ڈاکٹر مختار احمد عزمی کی کتاب ’’ پہچان کے زاویے‘‘


۶/مارچ ۲۰۱۲ کو الحمرا ،میں پہچان پاکستان کے زیرِ اہتمام ،ڈاکٹر مختار احمد عزمی صاحب کی کتاب کی تقریب ِ رونمائی ہوئی ،جس میں نامور ادبا،سکالر اور محققین کے ساتھ ساتھ مجھ ناچیز کو بھی اظہار ِ خیال کا موقع دیا گیا،وہاں پر پڑھا گیا مضموں اہل فکر و دانش کے لیے حاضر ِ خدمت ہے۔
محمد اقبال ناصرؔ

______________________
اس کائنات ِ رنگ و بو میں اشرف المخلوقات کا شرف انسان کو نصیب ہوا،انسان کو رفعت و عظمت اور مقامِ علویت علم کی وجہ سے دیا گیا،علم کو اہل ِ ثروت پر برتری اور فضیلت دی گئی۔علم تحقیق،تنقید،تطبیق اور تخلیق سے وجود میں آتا ہے،جس طرح جسمانی خدوخال،پسند و نا پسند اور ظاہری خصائل میں ہر انسان منفرد ہوتا ہے،اسی طرح اپنے اسلوب ِ نگارش،اپنے آہنگ اور انداز ِ تحریر کی وجہ سے دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔جسمانی خدوخال انسان کا ظاہری نقشہ کھینچتے ہیں،لیکن انسان کے داخلی احساسات،جذبات،خیالات اور ادراکات لفظوں کے ذریعے ایک خاص آہنگ اور رنگ میں جلوہ گر ہوتے ہیںتو وہ انسان کوفکری،معنوی اور اسلوبیاتی لحاظ سے متشکل کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مختار احمد عزمیصاحب جس طرح جسمانی خدو خال اور خصائل میں منفرد ہیں،مسکراہٹ ان کے لبوں پر رقص کرتی رہتی ہے،عاجزی و انکساری کا پیکرہیں،تکلم میں ظرافت اور شگفتگی ان کی پہچان ہے ،اسی طرح ان کی کتاب ” پہچان کے زاویے“ متنوع رنگ مگر ایک خاص آہنگ رکھتی ہے۔اس کی ہر ہر سطر سے شگفتگی اور رعنائی ظاہر ہوتی ہے،طنز اور تنقید بھی لطیف پیرائے میں کرتے ہیں،ان کی کتاب کے مقدمہ سے چند سطور ملاحظہ کیجیے:
‘‘میں کیوں لکھتا ہوں؟میرے لکھے ہوئے لفظوں کو تو میری بیوی
اور بچے بھی کم کم ہی پڑھتے ہیں تو کوئی اور بھلا کیوں کر پڑھے
گا ؟میرے عزیز و اقارب بھی لکھنے پڑھنے کے تکلفات سے بری۔
اور تو اور خود میرے لیے بھی اپنی تحریروں کو دوبارہ پڑھنا مشکل
ہو جاتا ہے،آخر ایسا کیوں ہے؟’’
اس پیراگراف میں عمومیت ہے،پوری قوم کا یہی المیہ ہے کہ کتاب سے ہمارا تعلق کٹ چکا ہے،ڈاکٹر صاحب نے کتنے لطیف،اور استفہامیہ انداز میں قوم کو تفکر و تدبر کی دعوت دی ہے۔
اس کتاب میں مختلف موضوعات پر تحقیقی و تنقیدی مضامین ہیں ،جن کا تعلق مابعدالطبیعاتی شعور سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کے مادی اور خارجی رویوں کے ساتھ بھی ہے،یہ کتاب تدوین،تحقیق اور تخلیق کے رنگوں میں رنگی ہوئی ہے اختصار اس کتاب کا ایجاز ہے،دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے اور افکار و خیالات اورمعانی و معارف کا ایک سمندر پیدا کر دیا گیا ہے۔اپنے اس شعر کے ساتھ اس کتاب کا تبصرہ یوں ختم کرتا ہوں:
جہاں میں ذرہ،ذرے میںجہاں دیکھ رہاہوں
اک حقیقت عیاں ،اک نہاں دیکھ رہا ہوں

 
جناب مختار احمد عزمی صاحب میرے ایم فل کے مقالہ کے بیرونی ممتحن تھے۔ زبانی امتحان کے لیے بھی تشریف لائے تھے۔ آپ جناب نہایت نفیس شخصیت ہیں۔
 
Top