کلامِ واصف علی واصف

الف نظامی

لائبریرین
مزدور کا لیڈر بھی ہو مزدور تو ہے بات
مزدور کی قسمت میں کب کاروں کی بارات
ہر شب جو کلبوں میں ہوں بدمست مئے ناب
کیا جانیں کہ مزدور نے کاٹی ہے کہاں رات
یہ کرتے ہیں توہین غریبی کی ہماری!
قارون کے چیلوں نے کہاں بخشی مساوات
انسان کو پیدا کیا اس خالق کل نے
پیدا کیے جس ذات نے ارض و سمٰوات
وہ چاہے کرے جیسے کرے قادر مطلق
ہے کس کی یہ ہمت کہ کرے اس سے سوالات
وہ چاہے یتیموں کو پیغمبر کا لقب دے
مٹی سے اگاتا ہے عجب رنگ کے باغات
خیبر جو اکھاڑے اسے وجہ اللہ بنا دے
جس ہات میں کنکر ہوں اسے اپنا کہے ہات
جی چاہے تو لے آے اس دشت بلا میں
جس کے لیے اک کھیل ہے اعجاز و کرامات
دریا کے کنارے رکھے معصوم کو تشنہ
دے ریت کو عزت تو پشیماں ہو فرات
مقتول کو تو زندہ جاوید بنائے
ملعون کو قاتل کہے مات پہ کھا مات
اس رب کی ہے تقسیم انوکھی میرے بھائی
کیا جانے اسے مشرک و ملحد کی خرافات
چھینا ہے غریبوں کا اگر حصہ کسی نے
مل جائے گا واپس کہ نہیں کوئی بڑی بات
ہے شرط مگر ایک کہ تسلیم کرو تم
طابع ہیں خدا کے یہ جمادات و نباتات
وہ رزق کا ضامن ہے تیری جاں کا محافظ
وہ چاہے تو پیدا کرے شب و روز سے دن رات
عزت دے کسی کو تو کسی کے لیے ذلت
جس حال میں رکھے ہے اسی کی عنایات
ہم پر ہے اطاعت فقط اس ایک کی لازم
لیڈر کی خرافات سے نکلے گی خرابات
یہ ملیں بنیں گی کسی بجلی کا نشیمن
تم دیکھو تو کیا ہوتا ہے اب دور نہیں بات
مزدور نہ ہو خوش تو ہے لعنت ہی وطن پر
باغی ہو جو مزدور تو ہے ختم ہر اک بات
یہ ملک دیا جس نے سمجھا لے گا اسے وہ
ہے چشم کرم ساقی کوثر کی عنایات
کچھ بات دعاوں سے بھی ہوجاتی ہے حاصل
ہم بھول گئے طرز فغاں رسم عبادات
مزدور تھا خود والی امت تھا اگرچہ
مزدوری غریبی تو اسی نور کی سوغات
کر شکر کہ مولا نے تجھے اپنا بنایا
بے چین نہ ہو بھائی بڑے غور کی ہے بات
لعنت ہے وہ دولت کہ جو خود غرض بنائے
لعنت ہے وہ لیڈر کہ جو ہو مستِ خرابات
لعنت ہے وہ غربت کہ جھکے کفر کی جانب
رحمت ہے وہ غربت کہ جو پاجاے نجات
اسلام نے ہر مسئلہ حل کرکے دکھایا
مشرق کا ہے اعجاز نہ مغرب کے کمالات
واصف نے غریبوں کو ہے یہ مژدہ سنایا
اب آنے کو ہے دور کہ بس بھاگیں گے جنات​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
بے نام داستان ہے ارمانِ زندگی

بے نام داستان ہے ارمانِ زندگی
گرتا ہوا مکان ہے احسانِ اندگی​
دل پر تری جفا کے سوا اور بھی ہیں داغ
تاروں کا اک جہاں ہے دامانِ زندگی​
کیا جانیں کس خیال میں ہم آگئے ہیں کہاں
تکفیر کا گماں ہے ایمانِ زندگی​
رو رو کے آج کاٹ رہے ہیں شب فراق
گردانِ الامان ہے سامانِ زندگی​
واصف نے مر کے سیکھی ہے تسلیم کی ادا
منصور کی زبان ہے تاوانِ زندگی​
 

الف نظامی

لائبریرین
آرزو اتنی ہے جانِ آرزو

آرزو اتنی ہے جانِ آرزو
جستجو و جستجو و جستجو​
ضبط غم سے تھی ہماری آبرو
اشک رک جائے ٹپکتا ہے لہو​
ھم کو ذوق دید لے آیا کہاں
آئینہ ہم، ہم نظر ہم روبرو​
خاموشی ہے گوش بر آواز کیوں
بام و در میں ہورہی ہے گفتگو​
منبرِ تلقین پر رندِ خراب
چڑھ گیا ہے ہاتھ میں لیکر سبو​
بند ہوجائے تو کھل جاتی ہے آنکھ
دور سے آتی ہے پیراہن کی بُو​
ٹوٹ جاتی ہے کلی کھلتی نہیں
دامن گل ہو نہیں سکتا رفو​
آنکھ ساجد آنکھ ہی مسجود ہے
خونِ دل سے آنکھ کرتی ہے وضو​
کم نگاہی ہے حرم سے بدگماں
چشم بینا ہو تو کعبہ چار سو​
بن کے افسانہ ترا جانِ بہار
پھر رہا ہے آج واصف کو بہ کو​
 

الف نظامی

لائبریرین
بڑا گھمنڈ ، تفاخر ، غرور اور تمکین
یہ لے پہنچا کہاں سجدہ گاہ میں تو جبیں​
لباس عطر میں ڈوبا ہوا ہے فکر میں دل
زباں پہ نامِ خدا سرخ چہرہ چیں بہ چیں​
عصائے موسی لئے ہاتھ میں پھرے ہے کہاں
فرعونِ وقت بتاو اسے یہ ہے مسکیں​
کہ قہقہوں کی بلندی ہی اس کی پستی ہے
فغانِ نیم شبی مانگتا ہے یہ بے دیں​
نظام نو کی خبر دئے رہا ہے اک چوہا
کہ جیسے شیر کوئی کارواں میں ہے ہی نہیں​
بڑی سریلی اذانوں میں محو ہیں سارے
اذانِ حر بھی سنی آپ نے یہاں کہ نہیں​
خدا کے شکر میں بھرتا ہے پیٹ کو اتنا
کہ جیسے پیٹ ہو کچھوئے کا واہ رے رہبر دیں​
حدیث قدسی کے ہر راز سے یہ ہے آگاہ
ملا نہ گوشہ کوئی ہوگیا ہے کوٹھی نشیں​
یہ غزالی دوراں کہ رومی ملت
کہ دام لے کے جو بولیں تو جھوم جائے زمیں​
مکان اس کے ابھی چار پانچ چھ ہوں گے
مگر یہ رکھتا ہے بارہ اماموں پہ بھی یقیں​
ملے جو کثرت دولت بیاں کرے وحدت
غریب لوگ بلائیں اسے تو وقت نہیں​
بیانِ تقوی توکل طہارت و توبہ
بغیر دام کے بولے تو یہ کہاں کا امیں​
غریب بھائی تمہاری ہی ہوش ختم ہوئی
تمہارے خون کا ہے طالب یہ عاقبت کا نہیں​
نماز دار پہ ہوگی یا کربلا میں ادا
کہ اب چمکنے کو ہے رازِ عاشقی کا نگیں​
جبینِ شوق سے خود ڈھونڈ آستانہِ حسن
صنم خیال کےسب توڑ دو کہ وقت نہیں​
یہ کون بول رہا ہے نہ پوچھ واصف سے
کہ وہ بیچارہ تو کاتب ہے رازدار نہیں​
 

الف نظامی

لائبریرین
میں کیا ہوں معلوم نہیں

میں کیا ہوں معلوم نہیں
میں قاسم مقسوم نہیں​
میں تسلیم کا پیکر ہوں
میں حاکم محکوم نہیں​
میں نے ظلم سہے لیکن
میں پھر بھی مظلوم نہیں​
میں مستی کا ساغر ہوں
ہوش سے میں محروم نہیں​
تیری رحمت چھوڑے کون
توبہ میں معصوم نہیں​
میرے تبریزی انداز
میں مولائے روم نہیں​
میں مسجود ملائک ہوں
میں راقم مرقوم نہیں​
میں مخلوق کا خادم ہوں
کون میرا مخدوم نہیں​
جیتے جی مرجاتا ہوں
مرکے میں معدوم نہیں​
میں نے کیا کیا دیکھا ہے
میں یونہی مغموم نہیں​
میں صحرا کی جان ہوا
میں بادِ مسموم نہیں​
میں مایوس نہیں لیکن
امید موہوم نہیں​
واصف کیا نظمیں لکھے
رنگِ جہاں منظوم نہیں​
 

الف نظامی

لائبریرین
غزل کیا ہے فقط اشکوں کی مالا!
مذاق شعر نے بس مار ڈالا!
مٹادیتے زمانے بھر کے غم
غمِ جاناں نے ہر غم میں سنبھالا
پڑے ہم ان کے پاوں پہ تو بولے
پڑا ہے آج کس آفت سے پالا
نہ دل اپنا نہ جاں اپنی نہ ہستی
یہ سرمایہ ہے اپنا دیکھا بھالا
کمالِ سنگِ در کہیے جبیں کو
نگاہ کو جانیے زندہ جوالا
کسی کے راز کا دل راز داں ہے
کسی کے اذن کا ہے لب پہ تالا
کسی کی زلف ہے تاریکی سب
کسی کے رخ سے ہوتا ہے اجالا
کسی کی یاد ہے روئیدادِ ہستی
کسی کا نام ہے عنوانِ بالا
کسی کا ہاتھ ہی دستِ شفا ہے
کسی کا دکھ بنا ہے دل کا چھالا
کوئی چاہے تو یہ دنیا ہے جنت
کوئی روٹھے تو منہ دوزخ کا کالا
فنا سے ہے بقا واصف نے دیکھا
یہ ہستی کیا ہے اک رنگین جالا​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ایک وجہ قرار باقی ہے
آپ کا انتظار باقی ہے
اپنی ہستی پہ اختیار نہیں
موت پر اختیار باقی ہے
دیکھنا اپنے بس کی بات نہیں
ہاں مگر ذکر یار باقی ہے
اپنے دامن میں کوئی تار نہیں
سانس کا ایک تار باقی ہے
تجھ سے جو دور ہے وہی فانی
جس کو ہو تجھ پیار باقی ہے
کوئی دامن نہیں کہ پھیلا دوں
دامنِ داغدار باقی ہے
دَور ہی بے وفا تھا آپ نہ تھے
آپ کا اعتبار باقی ہے
کارواں کوچ کرگیا واصف
کارواں کا غبار باقی ہے​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ان سے ہو روز ملاقات ضروری تو نہیں
ہو ملاقات میں کچھ بات ضروری تو نہیں
جام چھلکاتی ہو برسات ضروری تو نہیں
مے کشی رند خرابات ضروری تو نہیں
یوں تو ہر رات کی قسمت میں ہے سحر لیکن
ہاں مگر ہجر کی اک رات ضروری تو نہیں
ہے کوئی پردہ تخیل کے پیچھے نہاں
حسن پابندِ حجابات ضروری تو نہیں
چشم ساقی کا تلطف ہے مشیت واصف
سب پہ یکساں ہوں عنایات ضروری تو نہیں​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ہر ذرہ ہے اک وسعت دریا میرے آگے
ہر قطرہ ہے اک موجہ دریا میرے آگے
اک نعرہ لگا دوں کبھی مستی میں سرِ دار
کعبہ نہ بنے کیسے کلیسا میرے آگے
وہ خاک نشیں ہوں کہ میری زد میں جہاں ہے
بل کھاتی ہے کیا موجِ ثریا میرے آگے
میں ہست میں ہوں نیست کا پیغام مجسم
انگشت بدنداں ہے مسیحا میرے آگے
میں جوش میں آیا تو یہی قلزم ہستی
یوں سمٹا کہ جیسے کوئی قطرہ میرے آگے
لے آیا ہوں افلاک سے ملت کا مقدر
کیا کیجیے مقدور کا شکوہ میرے آگے
استادِ زماں فخر بیاں کی ہے توجہ
غالب کی زمیں کب ہوئی عنقا میرے آگے
واصف ہے میرا نام مگر راز ہوں گہرا
ذرے نے جگر چیر کے رکھا میرے آگے​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top