کراچی: عیسیٰ نگری کے قریب دھماکا، چودھری اسلم سمیت 4 اہلکار شہید

شمشاد

لائبریرین
بنوں اور افغان سرحد مطبوعہ 1876سے ایک اقتباس
تحریر : برطانوی سول سرونٹ ایس ایس تھوربرن

بنوچی بمقابلہ وزیر:

وزیرہرموسم سرما میں بنوں آتے اور اس دوران میدان کے بنوچی اور پہاڑ کے وزیرکے درمیان جب کبھی جھگڑا ہوتا تو وزیر سب سے سخت وحشی ثابت ہوتے جس کی وجہ سے وہ بنو ں میں خوف اور نفرت کے نام سے جاننے لگے۔ وزیر اپنی لالچی نظریں بنوچیوں کے زمینوں اور ان کی فصلوں پر جمائے ہوئے تھا اورنتیجتاََ زمین کی خواہش اپنی دل میں جگا بیٹھا۔ پس وہ اپنی خواہش کو حاصل کرنے کے لیے ایک خاردار راستے پرچل نکلا، اس نے اپنی دسترس میں علاقہ ٹل کا انتخاب کیا اور جب بنوچی اپنی فصل کی حفاظت کے لیے آتا تو اس کو ایک گولی کی آواز سے خبردار کردیتا۔ بنوچیوں کی تاریخ میں سب سے دلگیر وقت یہ تھا جب تمام ذاتی عداوتیں خاموش تھیں، جیسے بھیڑیوں کے درمیان شیر گھس آیا ہو، ایک کے بعدایک ملک کو لوٹا جارہا تھا۔

اس صورت حال پر دو عظیم غونڈیوں نے اتحاد کیا اور آپس کے تفرقات کو ایک طرف ڈالا اور اس قومی المیہ پر ایک اعلیٰ کونسل کی مجلس بلائی گئی۔یہ وقت تھا جنگ کا اور بھر پور طریقے سے لڑنے کا ، لیکن یہ جارح اپنی جڑیں مضبوط کر چکے تھے بعض لوگ جنگ کرنے کی بات اٹھا رہے تھے لیکن ان دو غونڈیوں کے چیف اپنی طاقت جانتے تھے جو پوری وادی میں بیس ہزار جوان بھی اکٹھے نہیں کرسکتے تھے۔ ایک طرف ان کے پڑوسی ’داوڑ ‘انہیں مدد دینے سے گھبراتے تھے کیونکہ ان کی چھوٹی سی وادی بنوں کے بجائے وزیری پہاڑوں کے بہت قریب تھی اور دوسری جانب مروت ، جو وزیر سے کم مخالف نہیں تھے ۔اس کے مقابلے میں وزیرتنہا ہی چالیس ہزار جنگجو بلا سکتے تھے ۔ لیکن حسب معمول جنگ کی کونسل امن کے نفاذ پر اختتام پذیر ہوئی لیکن ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وزیر قبیلے سے نہیں لڑیں گے مگر انفرادی طور پر ان کو بندوق اور چاقو سے تنگ کریں گے اور ان کی آبادی اور کاشت کو مشکل بنادیں گے۔ لیکن وہ وزیری مزاج کے بارے میں بہت کم جانتے تھے اور سب سے پہلے ہی دشمنانہ عمل پر ایک خونخوار اور خوفناک جُھنڈ امڈ آیا ، پہلے صرف ایک کھیت ہی گیاتھا اب ایک گھربھی اجڑ گیا اور اس طرح کی کوششیں دونوں اطراف سے جاری تھیں ، وزیر کی پیش قدمی اور بنوچیوں کی مزاحمت، وزیر بدلے پہ بدلے لے رہے تھے اور بنوچی نا امیدی میں دست بردار ہوررہے تھے ۔ اور آخر کار ایک حد پر آکرسب کچھ رک گیا۔ دونوں اطراف پہ لوگ تھک گئے تھے۔بہت کم وزیر وں نے کاشت اور کھیتی باڑی کا سوچا جبکہ زیادہ تر اس بات پر مصر تھے کہ کچھ رقم مصالحت کے لیے مقرر کردی جائے جو کہ اگرچہ کم ہو مگر نہ ہونے سے تو بہتر ہے۔ وزیرجارحوں نے بنوچیوں کے طرز کی قبضہ شدہ زمین پر قلعے تعمیر کیے اور بہت جلددریائے کُرم کے بائیں طرف پر عمدہ قطعہ کے مالک بن گئے۔ بنوچیوں کے ساتھ انہوں نے کبھی میل ملاپ نہیں کیا نہ شادیوں میں ، نہ مذ ہبی رسومات میں اور نہ عام زندگی کے دوسرے شعبوں میں۔ بنوچی ان سے کیسے زیادہ مغرور ہوسکتے ہیں جن کی نسل کوہ سفید کے برف کی طرح خالص تھی جبکہ ان کی نسل مختلف رنگ کے خون کا آمیزہ تھا۔ مغرور، محب وطن اور آپس میں متحد، اپنے طور طریقوں سے سادہ مزاج اور بھولے لیکن انجان لوگوں کے لیے مہمان نواز اور اپنے مہمان کے لیے قوت اور کرپشن میں راست گو ، احمد زئی وزیر ان لوگوں سے بے تعلق رہتے ہیں جن پر انہوں نے ظلم کیا، ان کے سکھ در اندازوں کے خلاف غیر متحد کوششیں، ان کی آپس میں دھوکے بازیاں اور ان کی آ پس کی لڑائیاں جن کی وجہ سے قدرت کی طرف سے عطا کی گئی یہ وادی دوزخ میں بدل گئی۔

میں وزیروں کے اس خاکہ کو اس بات کے بیان کیے بغیر کیے مکمل نہیں کر سکتا کہ وزیری قبیلے کے احمد زئی شاخ نے تو ٹل کو مشرقی جانب سے قبضہ میں لیا اور شمال کے پہاڑوں میں بھی۔ پس ان کے ہم وطن بھی ان کے پیچھے پیچھے مغربی پہاڑوں سے نیچے آئے اور’دریائے ٹوچی‘ کے کنارے براجمان ہوئے، کاشت کے لیے ایک فرضی سا ٹکڑا لیا اور قریب کے ’میری‘ گاؤں کے بنوچی مالکوں سے محفوظ ہونے کے لیے چند قلعے تعمیر کیے۔

قاری کو بنوں کے چار طبقوں سے اب روشناس کرادیا گیا ہے جو کہ بنوں کی آبادی بنا تے ہیں جن میں دوغلے اور شیطان بنوچی کاشتکار شامل ہیں جن پرمَلکوں کی شیطانی حکومت قائم ہے اور گروہوں میں تقسیم کی وجہ سے ان کے حقوق پامال ہوئے، لالچی سید اور مذہبی درویش جو کہ ان توہم پرست لوگوں کا خون چوس رہے ہیں، کمینے ہندو سوداگر جو اس غرض سے کم درجے کی زندگی گزار رہے ہیں کہ اپنے مسلمان حاکموں کو دھوکہ دے سکیں اور لوگوں کے کاموں میں ٹانگ اَڑانے والے وزیری آدھے چرواہے، آدھے زراعت پیشہ ، قانون سے کلی طور پرنا آشنا لیکن پھر بھی صفات اور خوبیوں سے کنگال نہیں۔

اس تصویر کو مکمل کرنے کے لیے ان کو انکے اونچی دیواروں والے قلعوں میں تصور کرنے کی ضرورت ہے، وزیر باہر، بنوچی اور سید اپنے ہندو ایجنٹ کے ہمراہ بنوں کے خاص مرکز میں، سب ایک دوسرے کو ہوشیاری سے بد نیتی سے دیکھتے ہیں اور یہ اپنے مفادات کے لحاظ سے طبقوں میں تقسیم ہیں جن کی وجہ سے باہر سے آنے والے خطرات ان کو دکھائی نہیں دیتے، وہ خطرہ جو کہ سکھوں کی فوج کی شکل میں آرہا ہے جس کی کمان ایک برطانوی افسر کے ہاتھ میں ہے۔
زبیر بھائی یہ اقتباس آپ کو شاید کہیں اور پوسٹ کرنا تھا۔
 

سید زبیر

محفلین
یہ فقرہ سمجھ نہیں آیا
پٹھان ہمیشہ اجنبیوں کی مہمان نوازی بہت کرتے ہیں ،دوسری بات یہ ہے کہ مہمان کی حفاظت دل و جان سے کرتے ہیں ، تیسرے بد عنوانی ، منشیات ،اور اغوا ،گاڑیوں کی چوری میں معاملے نہایت ایمانداری سے کرتے ہیں ۔
 
Top