ڈینگی مچھر پر ریسرچ کا خفیہ امریکی مرکز برسوں لاہور میں کام کرتا رہا

dangi%20lahore.jpg
رپورٹ: سعید احمد عباسی۔ دوسرا حصہ

نیو سائنٹسٹ میگزین، سائنسی تحقیقات شائع کرنے والا نہایت معتبر اور قدیم برطانوی ریسرچ جرنل ہے۔18 فروری1982 کو اس جرنل کا جو شمارہ مارکیٹ میں آیا، اس کے صفحہ نمبر419 پر ایک چھوٹا سا مضمون شائع ہوا، جس کا عنوان تھا’’ قاتل مچھروں کا روسی الزام مشتبہ ہے‘‘۔ یہ مضمون لکھنے والے دو افراد تھے، ان میںسے ایک کا نام ضیاء الدین سردار اور دوسری شخصیت مغربی نام’’ سارا وائٹ‘‘ تھی۔ یہ دونوں کون تھے؟ کسی کو نہیں معلوم، کیونکہ جریدے نے ان دونوں شخصیات کا تعارف مضمون کے ساتھ شائع نہیں کیا اور نا ہی یہ مضمون کسی سائنسی تحقیق پر مشتمل تھا بلکہ یہ ایک وضاحت تھی۔ سارا وائٹ نے لکھا تھا کہ سوویت یونین کے معروف اخبار، لٹریٹر نایا گزٹ، نے 5 فروری1982 کو ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ لاہور میں ایک امریکی مرکز مچھروں پر تحقیق کا کام کررہا ہے، اس مرکز کو سی آئی اے اور امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ کے سائنسدان چلا رہے ہیں جب کہ کچھ پاکستانی سائنسدان بھی اس مرکز میں بطور ملازم کام کرتے ہیں۔ اس مرکز کا سربراہ، سی آئی اے کا اہلکار، ڈیوڈ نیلن ہے جب کہ اس مرکز میں تیار کردہ ڈینگی کے وائرس کو، قریبی واقع بستی، گرین ٹائون کے کچھ غریب لوگوں پر آزمایا گیا ہے۔ نیو سائنٹسٹ میگزین کے اس مضمون میںکہا گیا تھا کہ روسی اخبار کے الزام کے مطابق، اس مرکز کا نام’’ پاکستانی میڈیکل ریسرچ سینٹر‘‘ ہے۔ مرکز کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ڈینگی کے ایسے وائرس تیار کرے جو کسی بھی انسان یا جانور میں انجیکٹ کردئے جائیں اور پھر اس جانور یا انسان کو افغانستان بھیج دیا جائے، جہاں اسے دوسرے مچھر کاٹیں گے اور وہ بھی ڈینگی کے وائرس کا کیرئیر بن جائیں گے، اس طرح افغانستان کے کچھ علاقے، جو ڈینگی وائرس کے لئے سازگار ہیں، وہاں بڑے پیمانے پر ڈینگی کی وبا پھیل جائے۔ برطانوی ریسرچ جرنل کے مضمون میںکہا گیا تھا کہ روسی اخبار کی یہ رپورٹ درست نہیں اور حقائق اس سے مختلف ہیں۔ پاکستان میڈیکل ریسرچ سینٹر کراچی میں ہے لاہور میں نہیں، اس طرح رپورٹ کی بنیاد ہی غلط ہے، دراصل امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ کی طرف سے جو پروگرام
شروع کیا گیا ہے، وہ لاہور میں
'Malaria Eradication Centre'
کے نام سے کام کرتا ہے۔ اس کا مقصد پاکستانیوںکو ملیریا سے بچانا ہے۔ اسے سی آئی اے نہیں بلکہ یوایس ایڈ نامی امریکی ادارہ چلا رہا ہے، لاہور میں اس ادارے کو1975 میں قائم کیا گیا تھا۔ روسی الزامات کے بعد یورپ اور امریکہ کے کئی اخبارات نے اس اسٹوری کو شائع کیا، اور روسی خبر رساں ادارے، تاس نے اسے دنیا بھر میں خبر کے طور پر جاری کردیا جس کے بعد پاکستان نے دبائو میں آکر امریکی ریسرچ سینٹر کے سربراہ، ڈیوڈ نیلن کو ملک بدر کردیا اور اب خدشہ ہے کہ یہ سینٹر بند ہو جائے گا اور نقصان پاکستان کا ہی ہو گا۔ یہ پروگرام پاکستان میں ملیریا کے مچھروں پر ریسرچ کے لئے شروع کیا گیا تھا تاکہ پاکستان میںملیریا کا خاتمہ کیا جاسکے، مگر یہ ریسرچ پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی۔
1982 میں تو امریکہ نے روسی رپورٹ کی تردید کردی تھی، مگر اب، حال میں ہی امریکہ نے اپنی کچھ خفیہ دستاویزات، ڈی کلاسیفائڈ کی ہیں، ان میں سے ایک دستاویز، پاکستان میں اس کے اس ریسرچ سینٹر کے بارے میں ہے، جہاں ڈینگی مچھر سے متعلق ریسرچ کی جا رہی تھی، اس، ڈی کلاسیفائڈ دستاویز کی ایک کاپی، اس نمائندے کے پاس بھی محفوظ ہے۔ اس دستاویز میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کس طرح امریکہ نے لاہور میں ایک ریسرچ مرکز قائم کیا اورکس طرح یہاںمچھروں میں جنیاتی تبدیلی لانے کے لئے ان پر ریسرچ کی۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ایسی امریکی ڈی کلاسیفائڈ امریکی خفیہ دستاویزات، اس نمائندے کو ملی ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر روسی حملے کے دور میں، کس طرح افغانستان پر ڈینگی اور دیگر حیاتیاتی ہتھیار استعمال کئے تھے، ان دستاویزات کا تفصیلی ذکر کرنے سے قبل ہم، روسی اخبار لٹریٹر نایا گزٹ کی 5 فروری1982 والی رپورٹ کا ذکر کردیں، یہ رپورٹ روسیوں کے دراصل، لاہور میں ایک کامیاب انٹیلی جنس آپریشن کے بعد تیار کی گئی تھی، اس آپریشن میں وہ نا صرف سی آئی اے کی لاہور میں واقع لیبارٹری میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے تھے بلکہ یہاں کی تصاویر بنانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے خفیہ دستاویزات بھی چوری کرلی تھیں، اسی وجہ سے پاکستان نے فوری طور پر امریکی سی آئی اے افسر، ڈیوڈ نیلن کو ملک بدر کردیا۔ روسی اخبار نے اپنی رپورٹ میںلکھا تھا کہ اس کا ایک رپورٹر،آئین اینڈرونو، لاہور میں کافی عرصے سے امریکی سی آئی اے کے حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے والی لیبارٹری پر کام کررہا تھا اور آخر کار وہ، اس لیبارٹری کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے یہ لیبارٹری گرین ٹائون کے قریب قائم ہے، اس رپورٹر نے اس لیبارٹری میں کام کرنے والے سائنسدانوں کے انٹرویوز کئے اور وہاں سے دستاویزات بھی حاصل کرلیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں ڈینگی مچھروں کے وائرس تیار کئے جا رہے ہیں جنہیں بعد میں افغانستان میں انجیکٹ کردیا جاتا ہے۔ روسی اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ اس نے لاہور کے ایسے افراد کو بھی تلاش کرلیا ہے، جنہیں سب سے پہلے سی آئی اے نے اپنے تیار کردہ مچھروں کے تجربات کے لئے استعمال کیا، یہ لوگ گرین ٹائون کے رہنے والے ہیں اور انہیں سی آئی اے کے وائرس سے انفکٹیڈ کرنے کے بعد لاہور کے میو اسپتال میں علاج کے لئے لایا گیا تھا جو یہاں کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ گرین ٹائون کے پانچ افراد کو مچھروں نے کاٹا تھا اور انہیں جب علاج کے لئے میو اسپتال لاہور میںلایا گیا تو وہاں کے ڈاکٹروں نے علاج کے دوران عجیب طرح کی علامات دریافت کیں جو اس سے قبل کبھی بھی اس علاقے میں نہیں دیکھی گئیں تھیں۔ بیمار افراد کو کہنا تھا کہ انہیں عجیب قسم کے مچھر نے کاٹا تھا اور اس کے بعد سے وہ شدید بیمار ہو گئے ہیں۔ روسی اخبار کے رپورٹر نے میو اسپتال لاہور کے ان ڈاکٹروں سے بھی انٹرویوز کئے، جنہوں نے ڈینگی کے ان مریضوں کا علاج کیا تھا۔ان ڈاکٹروں کا بھی کہنا تھا کہ جن مریضوں کو عجیب قسم کے مچھروںنے کاٹا تھا، ان کا علاج کرنے کے لئے امریکی ریسرچ سینٹر نے خدمات پیش کیں اور انہیں کے علاج سے ہی وہ مریض ٹھیک ہو سکے، ورنہ میو اسپتال کے ڈاکٹروں کو اس مرض کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کیا تھا۔ روسی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ لاہور کی امریکی لیبارٹری سے جو دستاویزات، اس کے رپورٹر کو ملی ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے، لاہور کی اس لیبارٹری میں، سی آئی اے، امریکی ادارے، یو ایس ایڈ اور پاکستانی سائنسدانوں کے تعاون سے ملیریا کے مچھروں کی جنیات پر ریسرچ کر کے ایسا وائرس تیار کیا گیا ہے، جسے ڈینگی پھیلانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس وائرس کو جانوروں اور انسانوں کے ذریعے افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ روسی اخبار نے مزید یہ بھی لکھا تھا کہ روسی حکومت اس بارے میں تمام تر شواہد کے ساتھ جلد ہی، یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے والی ہے، کیونکہ افغانستان میں روسی شہری بڑی تعداد میں موجود ہیں اور وہ بھی اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال جرم ہے۔ اخبار کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ، مذکورہ لیبارٹری کا سربراہ، امریکی شہری اور سی آئی اے کا اہلکار، ڈیوڈ نیلن ہے۔ اس پروجیکٹ کو یو ایس ایڈ نامی امریکی امدادی ادارہ فنڈ دے رہا ہے جب کہ تحقیق کے کاموں کے لئے امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ کے سائنسدان یہاں موجود ہیں، میری لینڈ یونیورسٹی، اکثر امریکی دفاعی اداروں کے لئے ریسرچ کے کام کرتی رہتی ہے۔ روسی اخبار نے یہ رپورٹ3 فروری1982 کو شائع کی، پھر اسی رپورٹ کو امریکی میڈیا نے11 فروری1982 کو شائع کیا، اس کے بعد مذکورہ رپورٹ کا جواب، برطانوی ریسرچ جرنل میں185 فروری1982 کو دیا گیا۔نیو سائنٹسٹ کے آن لائن ایڈیشن میں اب بھی1982 کا یہ شمارہ دیکھا جا سکتا ہے اور اس کا ایڈریس ہے

:
http://books.google.com
.pk/books?id=Y0ABzs0Yl5oC&p
g=PA419&lpg=PA419&dq
=Malaria+Eradication+Centre+in+l
ahore+pakistan&source
=bl&ots=bdQ5URHv5O&sig=Pa0
MQEJ9CUEDqnm9pvmtey
1XQjI&hl=en&ei=Z1GRTr_rJM
GX8QPc4KEt&sa=X&oi=book_
result&ct=result&resnum=2&sqi=2
&ved=0CFQQ6AEwAQ#v=
onepage&q&f=false
نیو سائنٹسٹ نامی جرنل میں، روسی رپورٹ کا جواب دیتے ہوئے سارا وائٹ نے انکشاف کیا کہ دراصل، لاہور میں جو امریکی لیبارٹری قائم ہے، اس سے دھوکے سے دستاویزات چوری کی گئی تھیں، یہ، روسی خفیہ ادارے، کے جی بی کا کام تھا، ایک دن، مرکز کے امریکی سربراہ، ڈیوڈ نیلن نے دیکھا کہ ایک روسی شخص،امریکی لیبارٹری کے اس کمرے میں گھسا ہوا ہے، جس میں انتظامی امور سے متعلق کاغذات رکھے جاتے تھے، جب ڈیوڈ نیلن نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیا کررہا ہے تو اس شخص نے اپنا نامآئین اینڈرونو بتایا اور کہا کہ وہ معروف روسی اخبار،لٹریٹر نایا گزٹ کا پاکستان میں نمائندہ ہے اور اسے پتہ چلا ہے کہ اس لیبارٹری میں ڈینگی مچھروں کا وائرس تیار کیا جا رہا ہے، اس لئے وہ تحقیق کرنے یہاں آیا ہے، اس پر ڈیوڈ نیلن نے اسے خود پوری لیبارٹری کا معائنہ کرایا تھا تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ یہاں ایسا کوئی کام نہیں ہو رہا، مگر پھر بھی روسی اخبار نے ایک ایسی رپورٹ شائع کردی، جس میں بیان کردہ حقائق مشتبہ ہیں۔ روسی اخبار نے اپنے رپورٹر کے ذریعے، اس لیبارٹری سے جو دستاویزات حاصل کرنے کا دعوی کیا ہے کہ وہ یقیننا چوری کے ذریعے ہی حاصل کی گئی ہوں گی۔ جہاں تک امریکی ریسرچ سینٹرکے سربراہ، ڈیوڈ نیلن کو پاکستان سے ملک بدر کرنے کا سوال ہے، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ لاہور میں کسی قسم کے حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے کی لیبارٹری چلا رہا تھا، بلکہ حکومت پاکستان اس بات پر ناراض ہوئی کہ اس نے روسی رپورٹر کو لیبارٹری کا معائنہ کیوں کرایا اور اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا۔( ریفرنس کے لئے اوپر دئے گئے لنک پر ہی، نیو سائنٹسٹ کا1982 کا شمارہ دیکھیں)۔
آپ نے لاہور میں ڈینگی مچھر پر ریسرچ کے امریکی مرکز کے حوالے سے روسی رپورٹ اور پھر اس کی تردید میں نیو سائنٹسٹ نامی ریسرچ جرنل کی رپورٹ دیکھ لی۔دونوں رپورٹس سے کم از کم یہ ثابت ہوتا ہے کہ لاہور میں امریکہ نے ایک مرکز1975 میں قائم کیا تھا، جو ملیریا کے مچھروں پر ریسرچ کررہا تھا، یہ مرکز1982 تک کام کررہا تھا اور پھر روسی انکشاف کے بعد حکومت پاکستان نے چند دن کے اندر اندر اس امریکی مرکز کے سربراہ کو پاکستان بدر کردیا تھا اور پھر مرکز بھی خاموشی سے بند ہو گیا۔ اس قسم کی اخباری رپورٹس اور انکشافات کے بارے میں سچائی، عموما کئی عشروں بعد ہی پتہ چلتی ہے جب، امریکی خفیہ دستاویزات کو ڈی کلاسیفائڈ قرار دے کر عام لوگوں کے لئے جاری کردیا جاتا ہے یا پھر وکی لیکس کی طرح وہ منظر عام پر آجاتی ہیں۔امریکی حکومت، اپنی خفیہ رپورٹس، کو ایک خاص عرصے کے بعد، جب وہ غیر اہم ہو جاتی ہیں، انہیں غیر خفیہ قرار دے کر عام افراد کے لئے جاری کردیتی ہے، اس کا مقصدصرف یہ ہوتا ہے کہ دنیا کو پتہ چلے کہ کس طرح امریکی، دنیا بھر میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ لاہور میں امریکی ڈینگی مرکز کے بارے میں بھی کم از کم دو خفیہ، امریکی دستاویزات ڈی کلاسیفائڈ قرار دے کر ، حال ہی میں جاری کی گئی ہیں۔ دونوں رپورٹس کو80 کی دہائی کے ابتدا میں ہی تیار کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک تو امریکی امدادی ادارے، یو ایس ایڈ کی تیار کردہ ہے، مگر اس کے پہلے صفحے پر ہی لکھا ہے کہ یہ ڈی کلاسیفائڈدستاویز ہے، یعنی پہلے یہ ایک خٖفیہ دستاویز تھی۔ اس رپورٹ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ لاہور میں امریکی ڈینگی ریسرچ مرکز کیوں قائم کیا گیا تھا، اس پر کتنا خرچہ ہوا، اور یہاں کیا کام کیا جاتا رہا ہے۔ آگر آپ اس مکمل رپورٹ کو پڑھنا چاہیں تو یہ، یو ایس ایڈ کی ویب سائٹ پر موجود ہے، اسے، پی ڈی ایف فارمیٹ میں اس ایڈریس پر دیکھا جاسکتا ہے:
http://pdf.usaid.gov/pdf_docs/PDAAM242.pdf
امریکی ڈینگی ریسرچ سینٹر کے بارے میں دوسری رپورٹ، سی آئی اے کی طرف سے جاری کردہ ہے، اس میں لاہور کے مرکز کے بارے میں تفصیلات دینے کے بجائے، افغانستان میں حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال اور بعد کے نتائج جمع کرنے کی کارروائیوں وغیرہ کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ یہ رپورٹ غیر خفیہ قرار دے کر امریکی حکومت کی طرف سے گذشتہ برس جاری کی جاچکی ہے اور اس نمائندے کے پاس، اس کی مکمل ہارڈ کاپی موجود ہے، انٹر نیٹ پر ضرور یہ کسی جگہ موجود ہو گی، مگر چونکہ ہمارے پاس اس کی ہارڈ کاپی موجود تھی، اس لئے ہم نے اسے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے:
Use of Toxins and other lethal chemicals in south East Asia and Afghanistan
اس کے پہلے صفحے پر ہی لکھا ہے ’’ ٹاپ سیکرٹ‘‘، اسے تیار کرنے والی اتھارٹی کا نام، ڈائریکٹوریٹ آف سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی لکھا ہے جب کہ اس کا ریفرنس نمبر

SNIE 11/50/37-82JX- TGS206082
لکھا ہے۔ اب ہم ان دونوں رپورٹس کے متن پر بات کرتے ہیں کہ آخر میں ان میں لکھا کیا ہے۔ یو ایس ایڈ کی رپورٹ کا عنوان ہے:
PROJECT PAPER
PAKISTAN - MALARIA CONTROL
جب کہ، اس کا ریفرنس نمبر391-0472 لکھا ہواہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکی حکومت نے، دوسرے ممالک کو امداد دینے کے قانون کے تحت، پاکستان میں ملیریا کے مچھروں پر ریسرچ کے لئے41 ملین ڈالر خرچ کرنے کی منظوری دی ہے، یہ امداد یو ایس ایڈ کے ذریعے خرچ کی جائے گی اور اس امداد سے پاکستان میں لوگ بھرتی کر کے، پروجیکٹ کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی، پروجیکٹ کا بنیادی مقصد یہ رکھا گیا ہے کہ پاکستان میں ملیریا کو کنٹرول کرنا ہے، اس کے لئے پروجیکٹ کے تحت جو کیا جائے گا، وہ یہ ہے کہ پاکستان میں بھرتی کردہ عملے، کو مختلف وائرسز کی محفوظ طریقے سے ہینڈلنگ کی تربیت دی جائے گی، مختلف مقامات پر آب و ہوا اور ماحول کے بارے میں ڈیٹا جمع کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔چونکہ یہ پروجیکٹ پیپر ہے تو اس میں گاڑیوں کی خریداری سے لوگوں کی تنخواہوں تک کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے، مگر ہم اس دستاویز سے صرف وہ حصے نقل کرتے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ ملیریا کنٹرول پروگرام کے تحت مچھروں اور ان کے وائرس پر کس طرح ریسرچ کی جائے گی۔ واضح رہے کہ اس پورے، پروجیکٹ پیپر میں کسی ایک جگہ پر بھی یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آخر لاہور یا پنجاب میں ملیریا کے خاتمے کے لئے کیا کیا جائے گا؟ بس اس میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح ملیریا کے مچھروں اور وائرس پر ریسرچ کی جائے گی، کہ وہ پاکستان کے ماحول میں کس طرح نشوونما پاتا ہے، کس کس جگہ پر اس وائرس کو نشو نما میں کیا مشکلات ہوتی ہیں۔سب سے خطرناک بات، جو اس پروجیکٹ پیپرز میں لکھی ہے، وہ یہ ہے کہ لاہور میںامریکی ریسرچ سینٹر یہ بھی معلوم کرے گا کہ پاکستان میں ملیریا کے مچھر میں کس کس طرح کی جنیاتی تبدیلیاں پیدا کی جاسکتی ہیں اور اس کے وائرس کو کس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے یا یہ وائرس کس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے، اس پیپر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ریسرچ کا مقصد یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ انسانوں یا جانوروں میں یہ وائرس کس طرح زندہ رہتا ہے اور ایک انسان کے خون سے دوسرے جاندار کے خون تک کس طرح منتقل کیا جاسکتا ہے۔واضح رہے کہ اس پیپر میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ پروگرام1975 سے1980 تک کام کرئے گا اور یہی کچھ روسی اخبار نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا تھا مگر اس وقت امریکہ نے اس کی تردید کردی تھی۔ حوالے کے لئے دیکھیں:
http://pdf.usaid.gov/pdf_docs/PDAAM242.pdf
اب ہم آتے ہیں دوسری رپورٹ کی طرف، جو سی آئی اے کی تیار کردہ ہے اور اسے بھی حال ہی میں ڈی کلاسیفائڈ کیا گیا ہے۔ سی آئی اے کی اس رپورٹ کے مکمل متن کو پڑھا جانا ممکن نہیں ہے کیونکہ اسے عوام کے لئے جاری کرتے وقت اس کے تمام حصوں کو ڈی کلاسیفائیڈ نہیں کیا گیا بلکہ ہر صفحے پر کچھ پیراگرافس کو بدستور خفیہ قرار دیتے ہوئے، مٹا دیا گیا ہے، بعض جگہ تو پورے پورے صفحات کو ہی رپورٹ سے مٹا کر جاری کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کو یہ معلومات ہیں کہ سوویت یونین نے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال میں بہت مہارت حاصل کرلی ہے، اور یہ ہھتیار کامیابی سے افغانستان میں استعمال بھی کئے جا رہے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ سوویت یونین نے اب بھی کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے حوالے سے اپنی ریسرچ تیزی سے جاری رکھی ہوئی ہے، اسی لئے امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے بھی اس خطے میں حیاتیاتی ہتھیاروں کے حوالے سے اپنی موجودگی کا فیصلہ کیا۔( یہاں سے آگے کئی پیراگراف مٹا دئے گئے ہیں)۔ اس رپورٹ میں آگے چل کر لکھا ہے، سووویت یونین نے افغانستان میں جو کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار استعمال کئے ہیں، اس حوالے سے امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے فیلڈ میں جا کر شواہد جمع کئے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ، مجاہدین پر اعصاب کو مائوف کرنے والی گیس، زہریلا دھواں اور ایسے دیگر ایسے وائرس استعمال کئے گئے ہیں، جن کی شناخت ابھی تک نہیں ہوسکی ہے کیونکہ سوویت ریسرچ کافی ایڈوانس ہے۔ لہذا اس پر کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔( یہاں سے آگے بھی کئی پیراگراف مٹا دئے گئے ہیں)۔ آگے چل کر لکھا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں امریکہ اور اتحادیوں کو سوویت بائیولوجیکل وار فیئر سے خطرات ہیں کیونکہ، سوویت یونین کے پاس اس خطے میں بہت ہی ایڈوانس قسم کا بائیولوجیکل وار فیئر سسٹم موجود ہے، سوویت افواج نے ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے لئے باقاعدہ ملازم بھرتی کررکھے ہیں اور عام جنگوں میں بھی سرخ فوج اسے استعمال کرنے ہچکچاتی نہیں ہے کیونکہ اسے موثر ہتھیار مانا جاتا ہے۔ سوویت حیاتیاتی ہتھیاروں سے فوری طور پر خطرہ، پاکستان میں ہے جہاں وہ اسے استعمال کرسکتی ہیں لہذا، فوری طور پر کائونٹر ایکشن کی ضرورت ہے۔ اس سے آگے بھی کئی پیراگراف کاٹ دئے گئے ہیں۔ اسی رپورٹ میںافغانستان کا ایک نقشہ بھی دیا گیا ہے، جس کا عنوان ہے ’’ٹارگٹ ایریا‘‘۔ اس میں پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ، قندہار، جلال آباد، خوست، غزنی، ننگرہار، بدخشاں کو دائرے میں دکھایا گیا ہے، اس نقشے کے کیپشن کو مٹا دیا گیا ہے۔( جاری ہے)
بحوالہ:

http://www.ahwaal.com/index.php?opt...atid=28:2011-06-09-11-20-04&Itemid=33&lang=ur
 
Top