کتا ب و سنت ڈاٹ کام کی لائیبریری سے...

عبد المعز

محفلین
گزشتہ چند سالوں کے دوران اسلامی بینک کاری نے غیر معمولی ترقی کی ہے اس وقت دنیا کے تقریبا 75 ممالک میں اسلامی بینک کام کررہے ہیں ان میں بعض غیر مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ صرف پاکستان میں مختلف بینکوں کی تین سو سے زائد برانچوں میں اسلامی بینکاری کے نام پرکام ہور ہا ہے ۔ان میں بعض بینک تو مکمل طور پر اسلامی بینک کہلاتے ہیں ۔اور بعض بنیادی طور پر سودی ہیں ۔ایسی صورتِ حال میں رائج الوقت اسلامی بینکاری کا بے لاگ تجزیہ کرنےکی ضرورت ہےتاکہ معلوم ہوسکےک کہ یہ شرعی اصولوں سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں؟زیر نطر کتابچہ''اسلامی بینکاری کی حقیقت؟'' حافظ ذوالفقار (شیخ الحدیث ابوہریرہ اکیڈمی ،لاہور)کا تالیف شدہ ہے۔ جس میں انہوں نے موجودہ اسلامی بینکوں کےطریقہ کار اور ان میں رائج مالی معاملات کا شرعی اصولوں کی روشنی میں منصفانہ جائزہ لے کر دینی نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔موصوف حافظ صاحب کی اسلامی معیشت کے حوالے مزید دو کتابیں بھی طبع ہوچکی ہیں اور کتاب وسنت ویب سائٹ پر موجود ہیں ۔ اللہ تعالی موصوف کے علم وعمل اور زورِ قلم میں برکت فرمائے اور ان کی مساعی جمیلہ کوشرف قبولیت بخشے (آمین) (م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،جو مسلمانوں کو جہاں تجارت اور سیاست سمیت ہر میدان میں باہمی طور پر آپس میں پیار ،محبت اور مل جل کر رہنے کی ترغیب دیتا ہے،وہیں اپنے آپ کو کفار کی دوستیوں اور ان کے راز دان بننے سے منع کرتا ہے۔آج صورتحال یہ ہے بن چکی ہے کہ کفار ہمارے ملکوں سے حاصل کردہ منافع اور پرافٹ سے مسلمانوں کے بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں پر بم برسارہے ہیں۔اگر مسلمان غیر مسلموں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں اور آپس کی تجارت شروع کر دیں ،تو کفار کو مسلمانوں پر حملے کرنے اور ان کے ملکوں پر قبضے کرنے کی کبھی جرات نہ ہو۔زیر نظر کتاب (غیر مسلموں کی مصنوعات اور ہم) باجی ام عبد منیب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے مسلمانوں کو غیرت دلاتے ہوئے یہ ترغیب دی ہے کہ وہ غیر مسلموں کی مصنوعات کو چھوڑ کر اپنی ملکی اور مسلمانوں کی مصنوعات استعمال کریں ،تاکہ مسلمانوں کی باہمی تجارت بڑھے اوران کی اقتصادی حالت درست ہواور کفار کو مسلمانوں پر ظلم کرنے کی جرات نہ ہو سکے۔نیز انہوں نے بعض اسلامی ممالک کی طرف سے بعض غیر اسلامی ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ سے ان کو ہونے والے نقصان کا بھی تفصیلی تذرکرہ کیا ہے،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر مسلمان متحد ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو مغلوب نہیں کر سکتی ہے۔ اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو قبول فرمائیں اور تمام مسلمانوں کے اندر جذبہ اسلامی بیدار فرمائیں۔آمین(راسخ)
 

عبد المعز

محفلین
اقبال پر جتنا علمی ،تحقیقی او رتخلیقی کام ہوا ۔ اتنا شاید ہی کسی اور شاعر او رادیب پر ہوا ہو۔ لیکن ا ن کے فکرو شعرکا کوئی جامع اشاریہ موجود نہیں تھا اقبال اکامی نے بڑی عمدگی کے ساتھ کلیات اقبال کاجامع اشاریہ شائع کیا ہے ۔زیرنظر کتاب ’’جوئے رواں‘ جسے طاہر حمید تنولی نے مرتب کیا ہے۔یہ شاعر مشرق علامہ اقبال کی اردو شاعری کا ایک ایسا اشاریہ ہے جس نے قارئین اقبال کے لیے مطلوبہ شعر تک پہنچنا آسان بنادیا ۔اس اشاریے کو مرتب کرتے وقت قاری کی سہولت کے پیش نظر کلیات کے ان نسخوں کواشاریے کی بنیاد بنایا گیا ہے جو عام طور قارئین کے زیر استعمال ہوتے ہیں اور ان کا متن بھی قابل اعتماد ہے ۔اس اشاریے میں میں کلیات اقبال کے شیخ غلام علی اینڈ سنز او راقبال اکادمی ،پاکستان کے شائع شدہ قدیم نسخوں کےصفحات نمبر درج کردیے گئے ہیں۔ان کے نسخوں کے لیے بالترتیب ،غ ع اوراکادمی کے ل مخففات استعمال کیے گیے ہیں۔ یہ کتاب اقبالیات کاذوق رکھنے والوں کے لیے بیش قیمت تحفہ ہے (م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ہر جگہ حاضر او رہر چیز کودیکھتے ہیں ،عقل ونقل ہر دو کےخلاف ہے ۔ نہ آپ اپنی زندگی میں ہرجگہ حاضرو ناظرتھےاور نہ وفات کے بعد۔ یہ عقیدہ بعض بدعتی لوگوں کا ایجاد کردہ ہے جو سراسر ضلالت و گمراہی پر مبنی ہے۔اہل بد عت نے یا تو انتہائی ضعیف اور موضوع روایات واحادیث کا سہارا لیا ہے ۔اور یا پھر صحیح احادیث کی غلط تاویلات کی ہیں ۔اوریہ سب کچھ وہ نبی کریم ﷺ کی شان میں غلوکی بنا پر کرتے ہیں۔قرآنی آیات ،احادیثِ رسولﷺ اوراقوال ِ سلف  سے اس باطل عقیدہ کی تردید ہوتی ہے ۔زیر نظرکتابچہ ’’کیا نبی اکرم ﷺ حاضر وناضر ہیں؟‘‘شیخ عبد الرحمن امین کی کتاب ’’الرد الباهر في مسئلة الحاضر والناظر‘‘کا اردو ترجمہ ہے ۔جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺکے ہر جگہ او رہر وقت حاضر وناضر کے باطل عقیدہ کی قرآنی آیات ،احادیثِ رسولﷺ اوراقوال ِ سلف  سے تردید کرتے ہوئے ۔اہل بدعت کے اس باطل عقیدہ کے دلائل کی حقیقت کو بھی خوب بے نقاب کیا ہے ۔تقریبا15 سال قبل مجلس التحقیق الاسلامی نے اس کتابچہ کو طباعت سے آراستہ کیا۔ اس کتابچہ کی افادیت کے پیش نظر اسے کتاب وسنت ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے ۔اللہ تعالی اس کتاب کو لوگوں کے عقائدکی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) ( م۔ا)
 

نایاب

لائبریرین
اللہ معاف فرمائے ۔۔۔۔۔ امت مسلمہ اپنی پستی کی انتہاپر ہے ۔ اور یہ علما دین ابھی بھی فروعات میں الجھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
عجب نہیں کہ اب " تھے " قرار دے کر کلمے سے ہی نکال دیں کسی جدید ایڈیشن میں ۔۔۔۔۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ہر جگہ حاضر او رہر چیز کودیکھتے ہیں ،عقل ونقل ہر دو کےخلاف ہے ۔ نہ آپ اپنی زندگی میں ہرجگہ حاضرو ناظرتھےاور نہ وفات کے بعد۔ یہ عقیدہ بعض بدعتی لوگوں کا ایجاد کردہ ہے جو سراسر ضلالت و گمراہی پر مبنی ہے۔اہل بد عت نے یا تو انتہائی ضعیف اور موضوع روایات واحادیث کا سہارا لیا ہے ۔اور یا پھر صحیح احادیث کی غلط تاویلات کی ہیں ۔اوریہ سب کچھ وہ نبی کریم ﷺ کی شان میں غلوکی بنا پر کرتے ہیں۔قرآنی آیات ،احادیثِ رسولﷺ اوراقوال ِ سلف  سے اس باطل عقیدہ کی تردید ہوتی ہے ۔زیر نظرکتابچہ ’’کیا نبی اکرم ﷺ حاضر وناضر ہیں؟‘‘شیخ عبد الرحمن امین کی کتاب ’’الرد الباهر في مسئلة الحاضر والناظر‘‘کا اردو ترجمہ ہے ۔جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺکے ہر جگہ او رہر وقت حاضر وناضر کے باطل عقیدہ کی قرآنی آیات ،احادیثِ رسولﷺ اوراقوال ِ سلف  سے تردید کرتے ہوئے ۔اہل بدعت کے اس باطل عقیدہ کے دلائل کی حقیقت کو بھی خوب بے نقاب کیا ہے ۔تقریبا15 سال قبل مجلس التحقیق الاسلامی نے اس کتابچہ کو طباعت سے آراستہ کیا۔ اس کتابچہ کی افادیت کے پیش نظر اسے کتاب وسنت ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے ۔اللہ تعالی اس کتاب کو لوگوں کے عقائدکی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) ( م۔ا)
پچھلے دنوں ایک حدیث مبارکہ پڑھی جس میں حضرت اسامہ نے ایک ایسے شخص کو جنگ کے دوران قتل کر دیا جو کلمہ پڑھ رہا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا تو حضرت اسامہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم اس شخص نے فلاں فلاں صحابی کو قتل کیا اور جب میں اس پر غالب آگیا تو اس نے جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسامہ اگر قیامت والے دن اس کا کلمہ آگیا تو تو کیا کرے گا۔ اسامہ نے عرض کی میرے لئے استغفار فرمائیے۔ آپ نے پھر فرمایا اگر اس کا کلمہ آگیا تو تیرا کیا بنے گا۔ اسامہ کہتے ہیں کہ میں سوچ رہا تھا کہ کاش میں اس سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا۔ یہ ہے اسلام اور بانی اسلام کی تعلیم اور آپ جیسے فتنہ پرور لوگ کس ڈھٹائی سے پکے مسلمانوں کی ایک واضح اکثریت کو اہل بدعت کہہ رہے ہو۔ یہ فروعی اختلافات ہیں جس میں ہر فریق کی اپنی تحقیق ہے۔ اور ہر ایک فریق کے پاس کتابوں کے انبار ہیں ۔ کاش کہ کوئی صاحب دل اس امت کے پیار میں امت کے اتحاد پر قلم اٹھاتا اور اس بکھری ہوئی امت کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کرتا تو میں اس کے لئے داد و تحسین کے پل باندھ دیتا لیکن یہاں تو اپنے اپنے پیٹ کی پڑی ہے اس کے لئے چاہے امت کی اجتماعیت کا قتل عام ہو جائے، انہی مولویوں کی چیرہ دستیوں اور آپ جیسے ناعاقبت اندیش لوگوں کی وجہ سے آج پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے۔آپ جیسے لوگ ہی طالبان ہیں اور طالبان اسی سوچ کے حامل مولویوں کی پیداوار ہیں ۔ اللہ تعالی اس امت کو آپ جیسے فتنہ پرور لوگوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
 

عبد المعز

محفلین
مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی  ضلع امرتسر کے ایک گاؤں’’بھوجیاں‘‘ میں 1909 کوپیداہوئے ۔ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی میاں صدرالدین حسین اور مقامی علماء کرام سے حاصل کی ۔اس کےبعد پندرہ سولہ برس کی عمر میں مدرسہ حمیدیہ ،دہلی میں داخل ہوئے او روہاں مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی اور ابوسعید شرف الدین دہلوی سے بعض متداول درسی کتب اور حدیث کا درس لیا ۔بعد ازاں لکھو کے اور گوندالانوالہ کے اہل حدیث مدارس میں علوم دینیہ کی تکمیل کی جہاں مولانا عطاء اللہ لکھوی اور حافظ محمد گوندلوی ان کے اساتذہ میں شامل تھے ۔مولانا نے عملی زندگی کاآغاز اپنے گاؤں کے اسی مدرسہ فیض الاسلام میں بطور مدرس کیا جس میں انہوں نے خود ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی ۔لیکن چند ماہ قیام کے بعد گوجرانوالہ تشریف گئے او رمختلف مدارس میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے ۔سالانہ تعطیلات گزارنے گاؤں گئے ہوئے تھے کہ ہندوستان تقسیم ہوگیا ۔مولانا ہجر ت کر کے پاکستان آگئے اور اپنے پرانے تعارف وتعلق کےتحت گوندلانوالہ میں سکونت اختیار کی ۔ اسی زمانے میں گوجرانوالہ سے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کا ڈیکلریشن حاصل کیا اور مولانا محمد حنیف ندوی کی ادارت میں 9اگست 1949ء کو ’’الاعتصام‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔اس کے بعد آپ گوجرانوالہ سے لاہور منتقل ہوگئے اور مکتبہ السلفیہ کی بنا ڈالی اور اس کے تحت اپنے ذوق تحریر واشاعت کی تکمیل کی اور اکتوبر 1956ء میں ایک علمی وتحقیقی مجلہ ’’رحیق‘‘ کااجراء کیا ۔جس کا مقصد اسلام کی عموماً ا ور مسلک اہل حدیث کی خصوصاً تبلیغ واشاعت تھا،اسلام اور سلف امت کے مسلک پر حملوں کی علمی اور سنجیدہ طریقوں سے مدافعت بھی اس کے اہم مقاصد میں شامل تھا ۔دینی صحافی حلقوں میں ماہنامہ ’’رحیق ‘‘ کا بڑا خیرمقدم کیا گیا ۔لیکن یہ مجلہ صرف تین سال جاری رہا ہے اور مالی مشکلات کی وجہ سے جولائی 1959 کے بعد اس کی اشاعت کی بند ہوگئی۔ مولانا کے تحریر سرمائے میں سرفہرست عربی زبان میں سنن نسائی کا حاشیہ ’’ التعلیقات السلفیہ‘‘ ہے اس کےعلاوہ بھی بہت سی کتب پر علمی وتحقیقی کام اور بعض کتب کےتراجم کرواکر مکتبہ سلفیہ سے شائع کیں۔زیر نظر کتابچہ مجلہ’’ نقظۂ نظر ‘‘اسلام آباد بابت اکتوبر2003ء تامارچ2004ء میں شائع شدہ ماہنامہ ’’ رحیق‘‘ کے اشاریے کی کتابی صورت ہے کتابچہ کے شروع میں اس کے فاضل مرتب معروف قلمکار محترم سفیر اختر صاحب (جو اپنے قلمی نام اخترر اہی کے نام سے زیا د ہ معروف ہیں) نے اشاریۂ رحیق کے ساتھ صاحب رحیق مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے حوالے سے اپنی چند یادیں اور تاثرات بھی شامل کردیے ہیں۔اللہ تعالی مولانا عطاء اللہ حنیف  کی دینی ،علمی ،دعوتی اور صحافی خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی ٰ مقام عطا فرمائے (آمین)(م ۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
صحابہ نام ہے ان نفوس قدسیہ کا جنہوں نے محبوب ومصدوق رسول ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا اور اس خیر القرون کی تجلیات ِایمانی کو اپنے ایمان وعمل میں پوری طرح سمونے کی کوشش کی ۔ صحابی کا مطلب ہے دوست یاساتھی شرعی اصطلاح میں صحابی سے مراد رسول اکرم ﷺکا وہ ساتھی ہے جو آ پ پر ایمان لایا،آپ ﷺ کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ۔ صحابی کالفظ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ کے خاص ہے لہذاب یہ لفظ کوئی دوسراا شخص اپنے ساتھیوں کےلیے استعمال نہیں کرسکتا۔ انبیاء کرامؑ کے بعد صحابہ کرام ؓ کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرامؓ کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔ صحابہ کرام ؓ کے ایمان ووفا کا انداز اللہ کو اس قدر پسند آیا کہ اسے بعد میں آنے والے ہر ایمان لانے والے کے لیے کسوٹی قرار دے دیا۔یو ں تو حیطہ اسلام میں آنے کے بعد صحابہ کرام ؓ کی زندگی کاہر گوشہ تاب ناک ہے لیکن بعض پہلو اس قدر درخشاں ،منفرد اور ایمان افروز ہیں کہ ان کو پڑہنے اور سننے والا دنیا کا کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ صحابہ کرام ؓ کےایمان افروز تذکرے سوانح حیا ت کے حوالے سے ائمہ محدثین او راہل علم کئی کتب تصنیف کی ہیں عربی زبان میں الاصابہ اور اسد الغابہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اور اسی طرح اردو زبان میں کئی مو جو د کتب موحود ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ نبی کریم ﷺ کے صحابہ ؓ کی تابناک زندگیاں‘‘ مصر کے معروف عالم دین ڈاکٹر عبد الرحمن رافت پاشا  کی کتاب ’’ صور من حیاۃ الصحابۃ‘‘ کا ترجمہ ہے ۔اس کتاب میں فاضل مصنف نے ا ٹھاون صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کے مختلف گوشوں او را ن کے بے مثال کارناموں کو اس انداز اور ترتیب سے پیش کیا ہے کہ دورِ صحابہ کی اسلامی تاریخ کا بہت بڑا حصہ سامنے آگیا ہے۔عربی کتاب کے ترجمہ کی سعادت محترم اقبال عمد قاسمی نے حاصل کی ہے ۔ صور من حیاۃ الصحابۃ کا ایک ترجمہ ’’حیاۃ صحابہ کے درخشاں پہلو‘‘ کے نام سے مولانا محمود احمد غضنفر کے رواں قلم سے بھی موجود ہے ۔اللہ تعالی فاضل مصنف کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اور اسے اہل اسلام کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
انبیاء ؑکی حیات پر صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں ، جیسا کہ شہداء کی حیات پر قرآن کریم نے صراحت کی ہے لیکن یہ برزخی حیات ہے جس کی کیفیت و ماہیت کو ماسوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ۔ اور برزخی زندگی کا دنیاوی زندگی پر قیاس کرنا جائز نہیں ہے ۔ انبیاء کرام اور آپ ﷺ کی یہ حیات وفات سے پہلے والی حیات سے مختلف ہے اور یہ برزخی حیات ہے اور یہ ایک پوشیدہ راز ہے جس کی حقیقت کو ما سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا لیکن یہ واضح اور ثابت شدہ امر ہے کہ برزخی حیات دنیاوی حیات کے بالکل مختلف ہے اور برزخی حیات کو دنیاوی حیات کے قوانین کے تابع نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ دنیا میں انسان کھاتا ہے ، پیتا ہے ، سانس لیتا ہے ، نکاح و شادی کرتا ہے ، حرکت کرتا ہے اور اپنی دوسری ضروریات پوری کرتا ہے ، بیمار ہوتا ہے اور گفتگو وغیرہ کرتا ہے ۔ کسی کے بس کی بات نہیں ہے کہ مرنے کے بعداس کو یہ تمام امور پیش آتے ہوں حتی کہ انبیاء ؑکے لئے بھی ان میں سے کوئی ایک چیز ثابت نہیں ہو سکتی ۔زیر نظر کتابچہ’’مسئلہ حیات النبی ﷺ‘‘ جید عالم دین شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیلکے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو دیوبندی حلقوں میں باہمی دوفریقوں کے مسئلہ حیات النبیﷺ کے بارے میں اختلاف کی وجہ سے مولانا سلفی نے 1958ء اور 1959ء میں تحریر کیے۔جن میں مولانا سلفی مرحوم نے مسئلہ حیات النبیﷺ کو ادلہ شرعیۃ کی روشنی میں واضح کیا ۔یہ اُس وقت ماہنامہ ’’ر حیق اور ہفت روزہ الاعتصام میں قسط وار شائع ہوئے ۔ پھر 1960 ء میں انہیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا ۔ موجودہ ایڈیشن کو دوبارہ مکتبہ سلفیہ نے 2004ء میں شائع اور حافظ شاہد محمود نے اس کی تحقیق وتخریج کرکے مجموعہ رسائل سلفی میں بھی بڑے عمدہ طریقہ سے شائع کیا ہے جسے عنقریب ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیا جائے گا ۔(ا ن شاء اللہ ) اللہ تعالی اس کتاب کو لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ ا)
 

عبد المعز

محفلین
شریعتِ اسلامیہ میں عبادات اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان مناجات کانام ہے اور بندے کا اپنے خالق سےقلبی تعلق کا اظہار ہے ۔ایک مسلمان جب اپنی غمی،خوشی اور زندگی کے دیگر معاملات میں اللہ سےرہنمائی حاصل کرتا ہے تو اس کا یہ تعلق اس کے رب سے اور بھی گہرا ہوجاتا ہے ۔ عبادات کاایک حصہ ان دعاؤں پر مشتمل جو ایک مسلمان چوبیس گھنٹوں میں شارع ﷺ کی دی ہوئی رہنمائی کے مطابق بجا لاتا ہے او ر یقیناً مومن کےلیے سب سے بہترین ذریعہ دعا ہی ہے جس کے توسل سے وہ اپنے رب کو منالیتا ہے اور اپنی دنیا وآخرت کی مشکلات سے نجات پاتا ہے۔کتبِ احادیث نبی کریمﷺ کی دعاؤں سے بھری پڑی ہیں ۔مگر سوائے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے تمام احادیث کی کتب میں صحیح ضعیف اور موضوع روایات مل جاتی ہیں ۔دعاؤں پر لکھی گئی بے شمار کتب موجود ہیں اوران میں ایسی بھی ہیں جن میں ضعیف وموضوع روایات کی بھر مار ہے ۔زیر نظر کتاب''اذکار المسلم ''بھی مذکورہ سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔لیکن اس کی انفرادیت یہ ہےاس کتاب سے قبل چھپنے والی تمام کتب کو اس میں یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اور پھر ان تمام احادیث کی تخریج وتحقیق کا حتی المقدور اہتمام کیا گیا ہے ۔اور اس میں صحیح اور ضعیف احادیث کوالگ الگ رنگوں سے ممیز کیا گیا ہے ۔تاکہ قارئین با آسانی ان احادیث کی اسناد میں فرق کرسکیں۔اس کتاب کو محترم طاہر عثمان بادوزئی نے مرتب کرکے خوبصورت اندازمیں عمدہ اور طباعت کے اعلی معیار پر رنگین شائع کیا ہے ۔اس میں تحقیق وتخریج کے فرائض مولانا فاروق رفیع (مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ) نے انجام دئیے ہیں ۔اللہ تعالی اس کتاب کو شرف قبولیت سے نوازے اور اسے عوام وخاص میں قبول عام فرمائے (آمین) (م ۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
یہ بات روز روشن کی طر ح عیاں ہے کہ اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔آپ خاتم النبیین اور سلسلہ نبوت کی بلند مقام عمارت کی سب سے آخری اینٹ ہیں ،جن کی آمد سے سلسلہ نبوی کی عمارت مکمل ہو گئی ہے۔آپ کے بعد کوئی برحق نبی اور رسول نہیں آسکتا ہے ۔لیکن آپ نے فرمایا کہ میرے بعد متعدد جھوٹے اور کذاب آئیں گے جو اپنے آپ کو نبی کہلوائیں گے۔کتب تاریخ میں اسو د عنسی ، مسیلمہ کذاب ، مختار ابن ابو عبید ثقفی اور ماضی قریب کے مرزا قادیانی سمیت کئی جھوٹے مدعیان نبوت کا ذکر موجودہے ۔زیر نظر کتاب ''آئمہ تلبیس '' مولانا ابو القاسم رفیق دلاوری کی تصنیف ہے جوکہ خیر القرون کے زمانہ سے مرزاقادیانی تک کے تمام ان جھوٹے مدعیا ن نبوت کے سچے حالات و اقعات پر مشتمل ہے کہ جنہوں نے الوہیت،نبوت، مسیحیت ، مہدویت اور اس قسم کے دوسرے جھوٹے دعوے کر کےاسلام میں رخنہ اندازیاں کیں اور اسلام کے بارے میں مارہائے آستین ثابت ہوئے ۔(م ۔ا )
 

عبد المعز

محفلین
ولایت ِنکاح کا مسئلہ یعنی جوان لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کی اجازت او ررضامندی ضروری ہے قرآن وحدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ کسی نوجوان لڑکی کو یہ اجازت حاصل نہیں ہے کہ وہ والدین کی اجازت اور رضامندی کے بغیر گھر سے راہ ِفرار اختیار کرکے کسی عدالت میں یا کسی اور جگہ جاکر از خود کسی سے نکاح رچالے ۔ایسا نکاح باطل ہوگا نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت ،رضامندی اور موجودگی ضروری ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں مسلمانوں کے اسلام سے عملی انحراف نے جہاں شریعت کے بہت سے مسائل کوغیر اہم بنادیا ہے ،اس مسئلے سے بھی اغماض واعراض اختیار کیا جاتاہے -علاوہ ازیں ایک فقہی مکتب فکر کے غیر واضح موقف کو بھی اپنی بے راہ روی کے جواز کےلیے بنیاد بنایا جاتاہے ۔زیر نظر کتاب ’’ پسند کی شادی اسلام اور قانون‘‘ معروف قانون دان ظفر علی راجا ایڈووکیٹ کی تالیف ہے جسے انہوں نے پسندکی شادی کے حوالے ایک معروف کیس کے تناظر میں تحریر کیا ہے جس میں پسند کی شادی کی شرعی اور قانونی حیثیت پر بحث کی ہے ۔اور مصنف نے کتاب کے مقدمہ میں بیان کیا ہے اس کتاب کی حد تک ’’پسند کی شادی‘‘ کا مطلب ایسی شادی ہے کہ جس میں فریقین اورخاص کر لڑکی کے والدین اپنی ناپسندیدگی یا ناراضکی کے سبب شریک نہ ہوئے ہوں۔کتاب ہذا کے مصنف ظفر علی راجا صاحب نے 1985ء میں دنیا بھر کی اعلیٰ عدالتوں میں اسلامی قانون پر دئیے گئے فیصلے جمع کرنےکا بیڑا اٹھایا او رتن تنہا وہ کام کر دکھایا کہ جو بڑے بڑے ادارے بھی نہیں کر پاتے ۔اب تک ان کایہ کام بیس ضخیم جلدوں میں ’’اسلامک جج منٹس‘‘ کے نام سے شائع ہوکر بین الاقوامی یونیورسٹی میں پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔ اس عظیم الشان کا م پر 1989ء میں انہیں پیرس میں بین الاقوامی ایوارڈسے نواز ا گیا ہے۔یہ کتا ب محدث لائبریری میں بھی موجود ہے موصوف کا فی عرصہ سے مجلس التحقیق الاسلامی سے بھی وابستہ ہیں ۔(م۔ا)
 
Top