ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ایک شخصیت پرت در پرت (3)

حسینی

محفلین
تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی

شیخ یوسف قرضاوی کے عشق اور معاشقوں کے قصے طویل ہیں، اس لیے ہم اس موضوع کو یہاں پر ترک کرتے ہیں اور قارئین سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں مزید تفصیلات جاننے کی خواہش رکھتے ہوں تو وہ متعلقہ عربی ویب سائٹس پر رجوع کرسکتے ہیں۔ پیش نظر قسط میں ہم اپنے قارئین کو شیخ قرضاوی کی شخصیت کے بعض دیگر پہلوؤں کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصد فقط یہ ہے کہ ایک اتنا بڑا شخص جو عالم اسلام میں بلند علمی مرتبے کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، آج چونکہ استعماری مقاصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے تو اس کی حقیقت عامۃ المسلمین تک پہنچائی جائے، تاکہ وہ اس کی ماضی کی شخصیت کو سامنے رکھ کر عصر حاضر میں اس کے فتووں اور بیانات سے دھوکا نہ کھائیں۔

شیخ قرضاوی اور اسرائیل:
شیخ قرضاوی کی مطلقہ بیوی ڈاکٹر اسماء بن قادہ نے شیخ قرضاوی کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں سے نقاب کشائی کی ہے۔ ان میں سے سب سے افسوس ناک پہلو صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ شیخ کے درپردہ تعلقات ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں شیخ یوسف قرضاوی کو عبرانی زبان پر دسترس حاصل ہے۔ وہ عبرانی میں روانی سے گفتگو کرسکتے ہیں، جو اسرائیل کی سرکاری اور مذہبی زبان ہے۔ لہٰذا قطری حکومت اور دیگر استعماری ایجنٹوں کے لیے شیخ قرضاوی اسرائیل سے رابطے کی خاطر بہتر انتخاب سمجھے جاتے ہیں۔ خاص طور پر اس پس منظر میں کہ وہ ماضی میں اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف سخت فتوے جاری کرچکے ہیں۔ ماضی میں تو یہ فتویٰ دے چکے ہیں کہ تمام یہودیوں کا قتل کرنا یہاں تک کہ حاملہ یہودی عورتوں کو قتل کرنا اور ان پر خودکش حملے کرنا جائز ہے، لیکن عصر حاضر میں ان کے فتووں کا رخ خاصا تبدیل ہوچکا ہے۔

لبنان کے اخبار الدیار نے عرب ذرائع سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسماء بن قادہ نے شیخ یوسف قرضاوی کی زندگی کے بہت سے خفیہ گوشوں کو فاش کر دیا ہے اور انھوں نے بتایا ہے کہ وہ صیہونی جاسوسی تنظیم موساد کے اعلٰی افسروں سے ملاقات کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسماء کا کہنا ہے کہ 2010ء کے اوائل میں شیخ نے تل ابیب کا سفر کیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ سفر امیر قطر کے ایماء پر کیا گیا تھا۔ اسماء بن قادہ نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں امریکی کانگریس نے شیخ کے نام ایک ستائشی خط بھی تحریر کیا تھا۔ ڈاکٹر اسماء نے اس حوالے سے کردار ادا کرنے پر شیخ کو ملنے والی بھاری رقوم کا بھی ذکر کیا ہے۔ العربیہ نیوزنیٹ نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ شیخ قرضاوی کے صیہونی ریاست سے خفیہ روابط ہیں۔ رپورٹ کا عنوان تھا ’’کیا اسرائیل القرضاوی سے گفتگو کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘ اس رپورٹ کے مطابق موساد کے سابق سربراہ افرائیم ہالی (Efraim Haleyy) نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاھو سے اجازت طلب کی تھی کہ شیخ یوسف قرضاوی سے گفتگو کا آغاز کیا جائے۔ ان رپورٹوں کا مطالعہ کرنے کے بعد شیخ قرضاوی کے اس فتوے کی حقیقت آسانی سے سمجھ آسکتی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ شامی حکومت اور حزب اللہ کے خلاف جنگ کرنا اہل کتاب سے جنگ کرنے سے افضل ہے۔

شیخ الازہر اور شیخ القرضاوی کا اختلاف:
بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ ڈاکٹر مرسی کی حکومت کے خاتمے کی شیخ الازہر ڈاکٹر احمد طیب کی طرف سے کیوں حمایت کی گئی۔ اس کی اور بھی وجوہات ہوں گی، لیکن ایک وجہ قطری حکومت کی طرف سے ڈاکٹر الطیب کو معزول کرکے شیخ القرضاوی کو شیخ الازہر بنانے کی کوششیں بھی ہیں۔
اس سلسلے میں یہ خبر ملاحظہ فرمائیں:
الفراعین ٹی وی کے پروگرام ’’مصرالیوم‘‘ نے اپنے ایک پروگرام میں بتایا کہ قطری حکومت کی کوشش ہے کہ ’’ڈاکٹر احمد الطیب‘‘ کی جگہ ڈاکٹر قرضاوی کو شیخ الازہر بنا دیا جائے، اگر ایسا شیخ کی موت سے پہلے ہو جائے۔

یوسف قرضاوی کے بیٹے عبدالرحمن یوسف کے افکار:
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے بیٹے عبدالرحمن یوسف نے الجزائر کے روزنامہ الشروق سے ایک انٹرویو کے دوران میں اپنے آپ کو ’’عبدالرحمن یوسف القرضاوی‘‘ کہنے سے منع کر دیا اور کہا کہ وہ ایک مصری شاعر کے طور پر اپنی پہچان کروانا چاہتا ہے۔ عبدالرحمن یوسف کا کہنا ہے کہ یہ مذاہب کے مابین جدال کا وقت نہیں بلکہ اسرائیل کے مقابلے میں قیام اور مزاحمت کا وقت ہے۔ عبدالرحمن یوسف نے ایک قصیدے میں حزب اللہ کے راہنما سید حسن نصراللہ کی بہت تعریف کی ہے اور ان سے اپنی شدید عقیدت کا اظہار کیا ہے جبکہ ان کے والد ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے حزب اللہ کو حزب الشیطان قرار دیا ہے۔ عبدالرحمن یوسف حسنی مبارک کے خلاف قیام کرنے والے جوانوں کی صف اول میں تھے۔ اس سلسلے میں ان کی انقلابی نظموں نے بہت مقبولیت حاصل کی ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ میرا اخوان المسلمین سے کوئی تعلق نہیں۔

بحرین کے بارے میں عبدالرحمن یوسف کا اپنے باپ کے نام ایک خط:
شیخ قرضاوی نے مصر اور لیبیا کے عوام کی انقلابی جدوجہد کی ہمیشہ حمایت کی اور اس سلسلے میں ان کے مظاہروں کو انھوں نے ظلم و فساد کے خلاف قیام قرار دیا، لیکن جب ویسی ہی تحریک بحرین کے عوام نے برپا کی تو انھوں نے اسے فتنہ قرار دیا اور اس طرح سعودی عرب اور قطر کی حکومتوں سے موافقت کی، جنھوں نے بحرین کے عوام کو کچلنے کے لیے اپنی افواج روانہ کیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں اپنے خطبات جمعہ میں عوام سے کہا کہ بحرین میں ہونے والے واقعات ایک ملت کا انقلاب نہیں بلکہ یہ گروہی اور فرقہ وارانہ انقلاب ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بحرین میں برپا تحریک تیونس، لیبیا اور مصر کی تحریک سے مشابہت نہیں رکھتی، جبکہ ان کے فرزند عبدالرحمان یوسف اپنے باپ کے اس موقف اور طرزعمل کی مخالفت کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں وہ اپنے والد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
یہ درست ہے کہ اس وقت بحرین کی شاہراہوں پر شیعہ دکھائی دے رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحرین کے شیعوں پر اس حال میں ظلم روا رکھا جا رہا ہے کہ حکام نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دسیوں برسوں سے انھیں بہت سے شہری حقوق سے محروم کر رکھا ہے اور اس ملک میں شیعہ سنی آبادی کا توازن تبدیل کرنے کے لیے دیگر ملکوں کے باشندوں کو شہریت دی گئی ہے۔ بحرین میں لائے جانے والوں کی اکثریت سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بدترین اہل کاروں پر مشتمل ہے۔ قاہرہ میں سکیورٹی کے عہدیداران یہ جواب دیں کہ مصر کی سکیورٹی کے افسروں کے ہاتھوں (بحرین کے) لوگوں پر تشدد کی خبروں میں کس حد تک صداقت ہے۔ نیز یہ کہ ان میں سے بعض افراد جنوری کے انقلاب کے بعد سے غیر معینہ مدت تک کے لیے چھٹی پر ہیں اور بحرین کی انٹیلی جنس ایجنسی سے بڑی بڑی رقمیں وصول کر رہے ہیں۔
عبدالرحمن نے بحرین کے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کے انقلاب اور جدوجہد کے بارے میں شعر کہیں گے، خاص طور پر جب وہ میدان میں شیعہ سنی کو ایک امام جماعت کے پیچھے مل کر نماز پڑھتے دیکھیں گے۔
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔


شیخ قرضاوی کی مطلقہ بیوی ڈاکٹر اسماء بن قادہکے انٹریو کا مکمل عربی متن پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں:
http://www.echoroukonline.com/ara/?news=6314
 
Top