ڈاکٹروں کو غذائیت کے بارے میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا

برطانیہ میں میڈیکل کے طلبہ نے کہا ہے کہ انھیں خوراک اور صحت پر طرزِ زندگی کے اثرات کے بارے میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا۔
طلبہ کے مطابق جو انھیں پڑھایا جاتا ہے وہ بعد میں ہسپتالوں میں کام کرنے کے دوران عملی طور پر زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوتا۔
ایک ممتاز ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ان کے 80 فیصد مریضوں کی بیماریوں کا تعلق طرزِ زندگی اور خوراک سے ہوتا ہے۔ ان بیماریوں میں ذیابیطس، موٹاپا اور ڈیپریشن شامل ہیں۔
اس سال برطانوی محکمۂ صحت این ایچ ایس صرف ذیابیطس پر 11 ارب پاؤنڈ سے زیادہ خرچ کرے گا، جب کہ علاج کے دوران کام سے چھٹی، سماجی دیکھ بھال وغیرہ سے یہ خرچ دگنا ہو جائے گا۔
ذیابیطس درجہ دوم کا تعلق موٹاپے سے ہے۔ اور اس وقت برطانیہ موٹاپے کی دوڑ میں یورپ میں سے سب آگے ہے۔
تاہم ڈاکٹروں کو اس قسم کی بیماریوں سے نمٹنے کی مناسب تربیت نہیں ملتی، حالانکہ یہی برطانوی طبی نظام کو لے ڈوبنے کے درپے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رانگن چیٹرجی نے بتایا: 'گذشتہ 30 سے 40 برس میں برطانیہ کا طبی منظرنامہ خاصا تبدیل ہوا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ 80 فیصد بوجھ کا باعث ہمارا مشترکہ طرزِ زندگی ہے۔'
ڈاکٹر مائیکل موزلی نے کہا: 'بدقسمی سے یہ روایتی تربیت کا حصہ نہیں ہے۔ میڈیکل کالج میں مجھے خوراک اور غذائیت کے بارے میں کچھ نہیں پڑھایا گیا۔ میرا ایک بیٹا اس وقت میڈیکل کالج میں ہے اور یہ اس کے نصاب کا بھی حصہ نہیں۔
'اس لیے بہت سے ڈاکٹر ایسے ہیں جو اپنے مریضوں کو غذائیت کے بارے میں مشورہ دینے سے قاصر ہیں۔'
اس کمی کو پورا کرنے کے لیے برسٹل یونیورسٹی میں سالِ سوم کے میڈیکل سٹوڈنٹ ایلی جیفی نے 'نیوٹری ٹینک' کے نام سے ایک آن لائن تنظیم قائم کی ہے۔
اس کے تحت تازہ ترین طبی معلومات تقسیم کی جاتی ہیں اور کالجوں میں لیکچروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اب یہ تنظیم 15 دوسرے کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پھیل گئی ہے۔
ایلی جیفی کہتے ہیں: 'میڈیکل کالجوں میں ہر چیز کی سوسائٹیاں ہوتی ہیں، نہیں ہوتیں تو غذائیت کے بارے میں۔ ہمیں میڈیکل کالج کے چھ سالوں میں غذائیت کے بارے میں کل دس سے 24 گھنٹے تعلیم دی جاتی ہے۔'
ممتاز طبی رسالے بی ایم جے کی مدیر ڈاکٹر فیونا گوڈلی نے بی بی سی کو بتایا: 'وقت آ گیا ہے کہ ہم خوراک اور غذائیت کو صحت کے لیے مرکزی اہمیت کا حامل سمجھیں۔'
 
Top