نظام الدین
محفلین
کافی
انہوں نے جواب دیا۔ ’’آپ کیوں نہیں پیتے؟‘‘
’’مجھے اس میں سگار کی سی بو آتی ہے۔‘‘
’’اگر آپ کا اشارہ اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کی طرف ہے تو یہ آپ کی قوتِ شامہ کی کوتاہی ہے۔‘‘
گوکہ ان کا اشارہ صریحاً میری ناک کی طرف تھا تاہم رفعِ شر کی خاطر میں نے کہا۔
’’تھوڑی دیر کے لئے یہ مان لیتا ہوں کہ کافی میں سے واقعی بھینی بھینی خوشبو آتی ہے۔ مگر یہ کہاں کی منطق ہے کہ جو چیز ناک کو پسند ہو وہ حلق میں انڈیل لی جائے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کافی کا عطر کیوں نہ کشید کیا جائے تاکہ ادبی محفلوں میں ایک دوسرے کے لگایا کریں۔‘‘
تڑپ کر بولے۔ ’’صاحب! میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا، تاوقتیکہ اس گھپلے کی اصل وجہ تلفظ کی مجبوری نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ کافی کی مہک سے لطف اندوز ہونے کے لئے ایک تربیت یافتہ ذوق کی ضرورت ہے۔ یہی سوندھا پن لگی ہوئی کھیر اور دھنگارے ہوئے رائتہ میں ہوتا ہے۔‘‘
میں نے معذرت کی ’’کھرچن اور دھنگار دونوں سے مجھے متلی ہوتی ہے۔‘‘
فرمایا۔ ’’تعجب ہے! یوپی میں تو شرفا بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔‘‘
’’میں نے اسی بنا پر ہندوستان چھوڑا۔‘‘
چراندے ہوکر کہنے لگے۔ ’’آپ قائل ہوجاتے ہیں تو کج بحثی کرنے لگتے ہیں۔‘‘
جواباً عرض کیا۔ ’’گرم ممالک میں بحث کا آغاز صحیح معنوں میں قائل ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ دانستہ دل آزاری ہمارے مشرب میں گناہ ہے۔ لہٰذا ہم اپنی اصل رائے کا اظہار صرف نشہ اور غصہ کے عالم میں کرتے ہیں۔ خیر، یہ تو جملہ معترضہ تھا، لیکن اگر یہ سچ ہے کہ کافی خوش ذائقہ ہوتی ہے تو کسی بچے کو پلا کر اس کی صورت دیکھ لیجئے۔‘‘
جھلا کر بولے۔ ’’آپ بحث میں معصوم بچوں کو کیوں گھسیٹتے ہیں؟‘‘
میں بھی الجھ گیا۔ ’’آپ ہمیشہ ’بچوں‘ سے پہلے لفظ ’معصوم‘ کیوں لگاتے ہیں؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کچھ بچے گناہ گار بھی ہوتے ہیں؟ خیر، آپ کو بچوں پر اعتراض ہے تو بلی کو لیجئے۔‘‘
’’بلی ہی کیوں؟ بکری کیوں نہیں؟‘‘ وہ سچ مچ مچلنے لگے۔
میں نے سمجھایا۔ ’’بلی اس لئے کہ جہاں تک پینے کی چیزوں کا تعلق ہے، بچے اور بلیاں برے بھلے کی کہیں بہتر تمیز رکھتے ہیں۔‘‘
ارشاد ہوا۔ ’’کل کو آپ یہ کہیں گے کہ چونکہ بچوں اور بلیوں کو پکے گانے پسند نہیں آسکتے اس لئے وہ بھی لغو ہیں۔‘‘
میں نے انہیں یقین دلایا۔ ’’میں ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا۔ پکے راگ انہیں کی ایجاد ہیں۔ آپ نے بچوں کا رونا اور بلیوں کا لڑنا ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
بات کاٹ کر بولے۔ ’’بہرحال ثقافتی مسائل کے حل کا نتیجہ ہم بچوں اور بلیوں پر نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
آپ کو یقین آئے یا نہ آئے مگر یہ واقعہ ہے کہ جب بھی میں نے کافی کے بارے میں استصواب رائے کیا اس کا انجام اس قسم کا ہوا۔ شائقین میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے الٹی جرح کرنے لگتے ہیں۔ اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کافی اور کلاسیکی موسیقی کے بارے میں استفسار رائے عامہ کرنا بڑی ناعاقبت اندیشی ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بدمذاقی ہے جیسے کسی نیک مرد کی آمدنی یا خوب صورت عورت کی عمر دریافت کرنا (اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیک مرد کی عمر اور خوب صورت عورت کی آمدنی دریافت کرنا خطرے سے خالی ہے)۔ زندگی میں صرف ایک شخص ملا جو واقعی کافی سے بیزار تھا۔ لیکن اس کی رائے اس لحاظ سے زیادہ قابل التفات نہیں کہ وہ ایک مشہور کافی ہاؤس کا مالک نکلا۔
ایک صاحب تو اپنی پسند کے جواز میں صرف یہ کہہ کر چپ ہوگئے کہ چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافی لگی ہوئی۔
میں نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے۔ ’’دراصل یہ عادت کی بات ہے۔ یہ کم بخت کافی بھی روایتی چنے اور ڈومنی کی طرح ایک دفعہ منہ سے لگنے کے بعد چھڑائے نہیں چھوٹتی۔ ہے ناں؟‘‘
اس مقام پر مجھے اپنی معذوری کا اعتراف کرنا پڑا کہ بچپن ہی سے میری صحت خراب اور صحبت اچھی رہی۔ اس لئے ان دونوں خوب صورت بلاؤں سے محفوظ رہا۔
بعض احباب تو اس سوال سے چراغ پا ہوکر ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ ایمان کی بات ہے کہ جھوٹے الزام کو سمجھ دار آدمی نہایت اعتماد سے ہنس کر ٹال دیتا ہے مگر سچے الزام سے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس ضمن میں جو متضاد باتیں سننا پڑتی ہیں ان کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔
ایک کرم فرما نے میری بیزاری کو محرومی پر محمول کرتے ہوئے فرمایا:
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
ان کی خدمت میں حلفیہ عرض کیا کہ دراصل بیسیوں گیلن پینے کے بعد ہی یہ سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ دوسرے صاحب نے ذرا کھل کر پوچھا کہ کافی سے چڑ کی اصل وجہ معدے کے وہ داغ (Ulcers) تو نہیں جن کو میں دو سال سے لئے پھررہا ہوں اور جو کافی کی تیزابیت سے جل اٹھے ہیں اور اس کے بعد وہ مجھے نہایت تشخیص ناک نظروں سے گھورنے لگے۔