کام کیا دنیا میں مجھ بیمار کا

عظیم

محفلین
غزل


کام کیا دنیا میں مجھ بیمار کا
ذکر کرنے کے سوا اس یار کا

اس طرف چاہے ہو ذلت بے بہا
مجھ کو دھڑکا ہے فقط اس پار کا

اور کوئی گھر بھی کر پائے گا کیوں
دل مکاں ہے بس مرے دلدار کا

رنج دنیا کے بھگا دیتا ہے سب
یاد آ جانا کسی غم خوار کا

میں بھی روتا ہوں وہی رونا جو سب
رو گئے دنیا میں اک آزار کا

ناتواں ایسا کہ بس لقمہ ہوں اک
میں کسی کی چشم کے اک وار کا

ہے کوئی ثانی جو سر اونچا نہ ہو
میرے آقا کا مری سرکار کا

یاد رہ رہ کے مجھے آتا ہے وہ
چھیڑنا اس کا یہ دل کے تار کا

رات دن گزریں دعاؤں میں عظیم
ہے یہی ہتھیار مجھ لاچار کا




 
Top