حسان خان
لائبریرین
کس کا عَلَم حسین کے منبر کی زیب ہے
کسی جنتی کی مشک سے کوثر کی زیب ہے
لشکر ہے اُس کی زیب وہ لشکر کی زیب ہے
چہرے کی فرد مالکِ دفتر کی زیب ہے
رفعت علم کی کہتی ہے ہر عقل مند سے
سقے پہ پڑھ درود صدائے بلند سے
کس کے علم کے سائے سے طوبیٰ نہال ہے؟
سقہ ازل سے کون بہشتی جمال ہے؟
ہر ماہ کس قمر کا عروج و کمال ہے؟
وہ رشکِ بدر، حیدرِ صفدر کا لال ہے
کہتے ہیں شیعیانِ علی کہہ کے 'یا علی'
عباس میں ہے دبدبۂ مرتضیٰ علی
یہ اس کی بارگاہِ ملائک پناہ ہے
دربارِ حق میں جس کی محبت سے راہ ہے
فوجِ خدا گواہ، خدا بھی گواہ ہے
عباس، شیرِ بیشۂ شیرِ الٰہ ہے
تصویر ہے یہ فاتحِ بدر و حنین کی
شمشیر ہے خدا کی، سپر ہے حسین کی
کیوں حرفِ عین افسرِ عرشِ جلیل ہے؟
کیوں حرفِ با بہشتِ بریں میں دخیل ہے؟
کیوں اوجِ آسماں کی الف سے دلیل ہے؟
کیوں سین سربسر سندِ سلسبیل ہے؟
سب صورتوں سے حق نے فضائل دکھائے ہیں
عباس کے خطاب میں یہ حرف آئے ہیں
عرشِ بریں غبار ہے کس بارگاہ کا
مہرِ مبیں نگینہ ہے کس رشکِ ماہ کا
کس کا علم نشان ہے فضلِ الٰہ کا
کس کی وِلا چراغ ہے کوثر کی راہ کا
پھرتے ہیں کس کے دستِ بریدہ نگاہ میں
ڈوبے ہوئے ہیں پنجتنی کس کی چاہ میں
کس کے علم سے پنجۂ خورشید زرد ہے
یہ دھوپ کس کے مرقدِ انور کی گرد ہے
کس کی ضیا سے چاند کا بازار سرد ہے
چہرہ وہ ہے کہ دفترِ قدرت میں فرد ہے
ان کے سخن سے جوہرِ تیغ آشکار ہیں
خود سیفِ ذوالجلال ہیں، لب ذوالفقار ہیں
صلِ علیٰ، یہ شاہِ شہیداں کا بھائی ہے
مشکل کشائی آپ نے بابا سے پائی ہے
شانے نہیں پہ ہاتھ میں مشکل کشائی ہے
تیغِ خدا کے قبضے میں ساری خدائی ہے
سقائے شاہِ خشک لباں یہ دلیر ہے
دریائے آبرو کی ترائی کا شیر ہے
فولاد کی ضریح میں کس کا مزار ہے
نمگیرہ جس کا رحمتِ پروردگار ہے
باہم ضریح و قبر سے نور آشکار ہے
اِس کی بہار وہ ہے یہ اُس کی بہار ہے
قبر و ضریح سے ہے نمود آب و تاب کی
وہ آفتاب ہے یہ کرن آفتاب کی
تربت بھی اور ضریح بھی ہے نور سے بھری
صاحب مزار ماہِ بنی ہاشمی، جری
تربت پہ وہ ضریح مشبک نہیں دھری
اُترا ہے برجِ سنبلہ بہرِ مجاوری
کیا قبر نے ضریح کے رتبے بڑھائے ہیں
حور و ملک نے دیدۂ حق بیں چڑھائے ہیں
روضے کا فرش قدسیوں کی پاک دامنی
جھاڑوں سے دونوں وقت ہے دنیا میں روشنی
کیا جانے واں کی خاک ہے کس نور سے بنی
ہنگامِ صبح دھوپ، سرِ شام چاندنی
آتی ہے یہ ندا جو درِ روضہ وا کرو
خیبر کشا! محبوں کی حاجت روا کرو
روشن چراغ شمعوں سے عقل و شعور کا
پروانوں کے پروں میں پرا فوجِ حور کا
قندیل کہہ رہی ہے: میں ایماں ہوں طور کا
تربت کا یہ سبق ہے کہ سورہ ہوں نور کا
کیوں کر پڑھیں نہ معتقدِ خاص فاتحہ
الحمد کی ندا ہے بہ اخلاص فاتحہ
پیارے ستون و سقف ہیں عرشِ جلیل کو
جیسے عصا کلیم کو کعبہ خلیل کو
قُبّے کی تازگی سے حیا سلسبیل کو
سدرہ کی راہ بھولتی ہے جبرئیل کو
دبتا ہے چرخ گنبدِ انور کی شان سے
جس طرح پیر زور میں عاجز جوان سے
حاضر جو اس جناب کی درگاہ میں ہوا!
گھر اس کا شاہ کے دلِ آگاہ میں ہوا
جو غرق حبِ ابنِ ید اللہ میں ہوا!
نہرِ لبن سے بہرہ ور اس چاہ میں ہوا
قربان ہے عرش زائرِ مولا کی شان پر
سر آستان پر ہے قدم آسمان پر
ہونے کو تو جہان میں کیا کیا نہیں ہوا
پر حضرتِ حسین سا آقا نہیں ہوا
عباس سا حسین کا شیدا نہیں ہوا
سقہ شہید نہر پہ پیاسا نہیں ہوا
یہ آب و گِل میں حبِ شہِ نیک خو ملی
جتنی تھی پیاس اس کے سوا آبرو ملی
سقائیِ حسین کی مدت تمام ہے
پیاسی سکینہ ہے نہ شہِ تشنہ کام ہے
اب کیوں حضور کا لبِ دریا مقام ہے؟
درپیش اپنے خاص غلاموں کا کام ہے!
اب جو کنارہ کش نہیں دریا سے ہوتے ہیں
شیعہ گناہ کرتے ہیں عباس دھوتے ہیں
چشمِ کرم ہے شیعوں کے حالِ تباہ پر
جیسے خدا کی مِہر حسینی سپاہ پر
یوں بند ہے زبانِ سخن عذر خواہ پر
جیسے کھلا ہوا درِ توبہ گناہ پر
مشرق کا سکہ مِہر ہے مغرب کا ماہ ہے
دن رات اختیارِ سفید و سیاہ ہے
بے دست و پا کے کام سرِ دست آتے ہیں
پاؤں کے ناخنوں سے گرہ کھول جاتے ہیں
قاتل کو طُرفہ زورِ شہادت دکھاتے ہیں
شب کو اسے جَلاتے ہیں دن کو جلاتے ہیں
سب اُن کے اختیار سے بے اختیار ہیں
کیا کہیے اور قدرتِ پروردگار ہیں
کہتا ہے اک مجاورِ فرزندِ مرتضیٰ
شب کو بھی باریاب میں ہوتا تھا بارہا
اک شخص دفن صحنِ علم دار میں ہوا
اُس شب گیا جو روضے میں تو دیکھتا ہوں کیا
آ کر گرا وہ شعلہ کہ شورِ فغاں اٹھا
فانوسِ قبر جلنے لگی اور دھواں اٹھا
مردے نے پھر تو دھوم مچائی دُہائی ہے
اے حضرتِ حسین کے بھائی، دُہائی ہے
نارِ سقر جلانے کو آئی، دُہائی ہے
یاں بھی نجات ہم نے نہ پائی، دُہائی ہے
سقائے دخترِ شہِ ابرار، الغیاث
عباس الغیاث، علم دار الغیاث
اُس عارضِ سکینہ کی مولا تمہیں قسم
شمرِ لعیں کی جس پہ لگی سیلیِ ستم
اُس ناتواں کے واسطے، اے صاحبِ کرم!
جو بیڑیوں کے بوجھ سے گرتا تھا ہر قدم
مجھ سے فلک کے رنگ بدلنے کو دیکھیے
روضے کو اپنے اور مرے جلنے کو دیکھیے
کہتا تھا یہ کہ نار وہیں نور ہو گئی
زیرِ کفن جو آگ تھی کافور ہو گئی
فانوسِ قبر قمقمۂ طور ہو گئی
آئی ندا کہ خوش ہو بلا دور ہو گئی
ہم کو رلا دیا جو ترے شور و شین نے
تجھ کو بچا لیا مرے آقا حسین نے
کیوں مومنو! کہاں سے کہاں ہے یہ معجزہ
آیاتِ کبریا کا نِشاں ہے یہ معجزہ
عاجز کنندۂ دو جہاں ہے یہ معجزہ
دشمن بھی کہہ رہے ہیں کہ 'ہاں ہے یہ معجزہ'
عباس چاند ہیں شہِ بدر و حنین کے
لیکن یہ سارے جلوے ہیں حبِ حسین کے
دیکھی جہاں ضریح شہِ کم سپاہ کی
پہلو میں اس کے اُن کے علم پر نگاہ کی
شربت پہ ہے جو نذرِ شہِ دیں پناہ کی
حاضر ہے حاضری بھی علمدارِ شاہ کی
کچھ شیعہ 'یا حسین' بصد یاس کہتے ہیں
کچھ رو کے 'ہائے حضرتِ عباس' کہتے ہیں
وہ رازِ حق، تو سینۂ مشکل کشا یہ ہیں
علمِ خدا وہ ہیں، تو دلِ مرتضی یہ ہیں
حسنِ قبول وہ ہیں، علی کی دعا یہ ہیں
عیسیٰ گواہ ہیں کہ شفا وہ، دوا یہ ہیں
غازی کے سر پہ شاہِ حجازی کے ہاتھ ہیں
حق ہے علی کے ساتھ، علی حق کے ساتھ ہیں
بچپن سے تھے یہ عاشقِ سلطانِ مشرقین
طاعت خدا کی جانتے تھے طاعتِ حسین
آقا کے دیکھنے کو سمجھتے تھے فرضِ عین
اور بے طوافِ کعبۂ رخ، دل کو تھا نہ چین
جھکنا قدم پہ شاہ کے معراج تھی اُنہیں
نعلینِ ابنِ فاطمہ سرتاج تھی اُنہیں
لیتے تھے اٹھتے بیٹھتے شبیر کا جو نام
ہنس ہنس کے اُن سے والدہ کرتی تھی یہ کلام
تم کون ہو حسین کے؟ یہ کہتے تھے، غلام
وہ پوچھتی تھی، کچھ سند اے عاشقِ امام!
قیمت میں کیا دیا ہے شہِ مشرقین نے
کتنے کو - واری - مول لیا ہے حسین نے
یہ کہتے تھے: غلام بھی حاضر جواب ہے
اس بات کی حضور، نہیں دل کو تاب ہے
دعویٰ تمہیں بتول سے کیا اے جناب ہے؟
کہتی ہو، میری بی بی وہ عفت مآب ہے
آقا ہے یہ مرا جو وہ بی بی تمہاری ہے
قیمت جو آپ کی وہی قیمت ہماری ہے
بے ساختہ لپٹ کے وہ کہتی تھی 'مرحبا'
کیا ڈھونڈ کر جواب دیا، واری، واہ وا
تیوری نہ اب چڑھائیے، بس غصہ ہو چکا
کچھ خیر ہے میں ہنستی تھی، تم ہو گئے خفا
شفقت رہے مُدام شہِ مشرقین کی
روزی نصیب تم کو غلامی حسین کی
اب روئیں مومنین کہ شبیر روتے ہیں
نامی جواں تو گنجِ شہیداں میں سوتے ہیں
بچے تمام پیاس سے جاں اپنی کھوتے ہیں
اور اب جدا حسین سے عباس ہوتے ہیں
خالی رفیق و یار سے ہے پہلوئے حسین
کس وقت توڑتی ہے اجل بازوئے حسین
آرام جانِ فاطمہ اب بے قرار ہے
رو دیتے ہیں، کچھ اور نہیں اختیار ہے
اتنا ہی غم ہے جتنا کہ بھائی کا پیار ہے
پھر ماتمِ علیِ ولی رُو بَکار ہے!
حضرت کو موت ان کی جدائی کا داغ ہے
یہ داغ اور کا نہیں بھائی کا داغ ہے
پوچھو علی کی روح سے یہ حالِ دردناک
کیسا کفن، جگر ہے امیرِ عرب کا چاک
اب تک نجف میں کانپ رہا ہے مزارِ پاک
کہتے ہیں انبیائے سَلَف یہ اڑا کے خاک
عباس نام ناموری داشتی چہ شد؟
یا مرتضی علی! پسری داشتی چہ شد؟
جب رن میں گل چراغِ مزارِ حسن ہوا
یعنی شہید قاسمِ گل پیرہن ہوا
رختِ شہانہ لاش کی خاطر کفن ہوا
حجلہ دولہن کے واسطے بیت الحزن ہوا
غل تھا اُدھر تو دولہا کو مہمان روتے ہیں
یاں شاہ سے وداع علمدار ہوتے ہیں
ہوتا ہے بے پسر پدرِ شیعیانِ پاک
کیسا کفن، جگر ہے امیرِ عرب کا چاک
چھپتا ہے چاند ہاشمیوں کا بزیرِ خاک
افلاک پر ہے فاطمہ کی آہِ دردناک
واں عرش ہل رہا ہے فغانِ حسین سے
یاں حشر ہے حسینیوں کے شور و شین سے
تصویرِ خاصِ حیدرِ کرار مٹتی ہے
تفسیرِ نورِ خالقِ غفار مٹتی ہے
لشکر کے بعد شکلِ علمدار مٹتی ہے
شیعوں کے بادشاہ کی سرکار مٹتی ہے
افسوس، جس کی مادرِ بیوہ وطن میں ہے
باری اب اُس جوان کے مرنے کی رن میں ہے
تمہید شہ سے بہرِ اجازت اٹھائی ہے
جوڑے ہیں ہاتھ، پاؤں پہ گردن جھکائی ہے
یوں حرف زن وہ فدیۂ حق کا فدائی ہے
سب مر چکے غلام کی باری اب آئی ہے
کوثر دیا شہیدوں کو مولا ہمیں بھی دو
اک قبر کی جگہ لبِ دریا ہمیں بھی دو
سوکھے ہیں ساتویں سے لبِ شاہِ بحر و بر
ہوتا ہے خون خشک مرا دیکھ دیکھ کر
آنکھیں ملا کے کہتے ہیں خادم سے بدگہر
سقائے اہلِ بیت ہو تو آؤ نہر پر
تم بھی فقط زبان سے قربان جاتے ہو
پانی نہیں امام کو اپنے پلاتے ہو؟
دیکھی ہیں جاں نثار نے آنکھیں حضور کی
چشمک زنی اٹھے گی نہ اہلِ غرور کی
حالت ہے اب تباہ دلِ ناصبور کی
آیندہ جو رِضا ہو امامِ غیور کی
گو بے کفن ہے بھائی ہر اک اس غلام کا
پر مجھ کو غم ہے خشکیِ حلقِ امام کا
صِفّین میں بھی گھیرے تھے یہ نہر خود پسند
فوجِ معاویہ لبِ دریا تھی بہرہ مند
مشکل کشا کی فوج پہ آبِ رواں تھا بند
تھی مورچوں سے 'وا عطشاء' کی صدا بلند
پر مضطرب نہ والدِ عالی صفات تھے
اصغر سے ننھے بچے نہ بابا کے سات تھے
طاقت دکھائی آپ نے زہرا کے شِیر کی
دیکھی گئی نہ پیاس جنابِ امیر کی
سقائی کی سپاہِ شہِ قلعہ گیر کی
الٹیں صفیں جناب نے فوجِ شریر کی
بابا کو لا کے نہر سے پانی پلا دیا
سب مر چکے تھے پیاس سے تم نے جِلا دیا
آقا نے میرے حقِ پدر یوں ادا کیا
فرمائیے، غلام نے حضرت سے کیا کیا
فدوی کو پال پوس کے تم نے بڑا کیا
بابا کے آگے بھی تمہیں 'بابا' کہا کیا
میں جانتا ہوں قبلۂ کونین آپ کو!
اور دیکھتا ہوں پیاس سے بے چین آپ کو
اصرار کر کے آپ نے بابا سے لی رضا
میں بار بار عرض کروں یہ مجال کیا
جو ناز کرتے آپ علی سے وہ تھا بجا
سبطِ نبی ہو اور پسرِ اشرف النسا!
پڑھتا ہوں کلمہ آپ کے میں نانا جان کا
ہے فرق مجھ میں تم میں زمیں آسمان کا
پانی ہے جب سے بند مجھے انفعال ہے
کہتا ہوں دل سے صبر کر اب انفصال ہے
حضرت کو آبرو کا مری خود خیال ہے
اب بھی مُصِر نہیں ہوں فقط عرضِ حال ہے
یوں فوج کو نہ کوئی علمدار روئے گا
ایسا بھی واقعہ نہ ہوا ہے نہ ہوئے گا
صِفّین میں جو پیاسے شہِ ذوالفقار تھے
منہ اُن کا دیکھ دیکھ کے آپ اشکبار تھے
پھرتے تھے آس پاس بہت بے قرار تھے
عباس کی طرح سے نہ بے اختیار تھے
اپنا ہی سا ہر ایک کا دل جان لیجیے
اب تو غلام کا بھی سخن مان لیجیے!
تم باپ کی جگہ ہو یہ خادم پسر کی جا
صفین کا وہ دشت تھا یہ دشتِ کربلا
واں اک معاویہ تھا، یہاں لاکھ اشقیا
واں ابتدا تھی پیاس کی اور یاں ہے انتہا
شامی وہی ہیں اور وہی نہرِ فرات ہے
انصاف اب غلام کا آقا کے ہات ہے
رو کر کہا حسین نے: دریا پہ جاؤ گے؟
عباس پانی لاؤ گے، ہم کو پلاؤ گے!
واللہ بھائی داغِ جوانی دکھاؤ گے
ہم آئے تھے فرات سے پر تم نہ آؤ گے
سمجھو تو خیمہ کیوں لبِ دریا سے اٹھ گیا
پانی مرے نصیب کا دنیا سے اٹھ گیا
صفین میں گیا تھا جو دریا پہ میں حزیں
بابا بھی میرے بے کس و تنہا تھے کیا یونہیں؟
حیدر کو میرے پانی کے لانے کا تھا یقیں
ہم کو تو آس آپ ہی کے آنے کی نہیں
یہ جان لو جدا جو ہوئے تم تو ہم نہیں
کٹنے سے سر کے ٹوٹنا بازو کا کم نہیں
بھائی! جدائی بھائی کی، بھائی کی ہے قضا
بن ہاتھ کا کرے نہ کسی بندے کو خدا
اکبر عصا ہے میری ضعیفی کا، یہ بجا
پر ہاتھ ہی نہ ہوں گے تو بے کار ہے عصا
کس درد سے جگر کا مرے سامنا ہوا
دشوار اب حسین کو دل تھامنا ہوا
خیمے کے ایک گوشے میں یہ حشر تھا بپا
اور سن رہی تھی چپکی سکینہ یہ ماجرا
مولا جو چپ ہوئے تو پکاری وہ مہ لقا
اے لوگو! یاں تو آؤ کہ یہ گفتگو ہے کیا
دریا کے آنے جانے کے کچھ ذکر ہوتے ہیں
اے لو، چچا بھی روتے ہیں بابا بھی روتے ہیں
شہ سے کہا: چچا کو نہ آنسو بہانے دو
اچھا تو کہتے ہیں، انہیں دریا پہ جانے دو
پانی حضور کے لیے لاتے ہیں لانے دو
غصے کی آنکھ اہلِ ستم کو دکھانے دو
پانی جو آپ کے لیے عباس لائیں گے
صدقہ تمہارا ہم بھی کوئی گھونٹ پائیں گے
میں بیچ میں پڑوں جو یہ ضامن کسی کو دیں
ضامن جو دیں تو روحِ جنابِ علی کو دیں
ایسا نہ ہو کہ رنج یہ میری چچی کو دیں
عباس بولے: آپ تسلی یہ جی کو دیں
مولا بھی ہیں حسین مرے اور امام بھی
آقا کو بھول جاتا ہے کوئی غلام بھی
صدقے چچا، نثار چچا التجا کرو
کچھ تو سفارش اور برائے خدا کرو
حضرت سے جو کہا تھا ابھی پھر ادا کرو
حاجت روا کی پوتی ہو، حاجت روا کرو
ضامن چچا کے آنے کی ہوتی ہو کیوں نہ ہو
حلّالِ مشکلات کی پوتی ہو کیوں نہ ہو
لے لو قسم فرات سے آگے نہ جائیں گے
اور جائیں گے تو کیا شہِ دیں لے نہ آئیں گے
دل میں کہا امام نے ہاں لاش لائیں گے
پر کیوں کر ایسے شیر کا مردہ اٹھائیں گے
حضرت نے اس خیال میں دریا بہا دیا
عباس کو سکینہ نے مشکیزہ لا دیا
رو کر پکارے عترتِ اطہار، الوداع!
عباس الوداع، اے علم دار الوداع
اے زیبِ پہلوئے شہِ ابرار! الوداع!
اے نام دارِ حیدرِ کرار، الوداع!
جعفر کی روح آپ کے لاشے پہ روئے گی
ہے ہے اب اس علم کی زیارت نہ ہوئے گی
زینب نے بڑھ کے کان میں سقے کے کچھ کہا
سنتے ہی بہرِ سجدہ جھکا ابنِ مرتضیٰ
زینب سے پوچھنے لگیں رانڈیں جدا جدا
ہم سے بھی کہہ دو، بھائی سے ارشاد کیا کیا؟
بانچھیں خوشی سے کھل گئیں اس باتمیز کی
بولو! قسم حسین کی جانِ عزیز کی
رو کر کہا یہ زینبِ عالی مقام نے
ام البنین پھرتی ہے آنکھوں کے سامنے
یثرب سے جب کہ کوچ کیا تھا امام نے
کی تھی سفارش اِن کی یہ اُس نیک نام نے
جب مشک یہ اٹھائیں سبک دوش کیجیو
میری طرف سے دودھ مرا بخش دیجیو
لوگو گواہ رہیو کہ تم سب کے سامنے
اُن کا سخن ادا کیا مجھ تشنہ کام نے
کھوئے حواس بیبیوں کے اِس کلام نے
پردہ اٹھایا بازوئے شاہِ انام نے
جھک کر ہلال برجِ فلک سے نکل گیا
نورِ نگاہ تھا کہ پلک سے نکل گیا
عباس جب کہ جانبِ باغِ جناں چلے
شانے پہ لاکھ شان سے رکھ کر نشاں چلے
زوجہ نے پوچھا: اے مرے والی، کہاں چلے؟
بولے: جہاں سے اب نہ پھریں گے، وہاں چلے
اب آخری وداع کی باری نہ آئے گی
آئی ہے سب کی لاش ہماری نہ آئے گی
عباس سے سنا جو یہ اس تشنہ کام نے
دنیا سیاہ ہو گئی آنکھوں کے سامنے
اک آہ کی کمر کو پکڑ کر امام نے
پردہ اٹھایا بازوئے شاہِ انام نے
جھک کر ہلال برجِ فلک سے نکل گیا
نورِ نگاہ تھا کہ پلک سے نکل گیا
پاسِ ادب سے مجرے کو سب دور دور آئے
عفوِ قصور کے لیے کبر و غرور آئے
غل پڑ گیا، جِلَو کے لیے فوجِ نور آئے
ہاں لاؤ مرکبِ دورکابہ، حضور آئے
آیا سجا سجایا تگاور جناب کا!
پاکھر کرن کے تاروں کی، زین آفتاب کا
پابوسی کو رکاب کا حلقہ وہاں بنا
اور اُس دہن میں پائے مبارک زباں بنا
پھر آستانِ خانۂ زین آسماں بنا
عرشِ جلیل زینِ تجلی نشاں بنا
آنسو مگر نہ تھمتا تھا اُس راہوار کا
یعنی مجھی پہ آئے گا لاشہ سوار کا
انگلی سے لکھ کے گردنِ توسن پہ 'یا علی'
اک جست میں سوار ہوا حق کا وہ ولی
فی الفور نور و طور کے معنی ہوئے جلی
بجلی جلانا بھول کے خود رشک سے جلی
ٹھنڈی ہوئی ہوا جو یہ گرمِ عناں ہوا
صرصر کی سانس رک گئی جب یہ رواں ہوا
رکھنے لگا جو ہاتھ تصور عنان پر
بگڑا بنا کے منہ کہ نہ کھیل اپنی جان پر
بولی زمیں 'کدھر'؟ تو کہا 'آسمان پر'
پوچھا جو آسماں نے، کہا، 'لامکان پر'
یہ کہہ کے فکر و وہم کی حد سے گذر گیا
سایہ ہوا سے پوچھ رہا تھا کدھر گیا
غل، ہر مکاں سے 'واہ' کا تا لامکاں اٹھا
ایسا جھکا کہ پھر نہ سرِ آسماں اٹھا
شعلہ علم کے نور سے اک ناگہاں اٹھا
جنگل میں دھوپ جل گئی کوسوں دھواں اٹھا
انسان کیسے جان جنوں کی نکل گئی
گاوِ زمیں یہ تڑپی کہ مچھلی اچھل پڑی
کچھ عقل سے سروں میں نہ بن آئی، گر پڑی
تسکین نے کہیں نہ جگہ پائی، گر پڑی
ہر سقفِ سینہ خوف سے تھرائی، گر پڑی
لرزے یہ طاقِ چشم کہ بینائی گر پڑی
قائم نہ دین لشکرِ کفار کا رہا
۔۔۔ ۔۔۔ وحدتِ غفار کا رہا
خیبر شکن کے لال کی آمد ہے صف شکن
گرتی ہے فوج فوج پہ، پڑتا ہے رن پہ رن
تیغِ خدا کی تیغ کا سایہ ہے تیغ زن
غلطاں کہیں قدم ہے، کہیں سر، کہیں بدن
نے حوصلہ، نہ بغضِ امامِ مبیں رہا
اب دل میں بھاگنے کے سوا کچھ نہیں رہا
آمد کی غلغلے سے پراگندہ ہوش ہیں
قبریں کفن سے مردوں کی پنبہ بگوش ہیں
گاہک اجل کے شامیِ ایماں فروش ہیں
بازار مثلِ شہرِ خموشاں خموش ہیں
پیدل جِلو میں خضر اور الیاس آتے ہیں
اک دھوم ہے حضرتِ عباس آتے ہیں
اب فرقِ روز و شب سپہِ شام کو نہیں
ہلنے کا ہوش گردشِ ایام کو نہیں
دنیا میں آبرو کسی صمصام کو نہیں
سُوفار کے لبوں پہ ہنسی نام کو نہیں
تیروں سے بے گریز نہ کچھ رن میں بن پڑی
ترکش میں آستین کی صورت شکن پڑی