ڈائری سے ماخوذ

نور وجدان

لائبریرین
کیوں رے من موہن، دور کیوں تھے؟ ایسا وار دوری نے کِیا، چُنر کی پروا نَہ رہی، کملی میں توری صَدا رہی ۔۔۔۔

میں دور نَہ تھا
ہر وقت رگِ جان سے قریب تھا
جیسے آج تُم مجھے جانِ قرین ،جانِ حزین سمجھتی ہو
میں تُمھاری لقاء کا پرندہ ہو
میں تُمھاری دید سے متعارف ہوں
تُم بھی ...... ،کتنی انجان ہو

رقص ہوتا کیا ہے؟ جب تک رقاص کا وجود نَہ ہو داسی کو اب رقص سے رقاص اور رقاص سے رقص تک کا فاصلہ ناپید ہوتا دکھائی دینے لگا ...
گھنگھرو باندھ کے
سج دھج کے
کنگنا بانہوں کو پہنا کے
سندور کو مانگ میں ڈال کے
کہنے لگی

داسی ....
اوری بگھوان داسی
رقص کر
رقاص سے ملنا ہے
جھومر پہن
چہرہ دیکھنا
سندور لگا
سہاگ سلامت رہے

وہ پگلی، بات سے بات سے نِکال محو گفتگو رہی ... اور گول دائرے میں رقص کرتے پیار کی غزل بننے لگی ... اسکی روح نے تال و سر ملا کے اک ہی تسبیح میں سجدہ کیا

من موہن، من موہن، چندر مکھ مورے ساجن
تجھ بن داسی کو چین نہ اک پل
شبد کامنائیں تجھ میں تحریر
تری کہانی کا پنکھ سرا ہوں میں
تجھ سے جڑا ہیرا ہوں میں
میری تنہائی کی یاترا ہوں تم

من موہن سامنے
پردہ ہٹ گیا رقص میں
بدن زخمی ہوتا گیا
روح سرشار و مخمور

جسم زمین پر ڈھے گیا، وہ من موہن کے ساتھ بامِ فلک پر بے جان بدن کو دیکھ کے کہنے لگی
.
تم نے کہا تھا محبت امر ہے
لو دیکھو
امر ہوگئی
بھگوان داسی من موہن کی ہے
سدا تری گونج بن کے
اک نغمہ سناتی رہوں گی
میں تو بن کے آتی رہوں گی
کون پہچانے گا مجھے؟

وہی جو بھگوان داسی و من موہن کی تلاش میں ہوں گے .... یا وہ جو شناسائی سے گھائل ہوں گے ...من موہن نے فلک کی سرخی سے مانگ کا سندور اور گہرا کیا اور بندیا لگا کے کہا

چلو رشکِ طائر ہو جاؤ
میرا دھواں تمھارے ساتھ ہے
نغمہ بن کے مرا
تم رہو زمانے کے ساتھ
 

نور وجدان

لائبریرین
سانسوں کی آنچ پر پَلنے والا عشق کسی نام کا محتاج نَہیں ہوتا . میں جب تمھارے ساتھ تھی اور پردیسن نہیں ہوئی تھی تو کتنی قربت تھی ... تم نے تو سانس در سانس پلنے والی قربت کو اتنا دلاویز بنا دیا تھا کہ مست و سرشاری کا دھواں سمانے لگا تھا ... پھر وقت ایک سا نہ رہا، تمہیں اپنے آئنے و عکس میں مماثلت کا کاروبار کرنا تھا اور مجھے گاؤں سے شہر آنا تھا کہ آئنہ لے آؤں ... تم نے اپنی محبت میں پردیسن کردیا ... شہر انجان، اس کے رستے انجان اور میں دکھیاری روٹھی روٹھی سڑک کے کونے پر بیٹھی تھی. تب اک پردیسی سے تمھاری شناسائی کا قصہ ملا ... میں روتے روتے اسے شہر آنے کی وجہ بتا بیٹھی

سائیں، نے آئنے کا کہا ہے ..... کہا ہے آئنہ تلاش کر ورنہ لوٹ کے آنے کی ضرورت نَہیں ہے

وہ شہری عمیق گہرائی سے آنسو کو دیکھ رہا تھا اور میرے آنسو ہوا میں حل کے زائل ہونے لگے ...میں نے پُوچھا ...

کون ہو تُم؟ .....
کہا: جس کی تمھیں تلاش ہے
بولی: آئنے کی تلاش ہے، تمھاری نہیں
کہا: ببو سائیں نے بتایا نہیں تھا آئنہ ہے کیا؟ .
بولی: ببو سائیں کا تو کاروبار ہے، کہا آئنہ فروش ایک ہی ملے گا اس کے پاس اک آئنہ ہوگا
کہا: ببو کیا کرے گا آئنے سے؟
بولی: وہ مجسمے بناتا ہے اس میں آئنے نصب کرتا ہے ... اور پھر دَم کرتا ہے پھونک سے وجود آتا مجسمہ بیچ دیتا ہے
کہا: تم بھی ایسے بنی ہو؟
بولی: ہاں
کہا: تو سیدھا سا کہو تمھیں اپنے آئنے کی تلاش ہے ورنہ ببو سائیں خود آجاتا

من گھائل
اکھیاں مائل.
حضوری کی بندیا.
دید کا کاجل.
تصویر کا آئنہ لیے

وہ شہر سے گاؤِں کے راستے پر تھی ...گارڈز نے گاؤِں کے روک دیا ...پوچھا منع کاہے کو؟

کہا ببو سائیں کا حکم نہیں.
بولا سائیں نے تو بلایا ہے
کہا: آنا ہے تو ابھی نہیں ...
بولی کب آنا ہے
کہا: آئنہ لگوا کے آئی، لگانے نہیں آگے؟
نقش تصویر اپنے لیے نہیں ہوتی
یہ بانٹنے کے لیے ہے
جاؤ، ببو سائیں کی تصویریں بانٹیں اس آئنہ دینے کے والے نام سے ...
وہ لوٹ آئی ... روتے روتے ببو سائیں نے کھیل کیا آٰئنہ کی تلاش کے نام پر مگر ریت تو نبھانی ہی تھی

سائیاں تری ریت نبھانی ہے
ازلوں پرانی یہ کہانی ہے
دل مرا تری ازلی نشانی ہے
جس میں یاد کی لوح نرالی
یاد کی لوح سے
پیار کے لکھے گیت کو
گنگنائیں،
کہیں کیا ہی اچھا گیت ہے
خود کو دیکھیں اور مرجائیں
کہیں کیا ہی اچھی صورت ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
ناراض ناراض سی رادھا سائیاں سے، مکھ کو اُن سے موڑے مگر جانت نہ تھی سائیاں اس سے آنکھ لگائے بیٹھے ہیِں ... وہ آنکھ چار نہ کرے تو خامشی کیا بات کرے. رادھا نے بے خبری میں کہا 'تو دھیان میں مت آ' دھیان دیوار پر تجسیم ہوگیا ...پیچھے سائیاں، آگے سائیاں ۔۔۔ کملی رادھا جانت نہ تھی کہ اس سے ساتھ کیا ہورے ۔۔۔۔ وہ ان کی ہوَت مگر ان سے چھپائے رے

مکھ موڑے کیوں بیٹھی ہو؟
سجنیاں کے ہوتے بے مروتی
کیوں نہ بولے رادھا ہم سے؟

رادھا نے پیچھے نہ دیکھا کیونکہ موہن پی دھیان کی میان میں آگئے تھے .. رادھا بے سدھ خیال تھی موہن پی میں .... رادھا چلی سنگ در سنگ ہوتے کسی مجمع کے پاس. ... مجمع کسی کو روک لگا رہے تھے اور کہہ رہے تھے اسکو مار دو اس نے کفر کیا ہے..... کافر کو زندہ رہنے کا حق نہیں تھا .. موہن پی رادھا سے بولے ..

کیا اس نے لم یلد ولم یولد کی تسبیح میں کوتاہی کی؟
.

مجمع ہُو بولنے لگا .... سب نے کہا تم تو ایک عورت ہو، تم پر سوال جچے نَہیں ... سوال کا اختیار ہمارے پاس ہے. رادھا نے کہا

کیا تم اس شجر کے آر پار بہ جسم گزر سکتے ہو؟
اگر نَہیں تو پناہ مانگو اس وقت سے تم پر جب آری چل پڑے


وہ مجمع چھریاں لہرانے لگا اور کہنے لگا اس کو مار ڈالو ورنہ اسکا فکر و دھیان ہمیں کہیں کا رہنے دیگا .. رادھا نے گول دائروی رقص شروع کیا اور پورے مجمع میں آگ کا شور بہنے لگا. سب نے سینے پکڑ کے، دل پر ہاتھ رکھ کے کہا
.
تو کون ہے؟ .

میں وہ ہوں، جس کے لیے تم چکر کاٹ رہے ہو دل تھامے، آگ گرفتہ ہو

ہمیں اس آگ سے بچالو .....

یہ لو اللہ کی رسی ... رادھا نے رسی پھینکی ...دل پر دمِ عیسی کا گمان ہونے لگا، نگاہیں یدِ بیضائی ہالے بنانے لگیں ....

قلوب جھک گئے ..... قلوب مر مٹے ....

رادھا کو ہوش آگیا تو موہن جی دھیان کی دیوار پر بولے ....

اللہ کی رسی تھامے رکھو
 

نور وجدان

لائبریرین
کسی جنگل میں خواب چلا گیا اور خواب کو کَہیں کوئی انسان نہ دکھائی دِیا .... جنگل میں سائیاں بنے اشجار اس سے بات کرنے لگے. اس نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا جنگل ہے جہاں ذی نفس کا نام و نشان نَہیں ہے. میں اک تَلاش میں ہوں، تَلاش اس نامعلوم جنگل جانب لے آئی

پربت بول اٹھا، شجر کا گواہ مجھے جانو، یہ حق سچ بولتا ہے ..... پربت کی زمین سنہری بھوری اور اسکی سطح سرخ و لعل زیں ....

شجر نے کہا کہ جب سے گیان کا سودا کھٹا پڑا، ادھر کا رُخ کوئی نَہیں کرتا .... سب کو افلاک سے دعا چاہیے اور کوئی شجر سے کچھ لیتا نہیں ہے

پھر توقف کیے بنا اک حوالہ بن گیا، اس کا آگ آلود جسم روشنی کی لاٹیں چھوڑ رہا تھا اور وہ سرمہ ہو رہا تھا .... اس کی مدہوش و مدھر صدا سنائی دی

والتین * والزیتون*

میں وہ شاخ انجیر ہوں
میں وہ زیتون کا بربرکت درخت ہوں جس سے تم جلتے جلاتے ہوں

خواب نے یکلخت بیدم سے دم میں آتے پوچھا

سردار ہو تُم یا یہ شجر کا روپ دھارے کوئی طاقتِ غیر مرئی؟

شجر بولا: تم اپنی طلب میں سچے نَہیں ہو نہر مطہر سے ہاتھ دھونے والے قربانی سے دریغ نہیں کرتے .... تم سچے طالب بن جاؤ، تم کو سمجھ لگ جانی کہ چار چراغ جب تک جلیں نہ، معارفت حاصل نہیں ہوتی

خواب بولا: چار چراغ کون سے ہیں؟
.شاخ انجیر
زیتون کا بابرکت درخت.
طور سنین
شہر مکہ

یہ چار چراغ جب تک نہ جلیں، تب تک اسفل الاسافلین سے احسن التویم کی فہم نہیں ہوتی .... یہ چراغ جلتے نہیں جلائے جاتے ہیں

خواب بولا: تو امانت یہ مجھے دیدو

شجر بولا: یہ بات خواب سمجھ سکتا ہے کہ انسان ظلوما جھولا ہے ...نادان ہے بار ندامت اٹھا کے سمجھ نہ پایا کہ اس کے پاس امانت ہے

شجر پر نور کی لاٹیں، نور نے خواب کو کاغذ جیسا جلا دیا. کاغذ کی خوشبو کا دھواں رادھا نے بیدار ہوتے محسوس کیا اور کہنے لگی

روم روم مہک رہا ہے.
عنبر و عطر سے سجا
مرا دل مشک و گلابی
آفتاب مانند سحابی
 

نور وجدان

لائبریرین
ضرب لگے تو جانو ۔۔۔ جو ہاتھ تمھاری مہندی سے سج چکے ہوں وہ غیر کی مہندی کیسے لگائیں گے ۔۔۔ جس لمس سے چادر تم نے مجھ پر ڈالی، اس لمسیت والی چادر کو اکثر چومتی ہوں، کہتی ہوں: تو نَہیں تو ترا نشان سہی ... پر تو ازل کے پرتوں سے جگمگاتا ستارہ بن کے مجھے اپنی گود میں لے کے اندھیروں کو مٹا دیتا ہے ... بدنما دھبوں کو ضو دے کے پھیکا کرتا رہتا ہے اور رنگوں کو شوخ کرتا رہتا ہے ... لوگ تجھے جسمِ نازنیں سمجھیں گے مگر مری نگاہ سے جو دیکھیں تو وہ سمجھیں گے کہ تو ہے کیا؟ تو وُہ ہے جس کو دیکھ کے رنگ اُڑ گئے اور تو نے رنگ خالی کاغذ پر بھر کے کہا ...پکڑ اپنی تصویر ... سارے رنگ ترے مجھ میں؟ میں خالی ہوگئی سائیاں ... میرا دل تری آشاؤں کی جھولی ہے. ترا سوا دسدا نہ کوئی ..تو ہے اعلی و افضل و برتر ..... آج میرے وجود کی چادر دیکھ کے مجھے حسین کہنے والو، یہ تو کسی عطار نے پہنا دی ... عطر فروش کے پاس خوشبو کا نور تھا اور وہ اصل کہانی کا سرا ہے. سرے سے سرا ملتا جائے تو رب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا جاتا ہے. اس دنیا میں دو حقیقتیں اک اکائی میں ہیں، باقی کثرتیں جلوہ نمائی میں ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
تم آکاش کا سندر ستارا ہو، یہ کہا کس نے؟ وہی جو شبِ الفت کا مارا ہے

نَہیں، تم فریب میں ہو
الفت کی بازگشت میں قید ہو
نَہیں جانتی ...
ستارے بامِ دل کے فلک پر ہوتے

تمھاری کشتی میں پیار کا پانی تمھیں ہچکولے دے رہا، وہ تمھیں چپو چلانے کی پروا سے بے نیاز کر رہا ہے کیونکہ پیار عطا ہے، پیار کسب نَہیں ہے ۔ جنبشِ خم سے ابروئے ناز تک کھلی کلی کو دیکھ کے جنم لینے والا پیار، فراق کی کشش سے بیرون سے درون میں صورت گری کرنے لگتا ہے. پھر گمان ہوتا ہے دنیا کے سارے خزانے اندر نہیں ۔ مٹی کے بُت سے دور جانے والو، تم جان لو، ، تمہیں اپنی مٹی کی تخلیق کی صدا باہر سنائی دیتی ہے وہ باہر ظاہر ہو تو جاتا ہے مگر تمھیں غیر کا ہونے نہیں دیتا. تم اور وہ غیر نہیں. غیر کہنے والے کافرو! تم محبت کی دشا کیا جانو. اگر جانو تو اس سے سنو جس کی نیّا کا چپو الوہی ہے

سنو، میں نے من موہن کو دیکھا، پہلے ساکت ہوگئی کہ تو کون ہے؟ کہیں سنا سنا نغمہ جاگ اٹھا، سوچا کہاں سے ابھرا ہے ۔۔ میں نے سورج کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ... میرا وجود مشک و کافور ہونے لگا. سورج نے مجھے پیار کی مہندی لگا دی ...... پھر سہاگ کی چادرپہنا دی .. میں آج اس کی سہاگن ہوں جس کی مہندی مجھ پر نقشِ اثبات ہے ....

مورے پیا ااا
ترے پیار کا گیت مدھر
تو نے مجھے گایا
جس نے سنا ...
اس نے سراہا مجھے مگر
تجھے جانا سب نے اس طرز
کوئل کی کُو کُو میں
جھینگر کی ہُو ہُو میں
طائر کی غٹر غوں میں
تم کو جب سنتی ہوں
پیار کا گیت لکھ دیتی ہوں

اس گیت کو سننے والے جان کہاں سکتے ہیں، گیت لکھوایا گیا، باہر وجد کی تصویر دکھا کے، صدا لگوا کے، صدا کو امر کروایا گیا ..بُت ٹوٹ جاتے ہیں صدائیں امر ہو جاتی ہیں .. کون جانے اس راز کو ....کون جانے ...جو جانے وہ عشق میں ڈوبا پُجاری ہے. اس سادھو کے دھیان کو چھیڑنے کی غلطی نہ کرنا، تمھیں بھی دھیان لگ جائے گا، گیان کی دنیا پجاریوں کی دنیا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
آکاش سے کاشی کی صدا میں لکھا تجھ میں تحریر ہے .... صدا کو پانے کے لیے کنواں میں چھلانگ ضروری ہے

کیا تُم تیار ہو؟

کیا پیار کی نیّا میں پریم بیٹھے گا؟

پریمی ہی تو چھلانگ لگاتا ہے اور کودم کودم کی صدا آتی ہے ..... پیار کی نیّا سے کود گئی ناری اور پریم نیّا میں باقی رہا

کنواں سے غائب ناری تلاش و جستجو میں غائب تھی کہ عشق کا کنگن پہننے والے کا مقدر ایسے کنواں کی یاترا ہے جبکہ پریم نیّا پر بیٹھا فریب دلاتا ہے کہ یہاں راکھی بیٹھی ہے ... راکھی نے غائب ہو کے جانا کہ کیا تھا اسکا ٹھکانا ..ویرانہ سندر ہے کاشانہ .... ویران مندر میں اک خوئے سیرت ،ماہتابی جگنو، رنگی مہک و بو، وجد کی فضا سے مخمور کہہ رہی تھی پریم نے مجھے گھائل و زخمی کر دیا ہے ۔۔۔ میں نے اندھے ہو کے کنواں میں چھلانگ تو لگا دی مگر وہ ہے کہاں؟

وہ کہاں کہاں نہیں؟

اکدم اسے منظر دکھنے لگا. اس کی نیّا میں بیٹھا پریم کسی ٹیکسی والے کو پیسے دے رہا تھا ... ٹیکسی والے سے بھاؤ تاؤ کا جھگڑا ہوا، وہیں قیس کا رقعہ تحریر ہوا، یہ ڈیش بورڈ پر سکے پڑے چند تڑے مڑے کاغذ، راکھی ادائے بے نیازی سے چَلی ... وہ اک اللہ والے کے گھر جا بیٹھی .. ملاقات ہونے لگی ۔۔۔۔ وقتِ ماضی حال ہوبے لگا، اسرار موثر ہونے لگا، اعصاب قوی ہونے لگے، لکنت زدہ زبان میں فصاحت و بلاغت آنے لگی ... بس جھکی جھکی نگاہ جان گئی نظامِ خدا کہ سرکار کا راج ہے یہاں ... ہر ذرے کی افشاں، ہر ذرے میں پنہاں ..
 

نور وجدان

لائبریرین
احساس کا شُعلہ جوالہ بَنی راکھی نے دیوارِ دل پر لگے مصور کی تصویر کو چوما اور لہک لہک کے کہنے لگی

"محبت الوہی نغمہ ہے،
پیار کا وجود ہے،
سادھؤوں کا منتر ہے،
اسیروں کی تمنا ہے،
طائرِ آزاد کی خوشی ہے،
مجنوں کی لیلی ہے
رات کے سر مئی بالوں کی چاندنی ہے
سنّاٹوں کی صدا ہے
اندھیروں کا اجالا ہے
لمسِ بے مثل و بے پناہ ہے
رگِ دل کی روح افزاء ہے .... "

چیخ سی نکل گئی ... وہ مصور کی تصویر کے سامنے بیہوش ہوگئی .. اس سے اپنا گیت سہا نہ گیا،اس کا نغمہ اس کے بدن کی قید سے نکل گیا تھا ۔۔۔ تصویر سے مصور کے روبرو نغمہ ہوا تھا ..مصور نے اس سے خطابت کی اور ستم کی بوچھاڑ ....

آگ و دھواں ہے
تو مری مٹی کا رُواں ہے
تو عشق میں ڈوبی ہے
میرے گُلاب سے مہکی ہے
تو آس و نراس کا بندھن ہے
میری تخلیق کا رُخ ہے
میرے تلک کی سانجھ ہے
میری آنکھ ہے تو

سرمہ توری آنکھ بن کے ناچوں
میں سپنوں کی رادھا ہوں
میں اجنبی دیس سے دیس میں ہوں
کیسی مخمور ہوں میں

وہ گھائل اڑان سے، نردوش و سہمی سہمی ... مصور نے تصویر سے پردہ اٹھایا ہی تھا ۔۔۔ کاشی مسکرایا ہی تھا ۔۔۔۔ وہ نغمہ رو راکھی اٹھ کھڑی ہوئی ... رقص سے روئی بدن منجمد پانی جیسا تھا ..آنکھ میں خماری تھی ... اس نے تصویر من مندر میں جگہ جگہ لگائی ... خود تصویریں بناتی رہی اصلی تصویر سے ...دیکھے تو سہی اس کی مصوری بھی مصور کے روبرو کرتی ہے یا نہیں، یا صرف کہ اصل مصور کی اصل تصویر ....

کاشی عنبر سے مسکرایا

اصل و نقل کچھ نہیں ہوتا.
تری پھونک مری پھونک ہے
ترا ہاتھ مرا ہاتھ ہے.
تری آواز میں مری صدا ہے
ترا روپ مرا روپ ہے

.راکھی من ہی من میں مسکائی اور لحجائی ...بندیا لگا کے، سندور لگا کے، کنگنا ہاتھ میں سجا کے، بال بال کو مہکا کے گھومنے لگی اور کہنے لگی، اصل راز کھُل گیا ہے ..تضاد سے پردہ اٹھا گیا ...وہ دراز شب خانے میں تھی مگر خیال قید میں کہاں تھا ...الوہی خیال نے، ہاں .... اسے خیال کردیا تھا ..منجمد پانی جیسا جسے اسکی برقِ نُو جگائے
 

نور وجدان

لائبریرین
صاحب اپنے پیار کی بندی ہوں ...

کنیز سامنے مالک کے بیٹھی تھی اور وہ پوچھ رہے تھے کہ تم اداس کیوں ہو؟ وہ کہنے لگی

مالک! گھر سے دوری بُہت ستاتی ہے اور پردیس میں کچھ اچھا نَہیں لگتا

مالک: جب میں نَیا نَیا گاؤں سے شہر آیا تھا تو میں اسی کرب میں رہتا تھا ... دل میں عجب سی ٹیس رہتی تھی .... اک دن میں صنم خانے گیا اور ہچکی ہچکی شراب اندر اتارنے لگا ... پہلا پہلا کڑوا گھونٹ تھا اور میرا پورا بَدن لرزنے لگا ... ایسا لگا جیسا مجھے کرنٹ لگ گیا ہو ....... مجھے اسی کرنٹ کی دشا میں اک کرم داسی دکھی ....میں اس کے پیچھے پیچھے ہولیا ...وہ مجھے بہت رازادری والے الماس خانے میں لے گئی ... میں نے اس کے پاس یاد کے ہیروِں کو، آس کے موتیوں کے ساتھ پایا ... وہ الماس خانے میں ہیرے گلے میں پہننے، موتی کانوں میں سجانے لگی ... پھر ہجرت کی اساس نیلم اپنی انگشت شہادت میں پہنا کے دکھانے لگی

جب میرے بابا سائیں نے مجھے داسی بنایا تھا اور میں بہت روئی تھی .. انہوں نے یہ جواہرات مجھے تھمائے تھے اور کہا تھا:

یہ جواہر میری نشانی ہے ...جب جب میں یاد آنے لگوں تو رونا مت بلکہ ان کو دیکھ لینا ....

کہنے لگی
.تمھیں تمھارے ببو سائیں نے نیلم، لعل و یمن نہ دیا؟ تم کیسے پردیسی ہو؟ نگر نگر کی خاک چھانتے ہو مگر نیلم تم پا نہ سکے!

.مالک نے شراب کے دو کڑوے گھونٹ اتارے تاکہ تلخی ختم ہو اور پھر پوری شراب پی گیا تاہم ہوش میں رہا ....
.اسے اپنے ہاتھ میں نیلم دکھنے لگا
وہ لعل و یمن سے بنے جواہر پانے لگا

مالک نے ایک دم کنیز سے کہا
جب تک میخانے والا مے نہ پلادے تب تک یاد کی دہلیز گاؤِں کو شہر میں لاتی نہیں ...شہر میں مولا جٹ ہوتا تو ہے مگر روپ مختلف .. شہر میں بھگوان داسی ہوتی ہے مگر ایسی سندر ناری ہوتی ہے کہ لگتا نہیں کہ داسی ہے. کرم داس بھی ہوتا ہے مگر وہ کسی آفس میں بیٹھے کام کرتے تسبیح کرنے لگ جاتا، لوگ سمجھتے ہیں وہ دنیا سجا رہا ہے مگر وہ تو ماضی کو حال کے بستر پر کھینچ لاتا ہے

گاؤں اور شہر میں فرق نہیں بندیا ناری جی

کنیز: مجھے ٹھاکر صاحب بہت یاد آتے ہیں اور پردیس میں ٹھاکر کہاں؟ وصلت کی ایسی عطا تھی میں ہر وقت شاداں و فرحان رہتی تھی ...پھر اب جدائی میں روتی رہتی ہوں ..

مالک: پگلی، یہی تو کہا ٹھاکر ترے سامنے مگر روپ مختلف .... تو نے نہ جانے یہ جاننے میں کتنی صدیاں گزار دیں

وہ کنیز اٹھی، یاد کے گھنگھر پہنے پائے نازش سے زمین کو رقص کرانے لگے .... اسے یاد آنے لگا کہ گیتا میں لکھا ہے ٹھاکر کا روپ آکاش سے زمین تک سو روپ بدل لیتا ہے. ٹھاکر جب ملے تو بندیا اتار کے اس کے قدموں میں رکھ دینا اور کہنا ..

صاحب تری بندی ہوں

رقص.... رقص..... رقص.....
آج دوری نہ تھی
نہ ہجرت کا نوحہ تھا
نہ وصال کی دشا تھی.
آج مالک مل گیا
آج راز کھل گیا
 

نور وجدان

لائبریرین
کتنا چاہا جائے تمھیں؟
اتنا، اتنا .... شمار نَہ ہو سکے
مت پوچھو چاہنے کے پیار .....
بس کِیے جاؤ .....
سنورنے دو نا ....

وہ سوال پوچھ کے غائب ہوگیا اور میں خیالات کی ٹرین میں خواب کے ڈبے میں بیٹھی تھی. اچانک ٹرین کو جھٹکا لگا ... ٹرین رک گئی ... خواب کے ڈبے سے لوگ بیدار ہو کے نکلنے لگے ... کسی نے نماز پڑھی ... کسی نے کھانا کھایا ... کسی نے منہ ہاتھ دھویا .... کوئی بچوں کے پیچھے بھاگتا دکھا ...خواب کے ڈبے میں بیٹھے، آنکھ کو موندے وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ..خود کو مسکراتے دیکھ کے، وہ دل ہی دل میں مسکائی ... بند آنکھوں سے خود کو دیکھنا، باہر دیکھنا اور پھر سب منظر اپنے دل میں سجا لینا -----

میں جب وقت ازل سے پہلے تھا تو میرے بھگوان نے مجھے ایسے دیکھا تھا، باہر بھی، درون میں اور یکجائی سے مسکرایا تھا ...اس کی مسکراہٹ کا احساس مجھ میں جاگا تھا اور میں نے تب سے جانا تھا وہ میرا سندر دیوتا ہے ... وہ میرا خُدا ہے ....

جو عمل اس نے مجھے دیا، میں نے اسکی نقل کرنی ہے اور وہی کرکے دکھانا ہے جیسا اس نے اس وقت خیال میں سوچا تھا ...

پرندوں کی آواز سنائی دی ....
پروں کی پھڑپھڑاہٹ ...
کان در کان

صامت سماعت سنی جانے لگی اور سمیع العلیم کی جانب رخ ہونے لگا. اس کی گونج سنائی دی جانے لگی ... خاک کی جستجو صدائے کُن .... گونجی ہے کو بَہ کو صدائے کُن ..... میں نے کُن سے طائرانِ حرم کو وجود دیا ....

وہ طیورِ قدس
لحم در لحم
چشم در چشم
چراغِ الوہی اٹھائے
جانبِ طیبہ
راہِ حق کا تعین کیے
دانا چگنے کی پروا بِنا
کبھی بامِ فلک پر
کبھی صبا کے اور
کبھی اِس نگر
کبھی اُس نگر
کبھی خاک لیے
کبھی خاک کرکے
کبھی خاک کرنے کو
قریب سے گزرتے رہے

پھر کسی صحرا کی دھوپ میں
تپتے تھل میں لذت دید کو
وصلت ہجرت کو مدغم کرنے کو
آگئے سر جھکائے
نادم بہ نادم بہ دل بہ جان
ان کی نگاہ سے
بدل گیا منظر

غلاف کعبہ پکڑے
لبیک لبیک کہتا جوان
حاضر سے حضور
مخمور کہ مہجور
یاد کا تلک لگائے
سرمہ دید کا پاتا رہا
 

نور وجدان

لائبریرین
من و سلوٰی

اک نفس سلوٰی کی تلاش میں من کو کھو بیٹھا. اک روز کسی غار کے دہانے غار کے دہانے نو افراد اور کتے کو ساتھ پایا ... وہ کسی خواب کے خواب میں داخل تھا .... اس نے خوابیدہ اصحاب کو اپنی تجسیم میں جاگا پایا جبکہ وہ سوئے ہُوئے اصحاب اس سے بیگانہ تھا. سب نے اس کے سامنے کورنش بجا لائی ... کتا دُم ہلاتے پاس آگیا جیسے برسوں سے مالک کی تَلاش ہو ..
اس من نے پوچھا
میں تو اک بھٹکا مسافر ہوں
میری اتنی عزت و تعظیم کیونکر؟

وہ یک بیک، یک سو بولے
ہم تو مجذوب تھے اور جاذب کو ڈھونڈتے رہے ہیں ... تھک ہار کے ہمیں سونا پڑا تھا. تُم وہ وحدت کی گھڑی ہو جس نے ہمیں زندہ کیا ہے

من جو سلوی کی تلاش میں تھا بولا

میں تو سلوٰی ڈھونڈ رہا ہوں میں نہیں جانتا میں نے تمھیں بیدار کیا یا تمھیں کسی غیبی قوت نے الہام دیا

وہ بولے
یہ غار خوش قسمت و نصیب والوں کے لیے ہوتا ہے وہ جو سچا عاشق ہوتا ہے وہ طالب نیند سے جگاتا ہے اور خود میں ماہتابی چمک لیے سنہرے بافت کی کرنوں والا مٹیالا جامنی سرمہ زدہ مخمور فلک ہوتا ہے..فلک کے آگے زمین کی کیا حیثیت؟

میں تو تلاش کا گیانی ہوں
میں کہ اک مسافر
مجھے تمھاری بیخودی و خودی کے نشے سے کیا سروکار
میں تو سلوٰی ڈھونڈ رہا ہوں

سلوٰی کی تاب نہ لاسکو
کتا بول اٹھا
کتے کے سر پر ہاتھ رکھ کے "من" نے کہا
اس لیے تو تلاش رہا ہوں
اسی کو تو مانگ رہا ہوں

ان میں سے دو اصحاب چلے اس "من" کے ساتھ تاکہ سلو'ی کی تلاش میں مدد کر سکیں
بالاخر وہ شاہِ وقت کے پاس پہنچے.

شاہ ایران نے ان کو دِیے سکے. یہ سکے ہر زمانے کی چابی تھے. وہ من واپس اس شخص میں داخل ہوا اور چابیوں کو گھماتا ..ہر دفعہ وہ کسی اور زمانے پہنچ جاتا

بآلاخر وہ دربار احیاء علم و عمل پہنچا. سبز و نیلے لباس والے، کالی پگڑیوں اور سفید عماموں والے لوگوں میں ...

کہنے لگا

نہیں ترا ثانی کوئی
تو نایاب و مطہر قندیل
تری کیا ہو تمثیل
تو ہے سب کا خلیل
میری ذات ہے قلیل
تو روؤف و رحیم
تو ہے اکمل و کامل
منسوب تجھ سے میم
خط میں کوئی مقیم
دائرہ مانند نسیم
نقطہ، نقطہ فہیم
دی ایسی شمیم
ملا مجھے کریم
رات شبِ لطیف
زلفِ عنبر سے چھائی مدہوشی
رعنائی خیال میں حسن کی چاندنی
طواف کرتی نغمگی
شمعِ رسالت
وجہ نبوت -- صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
غار حرا میں مقیم
مقدس و تحریم
قمر و شمس کی تجسیم

روشن روشن برق سے
دھاگے، زمانے امروز و فردا سے نکلے
اک زمانہ، اک حال، اک شمع
شناسائی میں گم دیوانہ
کہنے لگا

لقا حق ہے
حق لقا میں ہے

ختم شد -----

من کی کہانی چل رہی تھی اور وہ نیند میں چلا گیا غار والوں کی طرح ... اس لیے لکھاری کو یہ لکھنا پڑا

ختم شد---

کہانی تو شروع ہی اب ہوئی تھی ...
 

نور وجدان

لائبریرین
خود میں گرفتار ہوں ... ایسے جیسے میں حسن کی پرستار ہُوں. سچ نے مجھے تھاما تھا، تب سے یہ واقعہ ہوا -- میں نے ہتھکڑی بھی خود ڈالی -- پھر اس دن گھنگھرو پہن کے اتنا ناچی کہ زمین سرخ ہوگئی--- وہ زمین آج بھی یاد کی جھلکیوں سے سُرخ ہوجاتی ہے -- جب اس پر پائے نازش نے رفتار سے جنبش کی ہوگی تو زمین کو اپنے اوپر دیے گئے بوجھ کی دُکھن زیادہ ہوگی یا اس پرستار کی، جس کے پاؤں کی لالی سے وہ شہید ہوئی، یہی حال قلم کا ہے. جب کبھی میں تمھیں لکھتی ہوں تو مجھے اپنی زمین و لالی دونوں کے دکھ کیساتھ تمھاری روحی لمسیت کی شادمانی ساتھ ملتی ہے. وہ دکھ، وہ درد جو تمھارے ہونے کی نوید ہو، اس دکھ کے قدم چوم چوم کے تم کو مجسم ہوتا دیکھ کے میں مردہ سے زندہ ہوتی ہوں. میں سانس کے تنفس و زیروبم میں کھو جاتی ہوں کہ میں کیا ابھی ابھی زندہ ہوئی ہوں؟ سوچتی ہوں یہ تو تمھاری لمسیت نے مجھے جنم دیا ہے. میں تو ہوں ہی نہیں. میں کبھی تھی .... ! کل تھی ... پھر میں مرگئی ...کو بہ کو آوارہ روح تمھارے ہونے کو تلاشتی ہے. میں آوارہ روح جب کسی دربار و مزار پر دھاگے چڑھانے والوں کو دیکھتی ہوں، کسی دیے جلانے والے کو دیکھتی ہوں تو دھاگے، دیپ اندر لگے اور جلتے دیکھ کے شانت ہو جاتی ہوں کہ تم میری منت ہو اور ہر چودھویں کے چاند کی طرح رات کو چودھویں کرنے کے لیے جب کبھی ظاہر ہوتے ہو تو میں تمھیں دیکھ نہیں سکتی. ہاں مکمل محسوس کر سکتی ہوں. جی چاہتا ہے مرجاؤں تاکہ تم ایسے زندہ رہو ... سدا امرت کا پیالہ پیے موجود!
 

نور وجدان

لائبریرین
کسی کا عشق، کسی کا جنون تھا وہ! وہ جس کا بستر مرگ سے معدوم ہوجانا یکسر اسے مجھ سے اجنبی کرگیا. کہاں کا عشق؟ کیسا عشق؟ کیسی آگ؟ کیسا شربتِ وصل؟ کسی راحتِ زُلف؟ کیسا اجمال؟ کیسا تھا ....

وہ کیف جس کو وہ بھول گئی ...جب سے اسکی محبت بچھڑی، وہ خود کو بھول گئی اسے بے خبری نے آ گھیرا تھا وہ بے خبر، خود سے کتنی بے خبر و معصوم تھی اپنے جنازے کی اکیلی وارث مگر عشق کی پونجھی لیے جارہی تھی ساتھ کفن میں. اس نے خود کی تدفین کی اور خود کو جہان فانی سے خیر باد کہہ کے چل بسی

لوگو
میں گیا نہیں
میں روپ بدل بدل کے ملوں گا
میں نے خود کو خود کاندھا دیا
میں بے اپنے ہونے کی شہادت دی.
میں جا تو رہا ہوں مگر
جب واپس آؤں گا تو
تم اک کام کرنا
عقیدت کے پھول فرش پر بکھیر دینا
احترام کی سلامی سے
مجھ سے معانقہ کرنا
کیونکہ میں نے تمھیں تمھاری پہچان کرادی

پہچان؟
روشناسی کرانے والا مومن ہوتا ہے. وہ مومن جس نے قندیل نو کو برق نو دی ہوتی ہے. میں تمھارے من بھاوت اِچھّاؤں کو پورا کرنے میں بہت مدد کی. میری دھڑکن دھڑکن میں جو کہانی ہے آج وہ رہتی دنیا زمانہ تمھیں سنا رہی ہے اور تم سر دھن رہے یہ جانے بنا کہ تار نے اس سنگیت کو سر ساتھ کس درد سے جوڑا ہے.درد کی کہانی میں درد پینا تسبیح ہوا، درد پوروں سے پسینہ جیسا بہنے لگا اور آنسوؤں کی صورت مہکانے لگا تو آواز میں چھلکتا اپنائیت کا اپنا..... محبت پیار پاتے...... تم کتنی سندر ناری جو مجھ پر دل ہاری ہو ...

یہ خود پر پیار آنا بھی کیسا ہوتا ہے جب خود میں سے پیار کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے. یہ حسین حسین کی صدا خود سے ظاہر خود کو ساجد سے مسجود کیے دیتی ہے اور بے شُمار کیے دیتی ہے. یہ رات کے حنائی ہاتھوں میں شبنمی مہندی سے عرق نیساں سے بنتے موتی کی بپتا ساری درد کی کہانی کہ شام وصلت کی آندھی فراق لے اڑی .... نہ فراق کا نوحہ رہا نہ وصال کا جنوں رہا بس پری رہی ... پری کے ہونے سے اک تسبیح ہوتی رہی ..ی
 

نور وجدان

لائبریرین
وہ مجھ میں عکسِ ھو ہے. یہ کتابِ لاھوت ہے. شنیدم درِ دل سے نکلی صدا پوری ہوتی ہے. شنیدم ہے اللہ صدا بن جاتا ہے. شنیدم ہے عکس حقیقت ہے اور حقیقت تم ہے تو ہھر میرے پاس آتے نہیں. شنید ہے آدم علیہ سلام نے توبہ کی اور معافی مانگی ... تم توبہِ حق کیوں نہیں کرتے ..... شنید ہے اللہ صدا باہر سے لگاتا ہے ہھر اندر خود سنتا ہے، پھر اندر سے لگی صدا باہر والوں کو سنواتا ہے. جب ایسا شخص تم کو ملے جو تمھیں اپنی آواز سنوا دے اور ملا دے اصل سے. تو جان لو وہ منتخب نمائندہ ہے اور اس کو مان لینا افضل ہے. دینا بطور تمثیل ہے جب کہ تم تمثیل نہیں بنتے.

تم دینے سے خالی ہوتے جاؤ گے
نفس کا کچا کاغذ ہوگا خالی. تو جانو گے تم کہاں دینے والے تھے جبکہ دینے والا تو اور تھا اس طرح تم دیکھ نہیں سکتے جتنا دکھایا جائے. تم خود نہیں ہو اور وہ ہے یہ اصل حقیقت ہے

.اک فقیر ملا کہتا کہ اسکو مدد کے لیے پیسے چاہیے. بھائی تمھارے پاس اس وقت کتنے پیسے ہیں. ساتھی قفیر نے پوچھا. اس نے کہا اک ہزار ...اس نے کہا یہ سب خیر میں دیدو .... اس نے دیے تو گیارہ ہزار واپسی میں مل گئے

اک بندے کو تم نے دیے. تم اس کے لیے روپ خدا. پھر تمھیِں دس اور دینے والا آگیا وہ بھی خدا کا روپ ...سو خدا تو ایسے ملتا ہے. خدا سے ملو
 

نور وجدان

لائبریرین
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
دربار رسالت.
خشیت کی چادر پہنے
طریقت کے پانی سے
دھلنے کے بعد
عقیدت کے گل دستے لیے
فضائے معطر نے کہا
یا نبی ۔۔ سلامُ علیہ
یا رسول--- سلامُ علیہ

فضا میں نغمگی ابھری
صدا، صدیوں سے قبل کی
صدا، ازل سے قبل کی
پائی یادِ رفتہ نے
تحلیل فضاؤں میں
صبا نے ان کو چھوا ہے
مجھے محسوس ہوا ہے
لمحہ موجود ہوا ہے
مجھ میں شہود ہوا ہے
کبھی شاہد کبھی شہود
کبھی واجد کبھی موجود
کبھی ساجد کبھی مسجود
کبھی ذاکر کبھی مذکور
کبھی طائر کبھی دھیان
کبھی اسماء تو کبھی حرف
کبھی خالق تو کبھی نفخ
کبھی احساس کبھی زائل
کبھی حل تو کبھی تحلیل
کبھی اثر تو کبھی مؤثر
کبھی شان تو کبھی آیان
کبھی صبح تو کبھی شام
کبھی گلاب تو کبھی مہک
وہ فضا کا سندور ہوا ہے
دھیان کے حنائی ہاتھوں سے
اس نے ورد لب کیا
اس نے ذکر کیا ہے

ذکر میں مذکور
سیدِ گفتار من
سید سالار من
یا نبی یانبی یا نبی
ترے در سے لو لگی
مجھ میں برق گری
خوش بختی چمکی
سید عشق کی دعا سے
آپ کو پایا ہے
شیریں شیریں لہجہ
گفتار میں ردھم
خوشبو میں مدھم
صبا- کن ہوئی ہے

طیور قدس کی حاضری
یہ دربار رسالت ہے
سنبھل کے چل
ادب سے بیٹھ
کھڑا ہی رہ
قیام کی نماز میں فنا رہ
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک بات تمھیں بتاتا ہوں ... غیب کا علم صرف بھگوان کے پاس ہے ... مجھے غیب کا بندہ مت سمجھو ....

راگھو کی باتیں شانتا سُن رہی تھی ....

بھلا یہ کیا بات ہوئی .. گیتا میں لکھا ہے کہ سادھو سنت اس کے کارندے ہوتے ہیں. گیانی ان میں بیٹھا ہوتا ہے ..بھلا گیانی کو من بھاووت راگ سمجھ کیوں نہ آووے رے؟

راگھو نے اس کی بات کو سنتے ہوئے کہا

راگو نے گیتا میں لکھا کہ بھگوان نے اسے چنا ہے اس لیے وہ جو کہتا تھا وہ سچ بن جاتی تھی. وہیں پر راگو اپنی موت کی حقیقت سے بے خبر رہا

'موت کا کیا ہے رے ...موت کا علم تو وہ جانت رے .. ہمرے لیے انّا کافی کہ وہ بھگوان سے ملت رے .... '

گپتا میں لکھا ہے کہ راجکمار کو دیویاں سدھارت ہیں ...سادھوؤں کو بھگوان ... حقیقت کل کا ایک کو پتا ہے

وہ کون ہے کاشی سائیں؟

وہ اعجاز ہستی، پیکر نور، معصومی الہام لیے ہوگا ...

وہ کون ہوگا؟

وہ آج سے آٹھ صدیوں کے بعد تشریف لائے گا ... میں یہ خط اس کتاب میں رکھ رہا ہوں تاکہ یہ تم پہنچا دو ....

ہاشو ربستان میں پیدا ہوا تھا ...وہ جب نیند میں ہوتا اسکو یہ خواب دکھتا ..ہاشو نے تھک ہار کے سفر شروع کر دیے کہ کہیں آس و قیاس کا بندھن بندھے ... وہ قریب قریب سادھو سنت کے قصبے میں پہنچ ہی گیا ...جیسے ہی پہنچا
اس کی آنکھ لگ گئی

اس کو کہا جا رہا ہے

تو آج آیا ہے ...میں نے برسوں ترا انتظار کیا ہے .... آج یہ امانت پہنچا دے ورنہ امانت دار کا حق رہ جائے گا

ہاشو کملا ہوگیا ...بےچین و مضطرب بچپن سے صدا سنتا آیا یے ...اتنا کہ دھیان نے اسکو وہاں پہنچا دیا جہاں سے صدا ابھرتی ہے مگر وہ اب بھی سراغ پا نہیں سک رہا تھا

ہاشو کو اک مندر جانے کا اتفاق ہوا .. وہاں رگھو دیوتا کی رسومات میں خیر بانٹی جارہی تھی. اشلوک پڑھے جا رہے تھے ..گنگا میں اشنان کرکے خود کو پاک کیا جارہا تھا ..گھنٹیاں بجائی جا رہی تھیں ... نیاگ بانٹا جارہا تھا ...اس نے اک بندھے کو گیانی پایا. وہاں پاس جا کے بیٹھا وہ بندہ کسی خوابیدہ کیفیت میں بول رہا تھا ...

تم آج آ ہی گئے تو امانت لیتے جاؤ ...
شانتا ..یہ خط اسکو دیدو ...
اسکو بتاؤ، آٹھ صدیاں قبل یہ خط لکھا گیا ہے ...

کس کو پہنچانی ہے یہ امانت؟

ہاشو جومی تم خط کے باہر مندرجات پڑھ لینا سب پتا چل جائے گا ...

ہاشمی جومی شبستان برب پہنچا تو اس نے سب سے پوچھا یہاں کون سا شخص ایسا ہے جس کی صدا پر سب مسحور ہو جاتے ہیں؟ جو پیدا ہوتے ہی پتیم ہوگیا تھا ...جس کے سر پر میم کا تاج ہے؟

جب وہ ان کے سامنے پہنچا تو خط کیا وہ خود ساکت ہوگیا ...وہ بھول گیا اسکو کہنا کیا تھا ...
کہا گیا
.بیٹھ جاؤ
خط کا متن پڑھو
.

* میں راگھو سادھو گیان کی گہرائیوں تک جانا چاہتا تھا جس کے لیے میں نے ریاضت و مجاہدے کیے مگر چین نہ پڑت تھا. ایک دن صدا آئی ...تو اس کو سلام بھیج ...جو میرا محبوب ہے

پوچھا کون ہے
کہا جس کے سر پر میم کا تاج ہے
کہا کون ہے؟
وہ شبستان برب سے ابھرے گا اور لوگ جوق در جوق اس کے پاس آئیں گے ...جھکتے جائیں گے ...
سلام کیسے بھیجوں؟
خط لکھ
نسل در نسل چلتا رہے گا
جیسے ان تک پہنچے گا سلام.
تری نسل در نسل گیانی کی سوغات کا حصہ پاتی رہے گی
سچ کی کھوج والے کبھی محروم نہیں ہوتے

وہ پڑھ چکا تو تھر تھر کانپ رہا تھا ...وہ اک مجوسی تھی مگر اس کے اندر بھگوان کی صدا سے سادھو کی صدا سے آج میم والی ہستی ..... وہ جھک گیا ..

گواہی دیتا ہوں

آپ یکتا ہیں.
جیسے اللہ یکتا ہے
آپ کے ہاتھ یہ امانت ...
مجھے اپنا بنالیجیے

ہاشو جومی وہیں رہنے لگا

تابک رام خواب سے اٹھا تو پسینے سے شرابور تھا. آج اس نے اتنا طویل خواب دیکھا تھا وہ ایسے روشن تھا جیسے دل میں چمک رہا ہو سب ..... تابک رامی کا گیان اسے جانے کہاں لے گیا

سچے گیانی ہو جاؤ.

صدا امر ہوجائے گی
 

نور وجدان

لائبریرین
اک بندہ تصویر بناتا رہا ہے اور پھاڑ دیتا ... وہ مصور تھا ...اک دن جب وہ اپنے من کے جوار بھاٹے کو رنگوں میں چھپا رہا تھا تو جل پری اس کو دکھی .... جل پری اتنی حسین تھی کہ وہ نگاہ اٹھا کہ نیچے کر دیتا تھا ...پھر اٹھاتا اور پھر نیچے جھک جاتی ...وہ اسکو دیکھنے کی چاہ میں بار بار یہی کام کرتا رہا اور بار بار سر جھک جاتا اسکا .... یہ تماشا تھا کہ جانے کیا ...نہ جل پری نے غائب ہونا تھا نہ اسکا سر اٹھنا ، جھکنا بھولا تھا .... پھر وہ پری اسکی مصوری والے کمرے سے نکل کے باہر جانے لگی ... وہ بھی صم بکم اس کے پیچھے ... وہ جارہی تھی اور وہ اس کے پیچھے پیچھے ...وہ آواز دینا چاہتا تھا ...کہنا چاہتا تھا کہ رک جاؤ مگر وہ رکتی نہیں تھی ...اچانک کسی پہاڑی درے میں جا کے غائب ہو گئی ....اس کے ہوش اڑا گئی .... وہ اس کو سارا دن ڈھونڈتا رہا مگر پھر رات چھا گئی اس پر غنودگی کا عالم تھا

وہ کہتا رہا

پری ... پری ... پری ...

اس کی منہ سے یہ صدا نکل رہی تھی ...وہ کسی کمرے میں تھا جس میں اس کے ماں باپ رشتہ دار کھڑے تھے. اک ڈاکٹر ساتھ موجود تھا مگر وہ یہ کہے جا رہا تھا

پری ... پری ...پری

سارے اسکو کہہ رہے تھے کہ ٹیپو آنکھ کھول ...مگر ٹیپو جس غار میں مصور تھا، وہاں پر اسکو جل پری ملی اور وہ ہوش میں نہ آسکا .... اک ڈاکٹر اس کے پاس بیٹھا تھا اور پوچھ رہا تھا پَری کون ہے .....؟

مگر وہ صم بکم عم کہے جارہا تھا
پری ... پری ... پری ....

وہ مسلسل کئی سالوں سے خود کو کسی غار میں پاتا تھا جہاں وہ مصوری کیا کرتا اس نے تب سے لاتعداد تصاویر بنانا شروع کردیں تھیں ..جب سے جل پری دکھی تھی تین دن ہو گئے تھے وہ بیپوشی میں تھا اور جب ذرا جاگت ہوتی تو کہا کرتا

پری ... پری ...پری
..
ٹیپو کے لیے کسی اللہ والے گیانی کو بلوایا گیا کہ جانے کس جن، بھوت، چڑیل کا سایہ ہوگیا ....باباجی نے نگاہ کا صور پھونکا تو ٹیپو نے آنکھیں کھول دیں ...وہ مگر اٹھ کے یہی تکرار کیے جا رہا تھا

پری ... پری ... پری

بابا جی نے اسکو کہا: ٹیپو ، جس کی آگ لگی ہے اسکو تصویر کر ... دیکھ تصویر کر سکتا ہے کہ نہیں .... اٹھ جا اس نشے سے ... اور جا وہی کام کر جس کے لیے تری تخلیق کی گئی ہے

وہ تب سے اب تک، کئی سالوں سے پری بنانے کی سعی کرتا رہا اور اس نامکمل تصویر کو دیکھ کے پری پری کہتا ...جیسے وہ پری کہتا وہ چہرہ سامنے آجاتا مگر اس کی بنی تصویر سے میل نہ کھاتا .... کئی سالوں کی تپسیا کے بعد وہ اس نقطے پر پہنچا ....جو پریاں دیکھی نہ جا سکیں، وہ بھلا بنائی کیسے جا سکتی ہیں ...وہ ان نامکمل ادھورے اسکیچز کو دیکھ کے ہر دم یہی کہا کرتا تھا

پری .... پری ... پری ....
 

نور وجدان

لائبریرین
عطار کی عطرفروشی معاوضے کی محتاج نَہیں. سرمہ نین مستی والا ہوتا ہے اس لیے نیناں لگن سے جل اٹھتے ہیں

تم ایسا کرو تھوڑا سا گلابی عطر مجھے دیدو ....

"اسکی قیمت ہے .... "

کیسی قیمت؟

"حجاب اتار دے بالی عمر میں، ورنہ تری سجی صورت دیکھے گا کون؟ دیکھنے کی سعی نہ ہوگی تو چکر نہ کٹ سکیں گے ...چکر نہ ہوئے تو عاشق کا طواف ادھورا .... ادھورا تو نہیں رہنا نا ...

نہ سرک سکی چُنر
چُنر اُتر گئی .... جانے کیسے؟
رنگ ڈالے گئے
رنگ دکھا گئے
راکھی کو خوشیوں کے ہنڈولے میں بٹھا کے جہان رنگ بو کی سیر کرائی گئی ...کہا گیا اب میری صورت اپنی صورت سے تلاش ...

جس نے حجاب اٹھایا تھا وہ خود غائب ہوگیا. اک صدا و نغمہ ٹھہرا جستجو کا. اک آگ شبستان جستجو کی، ہجرت کا نوحہ، وصال کی دشا اور لمس آرزو

اک دن صحرا کی دھوپ میں عطر فروش کا سراب ملا ...سراب پر حقیقت کا گمان ہونے لگا ... اس کے پیچھے ہولی ..وہ کسی بگولے کی طرح گھومتا گھومتا رہا ...یہ بھی خوشبو بن کے جھونکے دیتی رہی ...

کائنات میں لوگ سمجھتے رہے کہ خوشبو گلاب سے آتی ہے. کوئ یہ جان نہ پایا. جب کسی پریمی نے ان کو دیکھا تو ہوا ہوگیا ...وہ باد کا جھونکا گلاب کے مخملیں کاغذ سے ٹکراتا رہا تو وصال پاتے نہال ہوتا رہا .... ..

تو تم.عطر کی چادر ڈال کے غائب ہوگئے، کیوں؟

میں غائب نہیں تھا بلکہ تم محو اتنی، مسحور اتنی تھی کہ میری ساحری کے تمام کرتب تمھیں نیند سے اٹھا نہ سکے ... اررے ... تم تو مدہوش تھی ...تم کو میں نے بہت کاندھے سے ہلاتے اٹھانا چاہا تو تم اٹھ نہ پائی ...

وہ مٹی کا ڈھیر ہو رہی تھی ... وہ مٹی جو مٹی کی قید سے پھوٹی تھی ...وہ آزادی کی حیاتی میں خوشیاں بانٹتی رہی. آغاز ہجرت میں وادء سہراگ میں رہنا کامل ہے .... اسکو ہجرت کرنا تھا جسم سے مٹی سے ...اس لیے ڈھیر ہوگئی ...پرواز کر گئی...
 

نور وجدان

لائبریرین
کبھی اپنی ذات کی گِرہ کھول کے دیکھو. کبھی گرہ در گرہ تک اصل گرہ کا راز پالو ...جتنی گرہیں تم تک پہنچی ہیں ...اتنی تمھاری تقسیم ہوجائے گی ... تمھاری تقسیم و تجسیم کی کائنات کی خدائی تمھیں اس لوح محفوظ کے قریب لیجائے گی جہاں پر خیال اک راز کی صورت ہے اور صورت صورت ایک راز ہے. راز میں یار دلدار کا خمِ ابرو، زلف ریشم، مہتابی اکھیاں، نور کی لاٹ سے بھرپور دندان مبارک، تبسمیں رخسار و لب دلگرفتہ کیے دیں گے اور جب خیال رفتگی سے تم رفتہ کردے گا تو جان جاؤ گے کہ خیال کی کثرت میں اکائی ایک ہے اور تمھاری بے پناہ تجسیمات کی اکائی بھی وہی ذات ہے. تمھارا شیشہ لوبان آمیز، تمھارا خیال مشک و عنبر سے بھرپور ہے اور قلب مانند گلاب و موتیہ ہے ... یہ کہانی ہے کہ تم تم نہیں ہو اور تم ہی تو ہو

ہاں میں ہی ہوں ہر جگہ ہوں. میں خود روشنی ہوگئی مگر نگاہ تری تھی ...میرے کپڑے میں آگ لگ گئی مگر نگاہ تری تھی ...میں دھواں دھواں ہوئی تو نے کہا جا اب تو مری ہے ...میں نے جہاں جہاں دیکھا، وہ دل ہدیہ ہوا، وہ تری سرکار پہنچا ..وہ تری نگاہ تھی ...

وہ حق بات جس کو ہم سمجھ نہیں پاتے مگر سمجھا دی جاتی ہے کہ حق تبسم فرما ہوتا ہے اور حق کا چہرہ جا بجا تجلیات لیے ہے ...اس کی کتابِ تخلیق کا ورق ورق مانند مصحف عیاں ہے اور نہاں ہے ....وہ نہاں و عیاں جو مٹی کے مابین ہے وہ حجاب جب اترے تو یکساں ہو جائے سب ..بس ساری جھلکیاں چل رہی تری ہیں تو نے کہا تھا

لوٹ آ
لوٹ آئی تری مخلوق ..

تو نے کہا
مجھے دیکھ
صورت صورت میں ترا چہرہ

تو نے کہا درد میرا
ہر درد میں، تو ہی دکھا
تری جلوت خلوت بنی
تری خلوت مری جلوت
 

نور وجدان

لائبریرین
آجاؤ، جبین جھکاؤ ...
خدا زَمین پر پردھارت ہیں...
سندر ناریو .....
چَلو باری باری، دھرم بھاشا ہے
قربان ہو جاؤ ...
رام سے ملنے کے لیے گنگا پوِتَر کرے گی

سب داسیاں گنگا میں فَنا ہونے لگیں .... جُوں جُوں داسیاں ڈوبتی گئیں ... رام جی کی کرسی گنگا سے آبشار کی مانند نمودار ہوئی ..... سب نے رام رام رام شروع کردی اور داسی کے کارن جو چپ چاپ فنا ہوئیں .... ان میں سے کسی کا نام تحریر نقشِ زمن نہ تھا ... رام، رام بُہت ہوگئی مگر رام نّیا میں بیٹھنا کسی کے بس کی بات نہ تھی. رام جی نے رامائن لکھی اور رامائن میں اک ایسا کردار تخلیق کیا، جو ان سے سچی محبت کرتی داسی، جس کی محبت ان سو داسیوں کی محبت سے کہیں زیادہ ہو. رام جی کے کہنے پر وہ آنکھ کھولتی، وہ بولتے تو لباس بدلتی اور وہ بولتے تو کھانا کھاتی ... اس کی آنکھ کی پتلی میں رام کا عکس ..اسکی مژگان کی جنبش میں ان کی جھلک، اس کی طلسمی لب میں ان کی یاقوتی جھلک، اس کی گھٹا جیسی زلفوں میں ان کی محبت کی روشنی، اس کی چال ڈھال کے ردھم ان کے چہرے کے رخ سے بنتا رقص کو تشکیل دیا کرتا ہے. اس کے پائے نازک میں حرکت اندھے جیسے ہوتی جس کی لاٹھی محبت ہوتی تھی ... رام کو رامائن کی تشکیل کے بعد وہ رانی ہر سو دکھائی دیتی اور رام تو ہر سو کھینچے چلے جاتے مگر بہت افسوس کے ساتھ کہ ان کو فقط رام رام کہنے والے پر ان پر فنا ہونے والی ان کی تشکیل شُدہ رانی نہیں ہے. رام جی، رامائن میں لکھتے ہیں ایک دن وہ بازار میں گشت کر رہے تھے. آج ان کو انتظار تھا جس کو دیکھ کے ان کا دل،" رانی، رانی کہے گا، وہ اس پر نگاہ کریں گے. رام کا انتظار مکمل ہوا اور رانی کا جب ادھر سے گزر ہوا تب محبت کا پنکھ سرا کھل گیا اور دل گھائل ہوگئے. محبت کے چھپر تلے بارش سے بچ نہ سکی اور قدموں میں جا بیٹھی. رام نے ان کو سینے سے لگایا اور کَہا کہ

محبت کے گیت انتخاب ہوتے ہیں
محبت وحی کے جیسے اترتی ہے
اب تم ہاتھ باندھو، یا ہم ........
بات تو ایک ہی ہے .....

رامائن کا تشکیل شدہ کردار موجود تھا اس لیے رام کی سوچ میں رانی کی صورت و شکل ابھری ..... پھر رانی مل گئی ...ایک ہوگئے ... تب پجارن کا وجود دھارت ہوا، من مندر میں رام کی صورت بن گئی

رام، رام، رام، رام.، رام، رام
کچھ نہ ملا ...
ہمیں رام پہلے ملا
ہم نے رام بعد میں کہا

پجارن ہمیشہ رام کو پا کے عبادت شروع کرتی ہے اور ان پر ہنستی ہے جن کے جاپ ان کو حقیقت نہین بتاتے.
 
Top