کرے کوئی اور بھرے کوئی کے سلسلے کو ختم کریں

زیرک

محفلین
کرے کوئی اور بھرے کوئی کے سلسلے کو ختم کریں
کل سے خبریں چل رہی ہیں کہ حکومت بجلی و گیس کے فی یونٹ نرخوں میں اضافہ کرنے جا رہی ہے۔ قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ آئی ایم ایف کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ غریب طبقہ پہلے ہی یوٹیلیٹی بلوں میں ایڈجسٹمنٹ کے خنجر سے ذبح کیا جا رہا ہے، جہاں وہ مراعات یافتہ طبقے کے بلوں، چوری ہونی والی بجلی کی مد میں مجرمانہ ٹیکس کی زد میں ہے۔میں مانتا ہوں کہ ملک مشکل معاشی حالت میں ہے لیکن کیا یہ نہیں کیا جا سکتا کہ کم از کم دو سال کے لیے مراعات یافتہ طبقے سے بھی مفت کے استعمال کی بجلی، گیس، ٹیلی فون اور ڈیزل و پٹرول کا بل لیا جائے؟ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ جلائے، اڑائے کوئی اور بل بھرائے کوئی۔ خدارا" کرے کوئی اور بھرے کوئی" کے غیر قانونی، غیر اخلاقی و غیر اسلامی غاصبانہ و ناجائز حق کو یکسر ختم کریں۔اصولاً تو ایسا ہمیشہ کے لیے ہونا چاہیے لیکن اگر ہمیشہ کےایسا نہیں کرنا چاہتے تو اگلے دو تین سال کے لیے انہیں یہ سب بلز دینے پر پابند کیا جائے تاکہ عوام کے سر سے یہ تلوار ہٹے، یہ ہٹ گئی تو وہ کم پیسے میں بھی گزارا کر پائیں گے اور آئندہ کچھ عرصے کے لیے قدرے بہتر حالات میں زندگی گزار سکیں گے۔ بجلی و گیس کے مفت استعمال پر پابندی ہونی چاہیے، چوری کو روکنے کے لیے اداروں کا پابند کریں، ادارے اپنا ٹارگٹ پورا کرنے میں ناکام ہوں گے تو وہ کوئی حکومت کے سسرالی تو نہیں، ناکام افراد کا حکومتی اداروں میں کیا کام؟ انہیں نکال باہر کریں اور اہل افراد کو لے کر آئیں۔ ان کو دفتروں میں بیٹھنے کے لیے تو ملازم نہیں رکھا گیا کہ مفت کی بجلی، گیس اور فون استعمال کریں، سفر کریں تو ڈیزل، پٹرول مفت جلائیں، بل حکومت اور بعد میں عوام ادا کریں، یہ کون سا انصاف ہوا؟ اس کے علاوہ بھی دیگر سہولیات ہیں، جیسے مفت کی تعلیم اور علاج معالجہ، چلیں مفت کی تعلیم جاری رہنے دیں، علاج تو کبھی کبھار ہوتا ہو گا، اسے بھی رہنے دیں لیکن جو بھی مفت کی بجلی، گیس، فون، ڈیزل اور پٹرول استعمال کرے، دنیا کے باقی افراد کی طرح اس کا بل ادا کرے۔ سرکاری اداروں میں بھی بجلی ، گیس اور فون کے استعمال کی ایک حد مقرر کی جانی چاہیے۔ سوائے سرکاری استعمال کے پٹرول و ڈیزل کا کوٹا بند ہونا چاہیے۔ جب مشکل وقت ہوتا ہے تو قوم مل کر قربانی دیتی ہے، یہ کیا کہ معاشرے کی سب سے پِسے ہوئے طبقے سے ہی قربانی مانگی جائے۔ بات مانگنے کی کہاں رہی ہے؟ چھری حکومتی قصائی کے ہاتھ میں ہوتی ہے، قصائی اپنے اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے کمزور بکری کو ہی ذبح کرتا آ رہا ہے۔ اس سلسلے کو اب بند ہو جانا چاہیے، یہ سلسلہ نہ رکا تو میں چند دوستوں کے ساتھ رابطوں میں ہوں، جیسے ہی سبھی دوست کسی بات پر متفق ہوتے ہیں تو انشاءاللہ ایٖڈجسٹمنٹ کے ظالمانہ غنڈہ ٹیکس کے خلاف ایک مشترکہ لائحۂ عمل اپناتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک عدد رٹ پٹیشن دائر کی جائے گی تاکہ عوام کے سر سے یہ عذاب ٹلے۔
 
Top