سولھویں سالگرہ ڈنکن فاربس، اُن کی اردو انگریزی لغت اور 'ہندوستانی' زبان

عبد الرحمن

لائبریرین
اردو محفل کی سالگرہ کے موقع پر اردو کی عظمت کو اجاگر کرتا ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے عالمانہ انگریزی کالم کا خاکسار کی جانب سے طالب علمانہ اردو ترجمہ، براے نقد و نظر، احباب کی نذر!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

ڈنکن فاربس (۱۷۹۸-۱۸۶۸) مشرقی زبان و ادب کے ایک اسکاٹش عالم تھے۔ اگرچہ فاربس نے اردو، فارسی، عربی اور بنگالی میں بھی گراں قدر علمی ذخیرہ چھوڑ رکھا ہے لیکن ان کی اردو انگریزی لغت اور میر امن کی طبع زاد داستان باغ و بہار کا انگریزی ترجمہ ممتاز مقام کا حامل ہے۔

فاربس کی لغت بنام A Dictionary: Hindustani and English جو پہلی بار ۱۸۴۸ء میں شائع ہوئی تھی، ابتدائی اردو لغت نویسی کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ان ابتدائی کاوشوں میں جان گلکرسٹ (۱۷۵۹-۱۸۴۱) اور جان شیکسپیئر (۱۷۷۴-۱۸۵۸) کی اردو انگریزی لغات بھی شامل ہیں۔ بعد ازاں لغت نویسی کی اس روایت کو ایس ڈبلیو فیلن (۱۸۱۷-۱۸۸۰) اور جان ٹی پلیٹس (۱۸۳۰-۱۹۰۴) کی اردو انگریزی لغات نے آگے بڑھایا۔

یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ متعدد مغربی مفکرین اُن دنوں لفظ 'ہندوستانی' اس زبان کے لیے استعمال کرتے تھے جو شمالی ہندوستان میں ہولی جاتی تھی۔ (1) آج کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستانی کہہ کر یہ مفکرین ہندی اور اردو دونوں زبانیں مراد لیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ کتابیں برطانوی ہندوستان (2) میں ایسی بھی شائع ہوئیں جو لفظ ہندوستانی کو اردو زبان کا دوسرا نام سمجھتی تھیں۔ مثلا جان ٹی پلیٹس کی جو پہلی کتاب 1874ء میں شائع ہوئی تھی اس کا نام A Grammar of the Hindustani or Urdu language (ہندوستانی یا اردو زبان کے قواعد) تھا۔ لفظ ہندوستانی کی ترقیم سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندی اور اردو دو مختلف زبانیں تھیں۔

چناں چہ فاربس کی Hindustani English Dictionary در اصل اردو انگریزی لغت ہے، جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ اس لغت کے الفاظ اردو رسم الخط میں لکھے گئے ہیں جو کہ فارس عربی رسم الخط کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ اس ترمیم شدہ رسم الخط کے حروف میں کچھ ایسی آوازیں بھی شامل ہیں جو کہ عربی اور فارسی میں ناپید ہیں۔ لیکن اردو میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ ہندی زبان، جیسا کہ ہم جانتے ہیں دیونا گری میں نہ صرف لکھی جاتی تھی بلکہ اب بھی لکھی جاتی ہے۔ لیکن فاربس نے ان ہندی الفاظ پر بھرپور توجہ دی ہے جو کسی نہ کسی طرح اردو کا حصہ ہیں اور اردو (فارس عربی) رسم الخط کے ساتھ ساتھ انہیں دیوناگری رسم الخط میں بھی لکھا ہے۔ مزید یہ کہ ہر ہر لفظ کا تلفظ رومن رسم الخط میں بھی دیا گیا ہے۔

اس لغت کا پہلا ایڈیشن جو 1848ء میں لندن سے شائع ہوا تھا اب کمیاب ہے۔ بلکہ 1866ء میں شائع ہونے والا دوسرا ایڈیشن بھی آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا۔ خوش قسمتی سے کچھ سال قبل راقم الحروف کو فاربس کی لغت کا دوسرا ایڈیشن کراچی کے علاقے صدر کے ایک فٹ پاتھ سے بکھری ہوئی حالت میں ملا۔ جہاں ہر اتوار کو پرانی کتب فروخت ہوتی ہیں۔ کتاب کی پشت پر اشاعتی ادارے "کراس بائی لاک ورڈ اینڈ سنز" نے ان کتابوں کی فہرست بھی درج کی ہے جو ان کے ادارے سے شائع ہوئیں۔ اس فہرست میں ہندوستانی اور ہندی کتب بھی شامل ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہندوستانی اور ہندی دو الگ زبانیں سمجھی جاتی تھیں۔

فاربس کی اردو انگریزی ڈکشنری کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ دو لسانی انگریزی اور اردو لغت ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ اردو انگریزی ڈکشنری کی حیثیت سے خدمات فراہم کرتی ہے۔ لیکن لغت کا دوسرا حصہ انگلش کے الفاظ ان کے اردو مترادفات کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔ تاہم اس دوسرے حصہ کے کم از کم تین سو صفحات ہیں۔ جب کہ اردو انگریزی لغت آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ فاربس کی ڈکشنری پر تبصرہ کرتے ہوئے مولوی عبد الحق کہتے ہیں کہ فاربس نے اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں اپنی لغت میں زیادہ الفاظ اور مترادفات شامل کیے ہیں۔ اس لغت کو ہندوستان سے 1968ء میں دوبارہ چھاپا گیا جو کہ دوسرے ایڈیشن کی ہو بہو نقل تھی۔ یہی نقل سنگ میل پبلی کیشنز نے ۲۰۰۲ء میں شائع کی۔

ہندوستانی سوانح سے متعلق سی ای بک لینڈ نے اپنی ڈکشنری میں ڈنکن فاربس کا ایک مختصر سا خاکہ دیا ہے۔ ڈکشنری آف نیشنل بائیو گرافی (ڈی این بی) نے بھی تھوڑی معلومات فراہم کی ہے۔ بکلینڈ اور ڈی این بی کے مطابق، ڈنکن ۲۷ اپریل ۱۷۹۸ء کو پرتھ شائر اسکاٹ لینڈ کے گاؤں کینارڈ میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ فارس کے ماں باپ نے ۱۸۰۱ء میں امریکا کی طرف ہجرت کی اور فاربس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے دادا کے سپرد کی۔ فاربس کی اسکول کی تعلیم بہت تھوڑی تھی اور تیرہ سال تک وہ انگریز زبان سے نا بلد رہے تھے۔ لیکن محض اپنی اہلیت اور محنت سے وہ ایک اسکول میں سترہ سال کی عمر میں استاد بن گئے۔ فاربس نے ۱۸۲۳ء میں ایس ٹی۔ اینڈریوز یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اسی سال نومبر میں وہ کلکتہ اکیڈمی سے منسلک ہونے کی غرض سے کلکتہ پہنچے۔ لیکن خرابئ صحت کے باعث ۱۸۲۶ء کے اوائل میں ہی انگلستان لوٹ آئے۔ اسی سال فاربس مشہور مستشرق جان گلکرسٹ کے ما تحت معاون مقرر ہوئے۔

۱۸۳۷ء میں فاربس کا کنگ ایڈورڈ کالج میں مشرقی زبان کے پروفیسر کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ وہ کچھ عرصہ برطانوی عجائب گھر میں بھی ملازم رہے جہاں انہوں نے فارسی کے مخطوطات کی فہرست تیار کی۔ ۱۸۴۷ء میں انہیں ایس ٹی اینڈریوز یونیورسٹی کی طرف سے اعزازی طور پر ایل ایل ڈی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ڈنکن فاربس نے مشرقی زبانوں، قواعد اور لغات پر متعدد کتابچے لکھے اور کچھ کلاسیکی ادب کے تراجم کیے اور کچھ کو مرتب بھی کیا۔ ان کا سب سے عالی شان کام باغ و بہار (۱۸۴۶ء) ہے۔ باغ و بہار میر امن کا شاہ کار ہے۔ جس میں مشکل الفاظ کی فہرست بھی شامل ہے۔ فاربس نے ۱۸۶۲ء میں اس کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے ۱۸۵۲ء میں توتا کہانی کا بھی اردو متن تیار کیا۔ فاربس نے بیتال پچیسی کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لیے جان ٹی پلیٹس کے ساتھ بھی اشتراک کیا جو کہ سنکسرت میں لکھی ہوئی ایک کلاسیکی داستان ہے۔ ان کی دیگر کتب میں دی ہندوستانی مینول (۱۸۴۵ء)، اے گرامر آف لینگوج (۱۸۴۶ء)، اے اسمالر ہندوستانی اینڈ انگلش ڈکشنری (۱۸۶۱ء)، اے گرامر آف بنگالی لینگوج (۱۸۶۱ء) اور دا ایڈونچرز آف حاتم طائی (۱۸۳۰ء) (3) شامل ہیں۔

فاربس کا شمار ان مستشرقین میں ہوتا ہے جس نے اردو لغت نویسی کے ارتقا میں اس وقت اپنا کردار ادا کیا جب وہ اپنے ابتدائی دور میں تھی۔

فاربس کا انتقال 17 اگست 1868ء میں ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

1) شمالی ہندوستان کو شمالی ہند بھی کہتے ہیں۔ جس کی کوکھ سے کئی سو معروف مثنویوں نے جنم لیا۔

2) برطانوی ہندوستان آزادی سے پہلے کے ہندوستان کو کہتے ہیں جب وہاں برطانیہ کا تسلط تھا۔

3) حاتم طائی کے کارنامے۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
ماشاء اللہ بھائی!

بہت اچھا ترجمہ کیا ہے۔

تحریر ہر لحاظ سے مربوط ہے اور پڑھنے والے کو لگتا نہیں ہے کہ وہ اصل تحریر نہیں بلکہ ترجمہ پڑھ رہا ہے۔

ماشاء اللہ!

اللہ کرے زورِ قلم (ترجمانی) اور زیادہ

:) :) :)
 
Top