کراچی کے ریستورانوں اور بیکریوں کی آمدنی جانچنے کیلیے سافٹ ویئر کے استعمال کا فیصلہ

جاسم محمد

محفلین
کراچی کے ریستورانوں اور بیکریوں کی آمدنی جانچنے کیلیے سافٹ ویئر کے استعمال کا فیصلہ
بزنس رپورٹر 2 گھنٹے پہلے
1734251-fbrsoftwearinstallonbakriesandresturantescashcounter-1562516510-306-640x480.jpg

ریسٹورنٹ اور بیکریوں نے سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم ہوکر 7.5 فیصد ہونے کے باوجود قیمتوں میں مزید اضافہ کیا (فوٹو: فائل)

کراچی: شہر قائد کے ریستوران اور ہوٹلز بھی ایف بھی آر کے ریڈار پر آگئے، ایف بی آر نے ان کی آمدنی جانچنے کے لیے کیش کاؤنٹر پر جدید سافٹ ویئر انسٹال کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس کے مطابق عوام سے سیلز ٹیکس وصول کرکے منافع خوری کرنے والے ریسٹورنٹس کی نگرانی کے لیے جدید سافٹ ویئر سسٹم استعمال کیا جائے گا، ایف بی آر نے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کی نگرانی کے لیے ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں کے بلنگ اور کیش سسٹم سے منسلک سافٹ ویئر کراچی کے ہوٹلوں اور ریستورنوں میں انسٹال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یکم جولائی سے ریسٹورنٹ اور بیکریوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے 7.5 فیصد کردی گئی ہے تاہم ریسٹورنٹس اور بیکریوں نے یہ کمی عوام کو منتقل کرنے کے بجائے قیمتوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اس سے قبل بھی ریسٹورنٹس عوام سے 17 فیصد سیلز ٹیکس اور صوبائی ٹیکسز وصول کرتے رہے ہیں لیکن انہیں قومی خزانے میں جمع نہیں کرایا۔

اب ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے یومیہ بنیادوں پر ریسٹورنٹس کی سیلز کا ڈیٹا مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے جدید سافٹ ویئر استعمال کیا جائے گا۔ اس طرز کا سافٹ ویئر اسلام آباد کے ہوٹلوں میں بھی استعمال کیا جارہا ہے جس سے بہتر نتائج حاصل ہوئے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ اس تجربہ کو کراچی میں بھی دہرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ان لائن مینجمنٹ سافٹ ویئر سے ریسٹورنٹس کی ٹیکس چوری روکنے میں مدد ملے گی۔ ایف بی آر کا مینجمنٹ سافٹ ویر ریسٹورنٹس کے کمپیوٹرز میں انسٹال ہوگا۔

ایف بی آر حکام کے مطابق سافٹ ویر تنصیب سے اصل فروخت پر صحیح ٹیکس کا اندازہ ہوگا، ٹیکس چوری کرنے والے ریسٹورنٹس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے 600 سرفہرست ریسٹورنٹس کی فہرست مرتب کرلی گئی ہے جن سے فروخت کا ڈیٹا حاصل کرنے کے ساتھ ان ہوٹلوں بیکریوں اور ریستورانوں کو مرغی، گوشت، سبزیاں، مسالہ جات اور دیگر لوازمات سپلائی کرنے والے سپلائرز کا بھی ڈیٹا حاصل کیا جائے گا تاکہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جاسکے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یکم جولائی سے ریسٹورنٹ اور بیکریوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے 7.5 فیصد کردی گئی ہے تاہم ریسٹورنٹس اور بیکریوں نے یہ کمی عوام کو منتقل کرنے کے بجائے قیمتوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اس سے قبل بھی ریسٹورنٹس عوام سے 17 فیصد سیلز ٹیکس اور صوبائی ٹیکسز وصول کرتے رہے ہیں لیکن انہیں قومی خزانے میں جمع نہیں کرایا۔
اب بھی اگر کوئی یہ کہے کہ مہنگائی سرکاری بجٹ میں اضافی ٹیکسز لگانے کی وجہ سے ہوتی ہے تو اسے اپنا علاج کسی اچھے سے ڈاکٹر سے کروانا چاہئے۔
اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت ٹیکسس میں کمی لا رہی ہے ان میں اضافہ کر رہی ہے۔ دکاندار بہر صورت قیمتیں بڑھادیتے ہیں اور اضافی ٹیکس سرکاری خزانہ میں جمع بھی نہیں کرواتے۔ یوں سرکار اور عوام دونوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ جبکہ مہنگائی کا سارا غبار حکومت پر ہی گرتا ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اچھی بات ہے، اگر حکومت کی توجہ اس طرح کے معاملات پر بھی ہے۔
ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور ٹیکس چوری ہے۔ یہ چونکہ کبھی حل نہیں کیا گیا یا کوشش نہیں کی گئی۔ اس لئے سرکار چلانے کیلئے ہر آنے والی حکومت کوکبھی آئی ایم ایف تو کبھی ورلڈ بینک سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ جو اب بڑھتے بڑھتے 30 ہزار ارب روپے یا کل جی ڈی پی کے 80 فیصد تک جا پہنچے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ یا تو قوم پورا ٹیکس ادا کر کے ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرے گی۔ یا مزید بیرونی قرضے لے کر واپس نہ کرنے کی سکت رکھنے پر دیوالیہ ہو جائے گی۔ اور یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دیوالیہ ہونے کے بعد روپے کی قدر کا کیا حشر نشر ہوگا۔ اس کے لئے زمبابوے اور ونیزویلا کی اقتصادی تاریخ کافی ہے۔
 
Top