ڈالر کی نرالی قلابازیاں

جاسم محمد

محفلین
ڈالر کی نرالی قلابازیاں
سید عاصم محمود اتوار 4 نومبر 2018
1405362-dollarkiunchiuran-1541097474-478-640x480.jpg

متلون مزاج امریکی کرنسی کے پاکستانی معیشت پہ پڑتے تلخ اثرات کی تشریح کرتا معلومات افروز فیچر۔ فوٹو: فائل

گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا مشہور محاورہ ہے۔جب وقت یا انسان ایک حال میں نہ رہے تب یہ بولا جاتا ہے۔مگریہ نیا زمانہ ہے۔

اب گرگٹ نہیں ڈالر اور سٹاک مارکیٹ اتنی تیزی سے رنگ بدلتے ہیں کہ آدمی حیران و پریشان رہ جائے۔لہٰذا نیا محاورہ یہ ہونا چاہیے:’’ڈالر کی طرح رنگ بدلنا!‘‘ڈالر کی متلون مزاجیملاحظہ فرمائیے کہ 7 اکتوبر کو ایک ڈالر کے بدلے 124.27 روپے ملتے تھے، اگلے دن یہ شرح 133.64 روپے تک جاپہنچی۔

اسی طرح ہماری سٹاک مارکیٹ 16 اکتوبر کو 36880 پوائنٹ پہ بند ہوئی۔ صرف دس دن بعد وہ 40556 پوائنٹس پر پہنچ گئی۔ڈالر اور سٹاک مارکیٹ کی انوکھی قلابازیاں اپنی جگہ مگر یہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی کرنسی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہونا پاکستانی معیشت کے لیے اچھا شگون نہیں ۔ وجہ یہ کہ ڈالر کی قدر بڑھنے سے ہماری درآمدات مہنگی ہوجاتی ہیں اور یہ عمل پاکستان میں مہنگائی بڑھاتا ہے۔

پاکستان کی سرکاری و نجی کمپنیاں پٹرول، گیس، کھانے کا تیل، کھاد، مشینری، اور بہت سی صنعتوں میں استعمال ہونے والا خام مال بیرون ممالک سے منگواتی ہیں۔ جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو پاکستانی کمپنیوں کو زیادہ روپے دے کر بیرونی ملکوں سے مال خریدنا پڑتا ہے۔ چناں چہ وہ پاکستان میں اپنا مال مہنگا کردیتی ہیں تاکہ خسارے سے بچ سکیں۔ مگر اس عمل سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ خصوصاً وہ اشیا زیادہ مہنگی ہوجاتی ہیں جو بیرون ممالک سے منگوائی جاتی ہیں مثلاً پٹرول، کھانے کا تیل اور روزمرہ استعمال کی دیگر بہت سی چیزیں۔پٹرول کی قیمت میں اضافہ بہت سی اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتا ہے۔

ڈالر کی قیمت میں اضافے سے البتہ پاکستانی برآمد کنندگان خوش ہوتے ہیں۔ وجہ یہ کہ اب انہیں بیرون ممالک میں اپنے مال کی فروخت پر زیادہ رقم ملتی ہے۔سلے، ان سلے کپڑے پاکستان کی سب سے بڑی درآمد ہے لہٰذا ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملبوسات برآمد کرنے والی وہ پاکستانی کمپنیاں فائدے میں رہیں گی جو مقامی خام مال کے ذریعے اپنی مصنوعات تیار کرتی ہیں۔ جن پاکستانی برآمدی کمپنیوں کی پیداوار یا مصنوعات بیرونی ممالک سے آئے خام مال کی محتاج ہے تو ان کے لیے ڈالر کی قیمت بڑھنا عموماً مسائل و مصائب کی خبر ہی لاتا ہے۔ خام مال مہنگا ہونے سے لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔

قرضوں کا بڑھتا پہاڑ
1947ء میں قیام پاکستان کے وقت روپے اور ڈالر کی قیمت برابر تھی۔آنے والی حکومتیں بیرون ممالک سے مال و اسباب منگوانے لگیں، تو رفتہ رفتہ ڈالرکی قیمت بڑھنے لگی۔ اب ایک ڈالر کی قیمت 132 روپے کے آس پاس گھوم رہی ہے۔ روپے کی قدر میں یہ گراوٹ و پستی ہمارے حکمران طبقے کی نااہلی، کرپشن اور مجرمانہ غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستانی سرکار اور نجی شعبہ بیرون ممالک سے کئی اشیا خریدتا ہے۔ اسی لیے ہمارے پاس معقول تعداد میں ڈالر ذخیرہ ہونے چاہئیں۔ مگر پاکستانی حکومت کے ذخائر ڈالر پچھلے تین سال میں بہت کم ہوچکے۔وجہ قرضوں کا بڑھتا پہاڑ ہے۔پچھلے دس سال میں حکومت تقریباً ’’تیس ہزار کھرب روپے ‘‘کی مقروض ہوچکی ہے۔ اسے اب عالمی مالیاتی اداروں، قومی بینکوں اور غیر ملکی حکومتوں کو کھربوں روپے کے قرضے ادا کرنے ہیں۔ اس محیر العقول رقم کا صرف سود ہی اربوں روپے میں ہے۔ چناں چہ پاکستانی حکومت ہر ماہ کچھ اصل زرمع سود ڈالروں کی شکل میں عالمی و قومی مالیاتی اداروں کو ادا کرتی ہے۔یہ روش حکومت پاکستان کے ذخائر ڈالر میں بے پناہ کمی لے آئی۔

جب وزیراعظم عمران خان نے حکومت سنبھالی تو ان کی سعی رہی کہ دوست ممالک سے امداد و قرض لے کر اسٹیٹ بینک کے ذخائر ڈالر بڑھائے جائیں۔ وہ دراصل مشہور عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف سے قرض نہیں لینا چاہتے تھے۔ یہ ادارہ قرض تو دیتا ہے، مگر ایسی شرائط کے ساتھ جن پر عمل درآمد کرنے سے خصوصاً عوام کے ناتواں کندھوں پر مہنگائی کا مزید بوجھ بڑھتا ہے۔درست کہ پاکستان کے موجودہ معاشی مسائل کی ذمے دار سابقہ حکومتیں ہیں لیکن سوال یہ کہ کیا عمران خان حکومت سنگین مسائل حل کرسکے گی؟

فی الوقت تو معاشی مصائب بڑھ رہے ہیں۔مثلاً 7 اکتوبر کوڈالر کی قیمت بڑھنے سے پاکستان پر نوسو ارب روپے کے قرضے بیٹھے بٹھائے بڑھ گئے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے قرضوں کی مالیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔حالیہ مالی سال قرضے اتارنے، سود دینے اور بیرون ممالک سے مال و اسباب خریدنے کی خاطر پاکستانی حکومت کو 22 سے 25 ارب ڈالر درکار ہیں۔ مگر تادم تحریر اس کے پاس سات آٹھ ارب ڈالر موجود ہیں۔ اس رقم سے بمشکل ڈیڑھ ماہ گزرنا ممکن ہے۔ اسی لیے عمران خان حکومت مجبور ہوگئی کہ وہ کشکول اٹھا کر در در بھیک مانگنے لگے۔

عام لوگ کیا کہتے ہیں؟
ہم نے ایک سروے کرتے ہوئے مقامی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات، سرکاری ملازمین اور معاشرے کے مختلف طبقات میںشامل افراد سے دریافت کیا کہ وہ ڈالر کی اڑان اور پاکستان کے معاشی حالات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے خیالات درج ذیل ہیں:

٭… یونیورسٹی طالب علم، عمیر احمد نے کہا ’’ڈالر کی قیمت میں مسلسل اس لیے اضافہ ہورہا ہے کہ ہم بیرون ممالک سے بہت سارا سامان منگوانے لگے ہیں۔ یعنی ہماری درآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ 1980ء میں ہماری درآمدات صرف چار ارب ڈالر تھیں۔ آج وہ پچپن ارب ڈالر کا ہندسہ پار کرچکیں۔ یہ رجحان بتاتا ہے کہ ہم پاکستانی بیرونی اشیا استعمال کرنے کے دیوانے ہوچکے۔ اگر ہم پاکستان کی معیشت مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں درآمدات کم سے کم کرنا ہوں گی جبکہ برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ابھی ہم صرف اکیس بائیس ارب ڈالر کی برآمدات کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی برآمدات بھی ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔‘‘

٭…بینش طالبہ ہیں۔ ڈالر کی قدر میں اونچ نیچ آنے کے متعلق انہوں نے کہا ’’روپے اور ڈالر کا ایکسچینج ریٹ اس امر پر منحصر ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر کی کتنی تعداد موجود ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں کے پاس وافر تعداد میں ڈالر ہیں، تو روپے کی قیمت مستحکم رہتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ڈالر کم ہوجائیں تو پھر لامحالہ اس کی قدر بڑھ جاتی ہے۔حکومت پاکستان قرضوں اور سود کی ادائیگی کررہی ہے۔ اس ادائیگی میں ابھی مزید اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے، ڈالر کی مانگ بڑھے گی اور اس کی قیمت بھی! ہماری خوش قسمتی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بڑی تعداد میں ڈالر پاکستان بھجواتے ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتے تو پاکستانی معیشت اب تک بیٹھ چکی ہوتی۔ مگر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد روز بروز کم ہورہی ہے۔ لہٰذا حکومت کو اپنی معیشت مضبوط کرنا ہوگی ورنہ ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے۔‘‘

٭…رضوان شاہ امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا ’’ایک ملک اپنی برآمدات بڑھائے تو کرنسی کی قدر کم کرنا مفید ہے۔ لیکن فائدہ صرف اسی وقت ملتا ہے جب برآمدات ملکی خام مال سے تیار کی جائیں۔ اگر بیشتر برآمدی مصنوعات بیرون ممالک سے خام مال منگوا کر تیار ہوتی ہوں، تو کرنسی کی قدر کم کرنے سے الٹا نقصان ہوگا کیونکہ خام مال مہنگا ہوجاتا ہے۔ہماری ملکی مصنوعات پھر عالمی منڈیوں میں دیگر ملکوں کی سستی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر پاتیں۔‘‘

٭…ڈالر کے بارے میں طالبہ، زارا نے کچھ یوں اظہار خیال کیا ’’روپے اور ڈالر کا ایکسچینج ریٹ غیر فطری ہے۔ یہ دونوںکرنسیوں کی صحیح قدروقیمت ظاہر نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ایک سو تیتیس روپے (ایک ڈالر) میں آپ ایک وقت کا کھانا کھاسکتے ہیں۔ مگر نیویارک میں ایک ڈالر سے صرف ٹافیاں ہی خریدیں گے۔اس لحاظ سے تو ہماری کرنسی بہتر ہوئی۔ ‘‘

٭…ابوزر کچھ عرصہ قبل امریکا سے پاکستان آئے ہیں۔ وہ ملکی معاشی حالات کی بابت کہتے ہیں ’’میں مارچ 2018ء میں امریکا گیا تھا۔ تب ایک ڈالر کے بدلے 104 روپے ملتے تھے۔ اب واپس آیا تو ڈالر 133 روپے کا ہوچکا تھا۔ گویا ڈالر کی قدر میں حیران کن اضافہ ہوگیا۔ ایسے ناگفتہ ماحول میں ایک ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے؟میرا مشورہ یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات پر قابو پائے اور سادگی اختیار کرے۔ مزید براں لگژری اشیاء کی درآمد روکے۔ اخراجات گھٹا کر ہی ہم سنگین معاشی بحران پر قابو پاسکتے ہیں۔‘‘

٭…علی حسین عمررسیدہ پاکستانی ہیں۔ ان سے گفتگو ہوئی تو وہ کہنے لگے ’’میاں! میں تو ایک بات جانتا ہوں، یہ کہ وردی والوں کی حکومت میں عوام خوشحال اور مطمئن رہے۔ ایوب خان کے دور میں ایک ڈالر صرف ڈیڑھ روپے کا تھا۔ جب بھی جمہوریت والے آئے، ان کی حکومتوں میں مہنگائی عوام کے سروں پر سوار رہی اور انہوں نے ہمیں مقروض بنا دیا۔ اب تم خود ہی بتاؤ،جب جمہوری حکومتوں میں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل ملے تو کیا میں جمہوریت کے گُن گاتا پھروں؟‘‘

٭…خرم امین مقامی یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’اپنی کرنسی کی قدر کم کرنا بڑا خطرناک عمل ہے۔ وجہ یہ کہ اس طرح معیشت کا سائز کم ہوجاتا ہے۔ ماضی میں ہماری قومی معیشت کا سائز 350 ارب ڈالر تھا۔ لیکن روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کے باعث وہ 270 ارب ڈالر سے بھی کم ہوچکا۔ خدشہ ہے کہ وہ 250 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔جب قومی معیشت کا حجم کم ہوتا جائے اور کرنسی کی قدر بھی گھٹتی رہے، تو ملک اپنے قرضے ادا نہیں کرپاتا۔ مسلم لیگ ن حکومت نے بے شک کھربوں روپے کے قرضے لیے مگر اس نے ساڑھے چار سال تک ڈالر کی قیمت کو 102 سے 105 روپے تک رکھا۔مسلم لیگی اقتدار ختم ہوتے ہی نگران حکومت آئی،تو اس نے مارکیٹ کی قوتوں کو ڈالر کی قیمت زیادہ کرنے کا اختیار دے دیا۔ نئی حکومت بھی اسی کے نقش قدم پر گامزن ہوگئی۔ لہٰذا ڈالر کی اڑان روکنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔‘‘

٭…خرم امین کے ایک دوست ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ کہنے لگے ’’میں اپنے دوست کی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ مسلم لیگ ن حکومت نے مصنوعی طریقوں سے ڈالر کی قیمت بڑھنے نہیں دی۔ اس عمل سے معیشت کو نقصان پہنچا اور وہ تباہی کی جانب گامزن ہوگئی۔اب ڈالر کا ایکسچینج ریٹ فطری انداز میں طے ہوگا۔ ممکن ہے کہ وہ آنے والے مہینوں میں 160 یا 170 روپے تک پہنچ جائے۔ اس طرح ہماری برآمدات بڑھیں گی اور ڈالر کے ہمارے ذخائر بھی بڑھ جائیں گے۔دراصل مسلم لیگ ن حکومت وقتاً فوقتاً ڈالر مارکیٹ میں پھینکتی رہی تاکہ ڈالر کا ریٹ کم رہے ۔لیکن اب پی ٹی آئی حکومت کے پاس اتنے ڈالر نہیں کہ وہ مارکیٹ میں لاکر ریٹ کم کرسکے۔

پچھلی حکومتوں نے جو بھاری بھر کم قرضے لیے، انہیں ادا کرنے کی خاطر اب حکومت کو ہر ایک ڈالر بھی بچا کر رکھنا ہے۔ماضی میں حکومتوں نے انتہائی زیادہ شرح سود پر قرضے لیے اور پاکستانی قوم کو زیر بار کردیا۔ میں اپنے دوستوں کو کہتا تھا کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت مضوعی طور پر کم رکھی جارہی ہے اور یہ ایک دن ٹائم بم کی مانند پھٹ کر اوپر جائے گی۔ پی ٹی آئی حکومت کی بدقسمتی یہ ہے کہ ٹائم بم اس کے دور میں پھٹ گیا ۔لیکن کسی بھی پارٹی کی حکومت ہوتی،اس بم نے آخر پھٹنا ہی تھا۔‘‘

٭…ثاقب حمید ایک بزنس مین ہیں۔ معاشی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے ’’پاکستان کو اس وقت قرض نہیں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ عمران خان کوچاہیے کہ وہ ایسے اصول و قوانین بنائیں جن کے ذریعے پاکستان میں کاروبار کرنا آسان ہوجائے۔ خاص طور پر وہ یقینی بنائیں کہ افسر شاہی غیر ملکی کمپنیوں سے کمیشن یا رشوت نہ لے سکے۔ بیرون ممالک سے کی گئی سرمایہ کاری بڑھنے سے خود بخود مارکیٹ میں وافر ڈالر آئیں گے۔‘‘

٭…سلمان بٹ تاجر ہیں۔ انہوں نے معاشی بحران سے نمٹنے کا حل کچھ یوں پیش کیا ’’چین کے ساتھ باہمی تجارت میں ہمیں بہت زیادہ خسارہ ہورہا ہے۔ چین ہمیں تقریباً سولہ ارب ڈالر کا سامان فروخت کرتا جبکہ وہ صرف پونے دو ارب ڈالر کا پاکستانی مال خریدتا ہے۔ اس باہمی تجارت سے ہماری مقامی کاروبار اور صنعتوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔لہٰذا چین کو کہا جائے کہ وہ پاکستان سے کم از کم دس ارب ڈالر کا سامان خریدے تاکہ باہمی تجارت متوازن ہو اور پاکستانی برآمدات بڑھ سکیں۔ اس کے علاوہ بھارت کو ’’ایم ایف این‘‘ (موسٹ فیورڈ نیشن) کا درجہ دینا چاہیے۔ یوں بھارتی مال دبئی کے راستے آنے کے بجائے براہ راست بھارت سے آئے گا۔ اسی طرح ہمیں اربوں روپے کی بچت ہوگی۔ ہوسکے، تو پاکستان کو افغانستان اور بھارت سے تجارت کے لیے اپنی زمین دینی چاہیے۔ پاکستان اس تجارت کی فیس کے ذریعے سالانہ چند ارب ڈالر کماسکتا ہے۔‘‘

٭…سلیم احمد دکان دار ہیں۔اپنا اسٹور چلاتے ہیں۔ ان سے معاشی صورت حال پر کچھ کہنے کو کہا، تو وہ حکمرانوں سے بہت شاکی نظر آئے۔ کہنے لگے ’’حکمران کوئی بھی ہو، اس کا بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ ملک کو معاشی ترقی دے تاکہ عوام خوشحال ہوسکیں۔ ہمارے کسی حکمران نے عوام کی بھلائی پر توجہ نہیں دی، وہ بس خود کو دولت مند بنانے پر لگے رہے۔ اگر ایسے ہی حالات رہے، تو ملک کبھی ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں ہو سکتا۔‘‘
 
Top