سودا کس کے ہیں زیرِ زمیں دیدۂ نم ناک ہنوز ۔ مرزا رفیع سودا

فرخ منظور

لائبریرین
کس کے ہیں زیرِ زمیں دیدۂ نم ناک ہنوز
جا بہ جا سوت ہیں پانی کے تہِ خاک ہنوز

ایک دن گھیر مَیں دامن کا ترے دیکھا تھا
گرد پھرتے ہیں گریباں کے مرے چاک ہنوز

جستجو کر کے تجھ آفت کو بہم پہنچایا
باز آتے نہیں گردش سے یہ افلاک ہنوز

باغ میں جب سے گیا تھا وہ خمار آلودہ
گل ہیں خمیازے میں، انگڑائی میں ہیں تاک ہنوز

زخم دل پر ہے مرے، تیغِ جنوں کا ناصح
تُو گریبان کا ناداں سیے ہے چاک ہنوز

کیونکہ سودا مَیں کروں وصف بنا گوش اس کا
کی نہیں آبِ گہر سے یہ زباں پاک ہنوز

(مرزا رفیع سودا)
 
Top