کارل مارکس کے ناقابلِ شکست نظریات

جاسم محمد

محفلین
کارل مارکس کے ناقابلِ شکست نظریات
05/05/2019 فریڈ ویسٹن



نجانے کتنی مرتبہ ہم نے یونیورسٹی پروفیسروں، ماہرینِ معاشیات، سیاست دانوں اور صحافیوں کو یہ دعویٰ کرتے سنا ہے کہ مارکس غلط تھا اور اگرچہ اسے سرمایہ داری کے متعلق تھوڑا بہت علم ضرور تھا لیکن وہ سرمایہ دارانہ نظام کی توانائی اور اسکے بحرانات سے نکل کر ہمیشہ آگے بڑھنے صلاحیت کو سمجھنے میں ناکام ہو گیا تھا۔ لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران جب یہ نظام تاریخ کے بد ترین بحران میں دھنستا چلا جا رہا ہے تو وقتاً فوقتاً ’ماہرین‘ یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ مارکس درست تھا۔ اس کی تازہ ترین مثال جریدہ ٹائم میں 25 مارچ 2013ء کو چھپنے والا ایک مضمون ہے جس کا عنوان ہے ’مارکس کا انتقام:طبقاتی جدوجہد کے ہاتھوں بدلتی دنیا‘۔

پہلے تین پیروں کے شروعاتی جملے کچھ یوں ہیں کہ ’’کارل مارکس کب کا مر کر دفن ہو چکا۔۔۔ لیکن یہ ہماری خام خیالی تھی۔۔۔ بڑھتے ہوئے شواہد ثابت کر رہے ہیں کہ شاید وہ درست تھا۔‘‘ پہلے پیرے میں لکھا ہے کہ مارکس کو مردہ اور مدفون تصور کیا جاتا تھا اور اس کی وجہ: سوویت یونین کا انہدام، طبقاتی جدوجہد کی شدت میں کمی، عالمی تجارت کا پھیلاؤ، ایشیا میں معاشی عروج وغیرہ وغیرہ۔

لیکن دوسرے پیرے میں اس نظام کو لاحق اس طویل بحران کو بیان کیا گیا ہے جو غربت اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ اجرتوں میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے ساتھ مارکس کی تحریر نقل کی گئی ہے کہ ’’ایک جانب دولت کا ارتکاز درحقیقت عین اسی وقت دوسری جانب بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کا ارتکاز ہے‘‘۔

مصنف لکھتا ہے کہ ’’1983ء اور2007ء کے دوران امریکہ میں دولت میں ہونے والے اضافے کا 74 فیصد امیر ترین 5 فیصد کے حصے میں آیا جبکہ غریب ترین 60 فیصد کے پاس جو کچھ تھا اس میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔۔۔‘‘

یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ ابھی تک سب کچھ مارکس کے درست ہونے کی نشان دہی کر رہا ہے، مصنف حسب روایت لکھتا ہے کہ ’’ا س کا یہ مطلب نہیں کہ مارکس مکمل طور پر درست تھا۔ اس کی پیش کردہ ’پرولتاریہ کی آمریت ٹھیک طور سے نہیں چل سکی۔ ‘‘ واضح طور پر یہ سوویت یونین کے انہدام کی طرف اشارہ ہے اور ایسا اس امید پر کیا گیا ہے کہ لوگ مارکس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیں گے۔

یہ لوگوں کو مارکسزم سے ڈرانے کا پرانا طریقہ ہے۔ لوگوں کو احساس دلایا جاتا ہے اگرچہ مارکس نے سرمایہ داری کے تضادات کا ایک دلچسپ تجزیہ تو کر لیا لیکن وہ کوئی حقیقی اور قابلِ عمل متبادل پیش نہیں کر سکا اور اس لیے ہمیں اپنی قسمت پر صبر شکر کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام میں ہی گزارہ کرنا ہو گا۔

لیکن یہ صحافی اس حقیقت قصداً نظر انداز کرتے ہیں کہ سوویت یونین میں رائج نظام کمیونزم نہیں تھا۔ مارکس نے کبھی بھی ایسے سوشلزم کی بات نہیں کی تھی جو کہ ایک ملک تک محدود ہو اور وہ بھی 1917ء کے روس جیسا پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ملک۔ انقلابِ روس کی قیادت کرنے والی بالشویک پارٹی کو تعمیر کرنے والے رہنما لینن نے بھی کبھی ایسا نہ سوچا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تعمیر میں اپنی تمام تر توانائی ٖصرف کی اور جرمنی کے انقلاب سے اتنی بڑی امیدیں وابستہ کیں۔

’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کا نظریہ پیش کرنے والا سٹالن تھا جس نے اس معاملے پر مارکسزم کے تمام بنیادی نظریات سے انحراف کیا۔ سوویت یونین میں ہونے والے عمل کے بارے میں ٹراٹسکی نے بہت لکھا ہے، خصوصاً اس کی عظیم کتاب ’انقلاب سے غداری‘ میں ایک صحت مند مزدور انقلاب کے طور پرشروع ہونے والے انقلابِ روس کی وحشیانہ سٹالنسٹ حکومت میں زوال پذیری کی معروضی وجوحات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نصاب کی کتابوں اور میڈیا میں یہ سب نہیں بتایا جاتا۔ سٹالن کے اقتدار کے سوویت یونین کو مارکس کے نظریات کا نا گزیر انجام بنا کر پیش کرنا بہت کار آمد ہے تا کہ نئی اور آنے والی نسلیں مارکس کی تحاریر کو پڑھنے کی جانب نہ جائیں۔ لیکن سرمایہ دار طبقے اور ان کے حواریوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ آج شدید بحران کے ہاتھوں محنت کشوں اور نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک متبادل کی جستجو میں ہے۔


Karl Marx (1818 – 1883) with his eldest daughter
وہ جو چاہے کہتے رہیں، آج مارکس کے نظریات ماضی کی کئی دہائیوں کی نسبت کہیں زیادہ شدت کے ساتھ لوٹ کر آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ عالمی پیمانے پر طبقاتی جدوجہد کا احیا ہے۔ ٹائم میگزین کے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’اس بڑھتی ہوئی نا برابری کا نتیجہ مارکس کی پیش بندی کے عین مطابق ہے، یعنی طبقاتی جدوجہد کی واپسی۔ ساری دنیا کے محنت کشوں کا غصہ بڑھ رہا ہے اور وہ عالمی معیشت میں اپنے جائز حصے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کے ایوان سے لے کر ایتھنز کی سڑکوں اور جنوبی چین کی پیداواری صنعتوں تک، سرماے اور محنت کے درمیان کشیدگی سیاسی اور معاشی واقعات کا تعین کر رہی ہے اور اس کی شدت کی مثال بیسویں صدی کے کمیونسٹ انقلابات کے بعد نہیں ملتی۔‘‘

اس مضمون میں بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کیا گیا ہے کہ امریکہ میں اوباما اور ری پبلیکنز کے درمیان جاری لفاظی میں بھی طبقاتی تضاد کا اظہار ہوتا ہے اور اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ بحران کی قیمت کس طبقے سے کس قدر وصول کی جائے۔ جب بھی اوباما امریکی سماج کے دولت مند حصوں پر ٹیکس بڑھانے کی بات کرتا ہے تو ری پبلکن اس پر طبقاتی جنگ کرنے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ وہ خود محنت کشوں اور غریبوں کے خلاف طبقاتی جنگ میں مصروف ہیں۔

لیکن طبقاتی جدوجہد بحران زدہ امریکہ اور یورپ تک محدود نہیں۔ مصنف لکھتا ہے کہ جن ممالک میں حالیہ برسوں کے دوران قابلِ ذکر ترقی ہوئی ہے وہاں بھی طبقاتی جدوجہد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی بڑی مثال چین ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’اگرچہ چین کے شہروں میں اجرتوں میں بڑا اضافہ ہو رہا ہے لیکن امیر اور غریب کا فرق بہت وسیع ہے۔ پیو (Pew) کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں تقریباً آدھے چینیوں کے خیال میں امیر اور غریب میں فرق بہت بڑا مسئلہ ہے، جبکہ 10 میں سے 8 افراد اس بات سے متفق ہیں کہ چین میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے ہیں۔‘‘

یہ مارکسسٹوں کے لیے قطعاً حیران کن نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سرمایہ داری کے اندر معیشت کی ترقی سماج میں محنت کش طبقے کے کردار کو مظبوط بناتی ہے اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ناگزیر طور پر طبقاتی تناؤ کو جنم دیتی ہے، اگرچہ معاشی عروج ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی مثال ہمیں ماضی میں یورپ میں ملتی ہے جہاں عالمی جنگ کے بعد کے معاشی عروج کے دوران فرانس میں 1968ء اور اٹلی میں 1969ء میں طبقاتی جدوجہد کی تحریکیں پھٹ پڑیں۔



مضمون کے مطابق ایک چینی محنت کش پینگ مِن کہتا ہے ’’باہر کے لوگوں کو ہماری زندگی میں بہت فراوانی نظر آتی ہے، لیکن در حقیقت کارخانے کے اندر زندگی اس سے بہت مختلف ہے۔۔۔ امیر محنت کشوں کا استحصال کر کے دولت کما رہے ہیں۔۔۔ ہم کمیونزم کی راہ دیکھ رہے ہیں۔۔۔ محنت کش مزید منظم ہوں گے۔۔۔ تمام محنت کشوں کو متحد ہونا چاہیے۔‘‘

امریکہ سے لے کر چین اور سپین سے لے کر یونان سمیت دیگر کئی ممالک میں طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی کشمکش کا ایک جائزہ پیش کرنے کے بعد مصنف نتیجہ نکالتا ہے کہ ’’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مستقبل کی بہتری کے مخدوش امکانات کی وجہ سے دنیا بھر کے محنت کشوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ میڈرِڈ اور ایتھنز جیسے شہروں میں لاکھوں افراد نے آسمان سے باتیں کرتی بے روزگاری اور حالات کو مزید بگاڑنے والی کٹوتیوں کے اقدامات کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔‘‘

اس کے بعد وہ اس مضمون کو پڑھنے والے سرمایہ داروں کو تسلی دینے کے لیے لکھتا ہے کہ ’’لیکن ابھی تک مارکس کے انقلاب نے عملی جامہ نہیں پہنا۔ ‘‘ اس بات پر ہم متفق ہو سکتے ہیں۔ ابھی تک سوشلسٹ انقلاب نہیں آیا۔ لیکن مصنف کو امید ہے کہ ایسا کبھی ہو گا بھی نہیں۔ اس بات سے ہم اتفاق نہیں کر سکتے۔

مصنف محنت کشوں کو اس انداز میں پیش کر نے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ نظام کی تبدیلی نہیں چاہتے بلکہ اس میں اصلاحات کے خواہاں ہیں۔ اس کام کے لیے وہ یونیورسٹی آف پیرس کے نام نہاد ’’ماہرِ مارکسزم‘‘ یاک رانسیئے کا سہارا لیتا ہے۔ رانسیئے ان یونیورسٹی پروفیسروں میں سے ہے جوخود کو ترقی پسند ظاہر کرتے ہیں لیکن در حقیقت ہر وقت مارکسزم کے بنیادی نظریات کو جھٹلا رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً جب وہ کہتا ہے کہ ’’مظاہرے کرتے ہوئے طبقات موجودہ سماجی و معاشی نظام کا تختہ الٹنے یا اس کی تباہی کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ آج طبقاتی جدوجہد کا مطالبہ نظام کو درست کرنے کا ہے تا کہ دولت کی ازسرنو تقسیم کر کے اسے طویل مدت کے لیے زیادہ قابلِ عمل اور پائیدار بنایا جا سکے۔ ‘‘

پروفیسر رانسیئے کا تجزیہ کہ محنت کش سوشلسٹ انقلاب کا مطالبہ نہیں کر رہے، سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنے کے خواہش مندوں کی تسلی کا باعث ہو سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’لیبر اور سوشلسٹ پارٹیوں اوران کی حکومتوں کی کہیں بھی نئی صف بندی اوران کے ہاتھوں موجودہ معاشی نظام کی تبدیلی کے امکانات بہت ہی محدود ہیں۔ ‘‘

اس کے استدلال کی بنیاد ہر جگہ پر مزدور تحریک اور خصوصاً اس کے لیڈروں کی موجودہ کیفیت ہے۔ اگر عالمی محنت کش طبقے کی تحریک کے مستقبل کا انحصار ان ہی لیڈروں پر ہے تو پھر پروفیسر صاحب درست ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لیڈر ساری زندگی لیڈر نہیں رہتے۔ نظام کا بحران تمام نظریات کا امتحان لے رہا ہے۔ نظام میں اصلاحات کے خیال پر اس نظام کے بند گلی میں پھنس جانے سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ اب ماضی کی طرح اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ماضی کی دہائیوں میں طبقاتی جدوجہد کے ذریعے جیتی گئی تمام اصلاحات کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ ہر جگہ پر محنت کشوں کو دو نسلوں پہلے کے حالاتِ زندگی میں جھونکا جا رہا ہے۔

فرانسیسی پروفیسر کی باتوں سے لگتا ہے کہ انہیں اس بات کی سمجھ نہیں کہ ابتدا میں محنت کش یہ سوچ لے کر نہیں آتے کہ انقلاب ہی واحد راستہ ہے۔ شروعات میں وہ اجرتوں، حالاتِ زندگی اور فلاح و بہبود پر ہونے والے حملوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ وہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی کسی حل کی توقع کر تے ہیں۔ وہ معاشی عروج کے دنوں کی واپسی کا خواب یکھتے ہیں جب اصلاحات ممکن تھیں اور زندگی کچھ قابلِ برداشت لگتی تھی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ تجربات ان امیدوں کو توڑ ڈالیں گے۔

سارے یورپ، امریکہ، عرب، افریقہ اور ایشیا میں بڑے پیمانے کا سیاسی عدم استحکام ہے جس کا اظہار انتخابات میں ہو رہا ہے۔ ایک وقت میں مظبوط رہنے والی پارٹیاں حالات کے دباؤ کے زیرِ اثر برباد ہو چکی ہیں جس کی ایک مثال یونان کی پاسوک (PASOK) پارٹی ہے۔ محنت کش حکومت میں بیٹھ کر کٹوتی کرنے والی ہر جماعت کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں۔ یعنی محنت کش یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا نہیں چاہتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک وہ کٹوتیوں کے خلاف لڑائی کے لیے درکار پالیسیوں اور پروگرام کو نہیں جان پائے۔

مارکسسٹ ہمیشہ سچی بات کرتے ہیں، تب بھی جب اسے سمجھنا دشوار ہو۔ دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو درپیش مسائل کا سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کوئی حل ممکن نہیں ہے۔ جن تک طاقت سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں ہے وہ اسے اپنی دولت اور مراعات کو بچائے رکھنے کے لیے استعمال کریں گے جس کا بوجھ محنت کش عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ اس نظام میں اصلاحات نہیں کی جا سکتیں۔ اسے تبدیل کرنا ہو گا۔

ٹائم میگزین کے اس مضمون کا مصنف لکھتا ہے کہ ’’اگر پالیسی ساز منصفانہ معاشی مواقع کو یقینی بنانے کے نئے طریقے دریافت نہیں کرتے تو پھر دنیا بھر کے محنت کش ایک ہو سکتے ہیں۔ مارکس کا انتقام حقیقت بن سکتا ہے۔‘‘

ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف مارکس کا معاشی تجزیہ بلکہ اس سے اخذ کردہ سیاسی نتائج بھی درست تھے۔ نظام کا بحران ناگزیر طور پر دنیا بھر کے محنت کشوں کو انقلابی نتائج اخذ کرنے پر مجبور کرے گا۔ محنت کش طبقے کی بڑی تنظیموں، پارٹیوں اور ٹریڈ یونینوں میں ایک ریڈیکل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان کی موجودہ قیادت کو امید ہے کہ بحران ختم ہو جائے گا اور جلد یا بدیر وہ پہلے والی کیفیت میں لوٹ جائیں گے جہاں انہوں نے مالکان کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ لیکن یہ دیوانے کا خواب ہے!

ہمیں کئی برسوں کی کٹوتیوں اور میعارِ زندگی میں شدید گراوٹ کا سامنا ہے۔ یہ سمجھ آنے پر کہ کٹوتیوں کے مختصر عرصے کے بعد یہ بحران جانے والا نہیں اور اس نظام میں کوئی بہتر مستقبل نہیں، محنت کش طبقے کے پاس واحد راستہ اس نظام کا انقلابی طریقے سے خاتمہ ہو گا۔ موجودہ کیفیت اس جانب بڑھ رہی ہے۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
کارل مارکس کون تھا؟
05/05/2019 عبدالمجید عابد



وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب

نیست پیغمبر و لیکن دریغل دارد کتاب – (اقبال )

5 مئی 1818 کو پرشیا (موجودہ جرمنی) کے شہر ٹریئر (Trier) میں ایک وکیل کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام کارل رکھا گیا۔

سیاست اور سیاسی تبدیلیوں نے کارل کی زندگی پر اوائل ہی سے سایہ کیے رکھا۔ اس کی پیدائش سے ایک سال قبل اسکے والد کو یہودییت چھوڑنی پڑی کیونکہ 1815 میں پرشیا کی حکومت نے یہودیوں پر سرکاری نوکری کرنے پر پابندی لگا دی تھی اور ایک سال بعد وکالت کرنے پر بھی پابندی لگ گئی۔ وکیل صاحب نے وکالت کے پیشے کی خاطر عیسائیت اختیار کر لی۔

کارل نے سترہ سال کی عمر تک اپنے ہی شہر سے تعلیم حاصل کی لیکن اعلی تعلیم کے لیے اسے پہلے بون اور پھر برلن کی درس گاہوں میں پڑھنے کا موقعہ ملا۔ برلن میں وہ ہیگل نامی فلسفی سے بہت متاثر ہوا اور اس کے نظریات پر ہونے والی بحث میں شریک رہا۔ ہیگل کا ایک بنیادی نقطہ نگاہ یہ تھا کہ انسانی تاریخ تصادم پر قائم ہے، ایک نظریہ دوسرے سے ٹکرا کر تیسرے نظریے کو جنم دیتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔

برلن میں ہی کارل نے قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔ تئیس (23) برس کی عمر میں کارل نے اپنی بچپن کی محبت، ’جینی‘ سے شادی کی۔ شادی کے وقت جینی کی عمر ستائیس سال تھی۔ کارل نے 1842 میں کولون شہر کا رخ کیا اور وہاں اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک سال بعد ہی اس کی ذہانت اور علمیت کے بل بوتے پر اسے اخبار کا مدیر مقرر کر دیا گیا۔

کارل نے آزادی صحافت پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی جس پر اس کے کام کو اس دور کے درمیانے طبقے نے سراہا۔ اس نے بادشاہی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور درمیانے طبقے کی خواہشات کو الفاظ کی شکل میں ڈھالا۔

اس دور کی آمریت کو کولون کے درمیانے اور کاروباری طبقے کی آواز میں کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی اور کچھ ہی مہینوں بعد روس کے زار کے خلاف ایک مضمون چھاپنے کے جرم میں اخبار پر پابندی عائد کر دی گئی۔

1843 میں پیرس شہر ہر طرح کے انقلابیوں سے بھرا ہوا تھا۔ کارل نے کولون کے ناکام تجربے کے بعد پیرس سے ایک ماہنامہ شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ اس مقصد میں البتہ وہ ناکام رہا اور اس ماہنامے کا صرف ایک شمارہ چھپ سکا۔ اس شمارے میں بھی دو مضامین تو کارل کے ہی تھے۔ ان مضامین میں کارل نے جرمن وفاق (جس کے 39 صوبے تھے) کے مستقبل پر بحث کی تھی اور یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اب جرمن وفاق اکٹھا نہیں رہ سکتا۔

ان مضامین کے نتیجے میں اس ماہنامے پر جرمنی میں پابندی لگ گئی، پیرس اور فرانس کے دیگر علاقوں میں کسی نے اس شمارے کو اہمیت نہیں دی اور پرشیا میں کارل پر بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔

ان حالات میں کارل نے ہمت نہیں ہاری اور ایک جرمن زبان کے اخبار کے لیے لکھنا شروع کیا۔ 1845 میں بہر حال مقامی حکومت کا صبر جواب دے گیا اور کارل سمیت اس اخبار کے باقی عملے کو فرانس سے جلاوطنی کا فرمان جاری کر دیا گیا۔

فرانس کے بعد کارل، جینی اور کارل کے قریبی دوست اینگلز نے بیلجیم کا رخ کیا۔ وہاں جانے سے پہلے کارل اور اینگلز نے برطانیہ کا ایک دورہ کیا اور مانچیسٹر میں محنت کش طبقے کے حالات نے کارل کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔



بدحالی اس نہج پر تھی کہ مائیں کام پر جاتے وقت اپنے شیر خوار بچوں کو چرس پلاتیں تاکہ ان کی واپسی تک بچے سوئے رہیں، بارہ سال کی عمر کی لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی تاکہ خاندان کا بوجھ کم ہو سکے، سات سال کی عمر تک پہنچتے ہی لڑکے کام پر لگ جاتے۔ ایک سو بیس افراد کے استعمال کے لیے ایک غسل خانہ موجود تھا۔ جوتے پہننا ایک عیاشی سمجھی جاتی تھی۔

بیلجیم میں قیام کے دوران کارل نے اینگلز کے ساتھ مل کر کتابیں لکھنے میں وقت صرف کیا۔ اس کے علاوہ اس نے یورپ کے محنت کشوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی ایک تنظیم قائم کی اور لندن میں قائم ایک ملتی جلتی تنظیم کا بھی حصہ بنا۔

1848 میں اس نے ایک کتابچہ تحریر کیا جس میں اس نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو اکٹھے ہو کر جدوجہد کرنے کا پیغام دیا۔ اس کتابچے کا نام “Communist Manifesto” تھا اور پہلی دفعہ وہ جرمن زبان میں لندن سے شائع ہوا۔

بعدازاں کارل کو اس ملک سے بھی نکال دیا گیا اور اس نے باقی عمر انگلستان کے شہر لندن میں گزاری۔ کارل کو آج دنیا کارل مارکس کے نام سے جانتی ہے۔ انیسویں صدی کے بعد سے دنیا کی تاریخ پر جتنا اثر کارل مارکس کے نظریات نے ڈالا، اتنا کسی اور انسان کو نصیب نہیں ہوا۔ فلسفہ، سیاست اور معاشیات پر اس کے افکار نے سوچ کے نئے زاویوں کو جنم دیا۔

کارل نے اپنی زیادہ تر عمر کسمپرسی میں گزاری۔ اس کے روزگار کا کوئی مستقل وسیلہ کبھی نہیں رہا۔ اس کی اولاد میں سے چار بچے نوعمری میں ہی چل بسے اور تین بیٹیاں ہی بڑی عمر تک پہنچیں۔ ان میں سے بھی دو نے بعد میں خود کشی کی۔ مارکس کی زندگی میں اس کی کتابوں کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اور اس بات نے اس کو بہت دیر تک متاثر کیا۔

1848 میں پیرس میں انقلاب آیا جس کے باعث بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور جمہوریت کے قیام کے لیے کوشش کی گئی۔ جب انقلابی کوششیں اور لڑائی طول پکڑ گئی تو پیرس کے درمیانے طبقے نے انقلابیوں کی حمایت ترک کر دی اور انقلاب ناکامی کا شکار ہوا۔ اس واقعے کے بعد سے کارل کو درمیانے طبقے کی سوچ (جسے فرانسیسی زبان میں بورژوا سوچ کہا جاتا ہے) سے سخت نفرت ہو گئی۔ اس نے اس سوچ کو آمریت سے بھی بدتر قرار دیا اور اس کے مطابق محنت کش کو آزادی کے لیے صرف حکومتی نہیں بلکہ بورژوا سوچ کا بھی مقابلہ کرنا ہو گا۔

کارل مارکس کو اس کی وفات کے بعد جتنی پذیرائی حاصل ہوئی، اس کی زندگی کے دوران اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوئی۔ اس کے نظریات میں اپنی کچھ آمیزش کرنے بعد روس میں لینن اور اس کے ساتھیوں نے زار کی آمریت کا خاتمہ کیا اور مزدور طبقے کی آمریت کا علم بلند کیا۔

مارکس نے کہا تھا کہ ایک خوشحال معاشرے میں جمہوری دور کے بعد سوشلزم کا دور ہو گا اور اس کے بعد ایک ایسا دور جس میں طبقاتی فرق مٹ جائے گا۔ سویت یونین اور چین میں یہ تجربات کافی حد تک ناکام رہے لیکن مغربی یورپ کی فلاحی ریاستیں مارکس کی ہی تعلیمات کا ایک پرتو ہیں۔

علامہ اقبال بظاہر پنجابی بورژوا طبقے کی نمائندگی کرتے تھے لیکن ضرب کلیم میں کارل مارکس کے بارے میں وہ بھی کہنے پر مجبور ہو گئے کہ؛

یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی، یہ بحث و تکرار کی نمائش

نہیں ہے دنیا کو اب گوارا اب پرانے افکار کی نمائش

تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر

خطوط خم دار کی نمائش، مریز و کج دار کی نمائش

اور بال جبریل میں لینن کے بارے میں نظم میں انہوں نے جس طور طبقاتی اور سرمایہ داری نظام کا پول کھولا، وہ تعریف کا حق دار ہے؛

اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں – حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات

وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود – وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات؟

رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں – گرجوں سے کہیں بڑھ کر ہیں بنکوں کی عمارات

ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے – سود ایک کا لاکھوں کے لیے ہے مرگ مفاجات

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت – پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں – ہیں تلخ بہت بندہ ء مزدور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ – دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
 
کسی کی کہی ہوئی بات یاد رہ گئی کہ مسلمانوں کو کمیونزم کی مخالفت کے بجائے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ سرمایہ داری کے خلاف جنگ جو عین اسلام ہے وہ کمیونسٹوں نے لڑی اور اب تک اس کے اثرات دنیا پر نظر آتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کسی کی کہی ہوئی بات یاد رہ گئی کہ مسلمانوں کو کمیونزم کی مخالفت کے بجائے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ سرمایہ داری کے خلاف جنگ جو عین اسلام ہے وہ کمیونسٹوں نے لڑی اور اب تک اس کے اثرات دنیا پر نظر آتے ہیں۔
یہ جنگ پاکستان میں بھی لڑی جا چکی ہے۔ نتائج:
پاکستانی معیشت بھٹو نے تباہ کی؟
 

جاسم محمد

محفلین
مارکس نے کہا تھا کہ ایک خوشحال معاشرے میں جمہوری دور کے بعد سوشلزم کا دور ہو گا اور اس کے بعد ایک ایسا دور جس میں طبقاتی فرق مٹ جائے گا۔ سویت یونین اور چین میں یہ تجربات کافی حد تک ناکام رہے لیکن مغربی یورپ کی فلاحی ریاستیں مارکس کی ہی تعلیمات کا ایک پرتو ہیں۔
بھٹو نے اسی طرح کمیونزم کا سہارا لیا جیسے ضیا نے اسلام کا سہارا لیا۔ مقصد دونوں کا اپنے اقتدار کا دوام تھا۔
بھٹو نے کمیونزم، سوشل ازم کواقتدار کی طوالت کیلئے استعمال کیا ۔ البتہ جہاں کہیں پوری نیک نیتی کے ساتھ اس نظام کو اپنانے کی کوشش گئی ہے وہاں بھی نتائج کچھ خاص اچھے نہیں نکلے۔
چین کو بالآخر ریاستی سرمایہ دارانہ نظام اپنا کر کمیونسٹ سوشل ازم سے جان چھڑانی پڑی۔ سوویت یونین ایک طویل اقتصادی بحران کے بعد سیاسی طور پر ٹوٹا تو آزاد ہونے والی ریاستوں میں مقامی مافیا سرمایہ دار طبقہ میں تبدیل ہو گیا۔ کم و بیش ہر سوشلسٹ، کمیونسٹ ملک کی یہی کہانی ہے۔
مغربی یورپ اس لحاظ سے کامیاب رہا کہ ان ممالک نے سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کیا۔ بلکہ سوشلسٹ، کمیونسٹوں کے دباؤ پر اس میں ’رحم اور احساس‘شامل کر دیا۔ یوں نظام میں اصلاحات کے ساتھ مغربی یورپ خصوصا اسکینڈینیویا ’فلاحی ریاستوں‘ میں ڈھل گیا۔ جو کہ کارل مارکس کے دیرینہ خواب کی قریب ترین کامیاب مثال ہے۔
 
Top