کالی کہکشاں 92

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
وہ پاگلوں کی طرح کار ڈرائیو کر رہی تھی۔ نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا ہوا تھا نتھنے غصے کی زیادتی کی وجہ سے پھول پچک رہے تھے۔ پیشانی پر سلوٹیں تھیں۔۔۔ اور آنکھیں سرخ۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کار ہی سے اس کی شان میں کوئی گستاخی سرزد ہوئی ہو۔ اسی لئے رگڑے ڈال رہی ہو بیچاری کو۔۔۔!

سڑک خطرناک تھی۔ پہاڑی علاقوں کی سڑکیں عام طور پر ایسی ہی ہوتی ہیں۔ چکر دار۔۔۔۔ جن کی ایک جانب ہیبت ناک گہرائیاں ہوتی ہیں۔

لیکن وہ تو اس طرح ڈرائیو کر رہی تھی جیسے کسی میدان میں تیز رفتاری کے ریکارڈ توڑ رہی ہو۔

خوش شکل بھی رہی ہوگی لیکن اس وقت تو غضب ناکی نے خدوخال کی بناوٹ ہی بگاڑ کر رکھ دی تھی۔۔۔ بال کھلے ہوئے تھے اور ایک سرکش لٹ بار بار اڑ کر چہرے پر آ رہتی۔۔۔ جین اور جیکٹ میں ملبوس تھی۔! سینے پر کارتوسوں کی پیٹی تھی اور ہولسٹر میں ریوالور موجود تھا۔!

سفر کا اختتام ایک چھوٹی سی بستی میں ہوا۔۔۔ قہوہ خانے کے سامنے اس نے گاڑی روکی تھی۔

انجن بند کر کے نیچے اتری۔۔۔ چند لمحے خاموش کھڑی قہوہ خانے کے صدر دروازے کو گھورتی رہی۔ پھر آندھی اور طوفان کی طرح قہوہ خانے میں داخل ہوئی تھی۔! چوبی فرش پر اس کے وزنی جوتے ایسے دھمک پیدا کر رہے تھے جیسے دوسروں کا سکون غارت کرنا اس کے بنیادی حقوق میں شامل ہو۔

اسے دیکھتے ہی ایک آدمی کاؤنٹر کے پیچھے سے نکلا تھا اور تیزی سے آگے بڑھ کر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی تھی۔

"چلی جاؤ۔۔۔ خدا کے لئے اس وقت چلی جاؤ۔!" اس نے خوف زدہ انداز میں سرگوشی کی تھی۔!

"بکواس بند کرو۔۔۔!" وہ پیر پٹخ کر دھاڑی۔۔۔ "مجھے بتاؤ کہ وہ بابا کو کہاں لے گئے ہیں۔!"

"تمہارے لئے بھی خطرہ ہے۔۔۔ چلی جاؤ۔۔۔!" اس نے مڑ کر کاؤنٹر کی طرف دیکھا تھا۔

لڑکی کی نظر بھی ادھر ہی اٹھ گئی۔۔۔!

"کاؤنٹر کے پیچھے کون ہے۔۔۔؟" اس نے آہستہ سے پوچھا تھا۔ ساتھ ہی اس کا ہاتھ ریوالور کے دستے پر جا ٹکا تھا۔

"میں کہتا ہوں چلی جاؤ۔۔۔!"

"کیا تمہاری شامت آئی ہے۔۔۔! میں نے پوچھا تھا کہ کاؤنٹر کے پیچھے کون ہے۔۔۔؟"

"وہ دونوں رک گئے ہیں۔ عقبی کمرے میں ہیں۔۔۔!"

"کون دونوں۔۔۔!"

"طارق اور جواد۔۔۔! میں کہتا ہوں یہاں سے چلی جاؤ۔!"

"میں نے پوچھا تھا کہ وہ بابا کو کہاں لے گئے ہیں۔!"

"رب العزت کی قسم۔۔۔! میں نہیں جانتا۔۔۔ وہی دونوں جانتے ہوں گے۔ ان کے ساتھ تھے۔۔۔ نہ جانے کیوں یہاں رک گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے۔۔۔ تمہارے ہی لئے رکے ہوں۔۔۔ چلی جاؤ۔۔۔ پھر کہتا ہوں چلی جاؤ۔۔۔!"

اس نے پھر خوف زدگی کے ساتھ کاؤنٹر کی طرف دیکھا تھا۔

"تو وہ جانتے ہوں گے کہ بابا کو کہاں لے جایا گیا ہے۔۔۔!" لڑکی نے سوال کیا۔

"جب ساتھ تھے تو ضرور ہی جانتے ہوں گے۔۔۔!"

"اور تم مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ میں یہاں سے چلی جاؤں۔۔!"

"فی الحال عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے۔!"

"اور تم ان لوگوں کے مقابلے میں بابا کے ہمدرد ہو۔۔۔!"

"یقیناً ہوں۔۔۔!" وہ آہستہ سے بولا "لیکن تمہارے علاوہ اور کسی کے سامنے اعتراف کی جرآت نہیں رکھتا۔!"

"اچھی بات ہے تو پھر ہٹ جاؤ میرے راستے سے۔۔۔! میں انہی دونوں سے معلوم کروں گی۔!"

"تم سمجھتی کیوں نہیں۔۔۔!" اس نے چاروں طرف دیکھ کر بے بسی سے کہا۔ اس دوران میں قہوہ خانے کی ساری میزیں خالی ہو گئی تھیں۔ لوگ خطرے کی بو سونگھتے ہی ایک ایک کر کے کھسک گئے تھے۔!

"اچھی بات ہے۔۔۔ میں جا رہی ہوں۔۔۔!" لڑکی نے آہستہ سے کہا۔ وہ کنکھیوں سے کاؤنٹر کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔ کاؤنٹر کے پیچھے دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا۔۔۔ اور اس آدمی کی شکل صاف نظر آئی تھی جس نے دروازہ کھولا تھا اور پھر وہ تیزی سے باہر آ گیا۔

لڑکی صدر دروازے کی طرف مڑی ہی تھی کہ وہ ہاتھ اٹھا کر دھاڑا۔۔۔!

"ٹھہرو۔۔۔!"

لڑکی پلٹ پڑی لیکن اس کا ریوالور ہولسٹر سے نکل آیا تھا اور اس کی نال آواز دے کر روکنے والے کے سینے کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔

قہوہ خانے کا مالک تھوک نگل کر رہ گیا۔

کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے ہوئے آدمی نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دیئے تھے۔ لڑکی اس کے دل کا نشانہ لئے آہستہ آہستہ کاؤنٹر کی طرف بڑھتی رہی قہوہ خانے کا مالک جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔ اس کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار تھے۔

"بابا کہاں ہیں۔۔۔؟" لڑکی نے کاؤنٹر کے قریب پہنچ کر تیز قسم کی سرگوشی کی۔!

"تم فائر نہیں کر سکتیں۔!" وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

"میری بات کا جواب نہ دے کر دیکھو۔۔۔!"

"میں نہیں جانتا۔۔۔!"

"تم جھوٹے ہو۔۔۔؟ بتاؤ۔۔۔!" لڑکی نے کہا اور پھر کسی قدر ترچھی ہو کر فائر کر دیا لیکن شکار وہ آدمی تھا جس نے دروازے کی اوٹ سے لڑکی پر فائر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ریوالور اس کے ہاتھ سے چھوٹ پڑا۔

وہ آدمی جس نے ہاتھ اٹھا رکھے تھے بوکھلا کر ایک طرف ہٹ گیا تھا۔

"جیسے ہو۔۔۔ ویسے ہی کھڑے رہو۔۔۔!" لڑکی ڈپٹ کر بولی اور کاؤنٹر کے پیچھے والا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ بند ہو گیا اور بولٹ سرکنے کی آواز بھی آئی تھی۔

لڑکی اس آدمی کو کور کئے ہوئے کاؤنٹر کے پیچھے آئی اور جھک کر ریوالور اٹھا لیا۔۔۔ ریوالور کے قریب ہی اسے خون کی بوندیں بھی نظر آئی تھیں۔۔۔!

"صدر دروازہ بند کر دو۔۔۔!" لڑکی نے قہوہ خانے کے مالک سے کہا۔

اس نے چپ چاپ تعمیل کی تھی۔

"اب میرے دونوں ہاتھوں میں ریوالور ہیں۔!" لڑکی نے اونچی آواز میں کہا۔ "ایک کا رخ دروازے کی طرف ہے اور دوسرے کا طارق کی طرف۔۔۔ بہتری اسی میں ہے جواد کہ باہر آ جاؤ۔۔۔ اور مجھے بتاؤ کہ تمہارے ساتھی بابا کو کہاں لے گئے ہیں۔۔۔؟"

اس کی آواز سناٹے میں گونج کر رہ گئی۔۔۔ لیکن کہیں سے بھی کوئی جواب نہ ملا۔

"جواد زخمی ہو گیا ہے۔۔۔!" لڑکی نے طارق سے کہا۔ "یہ رہیں خون کی بوندیں، میں تمہیں بھی زندہ نہ چھوڑوں گی ورنہ بابا کا پتہ بتا دو۔!"

"مم۔۔۔ میں نہیں جانتا۔۔۔!"

"تم دونوں یہاں کیوں رک گئے تھے۔۔۔!"

"بب۔۔۔ بس یونہی۔۔۔!"

قہوہ خانے کا مالک دروازہ بند کر کے وہیں رک گیا تھا۔ لیکن اب اس کے چہرے پر ہیجان یا انتشار کی علامات نہیں تھیں۔ بڑے سکون کے ساتھ اس سچویشن کا تماشائی بنا ہوا تھا۔

"اچھی بات ہے تو مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ میں ان میں سے کسی کو بھی نہیں بخشوں گی جو بابا کی پریشانی کا باعث بنے ہیں۔!" لڑکی نے طارق سے کہا۔

"تیرے بابا نے غداری کی تھی۔۔۔!" اندر سے کراہتی ہوئی سی آواز آئی۔

"باہر نکل کر بات کیوں نہیں کرتا کتے۔۔۔ اگر تو بابا کی غداری ثابت کر سکا تو میں تجھے معاف کر دوں گی۔!"

"تم پچھتاؤ گی زینو۔۔۔!" طارق بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

"دیکھا جائے گا۔۔۔ تم اپنی خیریت چاہتے ہو تو جواد کو میرے سامنے بلاؤ۔۔۔!"

"مم۔۔۔ میں کیسے بلاؤں۔۔۔!"

"جواد باہر نکل کر بات کرو۔۔۔!" لڑکی دھاڑی۔۔۔ لیکن اس بار اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔

زینو نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوئے سوچا کہیں وہ فرار نہ ہو گیا ہو۔

"طارق۔۔۔! آگے بڑھو اور دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاؤ۔!" اس نے ریوالور کو جنبش دے کر کہا۔

"تم ضرور پچھتاؤ گی۔۔۔!" کہتا ہوا دیوار کی طرف مڑ گیا۔ زینو نے ایک ریوالور ہولسٹر میں ڈال دیا اور دوسرے سے طارق کو کور کئے ہوئے اس کی طرف بڑھی۔ وہ دیوار سے لگا کھڑا تھا۔

اس کے ہولسٹر سے ریوالور نکال لینے کے بعد اپنے ریوالور کے دستے سے اس کی گردن پر ضرب لگائی تھی۔

طارق لڑکھڑاتا ہوا فرش پر آ رہا۔

"رب العزت کی قسم تو بڑے دل گردے والی ہے۔۔۔!" قہوہ خانے کے مالک نے کہا جو اب کاؤنٹر کے قریب کھڑا ہوا تھا۔

"کیا وہ دوسری طرف سے نکل گیا ہوگا۔!" زینو نے بیہوش طارق پر سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا۔

"ادھر کی کھڑکی کی سلاخیں نہیں ہیں۔!" جواب ملا۔

"اوہ۔۔۔ تب تو ضرور نکل گیا ہوگا۔!"

"میں دیکھوں جا کر۔۔۔!"

"ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ میں ادھر ہی ٹھہروں گی۔ کہیں یہ بھی ہوش میں آ کر کھسک نہ جائے۔!"

"مجھے اس کے لئے جواب دہی کرنی پڑے گی۔!"

"ہاں۔۔۔ یہ بات تو ہے۔۔۔ اچھی بات ہے۔۔۔ میں جا رہی ہوں تم اسے دیکھو۔۔۔ پھر میں کوئی ایسی تدبیر کروں گی کہ تم جواب دہی سے بچ جاؤ۔!"

وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ قہوہ خانے سے تھوڑے فاصلے پر بھیڑ لگ گئی تھی۔! اس نے ان لوگوں پر اچٹتی ہوئی سی نظر ڈالی تھی اور ریوالور والا ہاتھ اٹھا کر بولی تھی "اگر کسی نے ادھر آنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا۔!"

جو جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔۔۔ وہ چکر کاٹ کر قہوہ خانے کی پشت پر پہنچی۔

کھڑکی کھلی نظر آئی۔ اس کے نیچے دیوار پر خون کی لکیریں تھیں۔ کمرہ خالی تھا۔ وہ کھڑکی ہی کی طرف سے کمرے میں داخل ہوئی اور کھڑکی بند کر کے سٹکنی لگا دی۔۔۔ یہاں بھی فرش پر کئی جگہ خون کے تازہ دھبے تھے۔! دروازہ کھول کر وہ پھر ہال میں پہنچ گئی۔ طارق بدستور اوندھا پڑا ہوا نظر آیا۔ ابھی تک ہوش میں نہیں آیا تھا۔

"باہر بھیڑ لگ گئی ہوگی۔!" قہوہ خانے کے مالک نے پوچھا۔

زینو نے سر کی جنبش سے اعتراف کیا تھا اور طارق کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔

"جاؤ دروازہ بند کر کے بولٹ کر دو۔۔۔!" اس نے کچھ دیر بعد قہوہ خانے کے مالک سے کہا۔! وہ پر تفکر انداز میں دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا۔

واپسی پر زینو سے بولا۔ "مجھے یقین آ گیا ہے کہ طارق نہیں جانتا۔! جواد کو علم تھا جو فرار ہو گیا۔۔۔!"

"مجھ سے بچ کر کہاں جائے گا۔۔۔ یہاں ان کی کوئی گاڑی تو نہیں تھی۔۔۔!"

"نہیں۔۔۔ یہ دونوں کل صبح تک بستی میں ہی قیام کرنے والے تھے۔ کل ان کے لئے گاڑی آتی!"

"ٹھیک ہے۔۔۔! میں تمہیں کرسی سے باندھ جاؤں گی اور تم جواب دہی سے بچ جاؤ گے۔۔۔!"

"زینو۔۔۔ تم تنہا کچھ نہیں کر سکتیں۔!"

"تو پھر یہاں کون میرا ساتھ دے گا۔!"

قہوہ خانے کا مالک کچھ نہ بولا۔ زینو نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ "اس لئے مجھے ہی سب کچھ کرنا ہے۔!"

"تم کیا کرو گی۔۔۔؟"

"جو کچھ بھی بن پڑے گا۔۔۔! بابا کو ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔!"

"سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیوں اور کیسے ہوا۔۔۔؟"

"وہ کہہ رہا تھا کہ بابا نے غداری کی تھی۔!"

"میں سوچ بھی نہیں سکتا۔!"

زینو پھر بیہوش آدمی کی طرف دیکھنے لگی تھی۔۔۔ قہوہ خانے کا مالک کہیں سے موٹی ڈور کا ایک لچھا نکال لایا۔ پہلے بیہوش طارق کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے تھے۔ پھر اس نے خود بھی اپنے ہاتھ پیر بندھوائے تھے اور زینو سے بولا تھا۔ "اب کیا کرو گی۔۔۔!"

"جواد کو تلاش کروں گی۔۔۔!"

"بستی والوں سے ہوشیار رہنا۔۔۔ سرخروئی حاصل کرنے کے لئے وہ تم پر پیچھے سے بھی وار کر سکتے ہیں۔!"

"تم بے فکر رہو۔۔۔!" اس نے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔

باہر نکلی تھی۔۔۔ بھیڑ اب بھی موجود تھی۔ لیکن کسی نے بھی اس کی طرف بڑھنے کی جرآت نہیں کی تھی۔! وہ اپنی گاڑی میں آ بیٹھی۔۔۔! طارق کی کارتوس کی پیٹی سے سارے کارتوس نکال لائی تھی اور دونوں ریوالور بھی اسی کے قبضے میں تھے۔

گاڑی اسٹارٹ کر کے ایک بار پھر وہ قہوہ خانے کی پشت پر آئی تھی اور گاڑی سے اتر کر کھڑکی کے قریب پہنچی تھی اور زمین پر خون کی بوندوں کی تلاش شروع کر دی تھی۔

پتھریلی اور شفاف زمین پر یہ کام کچھ ایسا مشکل بھی نہیں تھا۔ تھوڑی دور تک خون کی بوندیں نظر آتی رہیں۔۔۔ پھر یک بیک غائب ہو گئی تھیں۔۔۔!

چاروں طرف دور دور تک دیکھ آئی لیکن خون کی ایک بوند بھی کہیں نہ دکھائی دی۔

آخر اس جگہ سے وہ کہاں غائب ہو گیا۔۔۔! آس پاس کوئی ایسی پناہ گاہ بھی نہ دکھائی دی جہاں اس کے چھپ رہنے کا امکان ہوتا۔

وہ پھر گاڑی کی طرف پلٹ آئی۔ اتنے میں قہوہ خانے کی عقبی کھڑکی کھلی تھی اور زینو نے بڑی پھرتی سے ریوالور نکال لیا تھا۔۔۔!

کھڑکی میں ایک چہرہ نظر آیا۔۔۔ بستی ہی کا کوئی فرد تھا۔۔۔۔! چہرہ شناسا لگ رہا تھا۔!

"تم نے اچھا نہیں کیا لڑکی۔۔۔!" وہ بھاری بھرکم آواز میں بولا۔

"دونوں زندہ ہیں۔۔۔! مر نہیں گئے!" زینو نے لاپرواہی سے کہا۔

"اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا۔!"

"اتنا طاقت ور نہیں معلوم ہوتا کہ جلد ہوش میں آ جائے۔!"

"تم جانتی ہو اس کا انجام کیا ہوگا۔!"

"تم ہی بتاؤ اگر نہیں جانتی۔۔۔!"

"پوری بستی پر عذاب نازل ہوگا۔!"

"وہ میرے بابا کو پکڑ کر کہیں لے گئے ہیں۔ طارق اور جواد ان کے ساتھ تھے۔!"

"مجھے معلوم ہے۔۔۔!"

"کہاں لے گئے ہیں۔۔۔؟"

"یہ میں نہیں جانتا۔۔۔! وہ بستی ہی سے گذرے تھے اسی لئے سب کو اس کا علم ہے۔۔۔! اور اب جتنی جلد ممکن ہو یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔ ورنہ اگر ہوش میں آنے کے بعد طارق نے بستی والوں کو تمہارے خلاف اکسایا تو وہ اس کا کہا ماننے پر مجبور ہو جائیں گے۔!"

"میں چلی جاؤں گی۔۔۔ لیکن یہی بتا دو کہ جواد کہاں غائب ہو گیا۔۔۔!"

اس نے ادھر ادھر دیکھ کر سامنے والی پہاڑیوں کی طرف انگلی اٹھائی تھی۔

"تمہارا بہت بہت شکریہ۔۔۔! میں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔۔۔!" کہتی ہوئی وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اور گاڑی تیر کی طرح سڑک کی جانب روانہ ہوئی تھی۔

شائد وہ سمجھ گئی تھی کہ جواد نے کہاں پناہ لی ہوگی۔۔۔ چھینے ہوئے ریوالور اس نے ڈیش بورڈ کے ایک خانے میں رکھ کر اسے مقفل کر دیا تھا۔! کچھ دور۔۔۔ سڑک پر چلنے کے بعد اس نے گاڑی کو بڑی احتیاط سے ایک ڈھلان میں اتارنا شروع کیا تھا اور بالآخر اس میں کامیاب بھی ہو گئی تھی۔۔۔ ایک مسطح جگہ کا انتخاب کر کے گاڑی وہیں روکی اور انجن بند کر دیا۔

بے حد پرسکون نظر آ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس مہم کی کامیابی پر پوری طرح یقین ہو۔۔۔! گاڑی کو مقفل کر کے دوسری جانب والی چڑھائی طے کرنے لگی تھی۔۔۔ آنکھیں کسی ایسے درندے کی آنکھوں سے مشابہہ نظر آ رہی تھیں جو شکار کرنے نکلا ہو۔

چٹان کی انتہائی بلندی پر پہنچ کر وہ سینے کے بل لیٹ گئی تھی اور کہنیوں پر زور ڈال کر آہستہ آہستہ کھسکتی ہوئی چٹان کے دوسرے سرے کی جانب بڑھنے لگی۔ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا۔ ہوا میں خنکی پیدا ہو گئی تھی لیکن چٹان ابھی تک تپ رہی تھی۔

دوسرے سرے پر پہنچ کر اس نے نشیب میں جھانکا۔۔۔ دور دور تک کوئی نہ دکھائی دیا۔ ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں تشویش کے آثار ابھر آئے۔۔۔ بڑی دیر تک اسی حالت میں بے حس و حرکت پڑی رہی۔ پھر اس طرف کی ڈھلان میں اترنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ نیچے بائیں جانب والی دراڑ سے ایک آدمی برآمد ہوا اور وہیں ایک بڑے پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

زینو کی آنکھوں میں پہلے ہی کی سی چمک پھر عود کر آئی۔ تنفس کسی قدر تیز ہو گیا۔

اسی طرح کہنیوں کے بل کھسکتے ہوئے اس نے ایک لمبا چکر لیا اور اس کی لاعلمی میں عین اس کے سر پر جا پہنچی۔

"جنبش نہ کرنا اپنی جگہ سے۔۔۔!" اس نے ہولسٹر سے ریوالور نکال کر اس کے سر کا نشانہ لیتے ہوئے کہا۔!

وہ اچھل پڑا اور منہ اٹھا کر آواز کی سمت دیکھنے لگا۔

سب سے پہلے ریوالور کی نال پر ہی نظر پڑی ہوگی۔۔۔! بے حس و حرکت بیٹھا رہ گیا۔!

پھر زینو ایک ہی جست میں اس کے سامنے جا پہنچی تھی۔

"تم آخر ہمارے پیچھے کیوں پڑ گئی ہو۔۔۔!" جواد اپنا زخمی ہاتھ بائیں ہاتھ سے دباتے ہوئے کراہا۔ "ہمیں جو حکم ملا تھا۔۔۔!"

"بس۔۔۔!" زینو غرائی۔ "مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔! میں نے صرف یہ معلوم کرنا چاہا تھا کہ بابا کو کہاں لے جایا گیا ہے۔۔۔؟"

جواد تھوک نگل کر رہ گیا۔!

"لیکن اب اس سے پہلے تمہیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ بابا غداری کے مرتکب ہوئے تھے۔"

"ہمیں یہی بتایا گیا تھا۔۔۔!"

"یہ تو ثبوت نہ ہوا۔۔۔!"

"پھر کیا کہوں۔۔۔!"

"یہی کہ ایسی کوئی بیہودہ بات زبان سے نہ نکالو جس کا کوئی ٹھوس ثبوت تمہارے پاس نہ ہو۔!"

جواد کچھ نہ بولا۔۔۔ زینو چند لمحے اسے گھورتی رہی پھر بولی۔ "یقین کرو اگر تم نے زبان نہ کھولی تو میں تمہیں سسکا سسکا کر ماروں گی۔!"

"ہمیں حکم ملا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو انہیں کہکشاں پہنچا دیں۔!"

"اور تم لوگ ان کی بے خبری میں حملہ آور ہوئے تھے۔!"

"پھر کیا کرتے جابر خان کو للکارنا آسان تو نہیں اور میں نے تو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔!"

"ان کے سر پر ضرب کس نے لگائی تھی۔!"

"داراب نے۔۔۔!"

"تم دونوں یہاں کیوں رک گئے تھے۔!"

"اس لئے کہ کسی طرح تمہیں بھی کہکشاں لے جایا جائے۔!"

"تم لوگوں کو یقین تھا کہ اس کا علم ہوتے ہی میں تعاقب کروں گی۔!"

جواد نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔۔۔ اور ہولے ہولے کراہنے لگا۔

زینو چونکی تھی اور بڑی پھرتی سے ایک پتھر کی اوٹ میں چھلانگ لگائی تھی۔ اوپر سے فائر ہوا تھا اور گولی اسی پتھر سے رگڑ کھاتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی تھی۔!

"گھیرو۔۔۔!" کسی نے چیخ کر کہا اور دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سے فضاء گونجنے لگی۔

پھر زینو کے ریوالور سے ایک شعلہ نکلا۔۔۔ ایک چیخ سناٹے میں گونجی اور اس کا شکار اوپر سے لڑھکتا ہوا نیچے چلا آیا۔

دوڑتے قدموں کی آوازیں معدوم ہو گئیں۔ زینو آہستہ آہستہ پیچھے کھسک رہی تھی۔!

"جانے دو۔۔۔ فائر مت کرو۔۔۔!" جواد نیچے سے چیخا۔۔۔!"ورنہ سب مارے جاؤ گے۔!"

کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔۔۔ اور کسی نے بھی اپنی جگہ سے جنبش کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

زینو نکلی چلی گئی تھی۔۔۔ مقصد حاصل ہو چکا تھا۔۔۔ وہ یہی تو جاننا چاہتی تھی اس کے باپ کو وہ لوگ کہاں لے گئے ہیں۔!
 

قیصرانی

لائبریرین
o​

"خدا اس کتے کو غارت کرے جس نے ایسے پر منہ مارا تھا۔!" سلیمان بھنا کر بولا۔

"تو کیوں مرا جا رہا ہے۔۔۔!" گل رخ چنچنائی۔

"ارے زندگی عذاب بن گئی ہے۔۔۔ پچھلی رات بے خبر سو رہا تھا۔ جگا کر کہنے لگے۔۔۔ ابے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پیٹ میں بے شمار کتے کے پلے ٹیاؤں ٹیاؤں کر رہے ہوں۔۔۔ میں نے کہا سو جائیے ریاح گھوم رہی ہوگی۔ کان کھینچ کر بولے کیا ریاح ٹیاؤں ٹیاؤں کرتی ہے۔!"

"کہیں پاگل نہ ہو جائیں۔۔۔!" گل رخ نے پر تشویش لہجے میں کہا۔ "کتے کے کاٹنے سے آدمی پاگل ہو جاتا ہے۔!"

"ارے جا وہ خود ہی سالا پاگل ہو گیا ہوگا کاٹنے کے بعد۔۔۔!"

"آہستہ بول سن لیا تو گردن اڑا دیں گے۔۔۔!"

"ٹیکے بھی لگ چکے ہیں۔۔۔ لیکن کسی طرح وہم ہی نہیں نکلتا دماغ سے۔!"

"میں تو کہتی ہوں کسی بہت بڑے ڈاکٹر کو دکھائیں۔۔۔ ولائت چلے جائیں۔!"

"یہ ولائت کیا ہوتی ہے۔۔۔!"

"ارے وہی جہاں انگریز رہتے ہیں۔!"

"میٹرک پاس کیا ہے تو نے۔۔۔ اور یہ تک پتہ نہیں کہ اس وقت ولائت کہلاتی تھی جب یہاں انگریزوں کی حکومت تھی۔۔۔ اب تو سالا صرف لندن ہے۔۔۔!"

"ارے ہوگا کچھ میں کہہ رہی تھی کسی بڑے ڈاکٹر کو۔۔۔!"

"بس بس۔۔۔ بہت دیکھے ہیں بیمار۔۔۔ جب بھی گھر پکڑتے ہیں اسی طرح بور کرتے ہیں۔ آج کل شائد کوئی کام وھام نہیں ہے۔!"

"کل مجھ سے پوچھ رہے تھے پہاڑ پر چلے گی۔۔۔!"

"چلی جا خدا کے لئے۔!"

"اکیلے۔۔۔ واہ تو بھی جائے گا تو جاؤں گی۔۔۔!"

"مجھے کون پوچھتا ہے۔۔۔!"

"ارے نہیں۔۔۔ کہہ رہے تھے کہ سلیمان بھی جائے گا۔!"

"مر گیا سلیمان۔۔۔!"

"کیوں۔۔۔؟ کیوں۔۔۔؟"

"شائد تو ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔۔!"

"کیا ٹھیک کہہ رہی ہوں۔۔۔!"

"یہی کہ کہیں پاگل نہ ہو گئے ہوں۔۔۔ ورنہ کہاں سلیمان۔۔۔ اور کہاں پہاڑ۔ اس کے مقدر میں تو صرف سل بٹہ لکھے ہوئے ہیں۔!"

"بک بک مت کرو۔۔۔ کہیں تو تیار ہو جائیو۔۔۔!"

"ان کے ساتھ کسی ایسی جگہ نہیں جا سکتا جہاں بھاگ نکلنے کا راستہ بھی معلوم نہ ہو۔!"

"خوامخواہ ٹر ٹر کئے جا رہا ہے جو کچھ میں کہہ رہی ہوں وہی تجھے کرنا پڑے گا۔!"

"کر چکا۔۔۔!"

"کیا۔۔۔؟ نہیں کرے گا۔۔۔!"

"اپنا کام کر مغر نہ چاٹ۔۔۔!"

اتنے میں جوزف کچن کے دروازے پر نظر آیا تھا۔

"باس ٹم کو بلاٹا۔۔۔!" اس نے سلیمان سے کہا۔

"کیا کر رہے ہیں۔۔۔؟"

"سیٹی بجاٹا۔۔۔!"

"سیٹی بجا رہے ہیں۔۔۔؟ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔۔۔!" سلیمان نے گل رخ کی طرف دیکھ کر کہا۔

جوزف چلا گیا تھا۔ گلرخ بولی "جا دیکھ کیا بات ہے۔۔۔ میں ہانڈی دیکھ لوں گی۔!"

"اب تو ڈر لگتا ہے ان کے قریب جاتے ہوئے۔۔۔!"

"کیوں خوامخواہ بدنام کرتا ہے۔۔۔ میں نے تو کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جس سے پاگل معلوم ہوں۔۔۔!"

"یہی تو خرابی ہے۔۔۔ پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کب پاگل ہو گئے۔!"

"چل دیکھ جا کر کیا کہہ رہے ہیں۔!"

سلیمان ہاتھ جھاڑتا ہوا کچن سے نکلا تھا اور سٹنگ روم کی طرف چل پڑا تھا۔! عمران آرام کرسی پر نیم دراز نظر آیا۔

"جی۔۔۔ فرمائیے۔۔۔!" سلیمان نے بڑے ادب سے پوچھا۔

"ابے وہ تیرے چھوٹے خالو کو بھی تو کتے نے کاٹا تھا۔۔۔ پھر کیا ہوا تھا۔!"

"چھوٹی خالہ بھونکنے لگی تھی ایک ہفتے کے بعد۔۔۔!"

"خالو کی بیوی کو خالہ کہتے ہیں نا۔۔۔!"

"جی ہاں۔۔۔!"

"تو پھر یہاں کون بھونکے گا۔۔۔؟" عمران نے مایوسی سے کہا۔

سلیمان سر کھجانے لگا۔

"بولتا کیوں نہیں۔۔۔!"

"میں کیا بتاؤں صاحب۔۔۔ اسی لئے کہتا تھا کہ شادی کر لیجئے۔۔۔! ہو جاتی بھونکنے والی بھی۔!"

"تیری والی سے کام نہیں چلے گا۔۔۔!"

"وہ کیوں بھونکنے لگی۔۔۔ مجھے تو کاٹا نہیں کتے نے۔۔۔!"

"تو پھر کیا کریں۔۔۔!"

"اب تو شادی بھی نہیں ہو سکتی۔۔۔!"

"کیوں نہیں ہو سکتی۔۔۔!"

"اپنی خوشی سے کون بھونکنے پر تیار ہوگی۔۔۔؟"

"یہ بھی ٹھیک کہا۔۔۔ اچھا تو پھر کر دے بستر گول۔۔۔!"

"کک۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔!"

"پہاڑ پر چلیں گے۔۔۔ جوزف بھی ساتھ جائے گا اور تو بھی اپنی فیملی سمیت۔۔۔!"

"صرف میں چل سکتا ہوں۔۔۔! فیملی اپنی والدہ کے ساتھ رہے گی۔!"

"کیوں بکواس کر رہا ہے وہ بھی جائے گی۔۔۔!"

"تو پھر اسی کو لے جائیے۔۔۔ میں نہیں جاؤں گا۔!"

"ابے کیوں شامت آئی ہے۔۔۔!"

"نہیں صاحب۔۔۔! یا وہ جائے گی یا میں جاؤں گا۔!"

"آخر کیوں۔۔۔!"

"پہاڑ پر مجھے غصہ بہت آتا ہے کہیں کسی بات پر گردن نہ مروڑ دوں۔۔۔!"

"فکر مت کر میں مڑی ہوئی گردن سیدھی کر سکتا ہوں۔۔۔!"

"آخر آپ کو اس سے کیوں اتنی دلچسپی ہو گئی ہے۔!"

"بڑی اچھی بچی ہے۔۔۔ ہمیشہ ہاں میں ہاں ملاتی رہتی ہے۔!"

"اچھا تو جو ہاں میں ہاں ملائے بہت اچھا ہے۔۔۔!"

"کھلی ہوئی بات ہے۔۔۔!"

"اچھی بات ہے۔۔۔! میں ملاؤں گا ہاں میں ہاں۔۔۔! اسے یہیں چھوڑ چلئے۔۔۔!"

"دونوں مل کر کیوں نہ ملاؤ ہاں میں ہاں۔۔۔!"

"یہ تو ناممکن ہے۔۔۔!"

"تیری تو مکھیاں بھی جائیں گی۔۔۔!"

"شوق سے لے جائیے مکھیوں کو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔!"

عمران نے جوزف کو آواز دی۔۔۔ وہ فوراً ہی پہنچا تھا۔

"یہ۔۔۔!" عمران سلیمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "ہولڈال میں جائے گا۔!"

"میں نہیں سمجھا باس۔۔۔!"

"بستر کے ساتھ ہولڈال میں اسے بھی لپیٹ دو۔۔۔!"

"کیا تم سنجیدہ ہو باس۔۔۔!"

"کیوں بکواس کر رہا ہے کیا تجھ سے مذاق کا رشتہ ہے۔۔۔!"

"لیکن ہولڈال میں مر جائے گا۔۔۔!"

"کچھ بھی ہو۔۔۔ اسے زندہ یا مردہ پہاڑ پر لے جانا ہے۔۔۔!"

"انگریزی میں کیا مسکوٹ ہو رہی ہے۔۔۔!" سلیمان بولا۔

"بتا دے اس کو بھی۔۔۔!" عمران نے جوزف سے کہا۔

"تم سالا ہولڈال میں جائے گا۔۔۔!"

"ہولڈال میں۔۔۔!" سلیمان نے آنکھیں نکالیں۔

"ہم بولا۔۔۔ مر جائے گا۔۔۔ باس بولا مر جائے۔!"

"ارے باپ رے۔۔۔ تو گویا ٹیکے سچ مچ بے اثر رہے۔۔۔!"

"جی۔۔۔!" عمران نے مسکرا کر آنکھیں چمکائیں۔

سلیمان الٹے پاؤں بھاگا تھا اور کچن میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا تھا۔!

"کیا ہے۔ ارے کیا ہے۔۔۔!" گل رخ بوکھلا گئی۔

"سچ۔۔۔ مچ۔۔۔ سچ مچ پاگل۔۔۔!" سلیمان ہانپتا ہوا بولا۔

"کیا بک رہا ہے۔۔۔!"

"جوزف سے کہہ رہے تھے اسے ہولڈال میں لیپٹ دے۔ زبردستی پہاڑ پر لے چلیں گے!"

"اخاہ رے۔۔۔ ننھے بھولے۔۔۔! یہ کوئی نئی بات ہے۔۔۔! ہمیشہ ہی سے ایسی باتیں کرتے آئے ہیں۔۔۔!"

"اسی لئے تو کہتا ہوں کہ لاکھ برس پتہ نہیں چل سکے گا کہ کب پاگل ہو گئے۔۔۔!"

"چل ہٹ ادھر میں جا کر پوچھتی ہوں!" وہ اسے دروازے کے سامنے سے ہٹاتی ہوئی بولی۔

"کہاں جاتی ہے۔۔۔!"

"تو چپ رہ۔۔۔!" وہ دروازہ کھول کر کچن سے نکل آئی۔

عمران اب بھی وہیں موجود تھا۔۔۔ اس کے اس طرح دیکھنے کے انداز سے گل رخ بھی بوکھلا گئی۔

"کیا بات ہے۔۔۔؟" عمران نے اس سے پوچھا۔

"وہ صاحب۔۔۔ جی۔۔۔ ہولڈال والی بات۔۔۔!"

"کچھ بھی ہو لے جاؤں گا مردود کو۔۔۔ کہتا ہے گل رخ جائے گی تو میں نہیں جاؤں گا۔!"

"ہائے۔۔۔ تو یہ بات ہے۔۔۔!"

"لیکن اس نے تجھ سے یہی کہا ہوگا کہ میں پاگل ہو گیا ہوں۔۔۔!"

"پاگل ہوں آپ کے دشمن۔۔۔ خدا کرے اسی کی سات پشتیں پاگل ہو جائیں۔!"

"اکیلے جانا چاہتا ہے۔۔۔!"

"آپ کا جانا ضروری ہے خاک ڈالئے ہم دونوں پر۔۔۔!"

"ڈال دی۔۔۔ دفع ہو جاؤ۔۔۔ لیکن یہاں نہ رہنا۔ اس مردود کو بھی ساتھ ہی لے جانا۔!"

"بڑے سرکار ناراض نہ ہوں کہیں۔۔۔!"

"میں نہیں جانتا۔۔۔! جوزف ان دونوں کو فوراً نکال باہر کرو۔۔۔!"

"ارے نہیں صاحب۔۔۔!" گل رخ گھگیائی۔

"میاں بیوی کو اکیلے گھر میں نہیں رہنے دوں گا۔ دنیا کیا کہے گی۔!"

"جی۔۔۔!" گل رخ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

جوزف نے عمران کی آنکھ بچا کر گل رخ کو وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کیا تھا اور وہ یک بیک ہی کھک گئی تھی۔

عمران جوزف کو آنکھ مار کر مسکرایا اور بولا۔ "دونوں ہی مجھے پاگل سمجھنے لگے ہیں۔!"

"آسمان والا تمہیں بچائے باس۔۔۔! ورنہ وہ رات ایسی ہی تھی کہ اگر کوئی چیونٹی بھی کاٹ لیتی تو تم اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے۔!"

"مت بکواس کر تیاری شروع کر۔!"

"کیا تیاری بھی کرنی ہوگی۔۔۔!"

"کم از کم ایک ماہ کے لئے اس شہر کو چھوڑ دینا چاہتا ہوں۔!"

"یہ تو بڑی اچھی بات ہوگی باس۔۔۔! لیکن روانگی کب ہوگی۔۔۔!"

"آج۔۔۔! ٹھیک چار بجے شام کو۔۔۔!"
 

قیصرانی

لائبریرین
o​

زینو وہاں سے تو کسی نہ کسی طرح نکل آئی تھی اور اپنی گاڑی تک بھی پہنچ گئی تھی لیکن دروازہ بھی نہ کھولنے پائی تھی کہ کسی نے پیچھے سے گردن پکڑ لی۔۔۔ وہ اچھلی تھی اور دونوں پاؤں گاڑی سے ٹکا کر اپنا سارا بوجھ حملہ آور پر ڈال دیا تھا دونوں ہی دوسری طرف الٹ گئے تھے۔۔۔ وہ خود حملہ آور پر چت گری تھی اور برق کی سی سرعت سے تڑپ کر الگ ہو گئی تھی! پھر حملہ آور کو اٹھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ لیٹے ہی لیٹے وزنی جوتے کی ٹھوکر اس کے چہرے پر رسید کی تھی۔

پھر اس کے دوبارہ سنبھلنے سے پہلے ہی اس کے سینے پر سوار ہو گئی۔ دونوں ہاتھوں کا دباؤ حملہ آور کی ناک پر پڑ رہا تھا اور اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی چیخیں نکل رہی تھیں۔ ذرا ہی سی دیر میں وہ بے حس و حرکت ہو گیا۔

زینو نے اس کے ہولسٹر سے بھی ریوالور نکال لیا اور کارتوسوں کی پیٹی خالی کر دی۔

شائد طارق نے بستی والوں کو ڈرا دھمکا کر اس کے خلاف اپنی مدد کرنے پر مجبور کر دیا تھا اس لئے اب یہاں سے نکل ہی لینے میں عافیت تھی۔ ویسے وہ مقصد بھی حاصل ہو گیا تھا جس کے لئے اس نے یہ ساری تگ و دو کی تھی۔

گاڑی میں بیٹھی۔۔۔ انجن سٹارٹ کیا اور ناہموار راستے پر چل پڑی۔۔۔ دفعتاً اس نے کسی کی آواز سنی تھی۔

"ٹھہرو۔۔۔ ٹھہر جاؤ۔۔۔ خدا کے لئے۔۔۔ زینو۔۔۔ مجھے بھی ساتھ لیتی چلو۔۔۔!"

اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ قہوہ خانے کا مالک گاڑی کے پیچھے پیچھے دوڑا آ رہا تھا۔

زینو نے بریک لگائے اور کہا "جلدی کرو۔۔۔ پیچھے بیٹھ جاؤ۔۔۔!"

وہ دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ پر گر گیا۔۔۔۔ اور گاڑی پھر چل پڑی۔

بری طرح ہانپ رہا تھا۔۔۔ گاڑی سڑک پر پہنچ گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد قہوہ خانے کا مالک بولا۔ "طارق کو مجھ پر شبہ ہو گیا تھا۔!"

"وہ لوگ بیوقوف نہیں ہیں۔۔۔!"

"ایسی صورت میں میرا وہاں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہ ہوتا۔!"

"تم نے مناسب قدم اٹھایا ہے۔۔۔!"

"وہ بستی والوں کو تمہارے خلاف اکسانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔!"

"ہاں۔۔۔! انہوں نے مجھے گھیرنے کی کوشش کی تھی۔!"

"اب کہاں جاؤ گی۔۔۔!"

"جہاں بابا کو لے جایا گیا ہے۔۔۔!"

"کیا معلوم ہو گئی وہ جگہ۔۔۔؟"

"ہاں۔۔۔! میں ادھر جواد کی تلاش میں آئی تھی۔۔۔ آسانی سے ہاتھ آ گیا۔۔۔!"

"پھر کیا ہوا۔۔۔ کیا تم نے اسے مار ڈالا۔۔۔!"

"خوامخواہ لوگوں کی زندگیوں سے نہیں کھیلتی۔۔۔ اگر نہ بتاتا تو یقیناً مار ڈالتی۔۔۔!"

"کہاں لے گئے ہیں۔۔۔؟"

"کہکشاں۔۔۔!"

"اور تم وہاں جاؤ گی۔۔۔!" وہ مضطربانہ انداز میں بولا۔

"جتنی جلدی پہنچ سکی۔۔۔!"

"وہ تو ان کا قلعہ ہے زینو۔۔۔ اب اچھی طرح سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھانا۔۔۔!"

سوچنے سمجھنے کا وقت گذر گیا۔۔۔! اگر بابا کو کوئی نقصان پہنچ گیا تو کیا کروں گی۔۔۔!"

"کیا وہ انہیں مار ڈالیں گے۔۔۔!"

"خدا جانے۔۔۔! لیکن تم نے سنا تھا۔۔۔ ان پر غداری کا الزام ہے۔۔۔ جو کسی طرح بھی ممکن نہیں۔۔۔ بابا بہت کھرے آدمی ہیں۔!"

"بات شروع کیسے ہوئی تھی۔۔۔!"

"مجھے تفصیل کا علم نہیں۔۔۔!" زینو نے کہا اور سختی سے ہونٹ بھینچ لئے۔ "ویسے تم خود اپنی حالت سے اندازہ لگا لو۔۔۔ اگر وہاں رکتے تو محض شبے کی بناء پر وہ لوگ تمہاری چٹنی بنا دیتے۔۔۔!"

"پتا نہیں۔۔۔ اس ظلم کا خاتمہ کب ہوگا۔۔۔!"

"جب تک مظلوموں کی غیرت نہیں جاگے گی۔۔۔!"

"لیکن میری بات بھی مان لو۔۔۔ ایک دم سے کہکشاں کی طرف نہ جاؤ۔!"

"میں بھی سمجھتی ہوں کہ یہ لاحاصل ہوگا۔۔۔ لیکن دیر ہو جانے پر کہیں وہ بابا کو مار نہ ڈالیں۔!"

"میں یہ کبھی نہیں چاہوں گا۔۔۔ احسان فراموش کتا نہیں ہوں۔۔۔ تمہارے بابا کے مجھ پر بڑے احسانات ہیں۔۔۔!"

"میں ان کا عیوض نہیں چاہتی۔۔۔!"

"مجھے غلط نہ سمجھو زینو۔۔۔!"

"پھر کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔؟"

"خود کو ہلاکت میں ڈالنے سے پہلے۔۔۔ اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔۔۔ تمہارے بابا اہم آدمی ہیں۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ وہ زندہ رکھے جائیں گے۔ مار ڈالنا مقصود ہوتا تو یہ واردات تمہارے ٹھکانے پر ہی ہو جاتی۔۔۔ کہکشاں کیوں لے جائے جاتے۔!"

"ہاں۔۔۔ یہ بات تو دل کو لگتی ہے۔۔۔!"

"اسی لئے کہہ رہا ہوں کہ ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔۔۔!"

زینو کچھ نہ بولی۔

"تم پڑھی لکھی لڑکی ہو۔۔۔ اور جابر خان نے تمہیں دوسرے ملکوں میں تعلیم دلوائی ہے۔ لہٰذا تمہیں جہالت سے کام نہ لینا چاہئے۔!"

"شکریہ ثمر خان۔۔۔ تمہاری باتیں قابل غور ہیں۔۔۔!"

"لیکن سوال تو یہ ہے کہ فی الحال کہاں جاؤ گی۔ گھر واپسی خطرے سے خالی نہ ہوگی اور۔!"

"بے فکر رہو۔۔۔!"

"پھر کہاں جاؤ گی۔۔۔؟"

"کئی ایسے ٹھکانے ہیں جن کا علم میرے علاوہ اور کسی کو نہیں۔!"

"کاش کہ مجھے معلوم ہو سکے۔۔۔!" ثمر خان نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

"آخر جابر خان سے کون سا قصور سرزد ہوا ہے۔۔۔!"

زینو نے سختی سے ہونٹ بھینچ لئے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے دل پر جبر کر کے خود کو اظہار خیال سے باز رکھنے کی کوشش کر رہی ہو۔!

ثمر خان نے تھوڑی دیر بعد پھر وہی ذکر چھیڑ دیا اور زینو بولی۔ "میں نے کہہ دیا کہ مجھے تفصیل کا علم نہیں ہے۔!"

"بڑی عجیب بات ہے۔۔۔!"

"میرا خیال ہے جابر خان نے تم سے کبھی کوئی بات نہیں چھپائی۔۔۔!"

"ہو سکتا ہے یہ کوئی ایسی بات ہو جس کا ذکر کرنے کا انہیں موقع ہی نہ ملا ہو۔!"

"تم جانتی ہو کہ میں جابر خان کے بچپن کے ساتھیوں میں سے ہوں۔۔۔! اس لئے ہر حال میں اس کا ساتھ دوں گا۔۔۔!"

"میں تمہاری مشکور ہوں ثمر خان۔۔۔! اگر تم مجھے ان دونوں کی موجودگی سے باخبر نہ کر دیتے تو میں کچھ بھی نہ معلوم کر سکتی۔!"

"میرا فرض تھا زینو۔۔۔ میرا فرض تھا۔۔۔ اگر مجھے اصل معاملے کا علم ہو جائے تو شائد اس سلسلے میں بھی کچھ کر سکوں۔۔۔ آخر غداری کا الزام کیوں عائد کیا گیا ہے۔۔۔!"

"تم خود سوچو۔۔۔!" وہ اکتا کر بولی۔۔۔ "میری سمجھ میں تو نہیں آ رہا۔!"

اندھیرا پھیلنے لگا تھا ایک جگہ اس نے اپنی گاڑی پھر نشیب میں اتار دی۔

یہاں چاروں طرف اونچی نیچی چٹانیں بکھری ہوئی تھیں اور راستہ بے حد دشوار گذار تھا۔

"یہاں کس طرح چلاؤ گی گاڑی۔۔۔؟" ثمر خان نے حیرت سے کہا تھا۔

"بس دیکھتے جاؤ۔۔۔! میں صرف تندور میں روٹیاں ہی نہیں لگاتی رہی ہوں۔" زینو نے ہنس کر کہا۔

تھوڑی دیر بعد اس نے ایک پتلی سی دراڑ کے قریب گاڑی روکی تھی۔!

خاصا اندھیرا پھیل گیا تھا۔۔۔ اس نے ڈیش بورڈ کے خانے سے ٹارچ نکالی تھی۔

"رات میں سفر جاری رکھنا مناسب نہ ہوتا۔!" اس نے کہا۔

"یہاں گاڑی بھی دوسروں سے پوشیدہ رہے گی اور ہم بھی محفوظ رہیں گے۔!"

"خدا کرے ایسا ہی ہو۔۔۔!" ثمر خان بولا۔

"تمہارے لہجے میں مایوسی ہے۔۔۔!"

"میں کیا کروں۔۔۔ اچھی طرح جانتا ہوں کہ مظالم ڈھانے والے شیطانی قوتوں کے مالک ہوتے ہیں۔!"

"اوہ۔۔۔!" وہ ہنس کر بولی۔ "یہاں پچاس بھی آجائیں تو میں تنہا ہی ان پر بھاری پڑوں گی۔!"

"یہ بھی جانتا ہوں کہ تم بہت دلیر لڑکی ہو۔!"

زینو نے دراز میں ٹارچ کی روشنی ڈالی تھی اور ثمر خان سے اس میں داخل ہو کر آگے بڑھنے کو کہا تھا۔ خود عقب سے ٹارچ کی روشنی ڈال کر راستہ دکھاتی رہی تھی۔

دراڑ کا اختتام ایک بہت بڑے غار پر ہوا تھا۔

"یہ جگہ شکاریوں کو بھی نہیں معلوم۔۔۔!"زینو نے کہا۔

"تمہاری دریافت ہے۔۔۔!"

"نہیں بابا کی۔۔۔!"

"تو ہم یہاں رات گذاریں گے۔۔۔!" ثمر خان نے پوچھا۔

"فکر نہ کرو۔۔۔ لومڑیوں کے شکار کے زمانے میں ہم یہاں راتیں گذارتے ہیں اس لئے ضرورت کی بہتیری چیزیں یہاں موجود ہیں۔ جلانے کے لئے لکڑیاں کمبل او رمومی شمعیں وغیرہ۔۔۔!"

"کھانے پینے کو بھی کچھ ہے یا نہیں۔۔۔!"

"میری گاڑی کی ڈگی میں سب کچھ موجود ہے۔۔۔! اس کی طرف سے بھی بے فکر رہو۔۔۔ میں پورے انتظام کے ساتھ روانہ ہوئی تھی۔!"

تھوڑی دیر بعد غار میں الاؤ کی سرخ روشنی پھیلی ہوئی تھی اور وہ دونوں آگ کے قریب بیٹھے کافی پی رہے تھے۔!

"تمہیں کسی چیز سے بھی خوف نہیں معلوم ہوتا زینو۔۔۔!" ثمر خان نے پوچھا۔

"صرف خدا سے ڈرتی ہوں ثمر بابا۔۔۔!"

"بڑی خوشی ہوتی ہے کہ باہر تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی تم بے دین نہیں ہوئیں۔۔۔!"

وہ کچھ نہ بولی۔ الاؤ میں چٹختی ہوئی لکڑیوں کو گھورتی رہی۔!

ثمر خان نے تھوڑی دیر بعد کہا "اب میرا شمار بھی غداروں میں ہوگا۔!"

"بس کرو۔۔۔!" وہ ناخوش گوار لہجے میں بولی "اس لفظ کو سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ میرے عقیدے کے مطابق دین سے انحراف اور وطن دشمنی کے علاوہ اور کوئی فعل غداری نہیں کہلایا جا سکتا۔!"

"یہ تو ٹھیک ہے۔۔۔ مم۔۔۔ مگر۔۔۔ خان۔۔۔!"

"خان قزاتوغا کا نہ وطن ہے اور نہ خدا۔۔۔!"

"یہ تم ہی کہہ سکتی ہو جس نے فرنگیوں کے ملک میں تعلیم حاصل کی ہے۔!"

"اجداد سے چلی آنے والی لایعنی رسوم کو دین نہ بناؤ ثمر بابا اور پھر اب ہمارا اصل حاکم خان قزاتوغا نہیں ہے کہ اس کی اطاعت ہم پر واجب و لازم ہو۔۔۔! میرے بابا صرف اس کے ملازم ہیں۔ اپنی خدمات کے عوض تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔۔۔ خان قزاتوغا ان پر احسان نہیں کرتا۔"

"سرداروں کی اطاعت صدیوں سے لازم چلی آ رہی ہے۔!"

"اب وہ بھی کسی اور کو جواب دہ ہے اس لئے ان کی برتری ختم ہو چکی ہے۔۔۔ اصل حاکم وہ سرکاری افسر ہے جس کے تحت قزاتوغا کا نظام چل رہا ہے۔!"

"خان کو اس کی حمایت حاصل ہے۔۔۔!"

"ہوا کرے۔۔۔ وہ سرکاری افسر بھی کسی اور کو جواب دہ ہے۔۔۔!"

"بہرحال۔۔۔! خان کو اس کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے تمہارے بابا کی آواز قزاتوگا سے باہر نہیں پہنچ سکے گی۔!"

"دیکھا جائے گا۔۔۔ نہ میں خان سے ڈرتی ہوں اور نہ اس کے شکاری کتوں سے۔۔۔!"

"خدا ہم پر رحم کرے۔۔۔!" ثمر خان بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

"ختم کرو اس قصے کو۔۔۔ یہ بتاؤ کہ داراب سے عام طور پر کہاں مڈبھیڑ ہو سکتی ہے۔!"

"وہ ایسا شکاری کتا ہے جو ہمیشہ گشت پر رہتا ہے۔۔۔! کوئی مخصوص ٹھکانہ نہیں ہے۔۔۔! ہو سکتا ہے کہ جابر خان کو کہکشاں پہنچا کر پھر کسی مہم پر نکل گیا ہو۔۔۔!"

"میں نے اسے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔! صرف نام سنتی رہی ہوں۔!"

"بے حد خطرناک آدمی ہے۔ اس کا ایک گھونسہ مضبوط سے مضبوط کھوپڑی توڑ دیتا ہے۔۔۔!"

"دیکھوں گی۔۔۔ کتنا خطرناک ہے۔۔۔!"

"اس سے دور ہی رہنا۔۔۔ کم از کم میری ایک بات تو مان لو۔۔۔!"

"اچھا ثمر بابا۔۔۔!"
 

قیصرانی

لائبریرین
Putting full message

0​

اب تو جوزف بھی سراسیمگی کا شکار ہو گیا تھا۔ اس کی دانست میں یہ سفر بذریعہ طیارہ ہونا تھا لیکن سامنے آئی ایک بہت بڑی گاڑی جس میں ضروریات زندگی کی ہر شئے موجود تھی۔

دو بستر تھے۔۔۔ ایک چھوٹا کچن۔۔۔ ایک مختصر سا باتھ روم۔۔۔ دیواروں پر مختلف نسلوں کے کتوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ یہ گاڑی بھی
پہلی بار جوزف کی نظروں سے گذری تھی۔

"اگر وہ دونوں بھی چلتے باس۔۔۔ تو کیا ہوتا۔!" جوزف نے عمران سے پوچھا تھا۔ "اس گاڑی میں تو گذارہ ممکن نہ ہوتا۔!"

"تب پھر اور کوئی صورت ہوتی۔!"

"لیکن یہ گاڑی۔۔۔ کیا یہ پہاڑی راستوں پر آسانی سے چل سکے گی۔!"

"سائیکو مینشن کی گاڑیاں ہر راستے پر چل سکتی ہیں۔۔۔!"

"لیکن باس۔۔۔ یہ کتوں کی تصویریں۔۔۔؟"

"مجھے یاد دلاتی رہیں گی کہ میرے سفر کی غرض و غائت کیا ہے۔۔۔!"

"وہ تو میں بھی کر سکتا تھا۔!"

"تو پھر ہر کتے کے ساتھ اپنی تصویر بھی لٹکا دے۔!"

"مجھے بڑی تشویش ہو جاتی ہے باس۔۔۔!"

"کس سلسلے میں۔۔۔!"

"تم نے انجکشن لئے بھی تھے یا محض کہہ کر ہی رہ گئے تھے۔!"

"یعنی تو بھی یہی سوچ رہا ہے کہ میرا دماغ چل گیا ہے۔۔۔!"

"نن نہیں باس۔۔۔ لیکن۔۔۔!"

"بکواس بند۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔!"

"خدا کرے ایسا ہی ہو۔۔۔!" جوزف سر جھکا کر مضمحل سی آواز میں بولا تھا اور عمران اسے گھورنے لگا تھا۔!

بہرحال سفر شروع ہوا تھا اور وہ دونوں باری باری سے ڈرائیونگ کرتے رہے تھے۔

دن بھر سفر جاری رہتا اور سر شام کوئی مناسب سی جگہ تلاش کر کے شب بسری کی ٹھہرتی۔ باری باری سے سوتے اور گاڑی کی رکھوالی کرتے۔!"

آج ایسی ہی دوسری شام تھی اور وہ ایک جگہ رکے تھے جہاں دور دور تک نام کو بھی سبزہ نہیں تھا۔! چاروں طرف بھوری سنگلاخ چٹانیں بکھری ہوئی تھیں۔

"یہاں تو خاصی سردی ہے باس۔۔۔!" جوزف نے کہا۔

"ہاں۔۔۔ ادھر کی راتیں گرمیوں میں بھی بہت سرد ہوتی ہیں۔!"

"کچھ عجیب سا احساس ہو رہاہے۔!"

"کہیں شاعری نہ شروع کر دینا۔۔۔ جلدی سے کافی کے لئے پانی رکھ دے۔۔۔!"

"میرا مطلب تھا کہ ہواؤں میں بارود کی بو محسوس ہوتی ہے۔!"

"ہوتی ہوگی۔۔۔!" عمران نے لاپرواہی سے شانوں کو جنبش دی۔

رات اندھیری نہیں تھی۔ دسویں کا چند پوری آب و تاب کے ساتھ فضا کو منور کئے ہوئے تھا۔ چاندنی اور سناٹے کا یہ پراسرار امتزاج بہت دنوں بعد دیکھنے کو ملا تھا۔!

"ایسے ہی مواقع پر دل چاہتا ہے باس۔۔۔!" جوزف ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "پر لگ جائیں اور میں اپنے دیس کو اڑ جاؤں۔!"

"پروں کے بغیر بھی میں تم کو اڑا سکتا ہوں۔۔۔!"

"سچ باس۔۔۔ یقین کرو۔۔۔!" جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

"میں نے تجھے پنجرے میں تو نہیں بند کر رکھا۔!"

"میں کب کہتا ہوں۔۔۔ لیکن تمہاری جدائی تو موت ہی کا پیغام ہوگی۔!"

"زیادہ سینٹی مینٹل ہونے کی ضرورت نہیں۔!"

"کبھی میرے دیس کا بھی کوئی کام نکال لو باس۔۔۔! نائیٹی تک تو ہو آئے ہو۔!"

"ہاں یہ ممکن ہے۔۔۔ میری خواہش بھی ہے کہ افریقہ کے کچھ ممالک دیکھوں۔۔۔!"

"تو پھر جلدی سے کوئی پروگرام بنا ڈالو باس۔۔۔!"

"تجھے گانا بھی آٹا ہے۔۔۔!" عمران نے موضوع بدلنے کے لئے سوال کیا۔

"اپنی زبان میں صرف جنگی ترانے گا سکتا ہوں۔!"

"چل سنا دے کوئی۔۔۔!"

"اوہ۔۔۔ اس وقت تو مشکل ہے۔۔۔! چاند کی دسویں ہے آج۔۔۔!"

"اس سے کیا ہوتا ہے۔۔۔؟"

"میرے مقدر کی لال چمگادڑ طیش میں آ جائے گی۔!"

"آجانے دے۔۔۔ میں دیکھوں گا کہ طیش کے عالم میں وہ کیسی لگتی ہے۔!"

"خواہ میں مر ہی کیوں نہ جاؤں۔۔۔!"

"لال چمگادڑ کے طیش میں آنے کی وجہ سے۔۔۔؟"

"ہاں باس۔۔۔!"

"تب تو تجھے مرنا ہی چاہئے کہ لال چمگادڑ سے بھی کمزور پڑتا ہے۔۔۔!"

"وہ جہنم کی آنچ ہے۔۔۔!"

"اور تو اسے اپنی تقدیر میں لئے پھر رہا ہے۔!"

"مجبوری ہے باس۔۔۔!"

"مجبوری سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتا۔!"

"کیسے باس۔۔۔؟"

"اسی جہنم کی آگ پر روٹیاں سینک لیا کر تیل ہی کی بچت ہو جائے گی۔!"

جوزف خوف زدہ سی ہنسی کے ساتھ بولا تھا۔"بات میں بات نکالنے سے کام نہیں چلتا جب لال چمگادڑ حملہ آور ہوتی ہے۔۔۔!"

"خدا کے لئے اب ختم کر یہ قصہ۔۔۔!"

جوزف تھوڑی دیر خاموش رہ کر بولا تھا۔ "ان راستوں پر رہزنی ضرور ہوتی ہوگی۔!

"رہزنی تو نہیں ہوتی۔۔۔ لیکن دشمنیوں کی بناء پر قتل ضرور ہوتے ہیں۔!"

"ہاں میں سنا ہے کہ ان اطراف میں انتقام کے صدیوں پرانے ادھار بھی چکائے جاتے ہیں۔!"

"یہی بات ہے۔۔۔!"

کیا تمہارے پیغمبر ﷺکا پیغام یہاں تک نہیں پہنچا۔۔۔!"

"پیغام پہنچانے والوں کو زیادہ تر اپنی پوجا کرانے کی فکر رہتی ہے اس لئے وہ صرف اختلافی مسائل پر ایک دوسرے کو للکارتے رہتے ہیں۔!"

"بیچارہ آدمی۔۔۔!" جوزف نے ٹھنڈی سانس لی "کسی طرح بھی نہیں سدھر سکتا۔۔۔ اب یہی دیکھو باس۔۔۔! یسوع کا پیروکار بن جانے کے بعد مجھے اپنے قبائلی توہمات سے پیچھا چھڑا لینا چاہئے تھا لیکن ایسا ممکن نہ ہوا اس نے گوشت اور شراب کی ممانعت کی تھی لیکن میں۔۔۔ لیکن میں۔۔۔!" اچانک جوزف دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔

"ابے او نالائق۔۔۔ کیا ساتویں بوتل بھی چڑھا گیا ہے۔۔۔!"

"مم۔۔۔ میں سیریس ہوں باس۔۔۔!" جوزف روتا ہوا بولا۔

"یعنی تو نے ساتویں بوتل میں ہاتھ نہیں لگایا۔!"

"ہرگز نہیں باس۔۔۔! آج تو صرف چار ہی ہوئی ہیں۔!" جوزف نے کہا اور بدستور روتا رہا۔

"تب تو تشویش کی بات ہے۔۔۔!"


"میں بہت گنہگار ہوں باس۔۔۔! لیکن آخر اس نے ہمیں شراب کشید کرنے کی عقل کیوں عطا کی تھی۔!"

"اور بھیڑ بکریاں کیوں پیدا کی تھیں۔۔۔؟" عمران نے کہا۔

"تم خود سوچو باس۔۔۔!"

"ابے اب چپ رہتا ہے یا جماؤں دو چار ہاتھ۔۔۔!"

"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔۔۔؟"

"گوشت اور شراب بھی استعمال کئے جا اور خدا خدا بھی کئے جا۔!"

"لیکن کیا یہ عقل مندی کی بات ہے۔۔۔!"

"اور تو مجھ سے اسطرح پوچھ رہا ہے جیسے چھ بوتلیں میرے ہی پیٹ میں اٹھکیلیاں کرتی ہوں!"

"نہیں تم مجھے بتاؤ۔۔۔!"

"جلدی سے پانچویں کھول لے۔۔۔ ورنہ اب میں بھی رو پڑوں گا۔!"

"ہائے میں کیا کروں۔۔۔!"

"اب تک کے گناہوں سے توبہ کر اور پانچویں بوتل کھول لے۔۔۔ پانچویں کے بعد پھر توبہ کر لیجیو۔!"

"ہائے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔!"

"پانچویں بوتل کے بغیر نہیں آئے گا سمجھ میں۔!"

"شائد تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔ پئے بغیر ڈھنگ کی کوئی بات سوچ ہی نہیں سکتا۔!"

"پیتا رہ اور سوچتا رہ کہ تجھے بالآخر شراب ترک کرنی ہے۔۔۔!"


"تم عقل مندوں کے سرتاج ہو باس۔۔۔!"

"سرتاج عقل مندوں کے نہیں بیویوں کے ہوا کرتے ہیں۔!"

"میں نہیں سمجھا۔!"

"اپنی طرف کی چیز ہے تیری سمجھ میں نہیں آئے گی۔!"

"تم آخر شادی کیوں نہیں کرتے باس۔۔۔؟"

"ابے یہ روتے روتے میری شادی کی کیوں سوجھ گئی۔!"

"اس غم میں بھی ایک آدھ بوتل روزانہ پینی پڑتی ہے۔۔۔!"

عمران کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اچانک دور سے فائروں کی آوازیں آئیں اور جوزف کی گریہ زاری میں بھی بریک لگ گیا۔!

پھر کئی فائر ہوئے تھے اور اس بار عمران نے سمت کا بھی تعین کر لیا تھا۔

"یہ کیا ہو رہا ہے باس۔۔۔!"

"ہوتا ہی رہتا ہے کچھ نہ کچھ فکر مت کرو۔۔۔!"

"ہم رائفلوں کی رینج سے باہر نہ ہوں گے آواز کا فاصلہ یہی بتاتا ہے۔۔۔!"

"گاڑی میں بیٹھو۔۔۔ شیشے چڑھا دو اور دروازوں کو مقفل کر دو۔۔۔! رائفل کی گولیوں سے محفوظ ہو جاؤ گے۔۔۔ گاڑی بلٹ پروف ہے۔۔۔ البتہ اگر کوئی گولی کسی ٹائر سے آ ٹکرائی تو پریشانی ہوگی کیونکہ ٹائر بلٹ پروف نہیں ہیں۔!"

پھر وہ دونوں گاڑی کے اندر آ بیٹھے تھے اور جوزف نے کہا تھا۔"کیوں نہ آگے چلیں باس۔!"

"نہیں۔۔۔ یہیں ٹھہرو۔۔۔!"

فائروں کی آوازیں تھوڑے تھوڑے وقفے سے اب بھی آ رہی تھیں۔۔۔ ایسا معلوم ہو را تھا جیسے دو پارٹیاں ایک دوسرے کو گھیرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔!

جوزف نے بھاڑ سا منہ کھول کر جماہی لی اور بولا۔ "تو پھر کھولوں پانچویں بوتل باس۔۔۔!"

"ہرگز نہیں۔۔۔ بند گاڑی کے اندر اگر تو نے بوتل کھولی تو میں اس کی بو ہی سے بیہوش ہو جاؤں گا۔!"

"تو پھر میں باہر نکل جاؤں۔!"

"کیوں شامت آئی ہے۔۔۔ چپکا بیٹھا رہ۔۔۔ ان اطراف میں پہلی بار آیا ہوں۔۔۔ راستوں کا بھی علم نہیں ہے۔!"

کچھ دیر بعد پھر سناٹا چھا گیا تھا۔۔۔ اور انہوں نے گاڑی کے شیشے گرا دیئے تھے سردی بڑھ رہی تھی لیکن جوزف اس کے باوجود بھی بوتل سنبھال کر گاڑی سے نکل گیا۔

دو چار گھونٹ پی لینے کے بعد اس نے کھڑی میں سر ڈال کر کہا تھا۔ "مقدر کی لال چمگادڑ کی ایسی کی تیسی میں تمہیں ضرور سناؤں گا رجز۔۔۔ یہ اس
وقت گایا جاتا ہے جب ہم دشمنوں پر اس لئے حملہ کرتے ہیں کہ ان کے مویشی چھین لائیں۔!"

پھر اس نے بوتل زمین پر رکھ دی تھی اور گاڑی میں تھاپ دے دے کر گلا پھاڑنے لگا تھا۔

عمران حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتا رہا۔۔۔! بالکل ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے جوزف پر دیوانگی طاری ہو گئی ہو۔!

"بس یا اور۔۔۔!" جوزف کچھ دیر بعد بولا تھا۔

"بس۔۔۔!" عمران ہاتھ اٹھا کر دہاڑا۔۔۔ "مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے میرے تن پر لنگوٹی کے علاوہ اور کچھ نہ باقی بچا ہو۔۔۔!"

جوزف نے موج میں آ کر قہقہہ لگایا تھا اور بوتل اٹھا کر دو گھونٹ لئے تھے۔!

"کھانا بھی کھائے گا یا نہیں۔۔۔!"

"تم کھا لو باس مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔!"

"معدہ برسٹ ہو جائے گا کسی دن۔۔۔!"

"وہ دن بھی تو آئے۔۔۔ تمہارے زندگی میں ہی مر جانا چاہتا ہوں۔۔۔!" جوزف نے کہا۔

اس کے بعد اس نے پھر گنگنانا شروع کر دیا تھا۔

رات سکون کے ساتھ گذری تھی دوبارہ فائر نہیں سنائی دیئے تھے۔ دوسری صبح عمران نے جوزف سے کہا۔ "ڈبوں کی غذا نے میرا ہاضمہ برباد کر دیا ہے۔۔۔ اس لئے تازہ گوشت کے لئے شکار ضروری ہو گیا ہے۔!"

"مجھے یقین نہیں ہے کہ ان پہاڑیوں میں شکار مل سکے۔۔۔ اور تم گیدڑ کا گوشت تو کھانے سے رہے۔۔۔ حالانکہ گیدڑ کے اسٹو کا جواب نہیں ہوتا۔!"

"چپ۔۔۔ کیوں بکواس کرتا ہے۔۔۔!" عمران برا سا منہ بنا کر بولا "تجھے یہی رک کر گاڑی کی نگرانی کرنی ہے۔۔۔ میں آس پاس دیکھتا ہوں شائد کوئی پہاڑی بکرا مل جائے۔۔۔ ان اطراف میں ملتا ہے۔۔۔!"

"پتھر چاٹ کر بکرے زندہ نہیں رہ سکتے۔!"

"یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔!" عمران سر ہلا کر بولا۔

"لیکن یہاں چکور ضرور ہوں گے۔۔۔!" جوزف نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

"کچھ نہ کچھ تو ہونا ہی چاہئے۔۔۔!" عمران نے گاڑی کے ایک خانے سے اعشاریہ دو دو کی رائفل نکالتے ہوئے کہا۔

"تمہاری مرضی۔۔۔ دیکھ لو۔۔۔!"

عمران بائیں جانب چل پڑا تھا۔ دراصل اس کا رخ اسی طرف تھا جدھر سے رات کو فائروں کی آوازیں آئی تھیں یہ بھی ممکن تھ اکہ وہاں کسی قسم کا شکار ہوا ہو۔!

ذہن میں ایسے نشانات قائم کرتا جا رہا تھا جن کی مدد سے دوبارہ گاڑی تک پہنچ سکتا۔!

بڑی بے ہنگم چٹانیں تھیں۔۔۔ ان کے درمیان راستے کی تلاش میں خاصی دشواری پیش آ رہی تھی۔۔۔ کچھ دور چل کر وہ رک گیا۔۔۔! سوچ رہا تھا کہ کہیں واپسی میں بھٹک ہی نہ جائے۔۔۔ روانگی سے پہلے اندازہ نہیں تھا کہ کس قسم کی چٹانوں سے سابقہ پڑے گا۔!

واپسی کے لئے پلٹا ہی تھا کہ عقب سے آواز آئی۔ "رائفل زمین پر ڈال دو۔۔۔ ورنہ چھلنی ہو جاؤ گے۔!"

یہ مقامی زبان میں کہا گیا تھا جسے عمران سمجھتا تھا اور روانی سے بول بھی سکتا تھا۔

اس نے چپ چاپ رائفل نیچے ڈال دی۔

"اب ادھر مڑو۔۔۔ ہاتھ اوپر اٹھاؤ۔۔۔!"

عمران نے تعمیل کی تھی اور احمقانہ انداز میں پلکیں جھپکائی تھیں۔۔۔! ایک لڑکی جین اور جیکٹ میں ملبوس ریوالور تانے کھڑی نظر آئی۔

"تم میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گی۔۔۔!" اس نے کہا اور عمران نے اس کی آنکھوں میں ایسے ہی عزم کی جھلکیاں دیکھیں۔۔۔ اور پوری طرح تیار ہو گیا۔

فائر ہوا تھا۔۔۔ اور وہ ڈھلان میں لڑھکتا چلا گیا تھا۔۔۔ لڑکی واپسی کے لئے مڑی۔

"ارے ٹھہرو۔۔۔ یہ اپنی گولی تو لیتی جاؤ۔۔۔!" نیچے سے عمران نے کہا۔

وہ اچھل پڑی۔۔۔ عمران قہقہے لگاتا ہوا ڈھلان پر چڑھ رہا تھا۔

لڑکی نے پھر فائر جھونک مارا۔۔۔ پے در پے کئی فائر کئے تھے۔۔۔ ہر فائر پر وہ اسی طرح اچھلا تھا جیسے گولی نشانے پر بیٹھی ہو۔۔۔ اور پورے پانچ فائر گن لینے کے بعد لمبا لیٹ گیا تھا۔!

لڑکی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کے قریب آئی۔۔۔ اور جھک کر اس کی رائفل اٹھا ہی رہی تھی کہ عمران نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

"مردے کا مال ہضم نہیں ہوگا۔۔۔!" اس نے آہستہ سے کہا۔

اور لڑکی نے بائیں ہاتھ سے ریوالور کا دستہ اس کے سر پر مارنے کی کوشش کی لیکن وہ ہاتھ بھی پکڑ لیا گیا۔

پھر وہ اسے دھکا دے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ لڑکی دھپ سے زمین پر بیٹھ گئی۔

پہلی بار عمران نے اس کی آنکھوں میں خوف کی جھلکیاں دیکھیں۔!

ساتھ ہی وہ اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھے بھی جا رہی تھی۔

"پوری چھوٹا بھائی: گولیاں میرے جسم میں پیوست ہو گئی ہیں۔۔۔!" عمران نے احمقانہ انداز میں کہا۔ "لیکن میرے جسم میں تو خون ہی نہیں ہے
ورنہ کپڑے بھی خراب ہو جاتے۔!"

وہ کچھ نہ بولی۔ اس کا منہ حیرت اور خوف سے پھیلا ہوا تھا۔

"ڈرو نہیں۔۔۔! میں کسی سے نہیں کہوں گا کہ تم نے مجھے مار ڈالا ہے۔۔۔!"

"مجھے جانے دو۔۔۔!"وہ پھنسی پھنسی سی آواز میں بولی تھی۔

"یہ بتائے بغیر نہیں جانے دوں گا کہ آخر تم نے مجھ پر حملہ کیوں کیا تھا۔ نہ کبھی کی جان نہ پہچان اور اس لباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم اپنی روایات کی بھی پابند نہیں ہو۔!"

"تت۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔؟"

"اب تو ایک لاش ہی سمجھو۔۔۔ خدا کی پناہ۔۔۔ پوری چھ گولیاں۔۔۔!"

"تم جھوٹے ہو۔۔۔ ایک بھی نہیں لگی۔!"

"دکھاؤں۔۔۔؟ نکال کر۔۔۔!"

"مجھے جانے دو۔۔۔!" وہ ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔

"تم نے کہا تھا کہ ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گی۔!"

"مجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔۔۔ ہر چند ہماری زبان بول سکتے ہو لیکن ہم میں سے نہیں ہو۔!"

"میں ملک کی ساری علاقائی زبانیں بول سکتا ہوں۔!"

"بس تو پھر معاف کرو۔۔۔ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔۔۔ انہوں نے پچھلی رات میرے ساتھی کو مار ڈالا۔۔۔ جوش انتقام میں اندھی ہو رہی تھی۔!"

"مجھے تازہ گوشت کی ضرورت ادھر کھینچ لائی تھی۔۔۔!" عمران نے کہا۔

"ادھر گوشت کہاں۔۔۔ شکار قطعی نہیں ہے۔!"

"چکور بھی نہیں ملتے۔!"

"بہت کمیاب ہیں۔۔۔ دن بھر میں شائد ایک آدھ ہاتھ لگے۔۔۔ اب چھوڑو میرا ہاتھ۔!"

"تمہارا لباس مجھے حیرت میں ڈال رہا ہے۔۔۔ ادھر کی خواتین بہت قدامت پسند ہیں۔!"

"میں ان سے مختلف ہوں۔۔۔! میں نے یوکے میں تعلیم حاصل کی تھی۔!"

"اوہ۔۔۔ تو یہ کہو۔۔۔!" عمران اسے نیچے سے اوپر تک دیکھتا ہوا بولا۔

"بس اب جانے دو۔۔۔!"

"میرا خیال ہے کہ تم تنہا ہو۔۔۔ اور وہ کئی ہیں۔!"

"کچھ ایسی ہی بات ہے۔۔۔!"

"اچھا۔۔۔ تو وہ پچھلی رات والی فائرنگ۔۔۔!"

"تم کہاں تھے۔۔۔؟ تم کیا جانو۔۔۔!"

"ادھر۔۔۔!" عمران داہنی جانب والی چٹانوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا "ہم دن بھر سفر کرتے ہیں اور رات کو کہیں رک جاتے ہیں۔! ہماری گاڑی ادھر کھڑی ہے۔!"

"گاڑی ہے۔۔۔؟" لڑکی نے پر مسرت لہجے میں پوچھا۔

"ہاں۔۔۔!"

"تب تو میں تم سے لفٹ مانگوں گی۔۔۔ انہوں نے میری گاڑی بھی تباہ کر دی۔!"

"کہاں جاؤ گی۔۔۔؟"

"تم کدھر جا رہے ہو۔۔۔!"

"قزاتوغا۔۔۔!"

لڑکی کی پیشانی پر سلوٹیں پڑی گئیں اور اس نے پر اشتباہ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔

"وہیں رہتے ہو۔۔۔؟" اس نے بالآخر پوچھا۔

"نہیں۔۔۔ تفریحاً جا رہا ہوں۔۔۔!"

"کس کے مہمان ہو۔۔۔؟"

"کسی کا بھی نہیں۔۔۔!"

"مطلب یہ کہ قیام کہاں ہوگا۔۔۔!"

"گاڑی میں۔۔۔!"

"مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش مت کرو۔۔۔!"اس نے جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا "تم بھی انہی میں سے معلوم ہوتے ہو۔۔۔ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔!"

دفعتاً وہ اچھل کر کئی قدم پیچھے ہٹ گئ تھی۔

عمران نے اپنی رائفل اٹھائی اور اس کا رخ اس کی جانب کرتے ہوئے کہا۔ "بھاگنے کی کوشش کی تو گولی مار دوں گا۔!"

"یہ دوسری بات ہے۔۔۔!" لڑکی نہایت اطمینان سے بولی۔ "زندہ تمہارے ہاتھ نہیں لگ سکتی۔!"

"زندہ رہنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔۔۔! مجھے تو تازہ گوشت چاہئے۔!"

لڑکی خاموش کھڑی پلکیں جھپکاتی رہی۔

"اپنا خالی ریوالور اٹھا کر ہولسٹر میں رکھ لو۔۔۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔۔۔ میری گاڑی دیکھو گی تو خوش ہو جاؤ گی۔!"

"تو تم خان آف قزاتوغا کے آدمی نہیں ہو۔۔۔؟" لڑکی نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔

"سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ میں تو اپنی مملکت کا شہزادہ ہوں۔۔۔!"

"کس مملکت کے۔۔۔؟"

"احمق آباد نام ہے۔۔۔ تم اس کی فکر مت کرو۔۔۔ گاڑی ایسی ہے کہ تم بہ آسانی چھپ سکو گی۔۔۔ جہاں کہو گی اتار دوں گا۔!"

"مجھے بھی قزاتوغا ہی جانا ہے۔۔۔!"

"بڑی عجیب بات ہے۔۔۔ خان آف قزاتوغا کے آدمیوں نے تمہیں گھیرا تھا۔۔۔ اور تم قزاتوغا ہی جانا چاہتی ہو۔۔۔!"

"وہاں پہنچ کر میں اپنی حفاظت آپ کر لوں گی۔!"

"لیکن وہاں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے اگر کوئی خطرہ ہے وہاں تمہارے لئے۔۔۔!"

"وہاں تو جانا ہی پڑے گا۔۔۔!"

"خان سے فریاد کرو گی۔۔۔؟"

"فریاد۔۔۔!" وہ طنزیہ سی ہنسی کے ساتھ بولی "کسی بھیڑیئے سے؟"

"متہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔۔۔!"

"طویل کہانی ہے۔۔۔ لیکن میں کیسے یقین کر لوں کہ تم خان کے آدمی نہیں ہو۔۔۔!"

"آدمی تو سرے سے ہوں ہی نہیں۔۔۔! ویسے کچھ دیر قبل تم نے کہا تھا کہ تم ہم میں سے نہیں معلوم ہوتے۔!"

"خان کے پاس باہر کے لوگ بھی ہیں۔!"

"تم چاہو تو اپنا ریوالور دوبارہ لوڈ کر سکتی ہو۔۔۔!" عمران نے رائفل کی نال جھکاتے ہوئے کہا۔

وہ بے یقینی کے عالم میں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔

"اب کھڑی کیوں ہو۔۔۔ جاؤ جہاں جانا چاہتی ہو۔۔۔ میں تو چل دیا۔۔۔!"

عمران نے اپنی رائفل کندھے سے لٹکائی تھی اور دائیں جانب مڑ گیا تھا۔ چند ہی قدم چلا ہوگا کہ لڑکی نے اسے آواز دے کر روک لیا۔

"اب کیا ہے۔۔۔؟" وہ اس کی طرف مڑے بغیر بولا۔

"میں چل رہی ہوں۔۔۔!"

"پیچھے۔۔۔ پیچھے چلی آؤ۔۔۔!" وہ آگے بڑھتا ہوا بولا۔

لڑکی تیزی کے ساتھ آگے بڑھی تھی اور اس کے ساتھ چلنے لگی تھی۔

تھوڑی دیر بعد بولی۔ "اتنے قریب سے کبھی میرا نشانہ خطا نہیں ہوا۔!"

"اتنے قریب سے کبھی کوئی مجھ پر فائر کرنے کی جرأت نہیں کر سکا۔!"

"تم آخر ہو کون۔۔۔؟"

"علی عمران نام ہے۔۔۔ اور تم۔۔۔!"

"زینت۔۔۔ لیکن زینو کہلاتی ہوں۔۔۔!"

"میرا نام بگاڑنے کی جرأت آج تک کسی کو نہیں ہوئی۔!"

"تمہارا نام ایسا ہے ہی نہیں کہ بگاڑا جا سکے۔۔۔!"

"کیوں نہیں۔ اگر کہنا چاہو تو مجھے صرف ران بھی کہہ سکتی ہو۔ کوئی تمہارا کیا بگاڑ لے گا۔!"

"مجھے یقین دلاؤ کہ تم خان کے آدمی نہیں ہو۔!"

"کیا خان کے پاس کوئی نیگرو بھی ہے۔۔۔؟"

"نہیں۔۔۔ نیگرو تو نہیں ہے۔۔۔میں نے کبھی نہیں سنا۔۔۔!"

"میرا باڈی گارڈ ایک نیگرو ہے۔۔۔ تم ابھی دیکھ ہی لو گی اور خان کے پاس ایسی کوئی گاڑی بھی نہ ہوگی۔!"

پھر زینو نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔

تھوڑی دیر بعد وہ گاڑی کے قریب جا پہنچے۔۔۔! جوزف باہر ہی کھڑا تھا۔ لڑکی کو دیکھ کر اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

"خبردار۔۔۔!" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "منہ بند کرو۔۔۔!"

جوزف نے جلدی سے منہ بند کر لیا۔۔۔ لیکن اس کی آنکھوں میں حیرت بدستور باقی تھی۔

"چکور نہیں ملے۔۔۔ یہ مل گئیں۔۔۔!" عمران بولا۔

جوزف احتراماً جھکا تھا۔

"یہ جوزف موگونڈا ہے۔۔۔ اور یہ زینت ہیں۔۔۔!" عمران نے تعارف کرایا۔

"خوش آمدید مسی۔۔۔!" جوزف نے دانت نکال دیئے۔

"دروازہ کھولو۔۔۔!"

جوزف نے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا اور عمران نے زینو سے اندر چلنے کو کہا تھا۔

"واقعی۔۔۔! خان کے پاس ایسی کوئی گاڑی نہیں ہے۔!" زینو نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔

"تم یہاں محفوظ رہو گی۔۔۔ گاڑی بلٹ پروف بھی ہے۔!"

"کیا تمہارے اس سفر کا کوئی خاص مقصد ہے۔۔۔؟"

"کتے نے کاٹا تھا۔۔۔ سوچا اسی بہانے تبدیلی آب و ہوا ہو جائے گی۔!" عمران نے احمقانہ انداز میں کہا۔

"میں سمجھی نہیں۔!"

"واقعی کتے نے کاٹا تھا۔۔۔ کچھ کھاؤ پیئو گی۔۔۔!"

"پچھلی رات سے کچھ نہیں کھایا۔!"

"فی الحال انڈوں کےسینڈوچ اور کافی پیش کر سکوں گا۔ کھڑی کیوں ہو بیٹھ جاؤ۔۔۔ خود کو قطعی محفوظ سمجھو۔۔۔ میرا باڈی گارڈ بہترین لڑاکا ہے۔۔۔!"

"تم بھی کم نہیں معلوم ہوتے۔۔۔! میرے خدا۔۔۔ چھ فائر۔۔۔ اور تم زندہ ہو۔۔۔!"

"مجھے تو آج تک کسی نے عورت کے ہاتھورں مارے جانے کی بد دعا نہیں دی۔!"

"قزاتوغا میں اجنبیوں کو داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔۔۔!"

"نہ سنی ہوگی۔۔۔ لیکن ہوتا یہی ہے۔۔۔ سرکاری افسر وہی کرتا ہے جو خان چاہتا ہے۔!"

"تب تو بہت برا ہوا۔۔۔ لیکن پھر یہ سیاح کہاں جاتے ہیں ہمارے سیاحت کے لٹریچر میں قزاتوغا کو خاص اہمیت حاصل ہے۔۔۔!"

"سب کاغذی باتیں ہیں۔ ۔۔ سیاحون کو سبوچہ سے آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا۔ قزاتوغا کا فاصلہ وہاں سے دس میل ہے۔!"

"ہوں۔۔۔!" عمران نے پر تفکر انداز میں سر کو جنبش دی تھی۔

"وہاں ایک اقامتی ہوٹل بھی ہے۔۔۔ چھوٹا سا بازار ہے۔۔۔ کچھ آبادی ہے کھاتے پیتے لوگوں کی۔!"

"تب پھر تم کیسے جاؤ گی قزاتوغا۔۔۔!"

"تم مجھے سبوچہ میں اتار دینا۔۔۔!"

عمران کچھ نہیں بولا تھا۔ وہ بھی خاموش بیٹھی اسے سینڈوچ کے لئے انڈے فرائی کرتے دیکھتی رہی تھی!۔۔۔ جوزف باہر ہی تھا۔

"تو اب تم خان کے مقابلے میں بالکل تنہا ہو۔۔۔!" عمران نے تھوڑی دیر بعد سوال کیا۔۔۔ اور وہ چونک کر اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔

"پھر شبہات اٹھا رہے ہیں ذہن میں۔۔۔!" عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا مسکرایا۔

"میری سمجھ میں نہیں آتا۔!"

"اگر تم تنہا رہ گئی ہو۔۔۔ تو تمہیں سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھانا چاہیئے۔!"

"مجھے اس پر حیرت ہے کہ تم نے اس کے بارے بالتفصیل جاننے کی کوشش نہیں کی۔!"

"اگر تم مناسب سمجھو گی تو خود ہی سب کچھ بتا دو گی۔۔۔ خیر یہ لو سینڈوچ کھاؤ۔۔۔ میں کافی تیار کرتا ہوں۔!"

"اگر انہوں نے راستے میں گاڑی روک کر تلاشی لی تو کیا ہوگا۔۔۔؟"

"تمہیں نہیں پا سکیں گے۔۔۔!" عمران بولا۔ "مطمئن رہو۔۔۔ یہ ایک شعبدہ باز کی گاڑی ہے۔۔۔ تم انہیں نظر نہیں آؤ گی۔!"

"تم شعبدہ باز ہو۔۔۔! اوہ۔۔۔ اسی لئے۔۔۔ میری گولیوں سے بچ گئے۔۔۔ لندن میں میں نے ایسا ہی ایک شعبدہ باز دیکھا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک شعبدہ باز رائفل کی گولیوں کو دانتوں سے پکڑتا تھا۔!"

"میں ابھی اس درجے پر فائز نہیں ہوا۔!"

"میں سمجھ گئی۔۔۔! تم یہاں کھیل تماشوں کے لئے آئے ہو۔۔۔ اس کے باوجود بھی شائد قزاتوغا میں داخل نہ ہو سکو ۔۔۔ البتہ اگر سرکاری افسر چاہے تو۔۔۔!"

"شعبدہ باز ضرور ہوں لیکن اس سفر کا مقصد صرف تفریح ہے۔۔۔! ہاں تو تمہارا وہ ساتھی کیسے مرا تھا۔!"

"بوڑھا آدمی تھا۔۔۔ پھرتیلے پن کا مظاہرہ نہیں کر سکا تھا۔۔۔ میں غار سے نکاسی کے دوسرے راستے سے بھی واقف تھی۔۔۔نکل آئی۔۔۔!"

"آخر خان کو تم دونوں سے کیا شکایت تھی۔!"

"مجھے شکایت ہے خان سے۔۔۔ اس نے میرے بابا کو گرفتار کر لیا ہے۔۔۔ غداری کے الزام عائد کر کے۔۔۔ میں نہیں جانتی کہ وہ زندہ بھی ہیں یا ختم کر دیئے گئے ہیں۔!"

"غداری۔۔۔ کس سے غداری! کیا تمہارے بابا نے ملکی قوانین کو ما ننے سے انکار کر دیا تھا۔؟"

"ملکی قوانین۔۔۔!" وہ حقارت سے ہنس کر رہ گئی تھی۔

"میں سمجھا نہیں تم کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔!"

"یہاں خان کا قانون چلتا ہے۔۔۔ میرے بابا خان کے بزنس مینیجر تھے۔!"

"آہا۔۔۔ خان کا کوئی بزنس بھی ہے۔۔۔!"

"کیوں نہیں۔۔۔ یہاں سے شمالی سرحد پار لاکھوں کا مال جاتا ہے۔!"

"اوہو۔۔۔ خوب کیا کیا چیزیں ہوتی ہیں۔!"

"غلہ، شکر، گھی، اور سوتی کپڑے وغیرہ۔۔۔!"

"اور تمہارے بابا۔۔۔ کیا نام بتایا تھ ا ۔۔۔!"

"شائد میں نے تمہیں ابھی تک نام نہیں بتایا۔!" وہ اسے غورے سےدیکھتی ہوئی بولی۔

"نہ بتایا ہوگا۔۔۔!" عمران نے لاپرواہی سے کہا۔

"ان کا نام جابر خان ہے۔۔۔!"

"اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ تو پھر شائد وہ خان کے کسی کاروباری حریف سے مل گئے ہوں گے۔۔۔ اسی لئے غداری کا الزام آیا ہے۔!"

"سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔!" زینو نے غصیلے لہجے میں کہا۔

"آخر کچھ تو ہوگا جس کی بناء پر ان کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔!"

"سازش۔۔۔! اور اس سازش کا سرغنہ اس علاقے کا سب سے بڑا آدمی داراب ہے۔۔۔ خان کا مصاحب خاص کہلاتا ہے۔۔۔ اس نے بابا سے میرا رشتہ مانگا تھا۔۔۔ بابا نے انکار کر دیا۔!"

"تمہارے مرضی معلوم کئے بغیر۔۔۔!"

"میں تو اس کا نام تک لینا پسند نہیں کرتی۔!"

"اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ تو پھر یہاں اسی کو غداری کہتے ہوں گے۔۔۔!"

"تم کیسی اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہو۔!"

"جو کچھ تم نے بتایا ہے اس پر تبصرہ کر رہا ہوں۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ کیا انہیں علم تھا کہ وہ کسی الزام کے تحت گرفتار کر لئے جائیں گے۔!"

"یہ میں نہیں جانتی لیکن پرسوں شب کو وہ رات انہوں نے ٹہل ٹہل کر گذاری تھی۔۔۔ دوسری صبح میں شکار کو چل دی۔۔۔ جانتی تھی کہ وہ مجھے پریشانی کا سبب نہیں بتائیں گے۔۔۔ کبھی اپنی کسی الجھن میں شریک نہیں کرتے۔۔۔ بہر حال۔۔۔ دوپہر کو شکار سے واپس آئی تو معلوم ہوا کہ داراب دھوکے سے حملہ آور ہو کر انہیں پکڑ لے گیا۔!"

"سرکاری حوالات میں ہوں گے۔۔۔!"


"یہاں کوئی سرکاری حوالات یا جیل نہیں ہے۔۔۔ خان کے محل کہکشاں میں ایک اذیت خانہ بھی ہے جہاں ایسے قیدی رکھے جاتے ہیں جنہیں کسی بناء پر خان ہی سزا دینا چاہتا ہو۔!"

"تب تو وہاں ضمانت پر بھی رہائی ممکن نہ ہوگی۔!"

"تم قانون کی حکمرانی والی اصطلاحات استعمال کر رہے ہو یہاں ان کا تصور بھی احمقانہ ہے۔!"

"تمہارے بابا کس قسم کے آدمی ہیں۔۔۔!"

"میں نہیں سمجھی۔!"

"کیا ان کا رحجان قانون کی حکمرانی کی طرف تھا۔!"

"یہ میں نہیں جانتی۔۔۔ لیکن وہ اس طرز زندگی کو پسند نہیں کرتے تھے۔۔۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ آخر سرکاری آفیسر کی موجودگی کے ڈھونگ کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔۔!"

"تب تو یہ خان سے کھلی ہوئی غداری ہے۔۔۔!"

"وہ چاہتے تھے کہ اس علاقے کے لوگ بھی ویسی ہی زندگی بسر کر سکیں جیسے ملک کے دوسرے حصوں کے لوگ کرتے ہیں۔!"

"اور وہ اپنے ان خیالات کا اعلان بھی کرتے رہتے ہوں گے۔۔۔!"

"سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ میرے علاوہ اور کسی سے بھی وہ اس قسم کی گفتگو نہیں کرتے تھے۔!"

"خان کا وہ محل کہکشاں قزاتوغا میں ہی ہوگا۔!"

"وہیں ہے۔!"

"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم تنہا کیا کر لو گی۔!"

"اپنی جان دے دوں گی۔۔۔!"

"اس سے فائدہ۔۔۔!"

"میرے ساتھ سبوچہ ہی میں قیام کرو۔۔۔ کوئی صور نکال لی جائے گی۔!"

اس نے عمران کو طنزیہ انداز میں دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ "کیا میں تمہیں بہت اچھی لگتی ہوں۔!"

عمران کے چہرے پر حماقتوں کی پرچھائیاں کچھ اور گہری ہو گئیں اور اس نے ہکلا کر کہا۔ "میں نہیں سمجھا۔۔۔ تم کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔!"

"تمہیں جتا دوں کہ میں نے یورپ میں بھی پاک بازی کی زندگی بسر کی تھی۔!"

"ماشاء اللہ۔۔۔ ماشاء اللہ۔۔۔!" عمران سر ہلا کر بولا۔ "نیکو کاروں کے لئے جنت ہے۔۔۔!"

"کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔۔۔!" وہ جھلا کر بولی۔

"نہیں خود کو الو محسوس کر رہا ہوں۔۔۔ اور اب تم کافی پیئو اور چلتی پھرتی نظر آؤ۔۔۔ تمہاری چھ گولیاں مجھ پر ادھار رہیں۔۔۔ غضب خدا کا اب یہ وقت آ گیا ہے کہ لڑکیاں مجھے اپنی پاکبازی کی دھونس میں لینا شروع کر دیں۔۔۔!"

"کیا مطلب۔۔۔!"

"ارے مجھے اس سے کیا سروکار کہ تم کتنی پاک باز ہو۔۔۔ یہ لفظ بھی مجھے کبوتر باز ہی کا سا لگنے لگا ہے۔!"

"کیا بکواس کر رہے ہو۔۔۔؟"

"اب چپ رہو۔۔۔ ورنہ جھانپڑ رسید کر دوں گا۔۔۔ کتے کاٹے کا مریض ہوں۔!"

"واقعی۔۔۔ کچھ کچھ پاگل ہی لگ رہے ہو۔۔۔!"

"جوزف۔۔۔!" عمران نے آواز دی۔

"یس باس۔۔۔!" باہر سے جواب ملا۔

"اب ہمیں روانہ ہو جانا چاہئے۔!"

"چلو اترو۔۔۔!" عمران نے خشک لہجے میں زینو سے کہا۔

"سبوچہ میں اتروں گی۔۔۔!" زینو غرائی تھی۔

"جہنم میں جاؤ۔۔۔!" کہہ کر عمران نے سوئچ بورڈ کے ایک پش سوئچ پر انگلی رکھ دی تھی۔ ساری کھڑکیوں پر نیلے رنگ کے شیشے چڑھ گئے۔

"اوہ۔۔۔ واقعی شاندار چیز ہے۔۔۔!" زینو بولی۔ "اب ہمیں باہر سے نہیں دیکھا جا سکے گا۔۔۔ اور ہم سب کو دیکھتے رہیں گے۔!"

عمران خاموش رہا۔۔۔ جوزف نے انجن سٹارٹ کیا تھا اور گاڑی حرکت میں آ گئی تھی۔!
 

قیصرانی

لائبریرین
0​

کہکشاں۔۔۔ر ات کے اندھیرے میں کہکشاں ہی معلوم ہوتی تھی۔ قلعہ نما عمارت کے جھروکوں میں چراغ ہی چراغ روشن نظر آتے۔۔۔ اور یہ روشنیاں میلوں دور سے دکھائی دیتی ھیں۔

لیکن دن کے اجالے میں سیاہ پتھروں سے بنائی ہوئی اس عمارت کو دیکھ کر عجیب سی دہشت ذہن پر طاری ہوتی تھی۔۔۔ شائد اسی بناء پر لوگ اسے کالی کہکشاں کہنے لگے تھے۔

یہ خان قزاتوغا کا محل تھا۔۔۔! خان قزاتوغا۔۔۔ جس کے تصور سے بھی اس کی زمینوں پر بسنے والے لرزنے لگتے تھے۔!

طویل قامت اور مضبوط جسم والا یہ آدمی ساٹھ اور پینسٹھ کے درمیان رہا ہوگا۔ چڑھی ہویئ سفید داڑھی اور گھنی مونچھوں کے اوپر دو خون خوار آنکھیں اس کی ہیبت ناکی میں مزید اضافہ کرتی تھیں۔ عام طو رپر کہا جاتا تھا کہ اس کا مقابل دوران گفتگو میں آنکھ اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔

"پیشی" کی خبر ہی سن کر متعلقہ آدمی کا دم نکل جاتا تھا۔

اس وقت وہ اپنے دیوان خاص میں ایک زرنگار کرسی پر بیٹھا خصوصی مصاحب داراب کو قہر آلود نظروں سے گھورے جا رہا تھا اور داراب سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ خان کے بعد اس علاقے میں وہی سب سے خطرناک آدمی تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے مظالم کے چرچے دور دور تک تھے۔۔۔! خان کا داہنا ہاتھ تصور کیا جاتا تھا۔

"ایک لڑکی تیرے قابو میں نہ آ سکی۔۔۔!" خان دفعتاً دھاڑا۔

"عالی جاہ۔۔۔! لڑکی ہی ہونے کی وجہ سے قابومیں نہ آ سکی۔۔۔ عورت ذات پر کیسے ہاتھ اٹھے۔۔۔!" داراب کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا۔

"ہمیں اطلاع ملی ہے کہ اس نے دو دسپاہیوں کو مار بھی ڈالا ہے۔۔۔!"

"اندھیرے میں دیوانہ وار فائرنگ کر رہی تھی۔۔۔ اسے محض اتفاق سمجھنا سمجھنا چاہئے کہ دو آدمی مر گئے۔!

"اگر وہ علاقے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی تو ہم تیری کھال کھنیجوا کر بھس بھروا دیں گے۔!"

"وہ باہر نہیں جا سکے گی عالی جاہ۔۔۔! غلام نے ناکہ بندی کر ادی ہے۔۔۔!"

"اس کا ساتھی کون تھا۔!"

"گلزار کے قوہ خانے کا مالک ثمر گل۔۔۔ وہ مارا گیا۔۔۔!"

"اس کا سب کچھ ضبط کر لیا جائے۔۔۔ اس کے ورثاء میں کون کون ہے۔!"

"کوئی بھی نہیں۔۔۔ تنہا تھا۔۔۔ عالی جاہ۔۔۔!"

"جابر کی کتنی انگلیاں کاٹی گئیں۔۔۔!"

"دو۔۔۔ عالی جاہ۔۔۔!"

"دو۔۔۔!" خان کے لہجے میں حیرت تھی۔۔۔!" اور اس نے ابھی تک زبان نہیں کھولی۔!"

"اسی لئے خیال ہوتا ہے عالی جاہ کہ کہیں وہ سچ مچ لاعلم نہ ہو۔!"

"کیوں بکواس کرتا ہے۔!"

"معافی چاہتا ہوں عالی جاہ۔۔۔!"

"ہر روز ایک انگلی۔ اس پر بھی زبان نہ کھولے ۔۔۔ تو کان۔۔۔ پھر ناک۔۔۔ پھر آنکھیں۔!"

"ایسا ہی ہوگا۔۔۔ عالی جاہ۔۔۔!" داراب خم ہوا تھا۔ خان نے ہاتھ ہلا کر جانے کا اشارہ کیا۔

وہ الٹے قدموں چلتا ہوا دروازے تک آیا تھا اور پھر باہر نکل گیا تھا۔

اس کے کرخت چہرے پر تشویش کے آثار کچھ عجیب سے لگ رہے تھے۔! تھوڑی ہی دور چلا ہوگا کہ کسی نے عقب سے آواز دی! رک کر مڑا۔۔۔ ایک معمر آدمی تیزی سے اس کی جانب بڑھا آ رہا تھا۔!

"خیر تو ہے۔۔۔ کچھ پریشان نظر آ رہے ہو۔۔۔!" اس نے قریب پہنچ کر کہا۔

"کچھ نہیں صمد خان۔۔۔ کوئی خاص بات نہیں۔!"

"آئینے میں شکل دیکھو ذرا اپنی۔۔۔!"

"کیا واقعی پریشان لگ رہا ہوں۔!"

"تمہاری فطرت کے لوگ اگر پریشان ہوں تو میلوں دور سے احساس ہو جائے گا۔!"

"جابر خان کا قصہ ہے۔۔۔!" وہ طویل سانس لے کر بولا۔

"آخر اس سے کیا خطا سر زد ہوئی ہے۔!"

"اس کھیپ میں اس نے جو مال سرحد پار پہنچایا تھا اس میں سے کوئی چیز گم ہو گئی ہے۔ عالی جاہ کا خیال ہے کہ اس میں جابر خان کی بدنیتی کو دخل ہے۔!"

"کیا کوئی بہت قیمتی چیز تھی۔!"

"لفافہ۔۔۔! تو پھر وہ تو جابر خان کی جیب میں رہا ہوگا۔!"

"نہیں۔۔۔ کسی پیٹی میں تھا۔۔۔! جابر خان اس حد تک تو اعتراف کرتا ہے ایک جگہ ٹرک سے کچھ پیٹیاں گر کر ٹوٹ گئی تھیں اور ان کا سامان سمیٹ کر دوبارہ پیک کیا گیا تھا۔ لیکن اسے کسی لفافہ کا علم نہیں۔!"

"تو پھر وہ ٹھیک ہی کہتا ہوگا۔۔۔!"

"خاموش۔۔۔!" داراب نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "کیا تم بھی اپنی انگلیاں کٹوانا چاہتے ہو۔!"

"کیا اس کی انگلیاں کاٹی جا رہی ہیں۔۔۔!" بوڑھے نے خوف زدہ لہجے میں پوچھا۔

"ہاں۔۔۔ دو انگلیاں کٹ چکی ہیں۔!"

"اگر اسے علم ہوتا تو ضرور اعتراف کر لیتا۔!"

"میرا بھی یہی خیال ہے۔۔۔!"

"تو پھر۔۔۔!"

"وہ کچھ سننے پر تیار نہیں۔۔۔!"

"اللہ رحم کرے۔۔۔!" بوڑھا سانس لے کر بولا۔

"اب زینو کی تلاش ہے۔۔۔ لیکن وہ قابو میں نہیں آ رہی۔۔۔ دو سپاہی بھی اس کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔۱"

"یہ تو بہت برا ہوا۔!"

"میں نہیں چاہتا کہ اسے کوئی گزند پہنچے۔!"

"تمہارے چاہنے سے کیا ہوتا ہے اور میری نصیحت سنو۔۔۔ اپنے کسی رویے سے یہ ہرگز ظاہر نہ ہونے دینا کہ تمہیں اس سے ہمدردی ہے۔!"

"میں سمجھتا ہوں۔۔۔!"

"میرے ساتھ آؤ۔۔۔ میں تمہیں کچھ اور بتانا چاہتا ہوں۔!"

کچھ دور چلنے کے بعد وہ ایک کمرے میں داخؒل ہوئے۔ ! داراب استفہامیہ نظروں سے بوڑھے کو دیکھے جا رہا تھا۔

بوڑھا کچھ دیر بعد بولا۔ "جب سے خانوں کے اقتفدار کے خاتمے کی تحریک شروع ہوئی ہے! خان کا رویہ کچھ اور تلخ ہو گیا ہے۔!"

"یہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں۔!"

"اب سوال یہ ہے کہ ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیئے۔!"

بوڑھے نے اسے غور سے دیکھا تھا اور بولا تھا۔ "اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔!"

"ہمارے خان کا اقتدار نہیں ختم ہو سکتا۔۔۔!" داراب نے کہا۔

"قومی حکومت نے اب تک جو کچھ کہا ہے کیا بھی ہے۔۔۔!"

"میں کسی قومی حکومت کو نہیں جانتا۔۔۔ میرا حاکم خان قزاتوغا۔۔۔ تمہاری بزرگی کا خیال مانع ہے ورنہ۔۔۔!"

"مجھے غلط نہ سمجھو داراب۔۔۔! میں بھی خان کا اتنا ہی وفادار ہوں جتنے تم ہو۔!"

"پھر کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔!"

"یہی کہ جابر خان کی بیٹی۔۔۔ یہاں سے باہر نہ جانے پائے۔۔۔ کیونکہ قومی حکومت خانوں کے خلاف شہادتیں اکٹھی کر رہی ہے اور تم ابھی کہہ چکے ہو کہ تمہیں لڑکی سے ہمدردی ہے۔!"

داراب چونک کر اسے گھورنے لگا تھا۔ شائد اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔ اسے یہ بات زبان سے نہ نکالنی چاہئے تھی۔!

"تم یہ بات اپنی ہی ذات تک محدود رکھو گے۔۔۔!"

"مطمئن رہو۔۔۔ ایسا ہی ہوگا۔!"

"میرا اطمینان نہیں ہوا۔!"

"کس طرح یقین دلاؤں۔۔۔!" بوڑھا جھنجھلا کر بولا۔

"اس طرح۔۔۔!" کہہ کر داراب نے بوڑھے کا سر دیوار سے ٹکرا دیا تھا۔۔۔ ایسی شدید ضرب تھی کہ وہ آواز نکالے بغیرگر کر بے حس و حرکت ہو گیا تھا۔

داراب نےا پنا داہنا پیر اس کی گردن پر رکھ دیا۔۔۔ اور پھر اس وقت تک دباؤ ڈالتا رہا تھا جب تک کہ بوڑھے کا دم نہیں نکل گیا تھا۔

اس کے بعد پھر اس نے دیوان خاص میں اپنی پیشی کرائی تھی۔ خان ابھی وہیں تھا اس لئے فوری طور پر حاضر ہونے کی اجازت مل گئی تھی۔

"کوئی خاص خبر لایا ہے۔۔۔؟" خان نے اس کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔

"خاص خبر ہے عالی جاہ۔۔۔ میں نے صمد خان کو مار ڈالا۔۔۔!"

"کیوں۔۔۔؟" وہ اسے گھورنے لگا داراب سر جھکائے کھڑا تھا بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ "غلام کی برداشت سے باہر تھی یہ بات کہ وہ قومی حکومت کے گن گائے۔!"

"اچھا۔۔۔ کیا کہا تھا اس نے۔۔۔!"

"یہی کہ خدا کرے جابر کی بیٹی دارلحکومت تک پہنچ جائے۔۔۔ تاکہ اس ظالمانہ نظام کے خلاف قومی حکومت کو ایک ثبوت اور مل جائے۔!"

"یہ کہا تھا اس بدبخت نے۔۔۔!"

"ہاں عالی جاہ۔۔۔! اس سے آگے سننے کی تاب نہیں رہی تھی اور میں اس کی ضعیفی کا خیال کئے بغیر اس پر ٹوٹ پڑا۔۔۔ میں نہیں سن سکتا ایسی باتیں۔!"

"تو نے حق نمک ادا کیا۔۔۔ ہم خوش ہوئے۔۔۔ اس خبیث کی لاش کو گندے کیچڑ میں دفن کرا دے۔۔۔!"

"بہت بہتر عالی جاہ۔۔۔!"
 

قیصرانی

لائبریرین
0​

سڑک چکراتی ہوئی نشیب میں چلی گئی تھی۔۔۔ اور وہ سرسبز وادی گویا زمرد کا پیالہ تھی جو بھوری چٹانوں والے اس علاقے کو قدرت کی طرف سے عفطا کیا گیا تھا۔۔۔ جوزف کی بانچھیں کھل گئیں اور اس نے عمران سے کہا "واہ باس۔۔۔! مزہ آ گیا یہاں تو ایک بوتل سے ڈھائی بوتل کا نشہ ہوگا۔۔۔ واہ وا۔۔۔!"

اس وقت جوزف ہی ڈرائیو کر رہا تھا اور عمران اس کے برابر بیٹھا اونگھ رہا تھا۔

"کیا کہا تھا تو نے۔۔۔!" وہ چونک کر بولا۔

"ذرا بائیں جانب دیکھو۔۔۔ شائد ہمیں وہیں رکنا ہے۔۔۔ عمارتیں بھی نظر آ رہی ہیں۔۔۔ بڑی حسین جگہ ہے۔!"

"شائد ہم سبوچہ پہنچ گئے ہیں۔!" عمران نے کہا اور جماہی لے کر منہ چلانے لگا۔! اس وقت صورت سے اول درجے کا کاہل معلوم ہو رہا تھا۔

"کیا لڑکی سو رہی ہے۔۔۔!" جوزف نے پوچھا۔

"میں نے اسے کافی میں خواب آور سفوف دیا تھا تاکہ اس کی بے خبری میں اس کا حلیہ تبدیل کر سکوں۔!"

"مظلوم لڑکی ہے۔۔۔!"

"بڑی جی دار معلوم ہوتی ہے کہ تنہا ہی بھیڑیوں کے غول میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی۔!"

"میرے ملک کے اس خطے میں ایسے ہی بے جگر اور غیور لوگ پائے جاتے ہیں۔!"

"مگر تم اس سلسلے میں کیا کر سکو گے جبکہ پہلی بار ادھر آئے ہو۔۔۔!"

"دیکھا جائے گا۔۔۔ ہاں دیکھو۔۔۔ بستی سے باہر ہی گاڑی روکنا۔۔۔ پوری بات اسے سمجھائے بغیر بستی میں داخل نہیں ہونا چاہتا۔۔۔ اور
پھر یہاں تو وہی ہماری رہنمائی کرے گی۔!"

"جہاں کہو روک دوں۔۔۔!"

"کوئی مناسب سے جگہ دیکھ کر گاڑی کو سڑک سے اتار دینا۔ یہاں بائیں جانب مسطح جگہوں کی کمی نہیں ہے۔!"

"ادھر نکل چلوں۔۔۔!" جوزف نے ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "گاڑی سڑک پر سے دکھائی نہ دے گی۔!"

"ہاں ٹھیک ہے۔۔۔!" عمران سر ہلا کر بولا تھا۔

جوزف نے گاڑی ادھر ہی اتار دی جس طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔ اور ابھی رکنے کے لئے جگہ کا تعین بھی نہیں کر پایا تھا کہ اچانک سات آٹھ مسلح آدمیوں نے کسی جانب سے نمودار ہو کر گاڑی کو روکنے کا اشارہ کیا۔

"روک دو۔۔۔!" عمران آہستہ سے بولا۔

کدھر جاتا۔۔۔!" ایک آدمی نے آگے بڑھ کر پوچھا تھا۔!

"سبوچہ۔۔۔!" عمران نے جواب دیا۔۔۔!" ذرا ادھر رک کر کچھ کھائیں پیئں گے۔!"

گاڑی کو وہ سبھی حیرت سے دیکھ رہے تھے۔!

"تلاشی لے گا۔۔۔!" اسی آدمی نے کہا۔

"ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ ادھر میری زنانی سو رہی ہے۔۔۔!" عمران نے گاڑی کے عقبی حصے کی طرف اشارہ کیا۔

"تلاشی لے گا۔۔۔!" اس نے سخت لہجے میں دہرایا۔

"اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔!" عمران اترتا ہوا بولا۔

اس نے گاڑی کا عقبی دروازہ کھولا تھا۔۔۔ اور پھر اسے بھی اتفاق ہی کہنا چاہئے تھا کہ ٹھیک اسی وقت گہری نیند میں سونے والی بھی اٹھ بیٹھی تھی۔!

تلاشی لینے پر اصرار کرنے والا آگے بڑھا تھا۔۔۔ اور زینو کی آنکھوں سے خوف جھانکنے لگا تھا۔

عمران نے انگلش میں کہا "نروس ہونے کی ضرورت نہیں تم ان کی نظروں سے غائب ہو گئی ہو۔۔۔ چپ چاپ بیٹھی رہو۔!"

وہ تھوک نگل کر رہ گئی تھی۔۔۔ تلاشی لینے والے نے اندر کا جائزہ لیا تھا۔ لیکن اس پر صرف اچٹتی سی نظر ڈالی تھی۔

"ٹھیک ہے۔۔۔!" وہ سر ہلا کر پیچھے ہٹتا ہوا بولا۔

عمران نے دروازہ بند کر دیا اور وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔!

تھوڑی دیر بعد اس نے پھر دروازہ کھولا تھا۔ زینو سکتے کے عالم میں بیٹھی نظر آئی۔

"تم نے دیکھا میرا شعبدہ۔۔۔!" عمران ہنس کر بولا۔ "انہیں تمہاری ہی تلاش تھی۔ لیکن تمہیں نہیں دیکھ سکے۔!"

"شائد میں خواب دیکھ رہی ہوں۔!" وہ بھرائی ہوئی آؤاز میں بولی تھی۔

"مجھے داد نہ دو گی۔!"

"میں کیسے یقین کر لوں جبکہ اس سے نظریں چار ہوئی تھیں۔۔۔ انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔!"

"پھر کیوں دم دبا کر چلے گئے۔۔۔! یا پھر وہ تمہیں پہچانتے ہی نہ ہوں گے۔!"

"سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ کم از کم تین آدمی ان میں ایسے تھے جو مجھے دور ہی سے پہچان لیں گے۔!"

"تو پھر رہی نا میرے شعبدے کی بات۔۔۔!"

"اوہ۔۔۔ یہ میرے چہرے پر بھاری پن کیسا ہے۔۔۔!" اس نے کہا تھا اور چہرے کی طرف ہاتھ لے جانی والی تھی کہ عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "ٹھہرو کہیں میری محنت ضائع نہ ہو جائے۔!"

"کک۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔!"

"شعبدہ۔۔۔!" عمران نے کہا اور ریک پر سے آئینہ اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ تحیر زدہ سی آواز اس کے حلق سے نکلی تھی۔! اور پھر وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر عمران کو دیکھنے لگی تھی۔

"کیا یہ تم نہیں ہو۔۔۔؟" عمران نے ہنس کر پوچھا۔

"مم۔۔۔ میں نہیں۔۔۔!" وہ احمقانہ انداز میں ہنس پڑی۔۔۔ پھر بولی۔ "یہ تو کوئی یوریشین معلوم ہوتی ہے۔۔۔!"

"اسی لئے اب تم صرف انگلش میں گفتگو کرو گی۔۔۔! دو تین گھنٹے لگیں گے اس میک کے عادی ہونے میں۔!"

"لیکن یہ کب اور کیسے ہوا۔۔۔؟"

"جیسے بھی ہوا اس پر میں نادم ہوں۔۔۔ ورنہ بہ قائمی ہوش و حواس تم مجھے اپنے چہرے پر ہاتھ بھی نہ لگانے دیتیں۔۔۔!"

"کیا کیا تھا تم نے۔۔۔!" وہ یک بیک اچھل کر کھڑی ہو گئی۔

"کافی میں خواب آور دوا شامل کی تھی۔!"

"خدا کی پناہ۔۔۔ لل۔۔۔ لیکن۔۔۔!"

"اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ یہ نہ کرتا تو تم اس وقت کہاں ہوتیں۔!"

"میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔ آخر تم ہو کون۔۔۔؟"

"دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا میری ہابی ہے۔!"

"میک اپ کے ماہر معلوم ہوتے ہو۔۔۔ شائد یہی پلاسٹک میک اپ کہلاتا ہے۔!"

"تمہارا خیال غلط نہیں ہے۔!"

"کس حد تک میرا ساتھ دو گے۔۔۔!"

"جس حد تک تم چاہو۔۔۔!"

"میں نادم ہوں کہ میں نے ابتداء میں تمہارے بارے میں اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا تھا۔!"

"کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ میں اس برتاؤ کا عادی ہوں۔!"

"سچ بتاؤ۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔؟"

"علی عمران۔۔۔ ایم ایس سی ڈی ایس سی آکسن۔۔۔ وغیرہ۔۔۔ اور بھی بہتیری کوالیفیکشنز سمیت۔۔۔!"

"اور تم محض تفریحاً یہاں آئے ہو۔۔۔!"

"ابھی تک تو یہی خیال تھا لیکن شائد اب تفریح کی آرزو دل ہی میں رہ جائے۔!"

"تم ان خطرات کا تصور بھی نہیں کر سکتے جن سے دو چار ہونے والے ہو۔ میری حمائت کا بیڑہ اٹھا کر۔!"

"دیکھا جائے گا۔۔۔!"

"پھر سوچ لو۔۔۔!"

"کچھ کر گذرنے کے بعد ہی سوچنے کا عادی ہوں۔!"

"خان قزاتوغا سے ٹکرانا پڑے گا۔!"

"کیا وہ پہاڑ ہے۔۔۔!"

"یہی سمجھ لو۔۔۔!"

"اس کے اذیت خانے تک پہنچنے کا تہیہ کر چکا ہوں۔۔۔! کاش مجھے تمہارے والد کے جرم کی نوعیت کا علم بھی ہو سکتا۔!"

"بسا اوقات خان غلط فہمی میں مبتلا ہو کر بھی دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے لگتا ہے۔!"

"مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش مت کرو۔۔۔!"

"تمہاری مرضی۔۔۔ میں دیکھوں گی کہ کب تک ثابت قدم رہتے ہو۔۔۔!"

"سبوچہ پہنچ کر ہمیں کیا کرنا چاہئے۔!"

"میں نہیں سمجھی۔!"

"گاڑی ہی میں قیام مناسب رہے گا یا ہوٹل میں ٹھہریں۔!"

"مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں تم اس نادر و نایاب گاڑی سے بھی نہ ہاتھ دھو بیٹھو۔۔۔!"

"اگر خان تک اس کی شہر پہنچی تو پہلے تم سے اس کی قیمت پوچھی جائے گی لیکن اگر تم فروخت کر دینے پر آمادہ نہ ہوئے تو یہ حیرت انگیز طور پر تمہارے قبضے سے نکل جائے گی۔!"

"کیا کوئی بہت بڑا جن خان کے تابع ہے۔!"

"وہ خود ہی کسی جن سے کم نہیں ہے اور پھر داراب جیسے لوگوں کے آقا کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔!"

"کام کی بات کرو۔۔۔ خان قزاتوغا کے قصیدے سے مجھے ذرا برابر بھی دلچسپی نہیں ہے۔!"

"میں سمجھ گئی۔۔۔ تم اس علاقے کے کمشنر کے کوئی خاص آدمی ہو اور تمہیں یہاں کسی خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے۔!"

"میں اب تمہاری کسی بات کی تردید نہیں کروں گا۔!"

"دیکھا۔۔۔! کیسا پہچانا میں نے۔۔۔!"

"اپنی باتوں کا خود ہی جواب دے رہی ہو۔۔۔! یہ اچھی علامت نہیں ہے۔!"

"میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ گاڑی کے سلسلے میں کسی پر بھی اعتماد نہ کرنا۔ یہاں خان کے حکم سے کوئی بھی سرتابی نہیں کر سکتا۔!"

"تم فی الحال اپنے بارے میں سوچو کہ تمہارا اگلا قدم کیا ہونا چاہئے۔!"

"کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔!"

"اسی برتے پر اکیلے نکل کھڑی ہوئی تھیں۔!"

"یہاں کس میں اتنی جرأت ہے کہ خان کے خلاف میرا ساتھ دے سکے۔!"

وہ گاڑی سے اتر کر چاروں طرف نظریں دوڑانے لگی۔ پھر پلٹ کر عمران سے بولی۔ "دو ڈھائی میل کا سفر اور باقی ہے۔ اگر ہم ابھی روانہ ہو جائیں تو غروب آفتاب سے قبل ہی سبوچہ پہنچ جائیں گے۔!"

عمران نے جوزف کو پھر کچھ ہدایات دی تھیں اور گاڑی پھر سڑک پر آ نکلی تھی۔

تھوڑی دیر بعد وہ بستی میں داخل ہوئے تھے اور زینو نے ایک ایسے باغ کی طرف رہنمائی کی تھی جہاں متعدد خیمے نصب تھے اور کچھ گاڑیاں بھی کھڑی ہوئی تھیں۔!

"کچھ سیاح یوں بھی گذر کرتے ہیں یہاں۔۔۔!" اس نے کہا۔

"ہمارے لئے بھی یہی مناسب رہے گا۔!" جوزف بولا۔ " کسی ہوٹل کی گھٹن سے لاکھ درجہ بہتر۔!"

"لیکن اس کے باوجود بھی گاڑی کی نگرانی کرنی پڑے گی۔!"

"میری موجودگی میں کوئی اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکے گا۔!" جوزف نے کہا۔

"ویسے بھی کوئی جرأت نہیں کرے گا۔۔۔! کیونکہ اس پر قومی فوج کا نشان موجو دہے۔!" عمران نے کہا۔

"اوہ۔۔۔ تو تمہارا تعلق فوج سے ہے۔۔۔!" زینو اسے غور سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"پھر یاد دلاؤں کہ یہ ایک شعبدہ باز کی گاڑی ہے۔!" عمران نے کہا۔ "خیر۔۔۔! ہاں تو یہ صورت یہ ہوگی کہ تم گاڑی میں سوؤ گی اور ہم دونوں خیمے میں رہیں گے۔۔۔ ایک چھوٹا سا خیمہ میں بھی لایا ہوں۔!"

"میری وجہ سے۔۔۔ تم لوگ بھی زحمت میں پڑے ہو۔!" زینو نے کہا اور آئینہ اٹھا کر پھر اپنا جائزہ لینے لگی۔۔۔ پھر اس طرح چونک پڑی جیسے کسی نئے خیال نے جنم لیا ہو۔!

"سنو، دوست۔۔۔!" اس نے عمران کو مخاطب کیا۔ "میں یوریشین نہیں بلکہ ایک فرانسیسی لڑکی ہوں۔۔۔ زینو نہیں بلکہ زیاناں نام ہے۔!"

"میری طرف سے کھلی اجازت ہے جو قومیت چاہو اختیار کر لو۔ لیکن اس سے فائدہ کیا ہوگا۔!"

"ہم کہکشاں میں داخل ہو سکیں گے۔۔۔ خان غیر ملکیوں کو محل دیکھنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی مہمان بھی بنا لیتا ہے۔۔۔ اور فوجیوں سے بھی نہیں الجھتا۔۔۔ کبھی کبھی فوجی آفسیر بھی کہکشاں میں دیکھے گئے ہیں۔ تم کیوں کہ کسی فوجی آفیسر کا سوانگ رچاؤ۔۔۔ میں فرانس سے آئی ہوں۔۔۔ اور یہ تمہارا نیگرو باڈی گارڈ میرا باڈی گارڈ بن جائے ۔۔۔ یعنی یہ میرے ساتھ فرانس ہی سے آیا ہے۔۔ میری اور تمہاری پرانی دوستی ہے۔۔۔ اور میں یہاں تمہاری مہمان ہوں۔۔۔ اگر اسی طرح کہکشاں میں رسائی ہو گئی تو پھر سمجھو کام بن گیا۔ ۔۔ میں عمارت کے چپے چپے سے واقف ہوں لیکن ٹھہرو۔۔۔ کیا تم میں اتنی ہمت ہے کہ صدر کے پولیٹیکل ایجنٹ سے مل کر اس سے محل میں داخلے کی سفارش کرا سکو۔۔۔!"

"فکر نہ کرو۔۔۔ یہ بھی ہو جائے گا۔۔۔ ویسے تمہیں سوجھی خوب ہے۔۔۔!"

"اس کے علاوہ اور کوئی چار ہ نہیں ہے۔!"

"خیر تو اب تم مجھے کرنل عمران کہہ کر مخاطب کر سکتی ہو۔۔۔!"

دفعتاً جوزف کی آوا سنائی دی۔ "باس۔۔۔! وہ لوگ پھر ادھر ہی آ رہے ہیںَ!"

"آنےد و۔۔۔!" عمران نے کہا اور زینو سے بولا "ہماری گفتگو کے دوران میں اس طرح غیر متعلق نظر آنے کی کوشش کرنا جیسے زبان کو سمجھ نہیں سکتیں۔!"

"میں احتیاط رکھوں گی۔!"

وہ قریب آ گئے۔۔۔ اس بار ان کے ساتھ ایک نیا چہرہ بھی نظر آیا اور یہ چہرہ قوت اور درندگی کا مظہر بھی تھا۔

گاڑی کے قریب پہنچ کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ "فوج کی گاڑی ہے۔!"

وہ صرف گاڑی ہی کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے تھے۔۔۔ ان لوگوں سے کچھ پوچھا نہیں تھا۔

پھر وہ خیموں میں جھانکتے پھرے تھے زینو انہیں بغور دیکھتی رہی تھی۔ عمران اور جوزف لاتعلق نظر آ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد عمران نے کہا تھا۔ "شائد تمہاری تلاش جاری ہے۔!"

"تم نے اس آدمی کو دیکھا۔۔۔ وہ جس کی پیشانی پر لمبا سا زخم کا نشان تھا۔!" زینو نے پوچھا۔

"ہاں۔۔۔ لیکن گاڑی کی تلاشی لیتے وقت ان لوگوں کے ساتھ نہیں تھا۔!"

"میں نے اسے حلئے سے پہچانا ہے۔۔۔ داراب، وہی تھا۔۔۔! خان کا خصوصی مصاحب، صرف نام سنتی رہی تھی۔۔۔ آج پہلی بار دیکھا ہے۔۔۔ بابا کو اسی نے گرفتار کیا تھا۔! لیکن سنو۔۔۔ کیا تمہاری گاڑی پر اس وقت فوج کا نشان موجود نہیں تھا جب انہوں نے تلاشی لی تھی۔!"

"موجود تھا۔۔۔ انہوں نے توجہ نہ دی ہوگی۔۔۔ ویسے یہ نشانات بدلے بھی جا سکتے ہیں۔۔۔ کہو تو پل بھر میں اسے کسی فلم کمپنی کی ملکیت بنا دوں۔!"

"آخر تم ہو کیا چیز۔۔۔؟"

"اس نشان کے ساتھ تو کرنل ہوں۔۔۔ فلم کمپنی والے نشان کے ساتھ ماسٹر جھاپک کہلاؤں گا۔ ویسے بات صرف اتنی سی ہے کہ مجھے کتے نے کاٹا تھا۔۔۔!"

وہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھے جا رہی تھی۔۔۔ دفعتاً بولی۔ "یہ تم نے کتوں کی تصویریں گاڑی میں کیوں لٹکا رکھی ہیں۔!"

"جب سے کتے نے کاٹا ہے۔۔۔ یہ کیفیت ہو گئی ہے۔!"

"میں انہیں اتار کر پھینک دوں گی۔۔۔ کتے مجھے اچھے نہیں لگتے۔!"

"اچھے تو مجھے بھی نہیں لگتے۔۔۔ لیکن بہرحال کتوں ہی میں زندگی بسر کرنی ہے۔!"

"بسا اوقات تمہاری کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔!"

"آج تو پہلا ہی دن ہے۔!"

"لیکن مجھے پورا ایک سال لگ رہا ہے۔!"

"کبھی کتے نے تو نہیں کاٹا تھا۔!"

"ختم کرو فضول باتیں۔۔۔ اب ہمیں صرف اس کی فکر ہونی چاہئے کہ جلد از جلد کہکشاں تک رسائی ہو جائے۔!"

"وہ بھی ہو جائے گا۔۔۔ میں پولیٹیکل ایجنٹ سے ملوں گا۔!"

"نہیں دوست۔۔۔!" وہ پرتفکر لہجے میں بولی۔ "یہ طریقہ کارگر نہیں ہوگا۔ اگر اس طرح ہم کہکشاں میں داخل بھی ہو گئے تو اذیت خانے تک ہرگز نہیں پہنچ سکیں گے۔۔۔ ہر وقت ہماری نگرانی کی جائے گی۔!"

"یہ بات تو ہے۔۔۔!" عمران سر ہلا کر بولا۔

"اگر کسی اور طریقے سے کہکشاں والوں کی لاعلمی میں داخل ہو سکیں تو وہاں ہفتوں چھپے رہ سکتے ہیں۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔ وہ قلعہ نما عمارت ضرور ہے لیکن وہاں کوئی باقاعدہ قسم کی فوج نہیں رہتی۔۔۔ خان کے ایک درجن سپاہیوں کے علاوہ چند ہی افراد اور ہیں۔!"

"اگر میں پہلے کبھی یہاں آ چکا ہوتا تو آج دوسری صورت ہوتی۔۔۔ خود ہی کوئی راستہ پیدا کر لیتا۔!"

"میری ایک تجویز ہے اگر تم اس پر عمل کر سکو۔۔۔ مسئلہ صرف قزاتوغا تک پہنچنے کا ہے۔ ہم اس طرح جائیں کہ اجنبی نہ معلوم ہوں۔ تم میک اپ کے ایکسپرٹ ہو کیا یہ ممکن نہیں۔!"

"ہر طرح کا میک اپ ممکن ہے۔۔۔!"

"یہاں ایک دوکان علاقائی ملبوسات کی بھی ہے۔۔۔ ہم چرواہوں کا بھیس بدل سکیں گے بس قزاتوغا تک پہنچ جائیں۔۔۔ پھر کہکشاں میں داخل ہونے کی تدبیر میں کروں گی۔!"

"مجھے منظور ہے۔۔۔!"

"لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ہے کہ میں کسی طرح کی یقین دہانی نہیں کراسکتی ہو سکتا ہے۔۔۔ ہماری موت ہی ہمیں اس طرف لے جا رہی ہو۔!"

"لے جانے دو۔۔۔!"

"کیا مطلب۔۔۔؟"

"زیادہ دور کی باتیں سوچنا میرے بس کی بات نہیں۔!"

"کیا تمہارے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔!"

"آگے سناٹا اور پیچھے تاریکی ہے۔۔۔!"

"میں نہیں سمجھی۔!"

"کچھ سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔! اگر مجھ پر اعتماد کر سکتی ہو تو کرو ورنہ تمہاری راہ اور میری اور۔۔۔!"

وہ خاموش ہو گئی۔۔۔ پھر عمران اور جوزف بڑی دیر تک سر جوڑے آہستہ آہستہ باتیں کرتے رہے اور وہ دور سے انہیں کشمکش کے سے عالم میں دیکھے جا رہی تھی۔!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top