کراچی: پسماندگی سے ترقی اور پھر تنزلی کا سفر

جاسم محمد

محفلین
کراچی: پسماندگی سے ترقی اور پھر تنزلی کا سفر
مختار احمد پير 2 ستمبر 2019
1794994-karachitaraqisaytanuzli-1567405227-260-640x480.jpg

کراچی ماضی کی طرح ایک بار پھر گندے شہر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کراچی ماں کی وہ ٹھنڈی آغوش ہے جس نے مختلف اقوام اور مذاہب کے لوگوں کو نہ صرف اپنی گود میں پناہ دی بلکہ اپنی شفقت، محبت کے سائے تلے انہیں پروان چڑھا کر ایک تناور درخت کا روپ دیا۔ ان اقوام میں عرب، مغل، ترخان، کلہوڑو، تالپور بھی شامل ہیں، جنہیں اس شہر نے نہ صرف حاکمیت دی بلکہ ان کےلیے ترقی کے مختلف دروازے کھول دیئے۔ مگر جس شہر نے ان اقوام کو عزت، شہرت، دولت عطا کی اس شہر کو انہوں نے کچھ نہیں دیا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ شہر عرصہ دراز تک پسماندہ بستی کے مناظر پیش کرتا رہا۔

برطانوی فوج کے قبضے سے پہلے فوج میں شامل کیپٹن نیل نے اپنے دورے کے بعد کچھ اس طرح کراچی کی داستان رقم کی۔ کراچی انتہائی گندہ اور پسماندہ شہر ہے، جس کی آبادی لگ بھگ 10 ہزار ہے، جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے، جو کہ انتہائی غیر مہذب اور ناشائستہ ہیں۔ لوگوں نے یہاں رہائش کےلیے مٹی کے لوندوں، کچی اینٹوں سے چھوٹے چھوٹے گھر بنا رکھے ہیں، جبکہ فصیل شہر کے اندر کچھ جھگیاں بھی موجود ہیں۔ شہر میں نکاسی آب کا کوئی بندوبست نہیں، لوگ اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ گھروں سے باہر پھینک دیتے ہیں اور یہاںتک کہ غلیظ پانی کے نکاس کا بھی سرے سے کوئی انتظام نہیں۔ جس کے باعث پورا شہر گندے پانی کے جوہڑوں کے مناظر پیش کررہا ہوتا ہے اور ناگوار سی بو فضا کو مکدر کررہی ہوتی ہے۔ صفائی کےلیے کسی قسم کا کوئی ادارہ نہیں۔ صفائی کا کام چیل، کوے اور کبوتر انجام دیتے ہیں۔ تنگ وتاریک گلیوں میں چھوٹی چھوٹی دکانیں قائم ہیں، جن سے ہلدی اور سرسوں کے تیل کی بو آب و ہوا کو متاثر کررہی ہوتی ہے۔ شہر کے اندر مرد لمبے اور تن آور ہیں جبکہ خواتین پستہ قد ہیں، جو کہ شوخ رنگ کے کپڑے زیب تن کرتی ہیں، جن میں سڑی ہوئی مچھلی کی بو بسی ہوئی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے ساتھ لمحہ بھر رہنا عذاب سے کم نہیں ہوتا۔

اس انگریز کیپٹن کے دورے اور تبصرے کے بعد ہی انگریز فوجیوں نے سندھ پر یلغار کی اور قبضہ کرلیا۔ انگریز جنہوں نے سندھ پر 1839 میں قبضہ کیا تھا کم و بیش 1947 تک 108 سال تک اس خطے میں حکمرانی کی، مگر انہوں نے ماضی کے گندے شہر کو ایک ترقی یافتہ شہر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جنرل سر چارلس نیپئر، جو کہ پہلے چیف کمشنر تھے، انہیں سندھ پر قبضے کے بعد سندھ کا پہلا گورنر مقرر کیا گیا۔ اور انہوں نے کراچی (جو کہ ماضی میں مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا) کو سخت جدوجہد کے بعد ترقی کی جانب گامزن کیا۔ اپنی 4 سالہ گورنری کے دوران نہ صرف اس شہر کی بندرگاہ کو جدید بنایا بلکہ سڑکیں، ریلوے، فراہمی آب، نکاسی آب، صحت و تعلیم کی سہولیات کی فراہمی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ گورنری کے منصب سے سبکدوش ہوئے تو اہل کراچی کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر کیماڑی پر ایک استقبالیہ دیا گیا اور ان کا ایک قدآور مجسمہ بھی کیماڑی پر ہی نصب کیا گیا، جسے قیام پاکستان کے بعد ہٹادیا گیا تھا۔

اس کے بعد سندھ کے انتظامات گورنر کے بجائے کمشنروں کے سپرد کیے گئے اور قیام پاکستان سے قبل تک لاتعداد کمشنرز جن میں 1847-1850: رچرڈ کیتھ پرنگل۔ 1851-1859: ہنری بارٹل، ایڈورڈ فریئر 1859-1862: جوناتھن ڈنکن انوریٹریٹی، 1862-1867: سیموئیل مین فیلڈ،1867-1868: ولیم ہنری ہیلوک،1867-1877: ولیم لاکیئر میریویتھر، 1877-1879: فرانسس ڈیوس میل ویل، 1879-1887: ہنری نیپئر بروس ایرسکائن، 1887-1889: چارلس بریڈلی رچرڈ، 1889-1891: آرتھر چارلس ٹریور، 1891-1900: ہنری ایوان مورچیسن جیمز، 1900-1902: رابرٹ گیلس، 1902-1903: الیگزینڈر کمین، 1903-1904: ہورس چارلس مولز، 1904-1905: جان ولیم پٹ مائر میکنزی، 1905-1912: آرتھر ڈیالوال ینگ ہسبینڈ، 1912-1916: ولیم ہنری لوکاس، 1916-1920: ہنری اسٹیولے لارنس، 1920-1925: جین لوئس ریو، 1925-1926: پارٹریک رابرٹ کیڈل، 1926-1929: والٹر فرینک ہڈسن، 1929-1931: جارج آرتھر تھامس، 1931-1935: ریمنڈ ایولین گبسن، 1935-1936: گاڈفری فرڈینینڈو، اسٹراٹ فورڈ کولنز نے سندھ کے پہلے گورنر سر چارلس نیپئر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی دن رات کی جدوجہد سے شہر کو نہ صرف بے پناہ ترقی دی بلکہ شہر کے اندر تجارت کو فروغ دینے کےلیے چیمبر آف کامرس، بجلی، ڈاک، ٹرانسپورٹ سمیت متعدد نظاموں کو روشناس کرایا۔

1936میں جب سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرنے کی تحریک زوروں پر تھی اور سندھ کو ایک صوبے کا درجہ دے دیا گیا تو ایک بار پھر انگریزوں نے کمشنرز کے بجائے سندھ میں گورنروں کی تعیناتی شروع کردی اور کم و بیش 3 گورنرز جن میں 1936-1941: سر لانسلوٹ گراہم، 1 اپریل 1936 سے 31 مارچ 1941، 1941-1946: سر ہیو ڈاؤ، 1946-1947: سر فرانسس موڈی نے سندھ کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا اور سندھ بالخصوص کراچی کی ترقی ان ہی لوگوں کی مرہون منت رہی اور یہی وجہ تھی کہ جن انگریز گورنرز، کمشنرز نے شہر کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، شہر کے باسیوں نے ان کے مجسموں کے علاوہ مختلف شاہراہوں اور سڑکوں کو ان کے نام سے موسوم کر رکھا ہے۔ آج بھی شہر کی مختلف شاہراہیں اور سڑکیں ان ہی کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد شہر کی ترقی کا سلسلہ کچھ عرصے تک رک گیا۔ لیکن جب صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے بی ڈی ممبرز کے نام پر بلدیاتی نظام کو روشناس کرایا، جسے جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مزید تقویت ملی تو کراچی کی ترقی کا پہیہ ایک بار پھر آگے کی جانب چل پڑا۔ لیکن جیسے ہی فوجی ادوار کا خاتمہ ہوا اور جمہوریت کے سائے میں بلدیاتی نظام پنپنے لگا تو حسب دستور ہونے والی نااہلیوں، کرپشن، اقربا پروری نے شہر کو پیچھے کی جانب دھکیل دیا۔ جس کی وجہ سے وہ شہر جسے دنیا بھر میں ایک نمایاں مقام حاصل تھا اور اسے عروس البلاد، روشنیوں کے شہر کے نام سے جانا جانے لگا تھا، ایک بار پھر ماضی کی طرح ایک گندے شہر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جہاں ماضی کی طرح اس وقت شہر کی سڑکیں اور گلیاں گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہوچکی ہیں، جبکہ پورا شہر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ کسی ایک حکومت یا ایک شخص کی نااہلی نہیں، بلکہ پورے سسٹم کی نااہلی ہے۔

ماضی میں صفائی ستھرائی کرنے والے کنڈی مینوں اور بھنگیوں کے منصب پر جہاں صرف ہندو اور کرسچنز کو ملازمتیں فراہم کی جاتی تھیں، سیاسی ورکرز کی تقرریاں کی گئیں، جو گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کررہے ہیں اور ٹیکس دینے والے شہری، جن کے ٹیکسوں سے انہیں تنخواہیں دی جاتی ہیں ازخود بھنگی، کنڈی مینوں، سوئیپرز کا کام کرنے پر مجبور ہیں۔ جس کی وجہ سے روشنیوں کا شہر ماضی کی طرح پھر سے اندھے شہر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ شہر کی صفائی ستھرائی کا کام بجائے بلدیہ کے ملازمین کے افغانی باشندے انجام دے رہے ہیں، جو کہ المیے سے کم نہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے حکومت سندھ فوری طور پربلدیہ عظمیٰ اور زیڈ ایم سیز میں کام کرنے والے ملازمین کی مکمل طور پر چھان بین کرے اور گھوسٹ ملازمین کی جگہ ایماندار ملازمین کی تعیناتی کو یقینی بنائے،تاکہ کراچی ایک بار پھر ترقیوں اور روشنیوں کی سمت گامزن ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top