ڈیوڈ ارونگ

زیک

مسافر
اظہر: کسی بھی تھریڈ کا عنوان ایسا ہونا چاہیئے جس سے اس کے موضوع کا صحیح اندازہ ہو سکے۔ اس لئے میں نے عنوان “بلاتبصرہ“ سے بدل کر “ڈیوڈ ارونگ“ کر دیا ہے۔
 

دوست

محفلین
بھائیا کب تک رونا رو گے آزادی اظہار کا۔سادہ سی بات جو سب جانتے ہیں‌کہ ان کے رویے دوغلے ہیں۔ مفاد پرست ہیں‌یہ لوگ۔
بات ختم۔
 

نعمان

محفلین
ہولوکاسٹ پر کارٹون چھاپنے میں اور اس پر جھوٹے تحقیقی دعوی کرنے میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ یہ ہے کہ دونوں اینٹی سمیٹک ازم ہیں اور اینٹی سمیٹک ازم کو تحقیق کے بنڈل میں چھپانے سے اس کی بدبو دور نہیں ہوجاتی۔ ڈیوڈ ارونگ اپنی غلطی تسلیم کرچکا ہے۔

جو بات آپ سمجھ نہیں رہے وہ یہ ہے کہ احتجاج کے انتہائی مناسب اور موثر طریقے موجود ہیں۔ یورپی عدالتوں میں نسلی اور مذہبی بنیاد پر فرق کرنے خلاف کئی قوانین موجود ہیں جنہیں مسلمان کارٹون کنٹروورسی میں استعمال کرسکتے ہیں۔ جتنے بھی غیرمتشدد راستے ہیں وہ سب اختیار کرنے کی مسلمانوں کو پوری آزادی ہے اور انہیں یہودیوں سے سبق سیکھنا چاہئیے کہ وہ کس طرح بغیر کسی یہودی بھائی کو قتل کئیے یا کسی عیسائی بھائی کو نقصان پہنچائے بالاخر ڈیوڈ ارونگ کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوگئے۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ یہ کام راتوں رات نہیں ہوا بلکہ سالوں کی محنت سے ہوا ہے۔ ڈیوڈ ارونگ ایک عرصہ دراز تک اپنی تحقیق کے حوالے سے عدالتی جنگ لڑتا رہا ہے۔ جس میں ڈیبورا لپسڈت جو کہ خود ایک یہودی ہیں دوسرے فریق کے حیثیت سے ملوث تھیں۔ مسلمان بھی یورپی اخبارات کو عدالتوں میں گھسیٹیں اور سعودی اور ایرانی حکومت کو چاہئیے کہ وہ عدالتی کاروائیوں کے لئیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیں۔

لیکن ایسے اعلانات کے شاتم رسول کو قتل کردو، یا ہولوکاسٹ کے کارٹون چھاپو یا یورپ اور امریکا مخالف جذبات بھڑکاؤ وغیرہ وغیرہ انتہائی نامناسب ہیں۔

http://onearabworld.blog.com/572495/
 
رونا تو اسی بات کا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران اس قسم کے کوئی اقدام نہیں اٹھاتے جس کا اپ نے ذکر کیاہے نعمان۔
سر کی قیمت لگانا وغیرہ صرف انفرادی حیثیت میں‌ ہی دیے گے۔ مسلم حکمرانوں‌کی نااہلی کا ہی تو افسوس ہے۔
 

زیک

مسافر
ڈیوڈ ارونگ کو سزا دینے کے معاملے میں یورپ میں مختلف رویے پائے جاتے ہیں۔ اور امریکہ میں تو میرے جاننے والے سب کہتے ہیں کہ ڈیوڈ ارونگ برا اور متعصب انسان ہے مگر اسے آزادی اظہار کا حق ہونا چاہیئے۔
 

نعمان

محفلین
زکریا۔ ارونگ کو اظہار رائے کا تو حق حاصل ہی تھا مگر جس طرح اس نے آزادی رائے کی آڑ میں نفرت پھیلائی اسے بھی تو دیکھیں اور اس پر مزید ستم یہ کہ سب کام تحقیق کی تہوں میں۔ ارونگ میں اور ڈینش اخبار میں پھر کیا فرق ہے؟‌ ارونگ کے وکیل کا بیان ہے کہ یہ فیصلہ دنیا کو غلط پیغام دے گا۔ میرے خیال میں تو اس سے مسلم دنیا کو صحیح پیغام ہی ملا ہے یعنی انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاو۔ اگر اخبار کے خلاف صحیح طرح کیس لڑا جاے تو اخبار کو جو مالی نقصانات ہونگے وہ تو الگ بلکہ اس کی ریپوٹیشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ پتہ نہیں یورپی مسلمان اس حوالے سے کیا کررہے ہیں‌مگر انہیں‌ضرور اخبار کو سارے یورپ کی عدالتوں میں گھسیٹنا چاہیے۔

میری تازہ معلومات کے مطابق اخبار کی آزادی رائے اور کارٹونوں‌کے چھاپنے کے پیچھے جو وجہ چھپی ہے وہ بھی متنازعہ ہوچکی ہے۔ اور اس بات میں تو کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئیے کہ کارٹون توہین آمیز تھے اور ڈنمارک کی آبادی کے ایک مخصوص گروہ کے جذبات کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کے لئے چھاپے گئے تھے۔ اور جس طرح وہ اب جھوٹی کہانیاں گھڑ رہے ہیں وہ ان کا کیس اور کمزور کررہی ہیں۔

حکومت پاکستان بھی خالی خولی دعوی کررہی ہے کہ ہم او آی سی میں‌جائیں‌گے یا اقوام متحدہ میں‌ سیدھے سیدھے اخبار کو یورپی یونین کی عدالت میں‌ ہی کیوں‌ نہیں‌گھسیٹا جاتا؟‌ بلکہ میں تو کہوں‌گا کہ ڈنمارک کے سیاستدانوں‌ کی تقریروں‌کو بطور ثبوت استعمال کیا جائے اور انہیں‌ بھی عدالتوں میں‌گھسیٹا جائے۔ آپ بتایئں‌کیا یورپی قوانین کے تحت ایسا ہوسکتا ہے؟‌
 
نعمان آپ نے نکتہ تو اچھا اٹھایا ہے کہ اس مسئلہ کو عدالت میں اٹھانا چاہیے مسلم ممالک اور بہتر ہوگا اگر عالمی عدالت میں اٹھایا جائے۔ ویسے او آئی سی بھی اس مسئلہ پر اگر فعال ہوجائے تو اس سے بھی کسی حد تک نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ حکمرانوں کی نااہلی کو اس مسئلہ میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تشدد اور غیر ذمہ داری دونوں قضیوں میں قصور وار حکومت ٹھہرتی ہے۔ اگر امن امان حکومت فراہم نہیں کرسکتی تو وہ اپنے اولین فرائض‌میں ناکام ٹھہرتی ہے۔ اگر شروع میں مسئلہ کو بگڑنے کی بجائے اپنے ہاتھ میں لے کر عوام کو یقین دلادیا جاتا کہ حکومت خود اس مسئلہ پر خاطر خواہ توجہ دے رہی ہے تو شاید اس حد تک بات نہیں پہنچتی۔
 

زیک

مسافر
نعمان: میں صرف یہ واضح کر رہا تھا کہ کچھ لوگ ہیں جن کی نظر میں آزادی اظہار اتنا اہم ہے کہ ڈیوڈ ارونگ جیسے غلط آدمی کے آزادی اظہار کے بھی حق میں ہیں۔
 
Top