کب جال بُن رہا ہے مقدر مرے خلاف ۔۔۔

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کب جال بُن رہا ہے مقدر مرے خلاف؟
ہونے لگا ہے اب تو مرا سر مرے خلاف

تقریر ہو رہی ہے سرِ شہرِ انقلاب
تحریک چل رہی ہے برابر مرے خلاف

یاروں سے کیا میں شکوہِ عہدِ وفا کروں؟
نعروں سے گونجتا ہے مرا گھر مرے خلاف

طوفان کا تو صرف بہانہ ہے اے صبا!
لہریں اُٹھا رہا ہے سمندر مرے خلاف

کیا کر دیا ہے میں نے، بتاتا نہیں کوئی
آتا ہے شہر سنگ اٹھا کر مرے خلاف

اُس سے یہ کیوں کہوں کہ ترا آئنہ ہوں میں
لے آئے گا دلیل ستمگر مرے خلاف

کرنے لگوں گا جب بھی کسی سے مذاکرات
ہو جائیں گے بیان فزوں تر مرے خلاف

میں نے ہی کی ہے تنگ یہ جتنی بھی ہے زمیں
سازش نہیں ہوئی ہے فلک پر مرے خلاف

برائے توجہ:
محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب
 
بلا تمہید ۔۔ پہلا دوسرا تیسرا اور آخری سے پہلا؛ یہ غزل کے شعر نہیں بن پائے۔
سیاسی منظر نامے کی مضمون بندی میں مسئلہ اکثر یہ آن پڑتا ہے کہ شعریت متاثر ہو جاتی ہے، اس لئے یار لوگ ایسی باتیں قطعات میں کرتے ہیں، وہاں چل جاتی ہیں۔ غزل شاید نسبتاً محجوب مضامین طلب کرتی ہے، یا ہو سکتا ہے یہ میرا اپنا احساس ہو۔
 
تیسرے شعر میں مفاہیم کا مسئلہ بھی ہے تھوڑا سا۔
عہدِ وفا کا شکوہ تو نہیں ہوتا؛ شکوہ ہوتا ہے عہدِ وفا کر توڑنے یا نہ نبھانے کا۔ توجہ فرمائیے گا۔
 
طوفان کا تو صرف بہانہ ہے اے صبا!
لہریں اُٹھا رہا ہے سمندر مرے خلاف
اچھا شعر ہے۔ تاہم اگر میں طوفاں اٹھانا (محاورہ بھی ساتھ ساتھ) آ سکے تو شعر بہت اوپر اٹھ سکتا ہے۔ سائنسی مظاہر ضروری نہیں کہ شعر میں بھی اپنے کیمیائی، طبعی خواص وغیرہ کے ساتھ آئیں۔
 
کیا کر دیا ہے میں نے، بتاتا نہیں کوئی
آتا ہے شہر سنگ اٹھا کر مرے خلاف

آتا ہے ۔۔۔ یا ۔۔۔ آیا ہے؟ یا پھر ایک اور تجویز "نکلا ہے" ۔۔۔ دیکھ لیجئے گا
 
میں نے ہی کی ہے تنگ یہ جتنی بھی ہے زمیں
سازش نہیں ہوئی ہے فلک پر مرے خلاف
اچھا شعر ہے، پہلا مصرع مزید نکھر سکے تو بہتر ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بلا تمہید ۔۔ پہلا دوسرا تیسرا اور آخری سے پہلا؛ یہ غزل کے شعر نہیں بن پائے۔
سیاسی منظر نامے کی مضمون بندی میں مسئلہ اکثر یہ آن پڑتا ہے کہ شعریت متاثر ہو جاتی ہے، اس لئے یار لوگ ایسی باتیں قطعات میں کرتے ہیں، وہاں چل جاتی ہیں۔ غزل شاید نسبتاً محجوب مضامین طلب کرتی ہے، یا ہو سکتا ہے یہ میرا اپنا احساس ہو۔
آپ سچ کہتے ہیں، مجھے بھی یہ غزل نہیں لگ رہی تھی کیونکہ غزل کا اسلوب کچھ اور ہوتا ہے، لیکن خیال اچھا محسوس ہوا تو مسلسل اشعار لکھ دئیے ۔۔۔
تیسرے شعر میں مفاہیم کا مسئلہ بھی ہے تھوڑا سا۔
عہدِ وفا کا شکوہ تو نہیں ہوتا؛ شکوہ ہوتا ہے عہدِ وفا کر توڑنے یا نہ نبھانے کا۔ توجہ فرمائیے گا۔
یقینا ۔۔۔ یہ درست ہے ۔۔
طوفان کا تو صرف بہانہ ہے اے صبا!
لہریں اُٹھا رہا ہے سمندر مرے خلاف
اچھا شعر ہے۔ تاہم اگر میں طوفاں اٹھانا (محاورہ بھی ساتھ ساتھ) آ سکے تو شعر بہت اوپر اٹھ سکتا ہے۔ سائنسی مظاہر ضروری نہیں کہ شعر میں بھی اپنے کیمیائی، طبعی خواص وغیرہ کے ساتھ آئیں۔
خلیل صاحب کی اصلاح اس ضمن میں کافی کار آمد لگتی ہے، شاید تھوڑی سی ترمیم وہاں بھی چاہئے ۔۔۔
کیا کر دیا ہے میں نے، بتاتا نہیں کوئی
آتا ہے شہر سنگ اٹھا کر مرے خلاف

آتا ہے ۔۔۔ یا ۔۔۔ آیا ہے؟ یا پھر ایک اور تجویز "نکلا ہے" ۔۔۔ دیکھ لیجئے گا
نکلا ہے ۔۔۔ بہتر محسوس ہورہا ہے یہاں ۔۔۔
اُس سے یہ کیوں کہوں کہ ترا آئنہ ہوں میں
لے آئے گا دلیل ستمگر مرے خلاف

اس میں لفظ "کیوں" شعر کو متاثر کر رہا ہے۔
۔۔۔ کچھ اور سوچتے ہیں اس کا بھی ۔۔۔
میں نے ہی کی ہے تنگ یہ جتنی بھی ہے زمیں
سازش نہیں ہوئی ہے فلک پر مرے خلاف
اچھا شعر ہے، پہلا مصرع مزید نکھر سکے تو بہتر ہے۔
بے شک ۔۔۔ تنگ کے بعد ’یہ‘ کچھ اٹک رہا ہے ۔۔۔
۔۔۔
معذرت ، کہ آپ کو بر وقت جواب نہیں دے سکا ۔۔۔
 

جنید عطاری

محفلین
کیونکر اُسے کہوں کہ ترا آئنہ ہوں میں
لے آئے گا دلیلیں ستمگر مرے خلاف

سرخ الفاظ ترمیم شدہ ہیں۔
سبز الفاظ میں اٹھان نہیں ہے، ایک دلیل ناقص و ناقابلَ قبول ہو سکی ہے، مگر بہت سی دلیلیں میں چند تو معیاری ہوں گی۔
بجائے نیلے لفظ کے "ترے ہو بہو ہوں میں" زیادہ بہتر ہے۔

باقی جو مناسب لگے۔
 
Top