دبیر کس کا عَلَم حسین کے منبر کی زیب ہے (مکمل مرثیہ) - مرزا دبیر

حسان خان

لائبریرین
کس کا عَلَم حسین کے منبر کی زیب ہے
کسی جنتی کی مشک سے کوثر کی زیب ہے
لشکر ہے اُس کی زیب وہ لشکر کی زیب ہے
چہرے کی فرد مالکِ دفتر کی زیب ہے
رفعت علم کی کہتی ہے ہر عقل مند سے
سقے پہ پڑھ درود صدائے بلند سے
کس کے علم کے سائے سے طوبیٰ نہال ہے؟
سقہ ازل سے کون بہشتی جمال ہے؟
ہر ماہ کس قمر کا عروج و کمال ہے؟
وہ رشکِ بدر، حیدرِ صفدر کا لال ہے
کہتے ہیں شیعیانِ علی کہہ کے 'یا علی'
عباس میں ہے دبدبۂ مرتضیٰ علی
یہ اس کی بارگاہِ ملائک پناہ ہے
دربارِ حق میں جس کی محبت سے راہ ہے
فوجِ خدا گواہ، خدا بھی گواہ ہے
عباس، شیرِ بیشۂ شیرِ الٰہ ہے
تصویر ہے یہ فاتحِ بدر و حنین کی
شمشیر ہے خدا کی، سپر ہے حسین کی
کیوں حرفِ عین افسرِ عرشِ جلیل ہے؟
کیوں حرفِ با بہشتِ بریں میں دخیل ہے؟
کیوں اوجِ آسماں کی الف سے دلیل ہے؟
کیوں سین سربسر سندِ سلسبیل ہے؟
سب صورتوں سے حق نے فضائل دکھائے ہیں
عباس کے خطاب میں یہ حرف آئے ہیں
عرشِ بریں غبار ہے کس بارگاہ کا
مہرِ مبیں نگینہ ہے کس رشکِ ماہ کا
کس کا علم نشان ہے فضلِ الٰہ کا
کس کی وِلا چراغ ہے کوثر کی راہ کا
پھرتے ہیں کس کے دستِ بریدہ نگاہ میں
ڈوبے ہوئے ہیں پنجتنی کس کی چاہ میں
کس کے علم سے پنجۂ خورشید زرد ہے
یہ دھوپ کس کے مرقدِ انور کی گرد ہے
کس کی ضیا سے چاند کا بازار سرد ہے
چہرہ وہ ہے کہ دفترِ قدرت میں فرد ہے
ان کے سخن سے جوہرِ تیغ آشکار ہیں
خود سیفِ ذوالجلال ہیں، لب ذوالفقار ہیں
صلِ علیٰ، یہ شاہِ شہیداں کا بھائی ہے
مشکل کشائی آپ نے بابا سے پائی ہے
شانے نہیں پہ ہاتھ میں مشکل کشائی ہے
تیغِ خدا کے قبضے میں ساری خدائی ہے
سقائے شاہِ خشک لباں یہ دلیر ہے
دریائے آبرو کی ترائی کا شیر ہے
فولاد کی ضریح میں کس کا مزار ہے
نمگیرہ جس کا رحمتِ پروردگار ہے
باہم ضریح و قبر سے نور آشکار ہے
اِس کی بہار وہ ہے یہ اُس کی بہار ہے
قبر و ضریح سے ہے نمود آب و تاب کی
وہ آفتاب ہے یہ کرن آفتاب کی
تربت بھی اور ضریح بھی ہے نور سے بھری
صاحب مزار ماہِ بنی ہاشمی، جری
تربت پہ وہ ضریح مشبک نہیں دھری
اُترا ہے برجِ سنبلہ بہرِ مجاوری
کیا قبر نے ضریح کے رتبے بڑھائے ہیں
حور و ملک نے دیدۂ حق بیں چڑھائے ہیں
روضے کا فرش قدسیوں کی پاک دامنی
جھاڑوں سے دونوں وقت ہے دنیا میں روشنی
کیا جانے واں کی خاک ہے کس نور سے بنی
ہنگامِ صبح دھوپ، سرِ شام چاندنی
آتی ہے یہ ندا جو درِ روضہ وا کرو
خیبر کشا! محبوں کی حاجت روا کرو
روشن چراغ شمعوں سے عقل و شعور کا
پروانوں کے پروں میں پرا فوجِ حور کا
قندیل کہہ رہی ہے: میں ایماں ہوں طور کا
تربت کا یہ سبق ہے کہ سورہ ہوں نور کا
کیوں کر پڑھیں نہ معتقدِ خاص فاتحہ
الحمد کی ندا ہے بہ اخلاص فاتحہ
پیارے ستون و سقف ہیں عرشِ جلیل کو
جیسے عصا کلیم کو کعبہ خلیل کو
قُبّے کی تازگی سے حیا سلسبیل کو
سدرہ کی راہ بھولتی ہے جبرئیل کو
دبتا ہے چرخ گنبدِ انور کی شان سے
جس طرح پیر زور میں عاجز جوان سے
حاضر جو اس جناب کی درگاہ میں ہوا!
گھر اس کا شاہ کے دلِ آگاہ میں ہوا
جو غرق حبِ ابنِ ید اللہ میں ہوا!
نہرِ لبن سے بہرہ ور اس چاہ میں ہوا
قربان ہے عرش زائرِ مولا کی شان پر
سر آستان پر ہے قدم آسمان پر
ہونے کو تو جہان میں کیا کیا نہیں ہوا
پر حضرتِ حسین سا آقا نہیں ہوا
عباس سا حسین کا شیدا نہیں ہوا
سقہ شہید نہر پہ پیاسا نہیں ہوا
یہ آب و گِل میں حبِ شہِ نیک خو ملی
جتنی تھی پیاس اس کے سوا آبرو ملی
سقائیِ حسین کی مدت تمام ہے
پیاسی سکینہ ہے نہ شہِ تشنہ کام ہے
اب کیوں حضور کا لبِ دریا مقام ہے؟
درپیش اپنے خاص غلاموں کا کام ہے!
اب جو کنارہ کش نہیں دریا سے ہوتے ہیں
شیعہ گناہ کرتے ہیں عباس دھوتے ہیں
چشمِ کرم ہے شیعوں کے حالِ تباہ پر
جیسے خدا کی مِہر حسینی سپاہ پر
یوں بند ہے زبانِ سخن عذر خواہ پر
جیسے کھلا ہوا درِ توبہ گناہ پر
مشرق کا سکہ مِہر ہے مغرب کا ماہ ہے
دن رات اختیارِ سفید و سیاہ ہے
بے دست و پا کے کام سرِ دست آتے ہیں
پاؤں کے ناخنوں سے گرہ کھول جاتے ہیں
قاتل کو طُرفہ زورِ شہادت دکھاتے ہیں
شب کو اسے جَلاتے ہیں دن کو جلاتے ہیں
سب اُن کے اختیار سے بے اختیار ہیں
کیا کہیے اور قدرتِ پروردگار ہیں
کہتا ہے اک مجاورِ فرزندِ مرتضیٰ
شب کو بھی باریاب میں ہوتا تھا بارہا
اک شخص دفن صحنِ علم دار میں ہوا
اُس شب گیا جو روضے میں تو دیکھتا ہوں کیا
آ کر گرا وہ شعلہ کہ شورِ فغاں اٹھا
فانوسِ قبر جلنے لگی اور دھواں اٹھا
مردے نے پھر تو دھوم مچائی دُہائی ہے
اے حضرتِ حسین کے بھائی، دُہائی ہے
نارِ سقر جلانے کو آئی، دُہائی ہے
یاں بھی نجات ہم نے نہ پائی، دُہائی ہے
سقائے دخترِ شہِ ابرار، الغیاث
عباس الغیاث، علم دار الغیاث
اُس عارضِ سکینہ کی مولا تمہیں قسم
شمرِ لعیں کی جس پہ لگی سیلیِ ستم
اُس ناتواں کے واسطے، اے صاحبِ کرم!
جو بیڑیوں کے بوجھ سے گرتا تھا ہر قدم
مجھ سے فلک کے رنگ بدلنے کو دیکھیے
روضے کو اپنے اور مرے جلنے کو دیکھیے
کہتا تھا یہ کہ نار وہیں نور ہو گئی
زیرِ کفن جو آگ تھی کافور ہو گئی
فانوسِ قبر قمقمۂ طور ہو گئی
آئی ندا کہ خوش ہو بلا دور ہو گئی
ہم کو رلا دیا جو ترے شور و شین نے
تجھ کو بچا لیا مرے آقا حسین نے
کیوں مومنو! کہاں سے کہاں ہے یہ معجزہ
آیاتِ کبریا کا نِشاں ہے یہ معجزہ
عاجز کنندۂ دو جہاں ہے یہ معجزہ
دشمن بھی کہہ رہے ہیں کہ 'ہاں ہے یہ معجزہ'
عباس چاند ہیں شہِ بدر و حنین کے
لیکن یہ سارے جلوے ہیں حبِ حسین کے
دیکھی جہاں ضریح شہِ کم سپاہ کی
پہلو میں اس کے اُن کے علم پر نگاہ کی
شربت پہ ہے جو نذرِ شہِ دیں پناہ کی
حاضر ہے حاضری بھی علمدارِ شاہ کی
کچھ شیعہ 'یا حسین' بصد یاس کہتے ہیں
کچھ رو کے 'ہائے حضرتِ عباس' کہتے ہیں
وہ رازِ حق، تو سینۂ مشکل کشا یہ ہیں
علمِ خدا وہ ہیں، تو دلِ مرتضی یہ ہیں
حسنِ قبول وہ ہیں، علی کی دعا یہ ہیں
عیسیٰ گواہ ہیں کہ شفا وہ، دوا یہ ہیں
غازی کے سر پہ شاہِ حجازی کے ہاتھ ہیں
حق ہے علی کے ساتھ، علی حق کے ساتھ ہیں
بچپن سے تھے یہ عاشقِ سلطانِ مشرقین
طاعت خدا کی جانتے تھے طاعتِ حسین
آقا کے دیکھنے کو سمجھتے تھے فرضِ عین
اور بے طوافِ کعبۂ رخ، دل کو تھا نہ چین
جھکنا قدم پہ شاہ کے معراج تھی اُنہیں
نعلینِ ابنِ فاطمہ سرتاج تھی اُنہیں
لیتے تھے اٹھتے بیٹھتے شبیر کا جو نام
ہنس ہنس کے اُن سے والدہ کرتی تھی یہ کلام
تم کون ہو حسین کے؟ یہ کہتے تھے، غلام
وہ پوچھتی تھی، کچھ سند اے عاشقِ امام!
قیمت میں کیا دیا ہے شہِ مشرقین نے
کتنے کو - واری - مول لیا ہے حسین نے
یہ کہتے تھے: غلام بھی حاضر جواب ہے
اس بات کی حضور، نہیں دل کو تاب ہے
دعویٰ تمہیں بتول سے کیا اے جناب ہے؟
کہتی ہو، میری بی بی وہ عفت مآب ہے
آقا ہے یہ مرا جو وہ بی بی تمہاری ہے
قیمت جو آپ کی وہی قیمت ہماری ہے
بے ساختہ لپٹ کے وہ کہتی تھی 'مرحبا'
کیا ڈھونڈ کر جواب دیا، واری، واہ وا
تیوری نہ اب چڑھائیے، بس غصہ ہو چکا
کچھ خیر ہے میں ہنستی تھی، تم ہو گئے خفا
شفقت رہے مُدام شہِ مشرقین کی
روزی نصیب تم کو غلامی حسین کی
اب روئیں مومنین کہ شبیر روتے ہیں
نامی جواں تو گنجِ شہیداں میں سوتے ہیں
بچے تمام پیاس سے جاں اپنی کھوتے ہیں
اور اب جدا حسین سے عباس ہوتے ہیں
خالی رفیق و یار سے ہے پہلوئے حسین
کس وقت توڑتی ہے اجل بازوئے حسین
آرام جانِ فاطمہ اب بے قرار ہے
رو دیتے ہیں، کچھ اور نہیں اختیار ہے
اتنا ہی غم ہے جتنا کہ بھائی کا پیار ہے
پھر ماتمِ علیِ ولی رُو بَکار ہے!
حضرت کو موت ان کی جدائی کا داغ ہے
یہ داغ اور کا نہیں بھائی کا داغ ہے
پوچھو علی کی روح سے یہ حالِ دردناک
کیسا کفن، جگر ہے امیرِ عرب کا چاک
اب تک نجف میں کانپ رہا ہے مزارِ پاک
کہتے ہیں انبیائے سَلَف یہ اڑا کے خاک
عباس نام ناموری داشتی چہ شد؟
یا مرتضی علی! پسری داشتی چہ شد؟
جب رن میں گل چراغِ مزارِ حسن ہوا
یعنی شہید قاسمِ گل پیرہن ہوا
رختِ شہانہ لاش کی خاطر کفن ہوا
حجلہ دولہن کے واسطے بیت الحزن ہوا
غل تھا اُدھر تو دولہا کو مہمان روتے ہیں
یاں شاہ سے وداع علمدار ہوتے ہیں
ہوتا ہے بے پسر پدرِ شیعیانِ پاک
کیسا کفن، جگر ہے امیرِ عرب کا چاک
چھپتا ہے چاند ہاشمیوں کا بزیرِ خاک
افلاک پر ہے فاطمہ کی آہِ دردناک
واں عرش ہل رہا ہے فغانِ حسین سے
یاں حشر ہے حسینیوں کے شور و شین سے
تصویرِ خاصِ حیدرِ کرار مٹتی ہے
تفسیرِ نورِ خالقِ غفار مٹتی ہے
لشکر کے بعد شکلِ علمدار مٹتی ہے
شیعوں کے بادشاہ کی سرکار مٹتی ہے
افسوس، جس کی مادرِ بیوہ وطن میں ہے
باری اب اُس جوان کے مرنے کی رن میں ہے
تمہید شہ سے بہرِ اجازت اٹھائی ہے
جوڑے ہیں ہاتھ، پاؤں پہ گردن جھکائی ہے
یوں حرف زن وہ فدیۂ حق کا فدائی ہے
سب مر چکے غلام کی باری اب آئی ہے
کوثر دیا شہیدوں کو مولا ہمیں بھی دو
اک قبر کی جگہ لبِ دریا ہمیں بھی دو
سوکھے ہیں ساتویں سے لبِ شاہِ بحر و بر
ہوتا ہے خون خشک مرا دیکھ دیکھ کر
آنکھیں ملا کے کہتے ہیں خادم سے بدگہر
سقائے اہلِ بیت ہو تو آؤ نہر پر
تم بھی فقط زبان سے قربان جاتے ہو
پانی نہیں امام کو اپنے پلاتے ہو؟
دیکھی ہیں جاں نثار نے آنکھیں حضور کی
چشمک زنی اٹھے گی نہ اہلِ غرور کی
حالت ہے اب تباہ دلِ ناصبور کی
آیندہ جو رِضا ہو امامِ غیور کی
گو بے کفن ہے بھائی ہر اک اس غلام کا
پر مجھ کو غم ہے خشکیِ حلقِ امام کا
صِفّین میں بھی گھیرے تھے یہ نہر خود پسند
فوجِ معاویہ لبِ دریا تھی بہرہ مند
مشکل کشا کی فوج پہ آبِ رواں تھا بند
تھی مورچوں سے 'وا عطشاء' کی صدا بلند
پر مضطرب نہ والدِ عالی صفات تھے
اصغر سے ننھے بچے نہ بابا کے سات تھے
طاقت دکھائی آپ نے زہرا کے شِیر کی
دیکھی گئی نہ پیاس جنابِ امیر کی
سقائی کی سپاہِ شہِ قلعہ گیر کی
الٹیں صفیں جناب نے فوجِ شریر کی
بابا کو لا کے نہر سے پانی پلا دیا
سب مر چکے تھے پیاس سے تم نے جِلا دیا
آقا نے میرے حقِ پدر یوں ادا کیا
فرمائیے، غلام نے حضرت سے کیا کیا
فدوی کو پال پوس کے تم نے بڑا کیا
بابا کے آگے بھی تمہیں 'بابا' کہا کیا
میں جانتا ہوں قبلۂ کونین آپ کو!
اور دیکھتا ہوں پیاس سے بے چین آپ کو
اصرار کر کے آپ نے بابا سے لی رضا
میں بار بار عرض کروں یہ مجال کیا
جو ناز کرتے آپ علی سے وہ تھا بجا
سبطِ نبی ہو اور پسرِ اشرف النسا!
پڑھتا ہوں کلمہ آپ کے میں نانا جان کا
ہے فرق مجھ میں تم میں زمیں آسمان کا
پانی ہے جب سے بند مجھے انفعال ہے
کہتا ہوں دل سے صبر کر اب انفصال ہے
حضرت کو آبرو کا مری خود خیال ہے
اب بھی مُصِر نہیں ہوں فقط عرضِ حال ہے
یوں فوج کو نہ کوئی علمدار روئے گا
ایسا بھی واقعہ نہ ہوا ہے نہ ہوئے گا
صِفّین میں جو پیاسے شہِ ذوالفقار تھے
منہ اُن کا دیکھ دیکھ کے آپ اشکبار تھے
پھرتے تھے آس پاس بہت بے قرار تھے
عباس کی طرح سے نہ بے اختیار تھے
اپنا ہی سا ہر ایک کا دل جان لیجیے
اب تو غلام کا بھی سخن مان لیجیے!
تم باپ کی جگہ ہو یہ خادم پسر کی جا
صفین کا وہ دشت تھا یہ دشتِ کربلا
واں اک معاویہ تھا، یہاں لاکھ اشقیا
واں ابتدا تھی پیاس کی اور یاں ہے انتہا
شامی وہی ہیں اور وہی نہرِ فرات ہے
انصاف اب غلام کا آقا کے ہات ہے
رو کر کہا حسین نے: دریا پہ جاؤ گے؟
عباس پانی لاؤ گے، ہم کو پلاؤ گے!
واللہ بھائی داغِ جوانی دکھاؤ گے
ہم آئے تھے فرات سے پر تم نہ آؤ گے
سمجھو تو خیمہ کیوں لبِ دریا سے اٹھ گیا
پانی مرے نصیب کا دنیا سے اٹھ گیا
صفین میں گیا تھا جو دریا پہ میں حزیں
بابا بھی میرے بے کس و تنہا تھے کیا یونہیں؟
حیدر کو میرے پانی کے لانے کا تھا یقیں
ہم کو تو آس آپ ہی کے آنے کی نہیں
یہ جان لو جدا جو ہوئے تم تو ہم نہیں
کٹنے سے سر کے ٹوٹنا بازو کا کم نہیں
بھائی! جدائی بھائی کی، بھائی کی ہے قضا
بن ہاتھ کا کرے نہ کسی بندے کو خدا
اکبر عصا ہے میری ضعیفی کا، یہ بجا
پر ہاتھ ہی نہ ہوں گے تو بے کار ہے عصا
کس درد سے جگر کا مرے سامنا ہوا
دشوار اب حسین کو دل تھامنا ہوا
خیمے کے ایک گوشے میں یہ حشر تھا بپا
اور سن رہی تھی چپکی سکینہ یہ ماجرا
مولا جو چپ ہوئے تو پکاری وہ مہ لقا
اے لوگو! یاں تو آؤ کہ یہ گفتگو ہے کیا
دریا کے آنے جانے کے کچھ ذکر ہوتے ہیں
اے لو، چچا بھی روتے ہیں بابا بھی روتے ہیں
شہ سے کہا: چچا کو نہ آنسو بہانے دو
اچھا تو کہتے ہیں، انہیں دریا پہ جانے دو
پانی حضور کے لیے لاتے ہیں لانے دو
غصے کی آنکھ اہلِ ستم کو دکھانے دو
پانی جو آپ کے لیے عباس لائیں گے
صدقہ تمہارا ہم بھی کوئی گھونٹ پائیں گے
میں بیچ میں پڑوں جو یہ ضامن کسی کو دیں
ضامن جو دیں تو روحِ جنابِ علی کو دیں
ایسا نہ ہو کہ رنج یہ میری چچی کو دیں
عباس بولے: آپ تسلی یہ جی کو دیں
مولا بھی ہیں حسین مرے اور امام بھی
آقا کو بھول جاتا ہے کوئی غلام بھی
صدقے چچا، نثار چچا التجا کرو
کچھ تو سفارش اور برائے خدا کرو
حضرت سے جو کہا تھا ابھی پھر ادا کرو
حاجت روا کی پوتی ہو، حاجت روا کرو
ضامن چچا کے آنے کی ہوتی ہو کیوں نہ ہو
حلّالِ مشکلات کی پوتی ہو کیوں نہ ہو
لے لو قسم فرات سے آگے نہ جائیں گے
اور جائیں گے تو کیا شہِ دیں لے نہ آئیں گے
دل میں کہا امام نے ہاں لاش لائیں گے
پر کیوں کر ایسے شیر کا مردہ اٹھائیں گے
حضرت نے اس خیال میں دریا بہا دیا
عباس کو سکینہ نے مشکیزہ لا دیا
رو کر پکارے عترتِ اطہار، الوداع!
عباس الوداع، اے علم دار الوداع
اے زیبِ پہلوئے شہِ ابرار! الوداع!
اے نام دارِ حیدرِ کرار، الوداع!
جعفر کی روح آپ کے لاشے پہ روئے گی
ہے ہے اب اس علم کی زیارت نہ ہوئے گی
زینب نے بڑھ کے کان میں سقے کے کچھ کہا
سنتے ہی بہرِ سجدہ جھکا ابنِ مرتضیٰ
زینب سے پوچھنے لگیں رانڈیں جدا جدا
ہم سے بھی کہہ دو، بھائی سے ارشاد کیا کیا؟
بانچھیں خوشی سے کھل گئیں اس باتمیز کی
بولو! قسم حسین کی جانِ عزیز کی
رو کر کہا یہ زینبِ عالی مقام نے
ام البنین پھرتی ہے آنکھوں کے سامنے
یثرب سے جب کہ کوچ کیا تھا امام نے
کی تھی سفارش اِن کی یہ اُس نیک نام نے
جب مشک یہ اٹھائیں سبک دوش کیجیو
میری طرف سے دودھ مرا بخش دیجیو
لوگو گواہ رہیو کہ تم سب کے سامنے
اُن کا سخن ادا کیا مجھ تشنہ کام نے
کھوئے حواس بیبیوں کے اِس کلام نے
پردہ اٹھایا بازوئے شاہِ انام نے
جھک کر ہلال برجِ فلک سے نکل گیا
نورِ نگاہ تھا کہ پلک سے نکل گیا
عباس جب کہ جانبِ باغِ جناں چلے
شانے پہ لاکھ شان سے رکھ کر نشاں چلے
زوجہ نے پوچھا: اے مرے والی، کہاں چلے؟
بولے: جہاں سے اب نہ پھریں گے، وہاں چلے
اب آخری وداع کی باری نہ آئے گی
آئی ہے سب کی لاش ہماری نہ آئے گی
عباس سے سنا جو یہ اس تشنہ کام نے
دنیا سیاہ ہو گئی آنکھوں کے سامنے
اک آہ کی کمر کو پکڑ کر امام نے
پردہ اٹھایا بازوئے شاہِ انام نے
جھک کر ہلال برجِ فلک سے نکل گیا
نورِ نگاہ تھا کہ پلک سے نکل گیا
پاسِ ادب سے مجرے کو سب دور دور آئے
عفوِ قصور کے لیے کبر و غرور آئے
غل پڑ گیا، جِلَو کے لیے فوجِ نور آئے
ہاں لاؤ مرکبِ دورکابہ، حضور آئے
آیا سجا سجایا تگاور جناب کا!
پاکھر کرن کے تاروں کی، زین آفتاب کا
پابوسی کو رکاب کا حلقہ وہاں بنا
اور اُس دہن میں پائے مبارک زباں بنا
پھر آستانِ خانۂ زین آسماں بنا
عرشِ جلیل زینِ تجلی نشاں بنا
آنسو مگر نہ تھمتا تھا اُس راہوار کا
یعنی مجھی پہ آئے گا لاشہ سوار کا
انگلی سے لکھ کے گردنِ توسن پہ 'یا علی'
اک جست میں سوار ہوا حق کا وہ ولی
فی الفور نور و طور کے معنی ہوئے جلی
بجلی جلانا بھول کے خود رشک سے جلی
ٹھنڈی ہوئی ہوا جو یہ گرمِ عناں ہوا
صرصر کی سانس رک گئی جب یہ رواں ہوا
رکھنے لگا جو ہاتھ تصور عنان پر
بگڑا بنا کے منہ کہ نہ کھیل اپنی جان پر
بولی زمیں 'کدھر'؟ تو کہا 'آسمان پر'
پوچھا جو آسماں نے، کہا، 'لامکان پر'
یہ کہہ کے فکر و وہم کی حد سے گذر گیا
سایہ ہوا سے پوچھ رہا تھا کدھر گیا
غل، ہر مکاں سے 'واہ' کا تا لامکاں اٹھا
ایسا جھکا کہ پھر نہ سرِ آسماں اٹھا
شعلہ علم کے نور سے اک ناگہاں اٹھا
جنگل میں دھوپ جل گئی کوسوں دھواں اٹھا
انسان کیسے جان جنوں کی نکل گئی
گاوِ زمیں یہ تڑپی کہ مچھلی اچھل پڑی
کچھ عقل سے سروں میں نہ بن آئی، گر پڑی
تسکین نے کہیں نہ جگہ پائی، گر پڑی
ہر سقفِ سینہ خوف سے تھرائی، گر پڑی
لرزے یہ طاقِ چشم کہ بینائی گر پڑی
قائم نہ دین لشکرِ کفار کا رہا
۔۔۔ ۔۔۔ وحدتِ غفار کا رہا
خیبر شکن کے لال کی آمد ہے صف شکن
گرتی ہے فوج فوج پہ، پڑتا ہے رن پہ رن
تیغِ خدا کی تیغ کا سایہ ہے تیغ زن
غلطاں کہیں قدم ہے، کہیں سر، کہیں بدن
نے حوصلہ، نہ بغضِ امامِ مبیں رہا
اب دل میں بھاگنے کے سوا کچھ نہیں رہا
آمد کی غلغلے سے پراگندہ ہوش ہیں
قبریں کفن سے مردوں کی پنبہ بگوش ہیں
گاہک اجل کے شامیِ ایماں فروش ہیں
بازار مثلِ شہرِ خموشاں خموش ہیں
پیدل جِلو میں خضر اور الیاس آتے ہیں
اک دھوم ہے حضرتِ عباس آتے ہیں
اب فرقِ روز و شب سپہِ شام کو نہیں
ہلنے کا ہوش گردشِ ایام کو نہیں
دنیا میں آبرو کسی صمصام کو نہیں
سُوفار کے لبوں پہ ہنسی نام کو نہیں
تیروں سے بے گریز نہ کچھ رن میں بن پڑی
ترکش میں آستین کی صورت شکن پڑی
 

حسان خان

لائبریرین
بڑھ کر کہا عمر نے وحیدِ زماں یہ ہے
ہم نامِ ذوالجلال کا نام و نشاں یہ ہے
ہاں لشکرِ خدا کا نمودی جواں یہ ہے
جعفر شکوہ، حمزۂ صاحب قِراں یہ ہے
سیفِ خدا خطاب ہے عباس نام ہے
یہ بازوئے حسین علیہ السلام ہے
عباس بولے مدح کے قابل امام ہیں
بھائی بھی اُن کے بس حسنِ سبز فام ہیں
باقی جو اور بھائی ہیں وہ سب غلام ہیں
وہ رہنما وہ قبلۂ ہر خاص و عام ہیں
گمراہ ہے تو دور ہو، جا اپنی راہ لے
ورنہ یہ ہے نبی کا علم، آ، پناہ لے
ذکرِ حسین حور و ملک کا وظیفہ ہے
تیرا خلیفہ طالبِ دنیائے جیفہ ہے
وہ ہے خلافِ حق یہ نبی کا خلیفہ ہے
وہ خود غلط ہے اور یہ خدا کا صحیفہ ہے
ناداں بتا! خدا کا شناسا نہیں حسین؟
لے تو ہی کہہ نبی کا نواسہ نہیں حسین؟
یہ رتبہ زر کے زور سے حاشا نہ ہوئے گا
ادنیٰ ہوا و حرص سے اعلا نہ ہوئے گا
فرعون جا کے طور پر موسیٰ نہ ہوئے گا
حکمت سے اپنی کوئی مسیحا نہ ہوئے گا
کس نے دی انگوٹھی رکوع و سجود میں
آیا نہ آیہ مثلِ علی مدح وجود میں
ہر سبز پوش خضر نہیں عز و جاہ میں
سرسبز حیدری ہیں جنابِ الٰہ میں
یوسف نہ ہوگا لاکھ گرے کوئی چاہ میں
دن رات کا ہے فرق سپید اور سیاہ میں
کوئی یتیم فاطمہ سا خوش گہر نہیں
ہر اک یتیم دُرِّ یتیم، اے عمر نہیں
چاہے زِرہ بنا کے جو داؤد کا وقار
واللہ، جعل ساز ہے، کیا اس کا اعتبار
ہر بخیہ گر نہ ہو کبھی ادریسِ نام دار
ہر ناخدا کو 'نوح' کہے گا نہ ہوشیار
کیا جاہلوں کے عیش کا سامان ہو گیا
بیٹھا جو تخت پر وہ سلیمان ہو گیا
گوسالے نے کیا تھا جو دعویٰ، تو کیا ہوا
کہہ تو ہی صدق کذب ہوا، بت خدا ہو؟
یوں ہی یزید بھی جو خلیفہ ہوا، ہوا
باطل نہ اُس سے حقِ امامِ ہُدا ہوا
جس طرح سے خدا کوئی غیر از خدا نہیں
یوں ہی بجز حسین امامِ ہُدا نہیں
وارث ہر اک نبی کا ہے یہ سیدِ جلیل
بیٹے کو ذبح کرنے لگے جس گھڑی خلیل
دنبہ ریاضِ خلد سے لے آئے جبرئیل
فدیہ ہوا ذبیح کا حیوانِ بے عدیل
نعلین اس کے پوست کی ہے شہ کے پاؤں میں
اور چتر حق کے سائے کی ہے دھوپ چھاؤں میں
قرآں ورق ورق سے سپر ہے حسین کی
چشمِ نبی زرہ ہے شہِ مشرقین کی
اور تیغِ تیز فاطمہ کے نورِ عین کی
ہے ذوالفقار فاتحِ بدر و حنین کی
اتری تو ہے زمین پہ عرشِ جلیل سے
پر کاٹنے کا حال کھلا جبرئیل سے
جس کی زمین عرش ہے وہ گھر ہمارا ہے
کرسی خدا کے نور کی منبر ہمارا ہے
ایماں ہے جس کی فرد وہ دفتر ہمارا ہے
مکتب ازل سے عرشِ منور ہمارا ہے
احمد مدینہ علم کے، در بوتراب ہے
اس باب میں حدیثِ رسالت مآب ہے
اپنی ولا سے فوق ملک پر ہے روح کو
ہم روحِ تازہ دیتے ہیں سام ابنِ نوح کو
حکمِ خدا سے قبض بھی کرتے ہیں روح کو
ہم کھولتے ہیں جنگ میں بابِ فتوح کو
فیصل ہوا ہے قول یہ خیبر کے قصے میں
آیا ہے لافتیٰ مرے بابا کے حصے میں
پہلے مصرعے میں روح= جبرئیل
لذت ملے گی حشر کے دن ان کلاموں کی
جس دم نکل پڑے گی زباں تشنہ کاموں کی
کوثر نبی کا ہو گا حکومت اماموں کی
سقائی ہم کریں گے علی کے غلاموں کی
آلِ رسول مالکِ روزِ حساب ہے
کیا قہر ہے انہیں کے لیے قحطِ آب ہے
یہ دن وہ ہیں تپش کے کہ سب رحم کھاتے ہیں
اکثر سبیلیں رکھتے ہیں، پانی پلاتے ہیں
پردیسیوں کو سائے میں لا کر بٹھاتے ہیں
یاں اپنے مہمانوں سے پانی چھپاتے ہیں
ہے ہے قلق یہ ہوں چھ مہینے کی جان کو
آنکھیں پھرا کے ہونٹوں پہ پھیرے زبان کو
اب بھی سمجھ خدا کے لیے، آ، جناں میں آ
دے پانی، لے بہشت، نہ جا نار میں، نہ جا
بیعت ہے ابنِ فاطمہ کی بیعتِ خدا
تیری بھلائی کے لیے کہتے ہیں، ہم کو کیا
سب خاک ہے، نہ زر نہ پسر کام آئیں گے
تربت میں بوتراب ہی آ کر بچائیں گے
بولا وہ منہ پھرا کے ۔ سنو اے گروہِ شام!
لو، ہم سے لینے آئے ہیں یہ بیعتِ امام
میں حُر نہیں کہ مان لوں۔ حاکم کا ہوں غلام
دنیا مجھے پسند ہے، ایمان کو سلام
بیعت یزید کی تو نہ شاہِ امم کریں؟
قدرت خدا کی، بیعتِ شبیر ہم کریں؟
یاں کان آشنا تھے کب اس بول چال سے
دیکھا لرز کے تیغ کو قہر و جلال سے
بھاگا چھپا کے روئے سیہ کو وہ ڈھال سے
بادل اٹھے نشانوں کے دشتِ قتال سے
تیغیں اُپی ہوئیں جو یکایک نکل پڑیں
بازو کی مچھلیاں سرِ بازو اچھل پڑیں
بڑھ کر نقیب بولے کہ ہاں، سرفروشو ہاں
شیرو، دلیرو، غازیو! تازی کی لو عناں
مرتے ہیں مرد نام پہ، نامرد بہرِ ناں
سنبھلے ہوئے، کہ سامنے ہے ہاشمی جواں
لینا نہ منہ پہ ڈھال کہ ہستی حباب ہے
دینا نہ آبرو کہ یہ موتی کی آب ہے
بولی یہاں رضائے خداوند ذوالجلال
بسم اللہ اے جنابِ امیرِ عرب کے لال
عدلِ خدا پکارا کہ خونِ عدو حلال
پنجہ بڑھایا مہرِ علی نے سوئے ہلال
قبضہ وفورِ شوق سے دو ہاتھ اچھل پڑا
قالب سے ماہِ نو کے مہِ نو نکل پڑا
نکلی غلافِ نور سے تفسیرِ جوہری
یا آ کے دست بوسِ سلیماں ہوئی پری
یا حجلے سے عروس نے کی جلوہ گستری
یا تھی یہ شاخِ میوۂ طوبیٰ ہری بھری
اس ہاتھ سے مرادیں تھیں جو جو وہ مل گئیں
باچھیں خوشی سے تیغ کے قبضے کی کھِل گئیں
شاخِ نیام سے ہوا اس طرح پھل جدا
پیروں کے قد سے جیسے جوانی کا بل جدا
ہستی جدا زمین پہ تڑپی، اجل جدا
خنجر جدا فلک پہ گرا اور زحل جدا
غل تھا کہ اب مصالحۂ جسم و جاں نہیں
لو تیغِ برق دم کا قدم درمیاں نہیں!
سایہ بھی صاف تیغ سے فوراً جدا ہوا
مطلب ملا کہ پانی سے روغن جدا ہوا
تنہا نہ رنگِ چہرۂ دشمن جدا ہوا
گردن سے سر، تو روح سے ہر تن جدا ہوا
پیہم صدا دلوں کے دھڑکنے کی آتی تھی
آوازِ بوق اٹھتی تھی اور بیٹھ جاتی تھی
سیدھی ہوئی جو تیغ تو لشکر الٹ گیا
میداں سے پاؤں، جینے سے دل سب کا ہٹ گیا
سب رو رہے تھے زور کو واں، سن بھی گھٹ گیا
مانندِ ناف خوف سے سینہ سمٹ گیا
بولی یہ تیغ دم سرِ اعدا پہ لوں گی میں
بُرّش پکاری تو بھی ٹھہرنے نہ دوں گی میں
پڑھتی ہوئی زبان سے وہ 'لا فتا' چلی
'روشن نگاہ' کہنے کو آگے قضا چلی
بائیں کو قہر داہنی جانب بلا چلی
بالکل چراغِ عمر ہوئے گل ہوا چلی
کہیے نہ تیغ دولھا کو برچھی لگائی تھی
ابنِ حسن کی آہ نے بجلی گرائی تھی!
پھل وزن میں تھا پھول، تجلی میں نخلِ طور
گرمی میں محض نار تو نرمی میں صاف نور
آسیب سایہ، چال پری، قبضہ چشمِ حور
خود لہر، آب زہر، تڑپ قہر، شور صور
یوں دفعتاً زمیں سے گئی آسمان پر
جس طرح غصہ آئے کسی ناتوان پر
تیغیں بڑھیں تو اور گھٹی شانِ اشقیا
دستِ سوال جیسے سب اعضا میں بدنما
الزام ان کی تیغ نے سب تیغوں کو دیا
گرمی سے اس کی سرد تھے اعدا کے دست و پا
جوہر کے خرمنوں پہ یہ مثلِ شرر گری
ہر تیغ پھلجڑی کی طرح چھوٹ کر گری
پھر تو پکار تھی یہ اِدھر، وہ اُدھر گرا
وہ نیمچہ، وہ ہاتھ، وہ خود، اور وہ سر گرا
بن بن کے برق، سایۂ تیغِ ظفر گرا
واں مورچے سے باپ اٹھا، یاں پسر گرا
گر گر کے سر یہ رن میں برابر تپاں ہوئے
جو رن میں سرزمین کے معنی عیاں ہوئے
اس تیغ سے تھا سارے زمانے میں ماہِ عید
روشن تھا پنجتن کے گھرانے میں ماہِ عید
آنے میں روزِ وعدہ تو جانے میں ماہِ عید
صائم کو تھا غذا کے کھلانے میں ماہِ عید
دل کے شکست ہونے سے روزے کا در کھلا
برسوں کے بعد روزۂ فتح و ظفر کھلا
مشکل ہے ابتدا بہ سکوں، سب کو ہے خبر
کلیہ یہ حسام نے باطل کیا مگر
ساکن بنائی زخم کے جِرموں سے سینِ سر
سب وقف پیشِ تیغ تھے، کیا زیر کیا زبر
آخر کی صف میں کچھ حَرَکَت آشکار تھی
سو بسملوں کی طرح وہ بے اختیار تھی
دینارِ تیغ رونقِ بازار ہو گیا
نادار اُس کے چلتے ہی زردار ہو گیا
اور دور مفلسی کا سب آزار ہو گیا
یہ آبِ تیغ شربتِ دیدار ہو گیا
صد پارہ رن میں قالبِ ہر بیدریغ تھا
اس تیغ میں یہ خوردۂ دینار تیغ تھا
آندھی تھی گرد، گھوڑے نے وہ خاک اڑائی تھی
دریائے تیغ نے نئی گرمی دکھائی تھی
آندھی نے آگ پانی کے اندر لگائی تھی
نعلوں کی بجلیوں سے ہر اک صف جلائی تھی
چل پھر سے اس کی تیغ کی جنبش زیاد تھی
کشتیِ تیغ کے لیے بادِ مراد تھی
چہروں پہ مردنی کی طرح تیغ چھا گئی
ہر استخواں میں مثلِ تپِ دق سما گئی
اعجازِ خاکساریِ حیدر دکھا گئی
مانندِ خاک ناریوں کے تن کو کھا گئی
سب کے گلوں سے ملتی تھی لیکن رکی ہوئی
جوہر یہ تھے کہ بوجھ سے تھی خود جھکی ہوئی
باطل کو حق سے، تیغ نے یوں کر دیا پرے
خورشید جیسے رات کو دن سے جدا کرے
خالی طرارے رخشِ جہندہ نے جو بھرے
میدان سے ہرن ہوئے روباہوں کے پرے
شعلہ جو اس کے مشعلِ سُم سے عیاں ہوا
کیا کیا چراغ پا فرسِ آسماں ہوا
آتے تھے جوڑ توڑ غضب تیغِ تیز کو
سر سے ملی جدا کیا پائے گریز کو
اپنے سے گرم دیکھ کے اس شعلہ ریز کو
برق و شرر نے نذر کیا جست و خیز کو
بو گل نے رنگ لالے نے سرعت ہوا نے دی
یہ ہدیہ کیا ہے اپنی نیابت قضا نے دی
قربان، فیضِ بازوئے شاہِ جلیل پر
ترجیح دستِ جود کو ہے سلسبیل پر
یوں فوج کا ہجوم تھا تیغِ اصیل پر
گرمی میں جیسے پیاسوں کا بلوہ سبیل پر
تازے خواص تیغِ رواں نے دکھا دیے
پانی کے بدلے پیاس کے تیور بجھا دیے
ڈوبی سپر میں گر کے نئی چال ڈھال سے
پاکھر کے بیچ میں نہ پڑی سیدھی چال سے
اٹھ کر زرہ میں آئی شکوہ و جلال سے
اک جال میں تڑپ کے گئی ایک جال سے
گذری جو چار آئینے سے منہ کو موڑ کے
غل تھا پری نکل گئی شیشے کو توڑ کے
سُکّانِ شام و کوفہ میں اک باخدا نہ تھا
ان کا سوائے قہرِ خدا ناخدا نہ تھا
مطلب بجز خلاصیِ جاں تیغ کا نہ تھا
ڈوبا وہی حسین سے جو آشنا نہ تھا
رنگِ سیہ کے اڑنے میں یہ امتیاز تھا
دریائے تیغ میں وہ دھویں کا جہاز تھا
بازو و دست و گردن و سر بہتے پھرتے تھے
گھوڑے اِدھر، سوار اُدھر بہتے پھرتے تھے
طائر تھے آشیانوں میں پر بہتے پھرتے تھے
سب سنگ دل تھے کوہ، مگر بہتے پھرتے تھے
نے مرتے تھے نہ جیتے تھے لیکن سسکتے تھے
بھیگے تھے مرغِ روح کے پر اڑ نہ سکتے تھے
قربانِ برق و بارقۂ تیغِ شعلہ تاب
موتی کی آب و تاب، سمندر کا پیچ و تاب
خود نوح، خود سفینہ و خود ماہی و خود آب
سرگوشیاں فرات میں کرنے لگے حباب
ظرفِ تنک میں تھی نہ جگہ اس کے آب کی
بندھتی تھی اور کھلتی تھی مٹھی حباب کی
ہے قاعدہ کہ بھرتا ہے پانی جو ناگہاں
دریا میں بیٹھ جاتی ہے ہر کشتیِ رواں
پر اس جہازِ تیغ کو خطرہ نہ تھا وہاں
عباس ناخدا تھے، علم شہ کا بادباں!
دریائے خوں تھا تیغِ سبک رو کی ناؤ پر
پر یوں رواں تھی جیسے کہ کشی بہاؤ پر
پوچھا فلک نے، امن و اماں زیرِ ناؤ ہے؟
آواز دی زمیں نے کہ 'تیرا ڈباؤ ہے'
اس نے کہا کہ تحتِ ثریٰ میں بچاؤ ہے؟
بولی: نمودِ سینۂ ماہی و گاؤ ہے
اس پوچھنے میں تیغ کا دریا جو بڑھ گیا
نو پُل فلک کے کیا ہیں کئی پُل پہ چڑھ گیا
کاٹا پلک میں آنکھ کو، پتلی میں نور کو
پاؤں میں کج روی کو سروں میں غرور کو
سینے میں بغض و کینہ کو دل میں فتور کو
نیت میں معصیت کو طبیعت میں زور کو
ذات اک طرف مٹا دیا بالکل صفات کو
کیسی زباں، زبان میں کاٹ آئی بات کو
جب سرکشوں پہ سایۂ تیغِ اجل پڑا
بالوں کی طرح ہوش سروں سے نکل پڑا
جھگڑا سر و قدم میں عجب بے محل پڑا
دونوں کی بے خودی پہ بدن خود اچھل پڑا
سر بھاگنے کو پائے سپاہِ عمر بنے
بچنے کی آرزو میں قدم اٹھ کے سر بنے
مردہ تھا سر میں ہوش، سراسیمہ سرفروش
سر قبر، خود گنبدِ قبرِ حواس و ہوش
بے جاں سلاحِ جنگ، پریشاں سلاح پوش
دم مارا تیغ نے نہ ہلایا سپر نے گوش
چلّایا کی کمان نہ تیر اک رواں ہوا
ڈھالوں کے پھول چلنے کا چالیسواں ہوا
روکی جو ڈھال اور بھی اندھیر چھا گیا
روزِ سیاہ شامیوں کے منہ پہ آ گیا
آخر بغیر بھاگے نہ ہرگز رہا گیا
اور نہرِ علقمہ میں یہ بحرِ سخا گیا
دریائے آبرو سے جو دریا کو بھر دیا
دُرِّ نجف نے بحر کو بحرین کر دیا
چلّو بھرا فرات سے سرکا کے آستیں
عبرت سے دیر تک اُسے دیکھا کیے وہیں
پھر لائے امتحاں کے لیے ہونٹوں کے قریں
سینے میں دل تڑپ کے پکارا، نہیں نہیں
گو مہرِ فاطمہ ہے پہ مجھ پر حرام ہے
وارث جو فاطمہ کا ہے وہ تشنہ کام ہے
پانی جو بے حسین کے منہ سے لگائے گا
ہے ہے وفا کا نام ابھی ڈوب جائے گا
اس وقت آبرو جو گئی پھر نہ پائے گا
یہ روز اب زمانے میں کاہے کو آئے گا
چلیے تو آبِ نہر سے کوثر بھی پاس ہے
جب ہاتھ کٹ گئے تو نہ فاقہ نہ پیاس ہے
غازی نے دل کے مشورے پر مرحبا کہا
دریا سے رو کے پیاسوں کا سب ماجرا کہا
کاندھے پہ مشک بھر کے دھری، 'یا خدا' کہا
چلتے ہوئے اجل نے پیامِ قضا کہا!
ہے ہے نصیب پیاسوں کا رستے میں پھر گیا
سقہ حرم کا فوج کے طوفاں میں گھر گیا
اکبر یہاں کھڑے تھے سنبھالے حسین کو
سمجھا رہے تھے دیکھنے والے حسین کو
اِن کی فغاں تھی 'بھائی بلا لے! حسین کو'
عباس آ گلے سے لگا لے حسین کو
تنہائی اپنے بھائی کی بھائی پسند کی
کوثر پہ آپ پہنچے ترائی پسند کی
بانو پکاری: ضامنِ عباس کو بلاؤ
لوگو کہو سکینہ سے لاؤ چچا کو لاؤ
انگلی پکڑ کر فضّہ کی سوئے فرات جاؤ
حضرت تڑپ رہے ہیں علم دار سے ملاؤ
بھیجا تھا کیوں جو اُن کو نہیں اب بلاتی ہو
عاشق ہو کیسی باپ کو اپنے رلاتی ہو
سہمی ہوئی سکینہ قریب آئی ننگے پا
ننھے سے ہاتھ جوڑ کے حضرت سے یہ کہا
میں جاؤں بابا جان؟ نہ آئیں اگر چچا
ضامن دیا ہے لو مجھے جھوٹا کریں گے کیا
ایسے تو وہ نہیں ہیں کہ وعدہ بھلائیں گے
فرما گئے ہیں نہر سے آگے نہ جائیں گے
شہ رو کے بولے: ٹوٹ پڑا ہم پہ آسماں
سچے ہیں بھائی، ٹھیک تمہارا بھی ہے بیاں
اچھا نہ آگے جائے گا حیدر کا وہ نشاں
کیا نہر پر اجل نہیں آ سکتی میری جاں
دریا پہ کون روکنے والا قضا کا ہے
دو لاکھ سے مقابلہ تیرے چچا کا ہے
یہ سن کے ہو گئی وہ سراسیمہ اور کہا
ہے ہے یہ اب کھلا مجھے بہلا گئے چچا
لائے کہیں صحیح و سلامت انہیں خدا
یوں روٹھوں میں کہ ان کو بھی معلوم ہو بھلا
مجھ کو بھی ضد ہے پیاس سے جاں اپنی دوں گی میں
پانی بھی ان کا لایا ہوا اب نہ لوں گی میں
یہ ذکر تھا کہ نہر سے ماتم کا غل اٹھا
نوحہ یہ تھا کہ 'وا ولَدِی وا مصیبتا'
اکبر لپٹ کے رونے لگے شہ سے اور کہا
دادا کی روح روتی ہے، مارے گئے چچا
ان کی عزا کا آپ بھی سامان کیجیے
شہ بولے چاک میرا گریبان کیجیے
ناگہ ندا یہ آئی: میں قربان یا حسین
آقا حسین، قبلۂ ارض و سما حسین
اے میرے وقتِ نزع کے حاجت روا حسین
اے جاں بلب غلاموں کے مشکل کشا حسین
ہچکی لگی ہے دم کو قرار ایک دم نہیں!
بالیں پہ میری آہ تمہارا قدم نہیں!
شہ نے کمر پکڑ کے کہا: ہائے بھائی جاں
جانا نہ بے ملے ہوئے ہم آئے بھائی جاں
اللہ تم تلک ہمیں پہنچائے، بھائی جاں
دھڑکا یہ ہے نہ غش کہیں آ جائے بھائی جاں
گو نورِ چشم تھامے ہوئے ہاتھ میرا ہے
اس پر بھی دونوں آنکھوں کے آگے اندھیرا ہے
اکبر کو ساتھ لے کے چلے شاہِ کربلا
یاں قبۂ خیام گرے ہِل کے جا بجا
دوڑی سکینہ ڈیوڑھی سے، اور رو کے دی صدا
ہے ہے ستم ہوا، ارے لوگو غضب ہوا
بابا سوئے فرات ابھی ننگے سر گئے
لو صاحبو، ہمارے چچا جان مر گئے
واں شہ کو نہر پر گہرِ مدعا ملا
پر لال خون میں وہ دُرِ بے بہا ملا
مچھلی کی طرح شیر تڑپتا ہوا ملا
آنکھیں عطش سے بند ملیں، منہ کھلا ملا
دیکھا کہ روحِ پاک سوئے حق رجوع ہے
رکتی ہے سانس موت کی ہچکی شروع ہے
یہ دیکھتے ہی آگے بڑھے اکبرِ جواں
بڑھنا تھا بس کہ ہو گئے کپڑے لہولہاں
دیکھا کہ دھار خون کی سینے سے ہے رواں
حضرت نے پوچھا: کیا ہے؟ کہا: کیا کروں بیاں
نوکِ سناں چچا کے جگر میں در آئی ہے
کیا بے جگہ کسی نے یہ برچھی لگائی ہے
لاشے پہ تھر تھرا کے گرے شاہِ نام دار
جھک کر کہا یہ کان میں ہو ہو کے برقرار
ہم دم، رفیق، دوست، وفادار، جاں نثار!
بازو، جگر، ضیائے بصر، رونقِ کنار
ہر زخم پر حسین فدا ہو، نثار ہو
آنکھوں کو کھولو، بات کرو ہوشیار ہو
سننا تھا یہ کہ ہونٹ علم دار نے ہلائے
شہ نے جو کان لب پہ دھرے تو سنا، یہ ہائے
چپکے سے کہہ رہے ہیں 'میں صدقے حضور آئے'
بچپن سے ناز آپ نے کیا کیا مرے اٹھائے
اپنا غلام کہہ کے پکارو تو بولیں ہم
آئی نہ ہو سکینہ تو آنکھوں کو کھولیں ہم
یہ کہہ کے بے کسوں کے مددگار مر گئے
حمزہ سدھارے جعفرِ طیار مر گئے
جبریل بولے حیدرِ کرار مر گئے
اب مصطفیٰ کے سارے علم دار مر گئے
مولا جدا نہ بھائی کے لاشے سے ہوتے تھے
شانوں کا خون چہرے پہ مل مل کے روتے تھے
مَل کر لہو جبیں پہ امامِ امم چلے
لاشے سے مڑ کے بولے کہ لو بھائی ہم چلے
اکبر اٹھا کے کاندھے پہ مشک و علم چلے
دو حشر سوئے خیمۂ اہلِ حرم چلے
سقے کو ڈھونڈتے ہوئے گھر میں پھرے حسین
پھر ہائے بھائی کہہ کے زمیں پر گرے حسین
بانو نے رو کے پوچھا علم دار کیا ہوئے
بولے تمہاری بیٹی پہ پیاسے فدا ہوئے
شبیر کے حقوق سب ان سے ادا ہوئے
ہم مبتلائے صدمۂ شرم و حیا ہوئے
اس بے کسی میں سوگ کا سامان کیا کریں
عباس کے یتیموں پہ احسان کیا کریں
اس نے کہا کہ سچ ہے نہ مقدور و نے وطن
موجود ہے سکینہ و اکبر کا پیرہن
عباس کے یتیموں کو بخشیں شہِ امم
پہنیں پدر کا خلعتِ ماتم وہ گل بدن
چادر کو پھاڑ کر کفنی اب بناتی ہوں
رنڈ سالہ اُن کی بیوہ کی خاطر میں لاتی ہوں
زیرِ علم بچھائی نبی زادیوں نے صف
بیوہ بھی آئی کہتی ہوئی 'یا شہِ نجف'
سر ننگے بیٹی اِس طرف اور بیٹا اُس طرف
ملبوس لائی بچوں کا بانوئے باشرف
یہ پیرہن تو سقے کی اولاد کے لیے
اور سادہ کپڑے بیوۂ ناشاد کے لیے
آئی نظر جو اکبرِ مظلوم کی قبا
تھرائی تڑپی بیوۂ عباسِ باوفا
اور دونوں ہاتھ جوڑ کے بانو سے یہ کہا:
ٹھہرو خدا کے واسطے، ہے ہے یہ کیا کیا
اکبر کے کپڑے خلعتِ ماتم میں دیتی ہو
زینب کھڑی ہیں ان سے نہیں پوچھ لیتی ہو
کیوں لائیں فرشِ سوگ پہ بن بیاہے کا لباس؟
زینب بھی بے حواس ہیں، لونڈی بھی بے حواس
وسواس ہے خوزادے کی جانب سے بے قیاس
میٹھا برس تو خیر، غضب ہے یہ بھوک پیاس
سب کنبہ اب تو جیتا ہے اکبر کی آس پر
صدقہ اتاروں بچوں کو میں اس لباس پر
خوزادے = شہزادے
اکبر پہ جو کہ آنی ہو میرے پسر پہ آئے
اللہ شاہزادے کا سہرا تمہیں دکھائے
کُرتی سکینہ جان کی اور میری بیٹی، ہائے
بس اب سدھاریے کہ مرا سایہ پڑ نہ جائے
پُرسے سے سرفراز نہ نہ فرمائیے مجھے
یہ سادے کپڑے آپ نہ پہنائیے مجھے
رو کر کہا یہ بانو نے اس نیک ذات سے
بس بس کلیجہ پھٹتا ہے ہر ایک بات سے
رنڈ سالہ پہنو فاطمہ کبریٰ کے ہات سے
یہ نامراد بیوہ ہے شادی کی رات سے
بیٹی حسین کی ہے بہو یہ حسن کی ہے
گھونگھٹ میں فکر دولھا کی خاطر کفن کی ہے
رو رو کے بین فاطمہ کبریٰ نے یہ کیے
ہے ہے دولہن بنی تھی میں ان کاموں کے لیے
بس اے دبیر خوب صلے نظم کے لیے
تائیدِ غیب کے ہیں نمونے یہ مرثیے
بحرِ رواں ہے یا کہ طبیعت ملی ہے یہ
سقائے اہلِ بیت کی دریا دلی ہے یہ
(مرزا سلامت علی دبیر)
 
مداح امیر ابن امیر آتا ہے
دربار میں شاہوں کے فقیر آتا ہے
مشتاق سخن ۔خلق چلی آتی ہے
لو مرثیہ پڑھنے کو دبیر آتا ہے۔
کیا کہنے دبیر کی فصاحت و بلاغت، منظر کشی ،جذبات و مکالمہ نگاری کے۔
بہت خوب حسان ۔بہت ہی عمدہ انتخاب ہے۔ بہت سی دعا آپ کے لیے بیٹے ۔جیتے رہیے۔
 
Top