ڈوبتے جہاز کو بچانے کا فارمولا

منقب سید

محفلین
عامر احمد خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
141121140625_pakistan_army_chief_raheel_sharif_640x360_reuters_nocredit.jpg

کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں موجود انتہا پسند عناصر صرف ملک کے قبائلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے چپے چپے میں یا تو براہ راست یا اپنے مذہبی اور سیاسی حواریوں کے ذریعے پھیلے ہوئے ہیں
کیا یہ سب کچھ وہی نہیں جسے سننے کی تمنا کروڑوں پاکستانیوں کو برسوں سے ہے؟

جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا ہے کہ غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے اندرونی سکیورٹی متاثر ہو رہی ہے اور ان پر قابو نہ پایا گیا تو صورتِ حال گمبھیر ہو سکتی ہے۔

ان کا تجزیہ ہے کہ سکیورٹی کی موجودہ پیچیدہ صورت حال کو سمجھنا آسان ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا نہایت مشکل۔

ان کا اصرار ہے کہ قومی سلامتی کو یقینی بنانا ریاست کے ہر ادارے کی ذمہ داری ہے اور خاص طور پر یہ کہ پاکستانی عوام کی حمایت کے ساتھ بغیر کسی امتیاز کے ملک میں دہشت گردی کو ختم کر دیا جائے گا۔

فرض کریں کہ یہ سب کچھ ایک حاضر سروس جنرل یا پاکستان کی بری فوج کے سربراہ نے نہیں بلکہ ایک سیاست دان یا حکومت کے سربراہ نے کہا ہوتا تو ہمارا ردِ عمل کیا ہوتا؟

یقیناً پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا طبقہ عش عش کر اٹھتا۔ لوگ کہتے کہ آخرکار ملک کو وہ رہنما مل ہی گیا جو اس شیطانی عمل کو لپیٹ سکے جس کے ذریعے جنرل ضیا نے ایک ہنستے کھیلتے ملک کو جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا اکھاڑا بنا دیا۔

مذہبی طبقوں میں شاید یہ بیان کچھ اضطراب پیدا کرتا لیکن بایاں بازو تو جھوم اٹھتا۔ رہی بات دائیں بازو کی تو اس کا کیا، وہ دایاں کہلاتا ہی اس لیے ہے کہ حاکم وقت کے ساتھ رہے۔

لیکن یہ سب کچھ تو تب ہوتا جب جنرل راحیل شریف صرف شریف ہی ہوتے، جرنیل نہیں۔

140901152432_isis_in_pakistan_640x360_bbc_nocredit.jpg

پاکستان کے کئی سینئیر سرکاری اہلکار اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ داعش پاکستان میں صرف وال چاکنگ اور پیمفلیٹوں میں ہی نہیں بلکہ ایک حقیقی خطرے کے طور پر ابھر رہی ہے
قصہ کچھ یوں ہے کہ یہ باتیں پاکستان میں پہلے بھی ہوئی ہیں۔

ٹھیک 15 برس پہلے اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف نے چند مدیران کو خاص طور پر کراچی کے فوجی ہیڈکوارٹرز میں بلا کر کہا تھا کہ اگر ایک جہاز ڈوب رہا ہو اور اس میں عوام اور سیاست دانوں کے ساتھ فوج بھی سوار ہو تو کیا فوج کو صرف اس لیے چپ کر کے بیٹھے رہنا چاہیے کہ جہاز بچانے کی ذمہ داری سیاست دانوں کی ہے؟

اور پھر جواباً خود ہی عرض کیا کہ ہرگز نہیں۔ اس کے چند ہی ماہ بعد انھوں نے حکومت کا تختہ الٹا اور ڈوبتا جہاز بچانے خود آ ٹپکے۔

اور پھر وہی جنرل مشرف تھے جنھوں نے جنوری سنہ 2002 میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان نے دنیا بھر میں جہاد کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ ملک میں نہ تو کسی لشکر کی جگہ ہے نہ کسی سپاہ کی اور نہ کسی جیش کی اور سوائے حکومت کے کوئی کسی کو جہاد کے لیے نہیں پکار سکتا۔

جب تک موصوف اقتدار سے الگ ہوئے، ملک میں چار سو لشکر، سپاہ اور جیش پھیلے تھے اور معاملہ اس قدر بگڑ چکا تھا کہ پاکستان کے دارالحکومت میں ایک مسجد اور مدرسے سے چند طالبات اور کچھ گنے چنے جنگجوؤں کو نکالنے کے لیے ہمیں اپنے کئی فوجی کمانڈو قربان کرنے پڑے۔

تاریخ پر اس نظر کا مقصد جنرل راحیل شریف کی نیت یا ارادوں پر شک کرنا نہیں ہے، بلکہ اس خوف کی طرف توجہ دلانا ہے جو پاکستانیوں کے دل میں ہر باوردی بیان سے جڑا ہوتا ہے۔

ملک بھر کے تجزیہ کار اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ امریکہ کی جنرل راحیل شریف کے بارے میں وہ رائے نہیں جو جنرل مشرف یا جنرل کیانی کے بارے میں تھی۔ کچھ کے خیال میں تو وہ امریکہ کو سمجھانے ہی یہ گئے تھے کہ نہ تو وہ مشرف ہیں اور نہ ہی کیانی اور بظاہر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب لوٹے ہیں۔

131129115547_gen_kayani_and_gen_raheel_640x360_reuters_nocredit.jpg

ملک بھر کے تجزیہ کار اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ امریکہ کی جنرل راحیل شریف کے بارے میں وہ رائے نہیں جو جنرل مشرف یا جنرل کیانی کے بارے میں تھی
شاید اسی لیے ان کے ہر نئے بیان کی اہمیت بھی پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ خاص طور پر ان کا یہ کہنا کہ سکیورٹی کی موجودہ پیچیدہ صورت حال میں قومی سلامتی کو یقینی بنانا ریاست کے ہر ادارے کی ذمہ داری ہے، اس کو سمجھنا آسان ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا نہایت مشکل۔

کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں موجود انتہا پسند عناصر صرف ملک کے قبائلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے چپے چپے میں یا تو براہ راست یا اپنے مذہبی اور سیاسی حواریوں کے ذریعے پھیلے ہوئے ہیں۔

قبائلی علاقوں سے تو انھیں فوجی کارروائی کے ذریعے ہی بھگایا جا سکتا ہے لیکن شہروں اور دیہاتوں میں انھیں حکومت اور پولیس کے بغیر نہیں روکا جا سکتا۔

پاکستان کے کئی سینیئر سرکاری اہلکار اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ داعش پاکستان میں صرف وال چاکنگ اور پیمفلٹوں میں ہی نہیں بلکہ ایک حقیقی خطرے کے طور پر ابھر رہی ہے اور داعش کا فوکس ہمیشہ شہروں پر رہا ہے نہ کہ دور دراز کے قبائلی علاقوں پر۔

اس خطرے کے مقابلے کے لیے فوج نہیں ایک مضبوط سویلین سکیورٹی اور حکومتی عزم چاہیے۔

کیا حکومت پاکستان اس کے لیے تیار ہے؟ اور اگر نہیں تو کیا موجودہ آرمی چیف کا ڈوبتے جہاز کو بچانے کا فارمولا وہی ہو گا جو ان کے پیش رو کا تھا؟

اس کا جواب ہمیں تبھی ملے گا جب یہ واضح ہو گا کہ پاکستان کے راحیل شریف ہی نہیں بلکہ تمام شریف وہی بات کہہ رہے ہیں جو فی الوقت صرف ایک امریکہ پلٹ جرنیل کہہ رہا ہے۔
لنک
 

arifkarim

معطل
پاکستان میں انتہاء پسندی کو ہوا دینے والے وہ مذہبی حلقے ہیں جنہیں 1947 سے حکومت نے دنگا، فساد، توڑ پھوڑ اور دہشت گردی کرنے کیلئے کھلا چھوڑا ہوا ہے۔ سوائے اکا دکا مذہبی اقلیتیں جیسے بہائی اور قادیانیوں کے کسی اور کی روک تھام کیلئے حکومت نے آج تک کچھ نہیں کیا۔
 
Top