کراچی… جمہوریت سے کینسر تک

x boy

محفلین
پروفیسر رشید احمد انگوی
روزنامہ جسارت


کراچی عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر مگر اس وقت وہ ہر قومی ایجنڈے پر غالب ہے وہاںکی لیڈریوں پر مسلط افراد کے الفاظ اور باڈی لینگوئج بزبان حال حقیقتیں اُبل رہے ہیں اور کچھ نہ جاننے والوں کو بھی سب کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ گویا کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے والی کیفیت ہے۔ بابائے قوم کا شہر جس کی کئی عشروں کی تاریخ صرف شرافت اور زمن پسندی کی بستی کے طور پر معروف تھی مگر حالیہ دو اڑھائی عشروں نے تو اس کا چہرہ داغ دار کر کے رکھ دیا ہے۔ بوری بند لاشوں سے لے کر ہزار ہا اسلحہ بھرے ٹینکروں اور اغواء برائے تاوان و بھتہ خوری نے کراچی کے تعارفی استعاروں کا روپ دھار لیا ہے۔ کریلے پر نیم کا کام دہری شہریتوں (اصلاً نیم شہریتوں) نے بالخصوص گزشتہ پانچ سال کراچی کے شہریوں کے حق میں ناحق خون کے سمندر یوں بہہ رہے تھے کہ بحیرہ عرب بھی شرما کر رہ گیا۔ ہم نے اپنے تئیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہمیں کراچی کے مسئلے کی حقیقت سمجھ آ چکی ہے اور ہم اس کا علاج بھی تجویز کر سکتے ہیں تو پھر توجہ فرمایے۔
پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ کینسر کسے کہتے ہیں۔ انسانی جسم کروڑوں، اربوں، کھربوں اکائیوں پر مشتمل ہوتا ہے اور انتہائی منظم کنٹرول سسٹم کے تحت کام کرتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ جسم کی ان اکائیوں یا سیلز میں سے کچھ باڈی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر اُتر آتے ہیں اور اپنی تعداد بڑھا کر ایک ٹولے یا جتھے کا روپ دھار لیتے ہیں یوں سمجھیں کہ یہ آوارہ اور غنڈے سیل بن جاتے ہیں جو جسم کی ہدایات اور کنٹرول کو تسلیم نہیں کرتے۔ جب یہ کسی مقام پر ایک قابل ذکر اور اپنے اسٹائل کی آبادی بنا لیتے ہیں تو اگلے مرحلے پر یہ جسم کے مختلف حصوں میں پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں اور مختلف مقامات پر جسمانی کنٹرول سسٹم کے باغیوں کے طور پر اپنی تعداد بڑھانے میں لگے رہتے ہیں اور ایک مجرمانہ نیٹ ورک بنا لیتے ہیں۔ چونکہ ہوتے تو یہ زندہ ہیں اس لیے انہیں خوراک اور زندگی کے تمام لوازمات از قسم خوراک وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ جسم پر ایک ناروا یا ناجائز قسم کا بوجھ بن جاتے ہیں۔ مجبوراً جسم کو ان نامطلوب، باغی، سرکش اور دشمن اکائیوں یا سیلز کو برداشت کرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ پورے جسم کی زندگی موت و حیات کی کشمکش کے مقام پر آ پہنچتی ہے۔ ایسے میں کینسر کا ماہر ڈاکٹر جسمانی نمونے حاصل کرکے علاج کی تدبیر کرتا ہے اور زندگی بچانے کے لیے یا تو ان ناجائز آبادیوں کو طاقت ور شعاعوں کی مدد سے ختم کر دیا جاتا ہے یا طاقت ور کیمیائی دوائوں سے مدد لی جاتی ہے۔ جسمانی علوم کی اس سائنس کی روشنی میںاگر کراچی کو ایک جسم اور اس کے باشندوں اور آبادیوں کو اس کی اکائیاں سمجھ لیا جائے تو صاف سمجھ آ سکتا ہے کہ دو کروڑ کی آبادی پر مشتمل روشنیوں کے اس شہر کو کینسر پیدا کرنے والے عناصر نے اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔ اب اس سے نجات پانے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اسے صحت کی جانب لانے کے لیے سیاستدانوں، قانون نافذ کرنے والے اداروںکو پہلے ماہرین کینسر سے راہنمائی دلائی جائے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ کینسر زدہ جسم کو کن اصولوں اور کس نوعیت کے اوزاروں کی مدد سے درست کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور اس نوبل مشن کے لیے کتنے ناجائز و نامطلوب افراد کو قربان کرنا لازمی ہو گا جس طرح کہ ایک پھوڑے یا رسولی کو کاٹ پھینکا جاتا ہے۔

بات کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں جو لوگ ٹی بی پر بیٹھ کر اپنے ہر جملے میں یہ وِرد الاپتے ہیں کہ ہم بیس یا پچیس سال سے 85فیصد جمہوری مینڈیٹ اپنی جیبوں میں لیے پھرتے ہیں تو خدا رااس ’’کراچی کینسر‘‘ کی پچاسی فیصد ذمہ داری تو قبول کریں کہ ان کے دعووئوں اور کامن سینس کا تقاضا یہی ہے ہم تو صاف صاف کہتے ہیں کہ کینسر زدگی کے اہم عناصر ’’آدھی شہریتیں‘‘ اور’’ ریموٹ قیادتیں‘‘ ہیں جنہوں نے شہر قائد کی سیاست کو قبضہ مافیا اور بوری بند کے ہم معنی بنا کر رکھ دیا ہے۔ قومی سیاست میں ایک منفی رجحان یہ پیدا ہوا ہے کہ اسمبلیوں کے ممبر اپنی پارٹی کا نام لینے کی بجائے ہر جملے میں اپنے لیڈر کا نام یوں الاپتے ہیں جیسے اس میں معمولی کوتاہی سے وہ اپنی سیٹیں گنوا بیٹھیں گے۔ اور اس طرز عمل نے سیاسی پارٹی کو قبضہ مافیا کا ہم معنی بنا ڈالا ہے۔ خدا را سیاست دان ہر جملے میں لیڈر پرستی کا درس دینے کی بجائے حسب ضرورت اپنی پارٹی کا نام لیا کریں مثال کے طور پر کیا پاکستان بنانے والی جماعت ہر جملے میں قائداعظم کا نام یا جماعت اسلامی ہر جملے میں مولانا مودودیؒ کا نام پکارتی ہے؟ ہرگز نہیں، اس لیے کہ پارٹی کا نام اپنے اندر اپنے لیڈر اور اپنے تصورات وغیرہ ہر چیز کو سمیٹے ہوتا ہے۔ جملے جملے میں لیڈر کا نام الاپنے سے بھی لیڈر کے مافیا چیف ہونے کا میسج جاتا ہے۔ ان دنوں جب کراچی کے حالات پر غوروفکر اور اصلاحی اقدامات کی فضا پیدا ہوئی ہے تو وہاں کی سیاسی پارٹی کا ہر لیڈر چیخ رہا ہے کہ ہمیں دہشت گرد کہنے سے لاکھوں ووٹروں کی توہین ہوتی ہے ہم ادب سے پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ کیا گزشتہ پانچ سال کے دوران آئے روز دسیوں، بیسیوں بسا اوقات سینکڑوں تک کی لاشیں گرتی رہیں تو کیا لاکھوں ووٹروں کے ان لیڈروں کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے جا رہے ہوتے تھے۔ یہ مظلوم قوم ان تمام خونی ایام کی شاموں کو ٹی وی پر آپ کی چہچہاٹیں اور فقرہ بازیاں دیکھتی اور ہنستی رہی اور ان دنوں جب آپ کے اضطراب انگیز بیانات جاری ہوتے ہیں کہ گزشتہ رات ہمارے اتنے کارکن گرفتار کر لیے گئے، اٹھا لیے گئے تو ہم محو حیرت ہوتے ہیں کہ ’’کراچی کی قیادتیں کیا سے کیا ہو گئیں‘‘۔ کیا کارکنوں کی گھروں سے چند گھنٹوں کی غیر حاضری یا گمشدگی ان ہزار ہا معصوم انسانوں کی مظلومانہ و بے بسی اور ان کے خاندانوں کی تباہی کا آپس میں کوئی موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ دیکھیے یہ اکیسویں صدی ہے، میڈیا کی بوچھاڑ ہے، ایک ایک لیڈر کی زبان سے ہزاروں مرتبہ بیانات، کیفیات اور جملہ سازیاں دیکھنے سننے والے اتنے بھی احمق اور بے بس نہیں جتنا شاید انہیں سمجھ لیا جاتا ہے۔ کراچی روشن دماغی روشن خیالی، حب الوطنی، بندہ نوازی جیسی اعلیٰ صفات کی بستی رہی ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ اس سے لاحق ’’بدامنی کینسر‘‘ کے کامیاب علاج کے بعد اس کی وہ حقیقی و فطری رونقیں بحال ہو جائیں گی اس کا ساحل سمندر پورے ملک کے حیاتیات و ارضیات کے طالب علموں کو اپنی طرف کھینچتا رہے گا، مزار قائد کی مقناطیسیت ملک بھر کے نونہالوں کو اپنی جانب بلاتی رہے گی اور کراچی کی وہ حقیقی پرُسکون و پرُامن فضائیں واپس آئیں گی جب کوئی اجنبی مہمان بھی اس شہر مہربان کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں پورے اطمینان اور سکون سے پھرے گا اور اسے تو کسی نوگو ایریا کا احساس ہو گا اور نہ کسی جانب سے آفت بن کر آنے والی کسی گولی کا ڈر و خوف۔ کراچی منی پاکستان ہے، ملک کا پہلا دارالخلافہ ہے اور برصغیر ہند میں آنے والے پہلے مبارک اسلامی گروہ کا اولین میزبان بھی۔ یہ شہر محبت ہے، یہ ہر بے گھر و بے سہارا پاکستانی کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ کراچی سے باہر رہنے والے اور کراچی کی جدائی میں تڑپنے والے کروڑوں انسانوں کے احساسات کی یہ کہہ کر ترجمانی کرتے ہیں کہ اے بڑے بڑے لوگو! کیا آپ نہیں جانتے کہ آپ ہی نہیں ہم بھی کراچی کے ’’اسٹیک ہولڈر‘‘ ہیں اس لیے ہماری اس صدا کو بے وقعت اور بے مقصد نہ سمجھا جائے۔اے اللہ کراچی کا امن و سکون واپس آ سکے۔ پھر وہی منظر دیکھنے کو ملے کہ آدھی رات کو دوپہر کی طرح گھومتے پھریں اور نہ کوئی خوف ہو نہ کسی کا ڈر۔ (آمین)


امت کو پوسٹ اس لئے نہیں کرتا کہ بہت سے لوگ پسند نہیں کرتے، ضروری نہیں کہ ہر بات ہر کوئی سمجھ جائے مان جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے
کفار، مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ اچھی طرح جانتے تھے لیکن کامیاب ہوئے وہ لوگ جو ایمان لائے اور ناکام ہوئے وہ لوگ جو اس گھمنڈ میں رہے کہ ہم زیادہ لائق ہیں۔
یہ باتیں طنزیہ نہیں کہی بس دل میں آیا لکھ ڈالی۔
 
Top