ڈاکٹر طاہر شمسی نے passive immunization کے ذریعے کورونا وائرس کا علاج تجویز کر دیا

الف نظامی

لائبریرین
چین اور امریکا کے بعد اب پاکستانی حکومت نے بھی کورونا وائرس سے شدید طور پر متاثرہ افراد کے علاج کےلیے اس بیماری (کووِڈ 19) سے صحت یاب ہوجانے والے افراد کا بلڈ پلازما استعمال کرنے پر مشاورت شروع کردی ہے۔

واضح رہے کہ اس بارے میں سب سے پہلی خبر ’’ایکسپریس نیوز‘‘ نے 16 فروری 2020 کے روز شائع کی تھی جس میں چین کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وہاں کورونا وائرس سے شدید متاثرہ افراد کا علاج کرنے کےلیے صحت یاب ہوجانے والوں کا بلڈ پلازما (خوناب) لگانے پر بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے۔


بعد ازاں امریکی ماہرین نے بھی ناول کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کےلیے یہی تجویز دی۔

’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کے مطابق، اب حکومتِ پاکستان نے بھی اسی تکنیک پر ماہرین سے مشاورت شروع کردی ہے جبکہ باقاعدہ لائحہ عمل کا اعلان آئندہ 36 گھنٹوں میں متوقع ہے۔

صوبائی وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی اس حوالے سے امراضِ خون کے مشہور پاکستانی ماہر اور ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈزیز اینڈ بون میرو ٹرانس پلانٹیشن‘‘ کے سربراہ، ڈاکٹر طاہر شمسی سے رابطوں کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کو بتایا کہ ڈاکٹر طاہر شمسی سے اس ضمن میں تمام تفصیلات حاصل کرلی گئی ہیں۔

بتاتے چلیں کہ کسی بھی نئی وبا کی ویکسین دستیاب ہونے میں کم از کم 18 ماہ لگ جاتے ہیں جبکہ ہنگامی حالات کے پیشِ نظر اس وبا سے صحت یاب ہوجانے والوں کا بلڈ پلازما (خوناب) شدید متاثرین میں منتقل کیا جاتا ہے تاکہ اس بلڈ پلازما میں موجود متعلقہ اینٹی باڈیز، متاثرہ شخص میں وقتی طور پر اس نئی بیماری کے خلاف مدافعت (امیونیٹی) پیدا کرسکیں۔

اس تکنیک کو ’’غیر عامل امنیت کاری‘‘ (Passive Immunization) کہا جاتا ہے۔

اسی بارے میں یہ خبر بھی پڑھیے:
ناول کورونا وائرس کا توڑ؛ صحت یاب ہوجانے والوں کا بلڈ پلازما

کورونا وائرس کا کامیاب علاج: امریکی ماہرین بھی چین کے نقشِ قدم پر
 
جس میں چین کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وہاں کورونا وائرس سے شدید متاثرہ افراد کا علاج کرنے کےلیے صحت یاب ہوجانے والوں کا بلڈ پلازما (خوناب) لگانے پر بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
خبر کا یہ حصہ عنوان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ :)
 

الف نظامی

لائبریرین
کورونا وائرس سے متاثرہ زیادہ تر افراد معمولی سے درمیانے درجے کی علامات کے ساتھ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ تاہم متاثرہ افراد کی ایک مخصوص تعداد ایسی ہے جن میں بیماری شدت اختیار کر جاتی ہے اور مریض ہلاک ہو جاتا ہے۔

امریکہ میں مستند اداروں نے ڈاکٹروں کو کووِڈ۔19 کے ایسے شدید بیمار یا جان لیوا صورتحال کا سامنا کرنے والے افراد کے علاج کے لیے ایک ایسی تحقیقاتی نئی دوا تک رسائی کی اجازت دی ہے جو بنیادی طور پر کورونا ہی کے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے حاصل کردہ پلازمہ یا سیال ہے۔

اسے خون کا روبصحت سیال یا کونویلیسینٹ پلازمہ کہا جاتا ہے۔ کورونا سے ہونے والی معتدی بیماری کووِڈ۔19 کی صورت میں معروف امریکی ادارے ایف ڈی اے نے اسے کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کا نام دیا ہے۔

ایف ڈے اے یعنی دی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے رواں ماہ کی 24 تاریخ کو ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں ڈاکٹروں کو کورونا کے شدید علیل یا زندگی اور موت کی جنگ لڑنے والے مریضوں کے لیے کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کے استعمال کی اجازت دی۔ تاہم ہر انفرادی مریض میں استعمال سے قبل پیشگی اجازت لینا ضروری قرار دیا ہے۔

ایف ڈی اے کے مطابق یہ ایک تحقیقاتی طریقہ علاج ہے اور اس تک رسائی کی مشروط اجازت امریکہ میں تیزی سے بڑھتے کورونا وائرس اور اس سے پیدا ہونے والی ہنگامی طبی صورتحال کے پیشِ نظر دی گئی ہے۔

پاکستان میں بھی طبی ماہرین اس طریقہ علاج کے استعمال کی تجویز حکومت کو دے چکے ہیں۔ ان میں کراچی میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیذیذز کے ڈین اور امراض خون کے ماہر ڈاکٹر طاہر شمسی بھی شامل ہیں جو حال ہی میں اس تجویز کو سامنے لائے تھے۔
ان کا استدلال ہے کہ چین میں ڈاکٹروں نے کورونا کے مریضوں پر اس طریقہ کار کا استعمال کیا ہے اور اس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں جنھیں انھوں نے دنیا بھر کے ڈاکٹروں کے لیے شائع بھی کیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ 'اس طریقہ علاج اور اس کے استعمال کے حوالے سے ایک نمونہ حکومت کے پاس جمع کروایا جا چکا ہے، انھوں نے دیکھ لیا ہے اور انھوں نے یہ کہا ہے کہ وہ یہ کریں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب، بلوچستان اور وفاقی حکومتوں کو یہ نمونے موصول ہو چکے ہیں۔
تاہم پاکستان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر عطاالرحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'اس قسم کے طریقہ علاج میں صلاحیت اور امکانات بہت ہیں تاہم اس کو اس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا جب تک یہ کلینیکل ٹرائل سے نہیں گزر جاتا۔'
ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی پُر اعتماد ہیں کہ اس طریقہ کار کو فوری استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر حکومتی رضامندی ہو تو وہ اس کا فوری بندوبست کر سکتے ہیں۔


کونویلیسینٹ پلازمہ کیا ہے؟
ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ جب بھی کوئی جراثیم پہلی دفعہ انسانی جسم ہر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کا قوت مدافعت کا نظام حرکت میں آتا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اینٹی باڈی بنتی ہے جسے امیونو گلابلن یا آئی جی ایم کہا جاتا ہے۔
اینٹی باڈی خون کے اندر بننے والا ایسا مواد یا پروٹین ہے جو جراثیم کو تلف کرتا ہے۔ یہ امیونوگلوبلن کچھ ہفتتے تک جسم میں رہتی ہے اور اس کے بعد بکھر جاتی ہے۔ دوسری مرتبہ جسم کو اسی جراثیم کے حملے کا سامنا ہوتا ہے تو اس مرتبہ زیادہ تیزی سے اس میں ایک اینٹی باڈی بنتی ہے جسے آئی جی جی کہا جاتا ہے۔

کووِڈ۔19 میں اس کا استعمال کیسے ہو گا؟
ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا تھا کہ 'کورونا وائرس کی بات کریں تو اس میں 85 فیصد سے زیادہ مریض معمولی نزلہ زکام کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اینٹی باڈی آئی جی ایم وائرس کا مقابلہ کر کے اسے ختم کر دیتی ہے کیونکہ وہ اس جراثیم کو پہچان چکی ہوتی ہے اور وہ جلدی اثر کرتی ہے۔'

کونویلیسینٹ پلازمہ اسی اینٹی باڈی پر مشتمل ہوتا ہے۔

کووِڈ۔19 کے صحت یاب ہونے والے ایسے ہی مریض کے خون سے اسے نکال کر ایسے مریض کے خون میں داخل کیا جاتا ہے جو شدید علیل ہو، اسے نمونیا ہو یا پھر اسے متعدد اندرونی اعضا کے فیل ہو جانے کا خدشہ ہو۔

'یہ اینٹی باڈی اس کے جسم میں جا کر ایسے ہی جراثیم کو ختم کرتی ہے جیسے اس نے صحت یاب ہو جانے والے مریض کے جسم میں کیا تھا۔' کورونا وائرس کی مطابقت سے ایف ڈی اے اس کو کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کا نام دیتا ہے۔

کیا یہ نئی دریافت ہے؟
ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق یہ طریقہ کار نیا نہیں ہے بلکہ اس وقت سے مختلف قسم کے ایسے وبائی امراض کے علاج کے لیے استعمال ہو رہا ہے جب ویکسین وغیرہ نہیں بنی تھی۔

کورونا وائرس بھی انسان کے علم میں نہیں تھا اس لیے اس کی کوئی ویکسین تاحال تیار نہیں ہوئی اور ہونے میں وقت لگے گا۔

ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق ایسی صورتحال میں کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کی مدد سے انتہائی علیل مریضوں کا علاج ہی موزوں طریقہ ہے۔ ایسے مریضوں کے تعداد بھی لگ بھگ دس فیصد کی قریب ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے پلازمہ کو الگ کرنے کا عمل مقامی طور پر پاکستان میں کیا جا سکتا ہے۔ 'ایک دو مریضوں میں تو ہم فوراً کر سکتے ہیں تاہم زیادہ مقدار درکار ہو تو دو ہفتے کی اندر اس کے نتظامات مکمل کیے جا سکتے ہیں۔'

ایف ڈی اے اس کو تحقیقاتی کیوں قرار دیتا ہے؟
ایف ڈی اے کے حالیہ اعلامیے کے مطابق ایسا کونویلیسینٹ پلازمہ جو کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز رکھتا ہو کووِڈ۔19 جیسی متعدی مرض کے خلاف موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی سانس کے متعدی امراض پر کونویلیسینٹ پلازمہ کی استعمال پر تحقیق کی گئی ہے، جن میں سنہ 2009-2010 میں ایچ1این1، سنہ 2003 میں سارس اور سنہ 2012 میں مرس کی وبائیں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گو کہ نتائج حوصلہ افزا تھے مگر تحقیق کی گئی ہر ایک مرض پر کونویلیسینٹ پلازمہ کی استعمال کی افادیت ظاہر نہیں ہوئی۔

'اس لیے یہ ضروری ہے کہ معمول کے طور پر کووِڈ۔19 کے مریضوں کو کونویلیسینٹ پلازمہ لگانے سے پہلے کلینیکل ٹرائلز کے ذریعے اس بات کا تعین کر لیا جائے کہ یہ محفوظ اور موثر ہے۔'

پاکستان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمان بھی اسی تجویز کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹر طاہر شمسی کو چاہیے کہ وہ پہلے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کنٹرولڈ ماحول کے اندر اس کے کلینیکل ٹرائلز کر لیں۔'

ایف ڈی اے نے پلازمہ کے استعمال کی اجازت کیسے دی؟
تاہم ایف ڈی اے نے امریکہ میں کووِڈ۔19 کے وبا کے تناظر میں پیدا ہونے والی ایمرجنسی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹروں کو کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ تک رسائی دے دی ہے جبکہ کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کلینیکل ٹرائلز مریضوں کے لیے کونویلیسینٹ پلازمہ تک رسائی کا ایک ذریعہ ہو سکتے ہیں تاہم ہو سکتا ہے کہ بوقت ضرورت یہ تمام مریضوں کے لیے میسر نہ ہو۔

ان حالات میں ایف ڈی اے مریضوں کو کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ تک رسائی کی سہولت دے رہا ہے جو کہ اس عمل کے ذریعے کیا جائے گا جس میں ایک انفرادی مریض کو لائسنس یافتہ فزیشن ایف ڈی اے کی منظوری کے ساتھ یہ پلازمہ دے گا۔

امریکہ میں اس کا استعمال کن چیزوں سے مشروط ہے؟
اس کے استعمال کے لیے ایف ڈی اے نے جو شرائط رکھی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ مکمل طور پر مصدقہ طریقے سے صحت یاب ہونے والے اس مریض سے حاصل کیا جائے گا جو خون عطیہ کرنے کا اہل ہو گا۔

یہ انہی مریضوں کو لگایا جائے گا جن میں کووِڈ۔19 کی علامات انتہائی شدید ہوں یا ان کی زندگی کو فوری خطرہ لاحق ہو۔ پلازمہ کے استعمال سے پہلے مریض کی رضامندی لینا ضروری ہو گا۔

ہر انفرادی مریض میں کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کے استعمال سے قبل ڈاکٹر کے لیے عام حالات میں ای میل جبکہ ایمرجنسی کی صورت میں زبانی منظوری حاصل کرنا ہوگی۔

ایف ڈی اے کے اعلامیے کے مطابق وہ ملک میں صحت کے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ایسا طریقہ کار وضح کر رہا ہے جس کے ذریعے ایک سے زیادہ محقق (ڈاکٹر) کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کے حصول اور استعمال کے لیے باہم رابطہ کر سکیں گے۔
 

بندہ پرور

محفلین
کورونا وائرس سے متاثرہ زیادہ تر افراد معمولی سے درمیانے درجے کی علامات کے ساتھ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ تاہم متاثرہ افراد کی ایک مخصوص تعداد ایسی ہے جن میں بیماری شدت اختیار کر جاتی ہے اور مریض ہلاک ہو جاتا ہے۔

امریکہ میں مستند اداروں نے ڈاکٹروں کو کووِڈ۔19 کے ایسے شدید بیمار یا جان لیوا صورتحال کا سامنا کرنے والے افراد کے علاج کے لیے ایک ایسی تحقیقاتی نئی دوا تک رسائی کی اجازت دی ہے جو بنیادی طور پر کورونا ہی کے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے حاصل کردہ پلازمہ یا سیال ہے۔

اسے خون کا روبصحت سیال یا کونویلیسینٹ پلازمہ کہا جاتا ہے۔ کورونا سے ہونے والی معتدی بیماری کووِڈ۔19 کی صورت میں معروف امریکی ادارے ایف ڈی اے نے اسے کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کا نام دیا ہے۔

ایف ڈے اے یعنی دی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے رواں ماہ کی 24 تاریخ کو ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں ڈاکٹروں کو کورونا کے شدید علیل یا زندگی اور موت کی جنگ لڑنے والے مریضوں کے لیے کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کے استعمال کی اجازت دی۔ تاہم ہر انفرادی مریض میں استعمال سے قبل پیشگی اجازت لینا ضروری قرار دیا ہے۔

ایف ڈی اے کے مطابق یہ ایک تحقیقاتی طریقہ علاج ہے اور اس تک رسائی کی مشروط اجازت امریکہ میں تیزی سے بڑھتے کورونا وائرس اور اس سے پیدا ہونے والی ہنگامی طبی صورتحال کے پیشِ نظر دی گئی ہے۔

پاکستان میں بھی طبی ماہرین اس طریقہ علاج کے استعمال کی تجویز حکومت کو دے چکے ہیں۔ ان میں کراچی میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیذیذز کے ڈین اور امراض خون کے ماہر ڈاکٹر طاہر شمسی بھی شامل ہیں جو حال ہی میں اس تجویز کو سامنے لائے تھے۔
ان کا استدلال ہے کہ چین میں ڈاکٹروں نے کورونا کے مریضوں پر اس طریقہ کار کا استعمال کیا ہے اور اس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں جنھیں انھوں نے دنیا بھر کے ڈاکٹروں کے لیے شائع بھی کیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ 'اس طریقہ علاج اور اس کے استعمال کے حوالے سے ایک نمونہ حکومت کے پاس جمع کروایا جا چکا ہے، انھوں نے دیکھ لیا ہے اور انھوں نے یہ کہا ہے کہ وہ یہ کریں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب، بلوچستان اور وفاقی حکومتوں کو یہ نمونے موصول ہو چکے ہیں۔
تاہم پاکستان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر عطاالرحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'اس قسم کے طریقہ علاج میں صلاحیت اور امکانات بہت ہیں تاہم اس کو اس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا جب تک یہ کلینیکل ٹرائل سے نہیں گزر جاتا۔'
ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی پُر اعتماد ہیں کہ اس طریقہ کار کو فوری استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر حکومتی رضامندی ہو تو وہ اس کا فوری بندوبست کر سکتے ہیں۔


کونویلیسینٹ پلازمہ کیا ہے؟
ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ جب بھی کوئی جراثیم پہلی دفعہ انسانی جسم ہر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کا قوت مدافعت کا نظام حرکت میں آتا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اینٹی باڈی بنتی ہے جسے امیونو گلابلن یا آئی جی ایم کہا جاتا ہے۔
اینٹی باڈی خون کے اندر بننے والا ایسا مواد یا پروٹین ہے جو جراثیم کو تلف کرتا ہے۔ یہ امیونوگلوبلن کچھ ہفتتے تک جسم میں رہتی ہے اور اس کے بعد بکھر جاتی ہے۔ دوسری مرتبہ جسم کو اسی جراثیم کے حملے کا سامنا ہوتا ہے تو اس مرتبہ زیادہ تیزی سے اس میں ایک اینٹی باڈی بنتی ہے جسے آئی جی جی کہا جاتا ہے۔

کووِڈ۔19 میں اس کا استعمال کیسے ہو گا؟
ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا تھا کہ 'کورونا وائرس کی بات کریں تو اس میں 85 فیصد سے زیادہ مریض معمولی نزلہ زکام کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اینٹی باڈی آئی جی ایم وائرس کا مقابلہ کر کے اسے ختم کر دیتی ہے کیونکہ وہ اس جراثیم کو پہچان چکی ہوتی ہے اور وہ جلدی اثر کرتی ہے۔'

کونویلیسینٹ پلازمہ اسی اینٹی باڈی پر مشتمل ہوتا ہے۔

کووِڈ۔19 کے صحت یاب ہونے والے ایسے ہی مریض کے خون سے اسے نکال کر ایسے مریض کے خون میں داخل کیا جاتا ہے جو شدید علیل ہو، اسے نمونیا ہو یا پھر اسے متعدد اندرونی اعضا کے فیل ہو جانے کا خدشہ ہو۔

'یہ اینٹی باڈی اس کے جسم میں جا کر ایسے ہی جراثیم کو ختم کرتی ہے جیسے اس نے صحت یاب ہو جانے والے مریض کے جسم میں کیا تھا۔' کورونا وائرس کی مطابقت سے ایف ڈی اے اس کو کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کا نام دیتا ہے۔

کیا یہ نئی دریافت ہے؟
ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق یہ طریقہ کار نیا نہیں ہے بلکہ اس وقت سے مختلف قسم کے ایسے وبائی امراض کے علاج کے لیے استعمال ہو رہا ہے جب ویکسین وغیرہ نہیں بنی تھی۔

کورونا وائرس بھی انسان کے علم میں نہیں تھا اس لیے اس کی کوئی ویکسین تاحال تیار نہیں ہوئی اور ہونے میں وقت لگے گا۔

ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق ایسی صورتحال میں کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کی مدد سے انتہائی علیل مریضوں کا علاج ہی موزوں طریقہ ہے۔ ایسے مریضوں کے تعداد بھی لگ بھگ دس فیصد کی قریب ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے پلازمہ کو الگ کرنے کا عمل مقامی طور پر پاکستان میں کیا جا سکتا ہے۔ 'ایک دو مریضوں میں تو ہم فوراً کر سکتے ہیں تاہم زیادہ مقدار درکار ہو تو دو ہفتے کی اندر اس کے نتظامات مکمل کیے جا سکتے ہیں۔'

ایف ڈی اے اس کو تحقیقاتی کیوں قرار دیتا ہے؟
ایف ڈی اے کے حالیہ اعلامیے کے مطابق ایسا کونویلیسینٹ پلازمہ جو کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز رکھتا ہو کووِڈ۔19 جیسی متعدی مرض کے خلاف موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی سانس کے متعدی امراض پر کونویلیسینٹ پلازمہ کی استعمال پر تحقیق کی گئی ہے، جن میں سنہ 2009-2010 میں ایچ1این1، سنہ 2003 میں سارس اور سنہ 2012 میں مرس کی وبائیں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گو کہ نتائج حوصلہ افزا تھے مگر تحقیق کی گئی ہر ایک مرض پر کونویلیسینٹ پلازمہ کی استعمال کی افادیت ظاہر نہیں ہوئی۔

'اس لیے یہ ضروری ہے کہ معمول کے طور پر کووِڈ۔19 کے مریضوں کو کونویلیسینٹ پلازمہ لگانے سے پہلے کلینیکل ٹرائلز کے ذریعے اس بات کا تعین کر لیا جائے کہ یہ محفوظ اور موثر ہے۔'

پاکستان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمان بھی اسی تجویز کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹر طاہر شمسی کو چاہیے کہ وہ پہلے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کنٹرولڈ ماحول کے اندر اس کے کلینیکل ٹرائلز کر لیں۔'

ایف ڈی اے نے پلازمہ کے استعمال کی اجازت کیسے دی؟
تاہم ایف ڈی اے نے امریکہ میں کووِڈ۔19 کے وبا کے تناظر میں پیدا ہونے والی ایمرجنسی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹروں کو کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ تک رسائی دے دی ہے جبکہ کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کلینیکل ٹرائلز مریضوں کے لیے کونویلیسینٹ پلازمہ تک رسائی کا ایک ذریعہ ہو سکتے ہیں تاہم ہو سکتا ہے کہ بوقت ضرورت یہ تمام مریضوں کے لیے میسر نہ ہو۔

ان حالات میں ایف ڈی اے مریضوں کو کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ تک رسائی کی سہولت دے رہا ہے جو کہ اس عمل کے ذریعے کیا جائے گا جس میں ایک انفرادی مریض کو لائسنس یافتہ فزیشن ایف ڈی اے کی منظوری کے ساتھ یہ پلازمہ دے گا۔

امریکہ میں اس کا استعمال کن چیزوں سے مشروط ہے؟
اس کے استعمال کے لیے ایف ڈی اے نے جو شرائط رکھی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ مکمل طور پر مصدقہ طریقے سے صحت یاب ہونے والے اس مریض سے حاصل کیا جائے گا جو خون عطیہ کرنے کا اہل ہو گا۔

یہ انہی مریضوں کو لگایا جائے گا جن میں کووِڈ۔19 کی علامات انتہائی شدید ہوں یا ان کی زندگی کو فوری خطرہ لاحق ہو۔ پلازمہ کے استعمال سے پہلے مریض کی رضامندی لینا ضروری ہو گا۔

ہر انفرادی مریض میں کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کے استعمال سے قبل ڈاکٹر کے لیے عام حالات میں ای میل جبکہ ایمرجنسی کی صورت میں زبانی منظوری حاصل کرنا ہوگی۔

ایف ڈی اے کے اعلامیے کے مطابق وہ ملک میں صحت کے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ایسا طریقہ کار وضح کر رہا ہے جس کے ذریعے ایک سے زیادہ محقق (ڈاکٹر) کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کے حصول اور استعمال کے لیے باہم رابطہ کر سکیں گے۔
اس کو تجربے میں لانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس قدر کریٹیکل ایمرجنسی
میں محض احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے کام نہیں چلے گا اور علاج کی کوئی راہ تلاشنا اشد ضروری
ہے ۔بے بسی سے اس مرض کو پھیلتے دیکھنا اور کسی معجزے کا انتظار سراسر غیر دانشمندانہ
ہوگا ۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس کے استعمال کے لیے ایف ڈی اے نے جو شرائط رکھی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ مکمل طور پر مصدقہ طریقے سے صحت یاب ہونے والے اس مریض سے حاصل کیا جائے گا جو خون عطیہ کرنے کا اہل ہو گا۔
بہتر ہو گا کہ صحت یاب ہونے والے کورونا کے ہر ایسے مریض کا رابطہ نمبر اور دیگر تفصیلات مرکزی ڈیٹابیس میں محفوظ رکھی جائیں اور اگر ان صاحب یا صاحبہ کی پیشگی منظوری لے لی جائے تو بہت بہتر ہو گا، اگر یہ پلازمہ ایک بار سے زائد درکار ہو، اگر واقعی ایسا معاملہ بنتا ہے اور ہمیں بات ٹھیک طرح سے سمجھ آئی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بہتر ہو گا کہ صحت یاب ہونے والے کورونا کے ہر ایسے مریض کا رابطہ نمبر اور دیگر تفصیلات مرکزی ڈیٹابیس میں محفوظ رکھی جائیں اور اگر ان صاحب یا صاحبہ کی پیشگی منظوری لے لی جائے تو بہت بہتر ہو گا، اگر یہ پلازمہ ایک بار سے زائد درکار ہو، اگر واقعی ایسا معاملہ بنتا ہے اور ہمیں بات ٹھیک طرح سے سمجھ آئی ہے۔
صحت یاب ہونے والے مریضوں سے پلازما حاصل کر کے ایک پلازما بینک بنایا جاناچاہیے جہاں سے مریضوں کے علاج کی غرض سے پلازما کا حصول آسان ہو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
صحت یاب ہونے والے مریضوں سے پلازما حاصل کر کے ایک پلازما بینک بنایا جاناچاہیے جہاں سے مریضوں کے علاج کی غرض سے پلازما کا حصول آسان ہو۔
نیویارک بلڈ سنٹر نے مریضوں کے علاج کے لیے پلازما جمع کرناشروع کر دیا۔
The New York Blood Center could start collecting blood plasma donations from recovered COVID-19 patients as early as Thursday, according to Dr. Bruce Sachais, chief medical officer at the center.

The blood center will be the first in the U.S. to collect the plasma, which will be used in an experimental treatment called “convalescent plasma,” it announced Wednesday. The treatment would transfer the antibodies to critically ill patients currently receiving care in New York City hospitals.​

“The idea of convalescent plasma is that people who have had a disease have made antibodies, which are molecules we use to protect ourselves from viruses,” Dr. Sachais told MarketWatch. “That [plasma] could be collected and given to a person who’s actively sick now…[and] that may help their body begin to fight the infection until their own body makes enough antibodies to clear the infection.”
 

بندہ پرور

محفلین
نیویارک بلڈ سنٹر نے مریضوں کے علاج کے لیے پلازما جمع کرناشروع کر دیا۔
The New York Blood Center could start collecting blood plasma donations from recovered COVID-19 patients as early as Thursday, according to Dr. Bruce Sachais, chief medical officer at the center.

The blood center will be the first in the U.S. to collect the plasma, which will be used in an experimental treatment called “convalescent plasma,” it announced Wednesday. The treatment would transfer the antibodies to critically ill patients currently receiving care in New York City hospitals.​

“The idea of convalescent plasma is that people who have had a disease have made antibodies, which are molecules we use to protect ourselves from viruses,” Dr. Sachais told MarketWatch. “That [plasma] could be collected and given to a person who’s actively sick now…[and] that may help their body begin to fight the infection until their own body makes enough antibodies to clear the infection.”
شکر ہے امید کی کرن نظر آئی ۔
 

زاہد لطیف

محفلین

محمد وارث

لائبریرین
یہ طریقہ کار امید کی ایک موہوم سی کرن ہے۔ موہوم سی اس لیے کہ یہ علاج سب کے لیے نہیں ہے بلکہ شدید بیمار لوگوں کے لیے ہے جن کا مرض شاید آخری اسٹیج پر ہوتا ہے۔ دوم، یہ طریقہ کار سب مریضوں پر اثر نہیں کرے گا، جیسا کہ لکھا ہے کہ کچھ پر اثر کرتا ہے اور کچھ پر نہیں۔ سوم، اس اینٹی باڈی کی اپنی بھی ایک مدت ہے جو کہ شاید کچھ ہفتے ہے اس لیے اس کا ایک وافر ذخیرہ بھی جمع نہیں ہو سکتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر صحت مند مریض سے یہ پلازما حاصل ہو جائے، ان کے دیگر مسئلے مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔

لیکن بہرحال اس سے کچھ قیمتی جانیں بچانے میں ضرور مدد ملے گی۔
 

عرفان سعید

محفلین
یہ طریقہ کار امید کی ایک موہوم سی کرن ہے۔ موہوم سی اس لیے کہ یہ علاج سب کے لیے نہیں ہے بلکہ شدید بیمار لوگوں کے لیے ہے جن کا مرض شاید آخری اسٹیج پر ہوتا ہے۔ دوم، یہ طریقہ کار سب مریضوں پر اثر نہیں کرے گا، جیسا کہ لکھا ہے کہ کچھ پر اثر کرتا ہے اور کچھ پر نہیں۔ سوم، اس اینٹی باڈی کی اپنی بھی ایک مدت ہے جو کہ شاید کچھ ہفتے ہے اس لیے اس کا ایک وافر ذخیرہ بھی جمع نہیں ہو سکتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر صحت مند مریض سے یہ پلازما حاصل ہو جائے، ان کے دیگر مسئلے مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔

لیکن بہرحال اس سے کچھ قیمتی جانیں بچانے میں ضرور مدد ملے گی۔
حتمی کامیابی ویکسین کی تیاری اور اس کی آسان اور وافر دستیابی سے مشروط ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ علاج سب کے لیے نہیں ہے بلکہ شدید بیمار لوگوں کے لیے ہے جن کا مرض شاید آخری اسٹیج پر ہوتا ہے
میرا خیال ہے کہ کورونا سے متاثرہ ہر سطح کے مریض کو یہ پلازما دیا جا سکتا ہے کیوں کہ پلازما میں موجود اینٹی باڈیز کا مقصد کورونا وائرس کو ختم کرنا ہے، البتہ شدید بیماروں کو ترجیحی بنیادوں پر ضرور دینا چاہیے۔
فاخر رضا
 
Top