کبھی شاید بدل جائیں گے دن ہم بد نصیبوں کے

درویش بلوچ

محفلین
کبھی شاید بدل جائیں گے دن ہم بد نصیبوں کے
شفا مل جائے گی ہم کو بھی ہاتھوں ان طبیبوں کے

میں نکلا سرخرو ہوکر محبت کی عدالت سے
ہوئے دعوے غلط ثابت میرے سارے رقیبوں کے

ہماری سرکشی بھی اب کے اپنی انتہاء پر ہے
بچھائے جارہے ہیں جال ہر جانب صلیبوں کے

امیروں کی تمنائیں تو پوری ہو ہی جاتی ہیں
فقط حسرت ہی حسرت ہے مقدر میں غریبوں کے

نہ ہو مایوس کہ یہ مشکلیں دو چار دن کی ہیں
کبھی حالات پلٹا کھائیں گے تیرہ نصیبوں کے

چلا جب بھی ستم کا دور اپنے شہر میں درویش
بدلتے ہم نے پائے ہیں سدا لہجے خطیبوں کے
 

الف عین

لائبریرین
مشکل قوافی کے باوجود درست ہے غزل۔ بس میں 'کہ' کو بطور 'کے' استعمال پسند نہیں کرتا ۔
نہ ہو مایوس کہ یہ مشکلیں دو چار دن کی ہیں
کبھی حالات پلٹا کھائیں گے تیرہ نصیبوں کے
اس کو یوں کیا جا سکتا ہے
نہ یوں مایوس ہو، یہ مشکلیں دو چار ۔۔۔۔
 
Top