اسرافیل ہے کھٹکا مجھے زنجیر کا

غایتِ ترکیبِ اعضا ہے یہی کچھ کام کر
کاہلی اے بے خبر منشا نہیں تقدیر کا

جرم بھی اور خیرگی! یہ سیرتِ ابلیس ہے
ابنِ آدم کو ہے شایاں عزر ہی تقصیر کا

ہے اشارہ پر قلم کے لشکروں کی صلح و جنگ
دو گروہ کی چوب سے دم بند ہے شمشیر کا

آہ کھانا ہی پڑا داغِ فراقِ دائمی
قہر تھا ہونا کبھی اک لمحہ کی تاخیر کا

۱/۵

دل گیا ہاتھ سے کیا ہاتھ سے داماں نکلا
کہ تیرے پائوں کی مانند گریباں نکلا

مرگئے دیکھ کے آثارِ سحر شامِ وصال
دشمنِ جانِ ستم کش رُخِ جاناں نکلا

دیکھ بے ہوش مجھے اشک فشاں ہیں احباب
جذبۂ شوق تو بد خواہِ عزیزاں نکلا

چارہء جوشِ جنوں خانہ خرابی نہ ہوئی
گھر سمجھتے تھے جسے ہم سو بیاباں نکلا

کس قدر دل میں مرے جوشِ شکستِ دل ہے
کوئی سالم نہ ترے تیر کا پیکاں نکلا

بس کہ ہے نقشِ قدم دامِ گرفتاری جاں
اُن کے ہر گام پہ اک گنجِ شہیداں نکلا

پھر گئے دل ہی بیک گردشِ چشمِ کافر
دور میں کوئی بھی تیرے نہ مسلماں نکلا

آخری وقت کے وعدہ نے کیا شادی مرگ
ہمرہِ جاں دلِ مایوس کا ارماں نکلا

نکلے تم غیر کے گھر سے کہ مری جاں نکلی
جس کو دشوار سمجھتے تھے وہ آساں نکلا


صفحہ۔۲۵۲


تو اور عزرِ طعنِ رقیباں غضب ہوا
دل پارہ پارہ جب نہ ہوا تھا تو اب ہوا

ڈر کر ہلاک بوالہوسِ بے ادب ہوا
اُن کو بھی میری جان شکنی سے عجب ہوا

لبریز شکوہ ہائے تغافل تھا میں ولے
لو شکر کا سبب گلۂ بے سبب ہوا

لیتے ہیں ترکِ عشق سکھانے کے واسطے
دل نزر جاں فزائی حُسنِ طلب ہوا

کیا آگے اُس کے ولولہ شوق سر اٹھائے
سجدہ کیا تو ملزمِ ترکِ ادب ہوا

میرے سوا حریف ستم کوئی بھی نہ تھا
اب مہرباں ہو گئے یہ کیا غضب ہوا

ان کا نہ آستانہ سے باہر قدم بڑھا
سو بار انتظار میں میں جاں بلب ہوا

۲/۷

ہے بے لب و زباں بھی غُل تیرے نام کا
محرم نہیں ہے گوش مگر اسِ پیام کا

خوش ہے ملامت اہلِ خرابات کےلئے
اس سلسلہ میں نام نہیں ننگ و نام کا

نخوت ہے جس کے کاسۂ سر میں بھری ہوئی
کب مستحق ہے محفلِ رنداں میں جام کا

جاگیرِ دَرد پر ہمیں سرکارِ عشق نے
تحریر کردیا ہے وثیقہ دوام کا

وادی عشق میں نہ ملا کوئی ہم سفر
سنتے تھے نام خضر علیہٰ سلام کا

آسودگی نہ ڈھونڈ کہ جاتا ہے کارواں
لے مُستعار برق سے وقفہ قیام کا

کھولا ہے مُجھ پہ سرِّ حقیقت مجاز نے
یہ پُختگی صِلہ ہے خیالاتِ خام کا

کھاتا نہیں فریب تمنّائے دو جہاں
خوگر نہیں ہے توسنِ ہمّت لگام کا

مت رکھ طمع سے چشمِ تمتّع۔ کہ ہے یہاں
دانہ ہر ایک مرد مکِ دیدہ دام کا


صفحہ۔۲۵۳


پہونچادیا حدودِ عالم سے بھی پرے
مُطرب نے راگ چھیڑدیا کس مقام کا

ظلمت میں کیا تمیز سفید و سیاہ کی
فرقت میں کُچھ حساب نہیں صبح و شام کا

جس کی نظر ہے صنعتِ ابرونگار پر
ہے وہ قتیلِ تیغ۔ نہ کشتہ نیام کا

کھانے کو اے حریص غمِ عشق کم نہیں
یہ ہو تو کچھ بھی فکر نہ کر قرض و دام کا

میں بے قرار ۔ منزلِ مقصود بے نشاں
رستہ کی انتہا نہ ٹھکانا مقام کا

گر دیکھئے تو خاطرِ ناشاد شاد ہے
سچ پوچھئے تو ہے دلِ ناکام کام کا

اُٹھے تِری نقاب تو اُٹھ جائے ایک بار
سب تفرقہ یہ روز و شب و صبح شام کا

۱/۸

رسوا ہوئے بغیر نہ نازِ بتاں اُٹھا
جب ہو گئے سبک تو یہ بارِ گراں اُٹھا

معنی میں کر تلاشِ معاشِ دماغ و دل
حیواں صفت نہ لذّتِ کام و دہاں اُٹھا

یا آنکھ اُٹھا کے چشمِ فسوں ساز کو ندیکھ
یا عمر بھر مصائبِ دورِ زماں اُٹھا

بے یادِ دوست عمرِ گرامی نہ صرف کر
اسِ گنجِ شائگاں کو نہ یوں رائگاں اُٹھا

وصل و فراق و وہم سہی دل لگی تو ہے
پھر کہاں جو پردہء رازِ نہاں اُٹھا

پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں
کیا کہدیا ۔ کہ شمع کے سر سے دھواں اُٹھا
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ۔ ۲۵۴

میں در پہ ترے ناصیہ سا ہو نہیں سکتا
دشمن کا بھی نقشِ کفِ پا ہو نہیں سکتا

باقی نہ رہی غیر کا اب جائے شکایت
شکرِ سِتم یار ادا ہو نہیں سکتا

سب کُچھ تو کیا ہم نے پہ کُچھ بھی نہ کیا ہائے
حیراں ہے کیا جانئے کیا ہو نہین سکتا

اُس کوچے میں کیوں شب و روز ہیں پھرتے
گر چرخ سے جز جور و جفا ہو نہیں سکتا

اعدا سے ہوئے وہ مُقرِہ وعدہ خلافی
میں منکرِ تاثیرِ دعا ہو نہیں سکتا

پامال کیا بے سرو پائی نے صدا افسوس
دل ہم قدمِ رنگِ حنا ہو نہیں سکتا

جس دل سے کدورت نہ گئے خاک ہے وہ دل
کیا آئینہ جو اہل صفا ہو نہیں سکتا

۱/۱۰

وہیں سے جب کہ اشارہ ہو خودنمائی کا
عجب کہ بندہ نہ دعوے کَرے خدائی کا

ملے جو رتبہ ترے در کی جبہہ سائی کا
تو ایک سلسلہ ہو شاہی و گدائی کا

نہیں ہے فیض میں خِسّت و لیک پیدا ہے
تفاوتِ آئینہ و سنگ میں صفائی کا

یہاں جو عشق ہے بے تابِ جلوہء دیدار
وہاں بھی حُسن محرَّک ہے خود نمائی کا

بتوں کے سامنے بُت گرگِھسے جبینِ نیاز
میں شیفتہ ہوں تری شانِ کبریائی کا

نہ کر کسی کی بُرائی نہ بن بھلے سے بُرا
بھلا بھلا ہے بُرا کام ہے بُرائی کا

بنائیں بگڑی ہوئی کو تو ایک بات بھی یے
بگاڑنا نہیں مشکل بنی بنائی کا

اُٹھا حجاب تو بس دین و دل دئے ہی بنی
جناب شیخ کو دعوے تھا پارسائی کا

تمھارے دل سے کدورت مٹائے تو جانیں
کُھلا ہے شہر میں اِک محکمہ صفائی کا
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ۔ ۲۵۵

ہوس ہے گر سروساماں کے جمع کرنے کی
تلاش کر سر و ساماں بے نوائی کا

سوائے عشق نہیں کوئی رہبرِ چالاک
خِرد کو نہیں حوصلہ رسائی کا

اُسی کا وصف ہے مقصود شعر خوانی سے
اُسی کا ذکر ہے منشا غزل سرائی کا

نہیں ہے اب کے زمانہ کی یہ روش زنہار
میں یادگار ہوں خاقانی و سنائی کا

۱۱

آغازِ عشق عمر کا انجام ہو گیا
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا

تم روز و شب جو دست بدستِ عدو پھرے
میں پائمالِ گردشِ ایّام ہو گیا

میرا نشاں مٹا تو مٹاپر یہ رشک ہے
وردِ زبانِ خلق ترا نام ہوگیا

دل چاک چاک نغمئہ ناقوس نے کیا
سب پارہ پارہ جامئہ احرام ہو گیا

اب اور ڈھونڈے کوئی جولاں گہِ جنوں
صحرا بقدرِ وسعتِ یک گام ہو گیا

دل پیچ سے نہ طُرّہء پرُ خم کے چُھٹ سکا
بالاروی سے مرغِ تہ دام ہوگیا

اور اپنے حق میں طعن تغافل غضب ہوا
غیروں سے ملتفت بتِ خود کام ہوگیا

تاثیرِ جذبہ کیا ہو کہ دلِ اضطراب میں
تسکیں پزیِر بوسہ بہ پیغام ہو گیا

کیا اب بھی مُجھ پے فرض نہیں دوستیِ کفر
وہ ضد سے میری دشمنِ اسلام ہوگیا

اللہ رے بوسئہ لبِ مے گوں کی آرزو
میں خاک ہو کے دردِ تہِ جام ہو گیا

اب تک بھی ہے نظر طرفِ بامِ ماہ وش
میں گرچہ آفتابِ لبِ بام ہو گیا

اب حرفِ ناسزا میں بھی اُن کو دریغ ہے
کیوں مجکو ذوقِ لذّتِ دشنام ہو گیا
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ۔۲۵۶



نا مہربانیوں سے یوں پائمال کرنا
ہیہات ! دوستوں کو دشمن خیال کرنا

روزِ جزا میں آخر ۔ پوچھا نہ جائے گا ؟
تیرا یہ چپ لگانا - میرا سوال کرنا

او شہسوار اتنی اچھی نہیں ہے عجُلت
ہیں چند پا شکستہ - اِن کا خیال کرنا

ناقص بھی کاملوں سے ۔ کُچھ کم نہیں کہ اِن سے
سیکھا ہے کاملوں نے کسبِ کمال کرنا


۱۳

کام اگر حسب مدعا نہ ہوا
تیرا چاہا ہوا بُرا نہ ہوا

خاک اڑتی جو ہم خدا ہوتے
بندگی کا بھی حق ادا نہ ہوا

سب جتایا کئے نیازِ قدیم
وہ کسی کا بھی آشنا نہ ہوا

رخشِ ایّام کو قرار کہاں
اِدھر آیا اُدھر روانہ ہوا

کیا کُھلے ؟ جو کبھی نہ تھا پنہاں
کیوں ملے؟ جو کبھی جدا نہ ہوا

سخت فتنہ جہاں میں اُٹھتا
کوئی تجھ سا تِرے سوا نہ ہوا

جو گدھا خوئے بد کی دلدل میں
جا پھنسا پھر کبھی رہا نہ ہوا

تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا
میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا

رہ روِ مسلکِ توکّل ہے
وہ جو محتاج غیر کا نہ ہوا

۱۴

نتیجہ کیونکر اچّھا ہو نہ ہو جب تک عمل اچّھا
نہیں بویا ہے تخم اچّھا تو کب پاؤ گے پھل اچّھا
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ۔ ۲۵۷

کرو مت آج کل حضرت ! بُرائی کو ابھی چھوڑو
نہیں جو کام اچّھا ۔ وہ نہ آج اچّھا نہ کل اچّھا

بُرے کو تگ بھی کرنے اور توقع نیک نامی کی
دماغ اپنا سنوارو تم ! نہیں ہے یہ خلل اچّھا

جو ہوجائے خطا کوئی ۔ کہ آخر آدمی ہو تم
تو جتنا جلد ممکن ہو کرو اُس کا بدل اچّھا

کرے جو پاؤں بد راہی تو سونا اُس کا بہتر ہے
نہ ہو جس ہاتھ سے نیکی تو ایسا ہاتھ شل اچّھا

۱۵

ذرا غم زدوں کے بھی غم خوار رہنا
کریں ناز تو ناز بردار رہنا

فراخی و عُسرت میں ۔ شادی و غم میں
بہر حال یاروں کے تم یار رہنا

سمجھ نردباں اپنی ناکامیوں کو
کہ ہے شرطِ ہمّت طلب گار رہنا

کرو شکر ہے عنایت خدا کی
بلاؤں میں اکثر گرفتار رہنا

اگر آدمی کو نہ ہو مشغلہ کُچھ
بہشتِ بریں می ہو دشوار رہنا

خبر ہے آدم سے جنّت چھُٹی کیوں
خلافِ جبلّت تھا بے کار رہنا

سمجھتے ہیں شیروں کو بھی نرم چارہ
غزالانِ شہری سے بھی ہشیار رہنا

۱۶

یاد تیری یاد ہے نامِ خدا
ورنہ ہم کیا ؟ اور ہماری یاد کیا؟

صدر آرا تو جہاں ہو صدر ہے
آگرہ کیا اور الہ آباد کیا

مبداء فیّاض کے شاگرد کو
حاجتِ آموزشِ اُستاد کیا
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ۔۲۵۸


اک کسوٹی ہے ترے کردار کی
مرتبہ کیا مال کیا اولاد کیا

۱۷

نقابِ جور میں روپوش اک لطفِ نہاں نکلا
وہ میرے حال پر مُجھ سے بھی زیادہ مہرباں نکلا

نہ تھا بزمِ احبّاہی میں تیرا ذکر دشمن بھی
بیاں کرتا سِر بازار تیری داستاں نکلا

حجابِ شاہدِ نطلق نہ اُٹّھا ہے نہ اُٹھے گا
جسے ہم لا مکاں سمجھے تھے وہ بھی اک مکاں نکلا

۱۸

جو بھلے بُرے کی اٹکل نہ مِرا اشعار ہوتا
نہ جزائے خیر پاتا ۔ نہ گناہگار ہوتا

مئے بیخودی کا ساقی ! مجھے ایک جرعہ بس تھا
نہ کبھی نشہ اُترتا ۔ نہ کبھی خمار ہوتا

میں کبھی کا مر بھی رہتا - نہ غمِ فراق سہتا
اگر اپنی زندگی پر مُجھے اختیار ہوتا

یہ جو عشق جانستاں ہے ۔ یہ وہ بحرِ بیکراں ہے
نہ سُنا کوئی سفینہ کبھی اسِ سے پار ہوتا

کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمھیں نا گوار ہوتا

ہے اسِ انجمن میں یکساں عدم و وجود میرا
کہ جو میں یہاں نہ ہوتا یہ ہی کاروبار ہوتا

ٌ۱۹

سنو گے مُجھ سے میرا ماجرا کیا ؟
کہا کرتے ہیں افسانوں میں کیا کیا؟

نہیں تشویشِ آیندہ کہ ہو کب ؟
گزشتہ کا تحیّرُ ہے کہ تھا کیا

نہ کر تفتیش ہے خلوت نشیں کون؟
تامّل کر کہ ہے یہ برملا کیا؟

ہے اِک آئینہ خانہ بزمِ کثرت
بتاؤں غیر کس کو ؟ ماسواکیا؟
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ۔۲۵۹


جو نکلا ہی نہ ہو قصرِ عدم سے
بگاڑے گی اُسے موجِ فنا کیا؟

فقط مذکور ہے اِک نسبتِ خاص
مقدّر ہے خبر کیا ؟ مبتدا کیا؟

جہاں نقشِ قدم ہو روحِ قدسی
وہاں پہنچے گی وعقلِ نارساکیا؟

لگاؤں ’’شیئاللہ‘‘ کی صدا کیوں ؟
بُھلادوں ’’ یفعل اللہ مَایشاء ‘‘ کیا؟

۲۰

سلام


محرّم کا چاند آسماں پر جو چمکا
تو یاد آگیا واقعہ رنج و غم کا

مصیبت کا بیداد کا بے کسی کا
غضب کا جفا کا بلا کا ستم کا

وطن سے جدا دشتِ غربت میں جاکر
ہوا قتل کنبہ شفیع الامم کا

یہ شیرانِ حق ۔ اور وہ دنیا کے کتّے
لئیموں نے کاٹا سر اہلِ کرم کا

کیا ظلم بے وجہ سلطانِ دیں پر
یہ لالچ تھا دُنیا کے جاہ و حشم کا

شہیدوں کی ہے تشنگی یاد آتی
نہ ہو چشمہ لبریز کیوں چشمِ نم کا

رضا اور تسلیم صبر و توکّل
مصیبت میں شیوہ تھا اہلِ کرم کا

یہ وہ دن ہے جس دن میں ڈھایا گیا ہے
جو کعبہ عرب کا ۔ تو قبیلہ عجم کا

برستی ہے دیوار و در سے اُداسی
ہے چھایا ہوا ابر رنج و الم کا

تڑپتی ہے بجلی تو روتے ہیں بادل
کہ ہے آج کا دن شہیدوں کے غم کا
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ۔۲۶۰


کرے کوئی تحریر و تقریر کیونکر
نہ جراءت زباں کی نہ یارا قلم کا


متفرقات

سب جھوٹ ہے کوئی کیا کرے گا
ہوگا وہی جو خدا کرے گا

کرنے دو بدی کرے جو کوئی
اُس کا بھی خدا بھلا کرے گا

خوہشوں نے ڈبودیا دل کو
ورنہ یہ بحرِ بیکراں ہوتا

ردیف(ب)

کیا کیا اجل نے جان چُرائی تمام شب
کوئی بھی آرزو نہ بَرآئی تمام شب

دل سوز کب ہوئے ہیں کہ جب خاک ہو گیا
تربت پہ میری شمع جلائی تمام شب

اے وائے تلخ کامیِ روزبد فراق
ناصح نے جانِ غم زدہ کھائی تمام شب

از بس یقینِ وعدہء دیدارِ خواب تھا
کیا خوش ہوئے کہ نیند نہ آئی تمام شب

اِک آہِ دل نشیں میں وہ بُت منفعل ہوا
وللہ کیا ندامت اُٹھائی تمام شب

لگتے ہی آنکھ دیکھ لیا جلوہء نہاں
پیشِ نظر تھی شانِ خدائی تمام شب
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۶۱

ردیفَ (ض) ۔

نہین معلوم کیا واجب ہے کیا فرض
مَرے مذہب میں ہے تیری رضا فرض

شعورِ ہستیِ موہوم ہے کفر
فنا بعدِ فنا بعدِ فنا فرض

نہیں آگاہ مستِ بادہء شوق
کہاں سنّت کدھر واجب کُجا فرض

رہِ تسلیم میں از روءے فتوےٰ
دعا واجب پہ ترکِ مدّعا فرض

نہ چھوٹے کفر میں بھی وضعِ ایماں
کہ ہر حالت میں ہے یادِ خدا فرض

نہیں دیکھا کسی نے حُسنِ مستور
بقدرِ فہم لیکن کرلیا فرض

نہ مانوں گا نہ مانوں گا کبھی میں
مُجھے کرتے ہیں کیوں اُس سے جدا فرض

نہ کھولوں گا نہ کھولوں گا زباں کو
کہ ہے اخفائے رازِ دلربا فرض

بلا سے کوئی مانے یا نہ مانے
چلو ہم کرچُکے اپنا ادا فرض

ردیف (م) ۔

السلام اے شاہِ شاہاں السلام
السلام اے نورِ امکاں السلام

اے تہی دستوں کے حامی مرحبا
اے شفیعِ اہلِ عصیاں السلام

السلام اے سجدہ گاہِ قدسیاں
اے رسولِ خاصِ یزداں السلام
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ، ۲۶۲

السلام اے رحمتہ للعالمین
رہنمائے حق پر وہاں السلام

السلام اے بادشاہِ جن و انس
وارثِ ملکِ سلیماں السلام

اے تری باتیں کلام ِ کردگار
اے ترا دل عاش ِ رحماں السلام

افتخارِ آدم و نوح و خلیل
اے عرب کے مہر ِ تاباں السلام

بُت پرستی ترے آنے سے مٹی
قبلہ گاہِ حق پرستاں السلام

تھا جو کوہستاں و ریگستاں عرب
کردیا تونے گلستاں السلام

فتح کر ڈالے تِرے خدّام نے
مصر و شام و یوناں السلام

ہوگئے سب تیری دعوت میں شریک
تُرک و ایران و خراساں السلام

یا نبی السیف یا نور الہدےٰ
مسلکِ حق کے نگہباں السلام

شاہدِ انجیل و توریت و زبور
موردِ آیاتِ قرآں السلام

کشتی ِ دوراں کو ہے تجھ سے قیام
لنگر ِ کشتی ِ دوراں السلام

جان و ایماں کو ملی تجھ سے شفا
اے طبیبِ جان و ایماں السلام

عرضِ حامد*(۱) ہے یہی با صد نیاز
اے عرب کے مہرِ تاباں السلام

ردیفِ (ن)
(۱)

ظاہر تو ہے، تو میں نہ نہاں ہوں
باطن تو ہے ، تو میں عیاں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*(۱)۔ یہ سلام محمد حامد جوان مرگ فرزند مصنّف کی فرمایش سے لکھا گیا تھا۔



صفحہ ۔۲۶۳

تو ہی ظاہر ہے ۔ تو ہی باطن
تو ہی تو ہے تو میں کہاں ہوں

تیرے ہوتے کہیں نہیں میں
اوّل ۔ آخر۔ نہ درمیاں ہوں میں

تو تو میں میں نے مار ڈالا
دم بند ہے کیجئے نہ ہاں ہوں

میں ہی لیلےٰ ہوں میں ہی محمل
ناقہ بھی ہوں۔ میں ہی سارباں ہوں

ہوں کُنج ِ قفس میں بند لیکن
بیرون ِ زمیں و آسماں ہوں

دریا کی طرح رواں ہوں لیکن
اب تک بھی وہیں ہوں میں جہاں ہوں

جزنام نہیں نشاں میرا
سچ مچ میں بہرِ بیکراں ہوں
۲ ۔۔۔۱


وہ پیرہن ِ جان میں جاں حجلہء تن میں
ہوں وہمِ جدائی سے عجب رنج و محن میں

مقصود زیارت ہے اگر کعبئہ دل کی
ہو گرم سفر ناحیئہ ملکِ وطن میں

وہ قامتِ دلکش ہے عجب فتنئہ عالم
چُھپتا ہی نہیں پیرہن ِ نو و کہن میں

اے شمعٰ بہا اشک چُھپا راز ِ محبّت
خالستر ِ پروانہ ہے بیتاب لگن میں

شورش مری بے جا ہے نہ فریاد نکمّی
رونق ہے ذرا نالئہ بلبل سے چمن میں

تاثیر ہو کیا خاک جو باتوں میں گھڑت ہو
کُچھ بات نکلتی ہے تو بے ساختہ پن میں

کمتر ہے ودودام سے انساں بمراتب
ہر دم جو ترقی نہ کرے چال چلن میں

ہوں میں تو وہی معتکفِ گوشئہ عُزلت
حالانکہ مرا ریختہ پہنچا ہے دکن میں

یہ سچ ہے کہ سودا بھی تھا استادِ زمانہ
میری تو۔ مگر میر ہی تھا شعر کے فن میں

صفحہ ۲۶۴

۴

آخر یہ حُسن چُھپ نہ سکے گا نقاب میں
شرماؤگے تمھیں نہ کرو ضد حجاب میں

پامال شوخیوں میں کرو تم زمیں کو
ڈالو فلک پے زلزلہ میں اضطراب میں

روشن ہے آفتاب کی نسبت چراغ سے
نسبت وہی ہے آپ میں اور آفتاب میں

دل کی گرہ نہ وا ہوئ دردا شبِ وصال
گزری تمام بست و کشادِ نقاب میں

رنج ِ عتاب زاہدِ مسکیں کو مفت ہے
یہاں اتقا میں سعی وہاں اجتناب میں

جاں میں نے نامہ بر قدم پر نثار کی
تھا پیش پا فتادہ یہ مضموں جواب میں

ہنس ہنس کے برق کو تو ذرا کیجئے بے قرار
رو رو کے ابر کو میں ڈبوتا ہوں آب میں

واعظ سے ڈر گئے کہ نہ شامل ہوئے ہم آج
ترتیبِ محفلِ مے و چنگ و رباب میں

ساقی ادِھر تو دیکھ کہ ہم دیر مست میں
کُچھ مستئی نگہ بھی ملادے شراب میں

داخل نہ دشمنوں میں نہ احباب میں شمار
مدّفضول ہوں میں تمھارے حساب میں

کس کس کے جور اٹھائیں گے آگے کو دیکھئے
دشمن ہے چرخ ِ پیر ِ زمان ِ شباب میں

پیغامبر اشارہء ابرو سے مرگیا
پھر جی اُٹھے گا لب بھی ہلادو جواب میں
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۶۵


جہاں تیغِ ہمّت علم دیکھتے ہیں
محلات کا سر قلم دیکھتے ہیں

جو بیٹھے تھے یاں پا بدامانِ ہستی
اُنھیں سربجیبِ عدم دیکھتے ہیں

کمالاتِ صانع پہ جن کی نظر ہے
وہ خوبیِ مصنوع کم دیکھتے ہیں

نہیں مبتلا جو تن آسانیوں میں
اُنھیں دم بدم تازہ دم دیکھتے ہیں

نہیں جن کو جاہ و حشم کا تکبّر
وہی لطفِ جاہ و حشم دیکھتے ہیں

شکم پروری جن کا شیوہ ہے اُن کو
اسیرِ جفائے شکم دیکھتے ہیں

بس! اے رنگ و بو تو نہ کر ناز بیجا
خدا جانے کیا بات ہم دیکھتے ہیں

اُڑے ہیں جو رخشِ ہمّت کو سرپٹ
وہ منزل کو زیرِ قدم دیکھتے ہیں


۵


سلامت ہے سر تو سرہانے بہت ہیں
مُجھے دل لگی کے ٹھکانے بہت ہیں

جو تشریف لاؤ تو ہے کون مانع
مگر خوئے بد کو بہانے بہت ہیں

اثر کر گئی نفسِ رہزن کی دھمکی
کہ یاں مرد کم اور زنانے بہت ہیں

مُعطّل نہیں بیٹھتے شغل والے
شکار افگنوں کو نشانے بہت ہیں

کرو دل کے ویرانہ کی کنج کادی
دبے اس کھنڈر میں خزانے بہت ہیں

نہ اے شمع رو رو مر شام ہی سے
ابھی تجھکو آنسو بہانے بہت ہیں

ہوا میری روداد پر حکمِ آخر
کہ مشہور ایسے فسانے بہت ہیں

نہیں ریل یا تاربرقی پے موقوف
چھپے قدرتی کارخانے بہت ہیں
 

شاہ حسین

محفلین
۲۶۶


بچے کیوں بیچارہ مُرغ گرسنہ
بکثرت ہیں دام اور دانے بہت ہیں

بس ایک آستانہ ہے سجدے کے قابل
زمانہ میں گو آستانے بہت ہیں


۶

اتنا تو جانتے ہیں کہ بندے خدا کے ہیں
آگے حواس گم خردِ نارسا کے ہیں

ممنون برگِ گل ہیں نہ شرمندہء صبا
ہم بلبل اور ہی چمنِ دلکشا کے ہیں

کیا کوہ کن کی کوہ کنی کیا جنونِ قیس
وادیِ عشق میں یہ مقام ابتدا کے ہیں

بنیان عمر سست ہے اور منعمانِ دہر
مغرور اپنے شکِ عالی بنا کے ہیں

اپنے وجود کا ابھی عقدہ نہیں کھُلا
مصروف حل و عقد میں ارض وسما کے ہیں

شیخ و برہمن میں اگر لاگ ہے تو ہو
دونو شکار غمزہ اُسی دلربا کے ہیں

جن کو عنایتِ ازلی سے ہے چشم داشت
وہ معتقد دعا کے نہ قائل دوا کے ہیں

لایا نہیں ہنوز نویدِ وصالِ دوست
ہم شکوہ سنج سسُتیِ پیکِ سبا کے ہیں

سمجھو اگر ۔ تو ہیں وہی سب سے حریص تر
طالب خدا سے جو دل بے مدعا کے ہیں

اِن بددلوں نے عشق کو بدنام کردیا
جو مرتکب شکایتِ جور وجفا کے ہیں

ہمّت ہمائے اوجِ سعادت ہے مرد کو
اُلوّ ہیں وہ جو شیفتہ ظلِّ ہما کے ہیں

ہے اشک و آہ راس ہمارے مزاج کو
یعنی پلے ہوئے اسِی آب و ہوا کے ہیں

جو باندھتے ہیںطرّہ طرّار کا خیال
نادان امّیدوار نزولِ بلا کے ہیں

کھٹکا ہوا نہیں اور دل اُڑالیا
یہ سارے ہتکنڈے تری زلفِ دوتا کے ہیں
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۶۷


صید کر شمہ اِس لئے ہوتے نہیں کہ ہم
پہلے سے زخم خوردہ فریبِ وفا کے ہیں

مارا بھی اور مار کے زندہ بھی کردیا
یہ شعبدے تو شوخی ناز و ادا کے ہیں

خلوت میں بھی روا نہیں گستاخیِ نگاہ
پردے پڑے ہوئے ابھی شرم و حیا کے ہیں

یوں کہہ رہی ہے نرگسِ بیمار کی ادا
نسخے تو مجھ کو یاد ہزاروں شفا کے ہیں

اب تک ہے سجدہ گاہ عزیزانِ رازگار
جس خاک پر نشان تری کفشِ پا کے ہیں

اندیشہ ہے کے دے نہ ادِھر کی اُدھر لگا
مجھکو تو ناپسند وتیرے صبا کے ہیں

سیرِ ورددِ قافلہء نو بہار دیکھ
برپا خیام اوجِ ہوا میں گھٹا کے ہیں

جاتا ہے خاک پاک دکن کو یہ ریختہ
واں قدردان اِس گُہرِ بے بہا کے ہیں

احباب کا کرم ہے اگر نکتہ چیں نہ ہو
ورنہ ہم معترف اپنی خطا کے ہیں

زمانہ اُن سے کراتا ہے ٓج خار کشی
جو محو سرو و صنوبر تھے خانہ باغوں میں

اُنہیں پہ گردشِ ایّام کا گرا نزلہ
سمائی ہوئی گُل و مل تھی جن دماغوں میں

وہ عطر فتنہ سے بستا تھا جن کا پیراہن
مُیسّر اب اُنہیں راغن نہیںچراغوں میں

وہ مانگ تانگ سے پیتے تھے اوک سے پانی
بری تھی جن کی کے مئے مشکبو باغوں میں

۹

منزل داز و دار ہے اور ہم میں دم نہیں
ہوں ریل پہ سوار تو دام و درم نہیں

میدان زدگی میں کریں دوڑ دھوپ کیا
ہم ایسے ناتواں ہیں کہ اٹھتا قدم نہیں
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۶۸


کیا خوب ہات پائوں خدا نے عطا کئے
چلتے رہں تو حاجتِ خیل و خدم نہیں

اغیار کیوں دخیل ہیں نزمِ سرور میں
مانا کہ یار کم ہیں پر اتنے تو کم نہیں

جب تک ہے عشق و عاشق و معشوق میں تمیز
کھُلتا کسی پہ رازِ حدوث و قدم نہیں

آدم پہ معترض ہوں تو فرشتے تو کیا عجب
چکّھی ہنوز چاشنی زہر ِ غم نہیں

اظہار ِ حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں

تو ہی نہیں ہے رمزِ محبّت سے آشنا
ورنہ دیارِ حسن میں رسمِ ستم نہیں

ارشاد طبع کی نہ اگر پیروی کرے
نقاشی خیال مجالِ قلم نہیں

سر ہی کے بل گئے ہیں سدا رہروانِ عشق
حیرت زدہ نہ بن کہ نشانِ قدم نہیں

کیسی طلب کہاں کی طلب کس لئے طلب
ہم ہیں تو وہ نہیں ہے جو وہ ہے تو ہم نہیں

۹

کبھی تقصیرجس نے کی ہی نہیں
ہم سے پوچھو تو آدمی ہی نہیں

مرچکے جیتے جی خوشا قسمت !
اِس سے اچھی تو زندگی ہی نہیں

دوستی اور کسی غرض کے لئے!
وہ تجارت ہے دوستی ہی نہیں

یا وفا ہی نہ تھی زمانے میں
یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں

کُچھ مری بات کیمیا تو نہ تھی
ایسی بگڑی کہ پھر بنی ہی نہیں

جس خوشی کو ہو نہ قیام و دوام
غم سے بدتر ہے وہ خوشی ہی نہیں

بندگی کا شعور ہے جب تک
بندہ پرور وہ زندگی ہی نہیں
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۶۹



ایک دو گھونٹ جامِ وحدت کے
جو نہ پی لے وہ متّقی ہی نہیں

کی ہے زاہد نے آپ دنیا ترک
یا مقدّر میں اُس کے تھی ہی نہیں


۱۰


عارضِ روشن پہ جب زلفیں پریشاں ہوگئیں
کفر کی گمراہیاں ہمرنگِ ایماں ہوگئیں

زُلف دیکھی اُس کی جن قوموں نے وہ کافر بنیں
رُخ نظر آیا جنھیں وہ سب مسلماں ہوگئیں

خود فروشی حُسن کو جب سے ہوئی مدِّنظر
نِرخ دل بھی گھٹ گیا جانیں بھی ارزاں ہوگئیں

جو بنائیں تھیں کبھی ایوانِ کسریٰ کا جواب
گتردشِ افلاک سے گردِ بیاباں ہوگئیں

خوفِ ناکامی ہے جب تک کامیابی ہے محال
مُشکلیں جب بندھ گئی ہمّت سب آساں ہوگئیں

ہائے کس کو روئیے اور کس کی خاطر پیٹئے
کیسی کیسی صورتیں نظروں سے پنہاں ہوگئیں

کیا اِنھیں اندوہِ ہنگامِ سحر یاد آگیا
شام ہی سے بزم میں شمعیں جو گریاں ہوگئیں
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۷۰


اکِ فرشتے بھی تو ہیں جن کو نہ محنت نہ رنج
خوہشیں دل کی بلائے جانِ انساں ہو گئیں

کیا ہے وہ جانِ مجسّم جس کے شوقِ دید میں
جامئہ تن پھینک کر روحیں بھی عریاں ہو گئیں

تھی تو وہ توفیق الٓہی میں نے سمجھا اپنا فعل
طاعتیں بھی میرے حق میں عصیاں ہوگئیں


۱۱


خاک سے افلاک تک ہے دور تیرے نام کا
کوں سی محفل ہے وہ جس میں ترا چرچا نہیں

اوّل و آخر بھی تو ہے ظاہر و باطن بھی تو
تو ہی تو ہے پر کہیں ۔ تیرا پتا لگتا نہیں

سب سمائے تجھ میں ہیں یا تو سمایا سب میں ہے
اسِ پہیلی کو کس نے آج تک بوجھا نہیں

۱۲

حامد(*۱) کہاں ! کہ دوڑ کے جاؤں خبر کو میں
کس آرزو پہ قطع کروں اسِ سفر کو میں

مانا بُری خبر ہے پہ تیری خبر تو ہے
صبر و قرار نزر کروں نامہ بر کو میں

یہ سنگ و خشت آہ دلاتے ہیں تیری یاد
روتا ہوں دیکھ دیکھ کے دیوار و در کو میں

ہے تیری شکل یا تیری آواز کا خیال
کرتا ہوں التفات یکایک جدھر کو میں

افسوس ! ہائے ہائے کی آتی نہیں صدا

پوچھے تو کیا بتاؤں ؟ ترے چارہ گر کو میں

کیا ہو گیا اسے کہ تجھے دیکھتی نہیں
جی چاہتا ہے آگ لگادوں نظر کو میں




اچھا جو تونے گوشئہ مرقد کیا پسند
اب اپنے حق میں گور بناؤں گا گھر کو میں

تیرے سِر عزیز کی بالش ہو خاک سے
بالیِنِ غم سے اب نہ اٹھاؤں گا سر کو میں

(۱*)محمد حامد فرزند مصنّف نے ۱۲ اکتوبر سنہ۱۸۹۵ کو انتقال کیا تھا ۔ اس جوان مرگ کے ماتم میں یہ مرثیہ بمقام آگرہ لکھا گیا۔
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۷۱


دیکھی نہ تھی بہار تیرے شباب کی
بھولا نہ تھا ابھی تیرے عہدِ صِغر کو میں

تقدیر ہی نے ہائے ! کُچھ مساعدت
کیا روؤ اب دعا و دوا کہ اثر کو میں

حکمِ خدا یہی تھا کہ بیٹھا کیا کروں
ماتم میں تیرے اشک فشاں چشمِ تر کو میں

جز درد و داغ تو نے نہ چھوڑا نشان حیف!!
رکھوں گا مہیمان انِھیں عمر بھر کو میں

کرنے دو آہ و نالہ کہ آخر رہوں گا بیٹھ
تسلیم کرکے حکمِ قضا و قدر کو میں

کیا فکر آب و نان ! کہ غم کہہ رہا ہے اب
موجود ہوں ضیافتِ دل اور جگر کو میں

تجھ کو جوارِ رحمتِ حق میں جگہ ملے
مانگا کروں گا اب یہ دعا ہر سحر کو میں

حبس ِ دوام تو نہیں دنیا۔ کہ مر رہوں
کاہے کو گھر خیال کروں رہ گزر کو میں

خود ہم سے بھی زیادہ ہو جو ہم پے مہرباں
وہ جام زہر دے ۔ تو نہ چکّھون شکر کو میں

وہ جانے اور اُس کی رضا جو پسند ہو
سب کام سونپتا ہوں اُسی داد گر کو میں

ہوتا نہ دل میں درد۔ تو کرتا نہ ہائے ہائے
دیتا نہ طول یوں سخنِ مختصر کو میں


۱۳

بزمِ ایجاد میں بے پردہ کوئی ساز نہیں
ہے یہ تری ہی صدا غیر کی آواز نہیں

کہہ سکے کون وہ کیا ہے ؟ مگر از روئے یقین
گلُ نہیں شمع نہیں ۔ سروسرافراز نہیں

دل ہو بے لوث تو کیا وجہ تسلّی ہو دروغ
طائرِ مُردہ مگر طُمعئہ شہباز نہیں

بُلبلوں کا تھا جہاں صحنِ چمن میں ابنوہ
آج چڑیا بھی وہاں زمزمہ پرداز نہیں

بھاگ ویرانئہ دُنیا سے کہ اِس میں
نُزلِ مہمان بجُز مائدہء آز نہیں
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۲۷۲


دلبری جذبِ مُحبّت کا کرشمہ ہے فقط
کُچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں

دل کی تسخیر ہے شیریں سُخنیِ پر موقوف
کُچھ کرامات نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں

دستِ قدرت نے مجھے آپ بنایا ہے تو پھر
کونسا کام ہے میرا کہ خدا ساز نہیں؟

متفرقات

قدسیوں کے بھی ہوش اڑتے ہیں
سُن کے مشتِ خاک کی باتیں

دل کا احوال تو خدا جانے
ظاہرا ہیں تپاک کی باتیں

جس سے نہ انتفاع ہوا بنائے جنس کو
فروردی ہے لیل و نہار میں

(۱*)
ردیف (و)

وہی کارواں وہی قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی منزلیں اور وہی مرحلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
اسے وزن کہتے ہیں شعر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی شکر ہے جو سپاس ہے وہ ملول ہے جو اُداس ہے
جسے شکوہ کہتے ہو گلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

(۱*) یہ نصابیہ غزل سنہ۱۸۸۰ میں مصنّف نے اپنے بچّوں کے لئے لکھی تھی ۔
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۷۳


وہی نقص ہے وہی کھوٹ ہے وہی ضرب ہے وہی چوٹ ہے
وہی سو ہے وہی فائدہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی ہے ندی وہی نہر ہے وہی موج ہے وہی لہر ہے
یہ حباب ہے وہی بُلبلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی کذب ہے وہی جھوٹ ہے وہی جرعہ ہے وہی گھونٹ ہے
وہی جوش ہے وہی ولولہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی ساتھی ہے جو رفیق ہے وہی یار ہے جو صَدِیق ہے
وہی مہر ہے وہی مامتا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے بھید کہتے ہو راز ہے جسے باجا کہتے ہو ساز ہے
جسے تان کہتے ہو ہے نوا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جو مراد ہے وہی مدعا وہی متّقی وہی پارسا
جو پھنسے بلا میں وہ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جو کہا ہے میںنے مقل ہے جو نمونہ ہے وہ مثال ہے
مری سرگزشت ہے ماجرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔

جو چناچہ ہے وہی جیسا ہے جو چگونہ ہے وہی کیسا ہے
جو چناں چیں ہے سو ہکذا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی خوار ہے جو ذلیل ہے وہی دوست ہے جو خلیل ہے
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۷۴


بدو نیک کیا ہے برا بھلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

۲

پائے غیر اور میرا سر دیکھو
ٹوٹ جائے نہ سنگِ در دیکھو

ایک عالم پڑا ہے چکّر میں
گردشِ چشمِ فتنہ گر دیکھو

میں نظر بند غیر مدِّ نظر
اپنا دل اور مرا جگر دیکھو

چشم پُرنم ہے تن غبار آلود
آن کر سیرِ بحر و بر دیکھو

فکرِ افشائے راز کیوں نہ کروں
کیا حیا خیز ہے نظر دیکھو

ہے دگرگوں مریضِ غم کا حال
ہو سکے تو دوا ابھی کر دیکھو

کم نمائی و خویشتن بینی
کتنے بے دید ہو اِدھر دیکھو


۳

ہے جانِ حزیں ایک لبِ روح فزادو
اے کاش ! کہ اس ایک کی ہوجائیں دوا دو

تھا خرِ جگر ہجر میں تنہا غمِ دوری
ہیں آفتِ جاں وصل میں اب شرم و حیا دو

مستانہ روش کیوں نہ چلے وہ نگہِ ناز
آنکھیں ہیں کہ جامِ مے ہوش ربا دو

جی تنگ ہے کیا کیجئے اور جوشِ بلا یہ
دل ایک ہے کیا دیجئے اور زلفِ دوتا دو

ہے عینِ عنایت جو نشاں پوچھئے میرا
یہ بھی نہیں منظور تو اپنا ہی پتا دو

کیا دامِ فریب اُس نے بچھایا ہے دلاویز
دو آن پھنسیں اور جو ہو جائیں رہا دو

گر نازِ خود آرا کو ہے یکتائی کا دعویٰ
کیوں آئنہ دیکھا کہ ہوئے جلوہ نما دو
 
Top