چیخوں میں دبی آواز ( از خاور چودھری)

خاورچودھری

محفلین
چیخوں میں دبی آواز


فہرست​

چیخوں میں دبی آواز اور خاور چودھری(ازڈاکٹرفرمان فتح پوری)

خاورچودھری کے افسانے (از محمد حامد سراج)

# نیلاخون

# کرپٹ ونڈوز

# بوڑھادرخت

# میں

# دقیانوسیت

# سانسوں کی مالا

# سوداگر

# عکس درعکس

# IMPOSTOR

# گُم راہ

# پُرانامنظر

# روبوٹ

# کشکول

# جھوٹی کہانی

# چیخوں میں دبی آواز

# زہر

# آزادی

# بے انت



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[“چیخوں میں دبی آواز“ اور خاور چودھری​


تحریر: پروفیسر ڈاکٹرفرمان فتح پوری(ستارہ امتیاز)​


اُردو اَدب سے وابستہ بہت سے ایسے ادیب وشاعراورافسانہ نگاروناول نویس ہیں جوشہری مراکز سے دُورمضافات میں خاموشی سے اپنے اپنے شعبوں میں سرگرم عمل ہیںاورتاوقتیکہ ان کی تحریریں پرنٹ میڈیایادیگرذرائع سے عامة الناس تک نہ پہنچیں ان کا شخصی وعلمی تعارف وپس منظربھی سامنے نہیں آتا۔خاورچودھری جوحضروضلع اٹک جیسے دُوردرازعلاقے میں جہاں اکثریت ہندکو اورپشتوبولنے والوں کی ہے نہ صرف بطورصحافی اپنے صحافیانہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں بلکہ سچی لگن سے اپنے کالموں، کہانیوں اور مختصر افسانوں میں''حالات حاضرہ''،انسانوں کے رویّے،باہمی سلوک،منافقانہ وجارحانہ صورت حال اورسیاسی و معاشرتی حالات و واقعات اور اہم بین الاقوامی حالات کی بھرپورعکاسی کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ شعری اظہارکے لیے ماہیے،ہائیکو اور واکا جیسی مقامی و جاپانی اصناف سخن کو بھی وسیلہ بنانے پر قدرت رکھتے ہیں جس کا اندازہ ان کی طبع شدہ کتب سے لگانا چنداں دشوار نہیں۔

زیرِ نظر کتاب''چیخوں میں دبی آواز'' خاورچودھری کے افسانوں پرمشتمل ہے۔سترہ افسانوں پرمبنی یہ کتاب اس اعتبارسے ایک اہم کتاب ہے کہ اس میں شامل کم وبیش تمام افسانے اپنے موضوع و مواد اور اُسلوب وزبان کے لحاظ سے مصنف کی ایک بہت کامیاب اور قابل ستائش پیشکش قراردیے جاسکتے ہیں۔ان افسانوں میں مصنف نے اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والے سیاسی و معاشرتی اور نفسیاتی حالات وواقعات ، سانحات وحادثات اورزمانے کے تغیرات کے نتیجے میں انسانی فکر،سوچ،شعور،احساس اور روّیوںمیں پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور بین الاقوامی سطح پر ملکوں اور قوموں کے بدلتے ہوئے حالات وواقعات سے اپنی کہانیوں کے موضوعات کاانتخاب کیا ہے۔ افسانہ''نیلاخون'' ، ''دقیانوسیت''، ''پرانامنظر''،''کرپٹ ونڈوز''،عکس درعکس'' اور''میں'' اسی زمرے میں آتے ہیں،ان تمام افسانوں میں اپنے گردوپیش کی زندگی اوراپنے سماجی حالات کی بڑی عمدہ، بھرپوراورسچی تصویرکشی کی گئی ہے۔

زندگی میں انسان کوکن برے اورکٹھن حالات سے گزرنا پڑتا ہے اوراپنوں ہی کے ہاتھوں اسے کیسے کیسے دُکھ اٹھانے پڑتے ہیں، افسانہ''نیلاخون'' اس حقیقت پر سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ پردہ اُٹھاتا کی صورت میں افسانہ نگار نے معاشرے کی بے شمار ایسی خواتین کو پیش کیا ہے جو زندگی بھر اپنوں اورغیروں کے ہاتھوں ظلم وزیادتی برداشت کرتے کرتے بالآخرایک دن وقت سے پہلے زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔ہمارے معاشرے میں وقت کی پابندی اوراپنے فرائض کی بجاآوری کاخیال نہیں رکھا جاتا یہی سبب ہے کہ ہمارا معاشرہ نظم وضبط اور ترقی وخوشحالی سے محروم ہوتا جارہاہے۔افسانہ''میں''میںاسی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو دکھایا گیا ہے جو نہ توماحول کی صفائی اور پاکیزگی کاخیال رکھتے ہیں اور نہ ہی ان میں صحیح وقت پر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کا احساس پایا جاتا ہے۔ افسانہ ''کرپٹ ونڈوز'' کا موضوع صحافیانہ زندگی کے پہلو کو پیش کرنا اورحقائق بیان کرنے پر معاشرے کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے افسوسناک سلوک کوپیش کرتا ہے۔صحافیوں کوسچ لکھنے اورسچ کہنے پر جن پریشانیوں اور مسائل سے گزرناپڑتا ہے اُن کی بڑی دلکش تصویرکشی اس افسانے میں کی گئی ہے۔

مصنف کااندازتحریربڑارواںدواں،شستہ وشگفتہ ہے۔کسی قسم کا ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے۔بڑی سے بڑی بات اور ہر قسم کا مضمون اپنے مخصوص اندازمیں پوری فن کارانہ مہارت سے بیان کر دیے ہیں۔کردارنگاری عمدہ اور معیاری ہے۔وہ جامداوربے جان کرداروں کے بجائے زندہ اورمتحرک کرداروں کے ذریعے اپنی کہانی کے واقعات کو آگے بڑھاتے ہیںاوران کرداروں کے ذریعے نہ صرف زندگی، ماحول اور معاشرے کے خارجی مناظرومظاہر کوبیان کرتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی داخلی وباطنی زندگی کے بہت سے گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔

خاورچودھری اس اعتبارسے ایک بہت کامیاب انسانہ نگارقراردیے جاسکتے ہیں۔یقین ہے کہ اُردوافسانے کی تاریخ میں اُن کا نام تادیرزندہ رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاورچودھری کے افسانے

محمد حامد سراج

خاورچودھری کا تعلق فن افسانہ نگاری کے اس قبیلے سے ہے جو سوز دروں کے سمندر میں‌اُتر کر درد کی سیپیاں چُن لیتا ہے ۔ افسانہ نگار کی تخلیقی آنکھ صرف ظاہری منظروں کو Caputure نہیں کرتی بلکہ وہ باطنی آنکھ سے معاشرے میں‌بسنے والے کرداروں کے Inner Self میں‌اُتر کر وہ منظر مصور کر لاتا ہے جہاں تک عام شخص کی نگاہ نہیں پہنچ پاتی۔
خاورچودھری کے من میں جو Video Camera فٹ ہے جب وہ قلم کی آنکھ سے کرداروں کے باطنی منظر Picturise کرتا ہے تو حیرت انگیز طور پر قاری تحیر کے آسمان پر دھنک رنگوں میں‌اپنا رنگ تلاش کر لیتا ہے۔
افسانے میں منظر نگاری کے ساتھ ساتھ انفرادی اور معاشرتی دکھ بیان کرنا شایر آسان ہو لیکن کرداروں کی باطنی کیفیات کو Personify کرنا مشکل ترین مرحلہ ٹھہرتا ہے اور اسی مرحلے سے خاور چودھری کامیاب گزرے ہیں۔
" چیخوں میں‌دبی آواز " میں‌شامل افسانے انسان کے ان رویوں کے عکاس ہیں جن سے انسانی سرشت بے نقاب ہوتی ہے۔ رویہ کیسے، کہاں اور کیوں‌کر انسانی زندگی اور ماحول میں‌قلوب کو زخمی کرتا اور معاشرے میں‌ناسور پھیلاتا ہے ، اُسے خاور چودھری نے اپنے قلم سے امر کر دیا ہے۔ یہ افسانونی مجموعہ افسانوں کے انبار میں محض ایک اضافہ نہیں بلکہ " چیخوں میں‌دبی آواز " اُردو افسانے کی گم ہوتی قدروں کی بازیافت ہے۔
Readablity اس کتاب کا ایسا جزو اعظم ہے کہ خاور چودھری کا افسانہ قاری کو دوران مطالعہ مکمل گرفت میں رکھتا ہے۔
آپ کتاب کا مطالعہ کیجیے۔ ہر افسانہ اپنے اثبات اور جواز کی گواہی دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[
 

خاورچودھری

محفلین
نیلاخون
یہ وسط بہارکاکوئی دن تھا۔ٹھنڈی ہوائیں جامن کے سوکھے درخت کی ٹہنیوں کو چُھو کرکھلے صحن کے دل سے گزرتے ہوئے کچے راستے کے اطراف پودوں کی روش کوچومتی جارہی تھیں۔مالی ان پودوں کی نلائی کرتاجاتااورساتھ ہی گرے ہوئے پتوں کواٹھاکرہتھ ریڑھی میں ڈالتاجاتا۔کوٹھی کے چاروں اورمخملی گھاس یوں دِکھ رہی تھی جیسے زمین پر زمرد جڑے ہوئے ہوں۔ ابھی پھولوں کے نئے پودے پوری طرح مٹی سے مانوس نہیں ہوئے تھے اوران میں سے بعض مرجھا رہے تھے۔بانوخاتون ادبی رسالے کا نیاشمارہ گودمیں رکھے مطالعہ میں یوں گم تھیں جیسے بہ جز اس کے دنیامیں کوئی کام ہی نہ ہو۔ایک ایک حرف یوں پڑھتیں گویایادکرناچاہتی ہوں۔ایک ہی نشست میں سارے افسانے اورمنظومات پڑھ گئیں۔رسالہ ایک طرف رکھتے ہوئے انھوں نے ماحول کاجائزہ لیا۔دائیں ہاتھ میں بندھی ہوئی گھڑی پراچٹتی ہوئی نظرڈالی اورپھر کچھ سوچتے ہوئے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئیں۔زمردیں فرش پربے تابی سے گھومتے ہوئے ا ن کی نگاہ بار بارآسمان کی طرف اُٹھ رہی تھی۔دفعتاًوہ رُکیں اورمالی کوآوازدی
”ریاض----------------اِدھرتوآنا“
”جی بیگم صا حبہ“
کہہ کر بوڑھامالی اپنے کپڑے جھاڑتاہواچلاآیا
”ریاض!تمھیں کتنے مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی؟“
ریاض نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جلدی سے جواب دیا
”میری کوئی تنخواہ باقی نہیں ہے،بیگم صا حبہ“
”توپھریہ پودے کیوں سوکھ رہے ہیں؟کیوں تم بروقت نلائی نہیں کرتے اورپوراپانی نہیں دیتے ہو ؟“
”بیگم صا حبہ!خداجانتاہے ان پودوں سے اپنے بچوں کی طرح محبت کرتاہوں اوراپنی طاقت سے زیادہ محنت کرتاہوں--------نہ معلوم پھربھی کچھ پودے اجنبیت کیوں برت رہے ہیں ۔“
”سب سمجھتی ہوں،محبت اورمحنت------------ہونہہ----------“
بوڑھاریاض کسی بت کی مانندزمین میں گڑچکاتھااوربانوخاتون کی بے کلی اوربڑھ گئی۔
”محبت-----------محنت،محبت (جاری ہے)
 

خاورچودھری

محفلین
محنت،محبت----------محنت “
ان دولفظوں کی تکراراس قدربڑھی کہ بانوخاتون کواپناسرچکراتاہوامحسوس ہوا۔وہیں زمین پربیٹھ رہیں----------جب ہوش آیاتوآغاخان اسپتال میں ڈاکٹروں کی نگاہ داشت میں تھیں۔ ذہن پر دباوٴ ڈالتے ہوئے انھوں نے سوچاکہ ان کے ساتھ کیاہواتھا؟کون سا ایسا درد اُٹھا تھا،جس نے ہوش ہی نہ رہنے دیا---------- اور جب وہی دولفظ دوبارہ یادآئے تودماغ کے خوابیدہ خلیوں نے رینگنا شروع کردیا ---------- تاریک ہوتی ہوئی آنکھوں سے دونمکین قطرے نکل کر چہرے کی جھریوں میں راہ بناتے ہوئے کانوں تک چلے گئے۔
”اُف خدایا!کس قدربھاری ہیں یہ دولفظ“
بانوخاتون نے بڑبڑاتے ہوئے کہا،توکمرے میں موجودماسی اچانک ان کے چہرے پر جھک کر
”بیگم صا حبہ،بیگم صا حبہ “
پکارنے لگی۔
”کون لایاتھایہاں مجھے؟“
ساری قوتیں جمع کرکے بانوخاتو ن نے پوچھا۔ماسی نے اپنی اوڑھنی سے ان کی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا
”ریاض اورمیں جی“
”احسان اوربہوکواطلاع دی تھی“
”جی بیگم صا حبہ“
بانوخاتون کے دماغ پروہ دو لفظ پھرہتھوڑے برسارہے تھے۔کراہتے ہوئے انھوں نے پہلو بدل کر اپنا منہ دیوارکی طرف پھیرلیا----------ماسی پیچھے ہٹ کربیٹھ گئی۔
###
ہوامیں بکھرتے ہوئے خزاں رسیدہ پتوں کی مانندسوچیں بے نشاں وبے سمت بھٹکنے لگیں۔ جوں جوں ماضی کی کتاب کے اوراق کھلتے جاتے تھے، توں توں بانوخاتون کا حلق آنسووٴں کی گرمی سے کڑواہوتاجاتااوراس کڑواہٹ کووہ چاہتے ہوئے بھی نہیں تھوک سکتی تھیں۔
پندرہ دن بعدجب ان کی پڑوسن بیگم ضرارآئیں توان کے دکھ کومزیدسواکر گئیں۔
”بیگم صا حبہ!مجھے بتادیاہوتامیں تصدق کویہاں بھیج دیتی۔ہم غیرتونہیں ہیں،آخرکوہم سایے ہیں اور ہم سایے تو ماں جائے ہوتے ہیں۔“
”مجھے ہوش کہاں تھا“
تھڑدلی سے بانوخاتون اتناہی کہہ پائی تھیں،کہ بیگم ضرارنے جلتاہواانگارہ ان کے دماغ پر رکھ دیا
”احسان میاں تواپنی بیوی کے ساتھ کل ساحلِ سمندر کلفٹن میں گھڑسواری میں مشغول تھے، کیا عیادت کے لیے نہیںآ ئے؟‘اَجی میں تو کہتی ہوں کیافائدہ ایسی اولادکاجوبڑھاپے میں تنہا چھوڑ جائے ،ایسوں کاتوپیداہوتے ہی گلاگھونٹ دیناچاہیے۔“
بانوخاتون ساکت وجامدخلاوٴں میں گھورتی رہیں اوربیگم ضرارجلتی پرتیل ڈال کرنکل گئیں۔
###
دن گزرتے رہے اورخیالات مسلسل غزل کی ردیف کی طرح ایک تواترسے وارد ہوتے گئے۔اباّجی کی حویلی یادآئی تولسوڑوں کی چپچپاہٹ سے دماغ کے خلیے باہم اُلجھنے لگے۔ حویلی کے دالان میں ایستادہ لسوڑے کادرخت ان کاہم جولی وہم رازتھا۔جس کی شاخیں ان کی سانسوں کی مہک اورجسم کے لمس کی امین تھیں۔پہروں اس کے تنے کواپنی نوجواں بانہوں میں سمیٹ کراپنی آنکھوں کے موتی اس میں اتارتی رہتی تھیں----------اوروہ اپنے اندران کوسمیٹتارہتاتھا۔اور اس سے پہلے جب وہ صرف دس برس کی تھیں تب بھی ان کے لیے حویلی میں جائے اماں صرف یہی توایک درخت تھا۔وہ اپنی گڑیالے کراپنے ساتھ ہی کھیلتی رہتیں۔اپنی گڈی کی شادی، اپنے ہی گڈے سے کرتیں،خودہی بارات کے ساتھ ہوتیں اورخودہی رخصتی کااہتمام کرتیں۔ڈھول بجانا ،گیت گانا،تالی بجاناحویلی میں ممکن نہ تھا ----------کھکھلاکرہنسنے اورقہقہے لگانے کی بھی اجازت نہیں تھی زیادہ سے زیادہ مسکراہٹ کی ایک لکیرہونٹوں پرپھیل جاتی یاپھردبی آوازمیں کچھ لفظ ادا ہوجاتے----------ایسے میں بھی اگر کہیں پھوپھوکی نظرپڑجاتی تووہ بانوخاتون کی ساری خوشیوں کو اٹھا کر تندور میں ڈال دیتیں ---------- اس ظلم اورجبرپررونے کابھی اختیار نہیں تھا۔جس ماں نے جنا تھا وہ تو دیکھ بھی نہ پائیں تھی انھیں----------رشتے کی خالہ نے دودھ پلایااوردوسال تک اپنے پاس رکھا۔اباّجی ان کی جھولی میں ڈال کر خود سبک دوش ہوگئے تھے۔تب ایک جھگڑے میں پھوپھوکے خاوند مارے گئے تو اباّجی کی اکلوتی بہن اپنے دوبچوں سمیت حویلی اُٹھ آئیں---------- اور یوں بانو خاتون بھی اپنے گھر لوٹ آئیں۔
###
بہروزاورنوروزدونوں ان سے بڑے تھے اورہمہ وقت اپنی ماں سے نازاٹھواتے رہتے۔جوچاہاکھایا، جوچاہا پیا۔ جب چاہااُٹھ بیٹھے،جب چاہاسولیے۔جوچاہاپہن لیا، جو چاہا اتاردیا۔پابندیاں تھیں توفقط ان کے لیے۔ادھرپوپھٹی اورانھیں جگادیاگیا۔گھر بھر کاکام کروایا اور دونوں بھائیوں کے بچے ہوئے لقمے ان کے آگے ڈال دیے---------- اور پھر سرکاری اسکول کی طرف ہانک دیا۔اسکول سے لوٹتیں توپھرگھرداری میں مصروف ہو جاتیں۔
بے لحاظ پھوپھوکی جلی کٹی اورظلم توبہ ہرحال سہے جاتی رہیں----------مگرایک دوپہر تو اندھیروں میں بدل گئی۔وہ کھانے کے برتن دھوکرخشک کرنے کے لیے ٹوکری میں رکھ آئی تھیں۔پھوپھو کے گھڑے میں تازہ پانی بھی ڈال دیاتھا۔بہروزاورنوروزکے نہانے کے لیے الگ سے دو بالٹیاں بھی بھرکرغسل خانہ میں رکھ دی تھیں۔اباّجی کے کمرے کے فرش کو ٹھنڈاکرنے کے لیے بھی کئی بالٹیاں ڈال آئی تھیں اوراب لسوڑے کے تنے سے لپٹ کر سسکیوں کی زبانی اسے اپنی بپتا سنا رہی تھیں----------دفعتاًان کے جسم میں بجلی کوند گئی---------- نوروز نے پیچھے سے آکرانھیں اپنے سینے سے چمٹالیااوراپنے ہاتھ مضبوطی سے ان کے سینے کے ابھاروں پررکھ دیے۔ایک چیخ ان کے حلق میں قتل ہو گئی۔نوروزبھائی کے سامنے ہاتھ جوڑے ،خداکے واسطے دیے، گڑگڑائیں، روئیں---------مگراس نے اپنی گرفت ڈھیلی نہ کی۔
نہ جانے پھوپھوکس وقت سے یہ منظردیکھ رہی تھیں----------اور پھربڑے بڑے ڈگ بھرتے ہوئے حویلی کے دالان میں آ گئیں
”حرام زادی!یہ لچھن ہیں تیرے،میں بھی کہوں تودوپہروں کوسوتی کیوں نہیں۔آلینے دے اپنے باپ کو۔منحوس تمھیں دیوارمیں چنواکردم لوں گی۔کتیاتونے رشتوں کابھی خیال نہ رکھا ---------- اپنی آگ کہیں اورٹھنڈی کیوں نہ کی تونے----------؟۔ کیوں میرے معصوم بیٹے کوتباہ کررہی ہے۔“
پھوپھوکے منہ میں جوآیابکے گئیں اوربانوخاتون کی آنکھوں کی ندیاں سوکھنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔دوپہر،سہ پہرمیں ڈھلی اورسہ پہرشام میں----------مگر بانو خاتون کے لیے وقت رُک گیا تھا----------یوں جیسے بھاری سلوں تلے آگیاہو----------ایک ایک پل صدی کومحیط ہو گیا۔روروکر اپنا براحال کرلیااوراب ایسے معلوم ہوتا تھاجیسے آنکھوں سے پانی کی بجائے لہو ٹپک رہاہو۔پھوپھو نے ان کے کمرے کی باہرسے چٹکی لگادی تھی۔بانوخاتون نے سوچاآج اباّ جی کوپھوپھو کے تمام ظلموں کے بارے میں بتائیں گی----------بتائیں گی کہ وہ انھیں کیسی کیسی ننگی گالیاں دیتی ہیں ----------اور آج جس شیطنت کامظاہرہ نوروزنے کیاہے وہ بھی صاف صاف بتا دیں گی۔دل سے بہہ جانے والے لہوکوقطرہ قطرہ کرکے سمیٹااورتہیہ کیاکہ اب مزید ظلم نہیں سہیں گی اوران ماں بیٹوں کو حویلی سے نکلواکررہیں گی۔
###
اباّجی کے کمرے سے مسلسل آوازیں آ تی رہیں اورشام رات میں مدغم ہوتی رہی۔بھوک اورپیاس سے بانوخاتون کابراحال ہوگیاتھا۔غم اورغصہ کی شدت نے مزید نڈھال کر رکھا تھا اور اب اتناوقت گزرگیاتھا----------مگرکوئی انھیں قیدسے رہائی دلانے نہیں آیاتھا----------تب انھوں نے بلند آوازمیں روناشروع کردیا۔
بھاری قدموں کی آہٹ جوں جوں بڑھتی گئی ان کے دل کی دھڑکنیں بھی بے ترتیب ہونے لگیں۔ایک جھٹکے سے دروازہ کھلااوراباّجی نے انھیں چوٹی سے پکڑکر ننگے فرش پرگھسیٹنا شروع کردیا----------بغیرکچھ کہے سنے ان کے وجودپرلاتوں اورمکوں کی بارش کردی۔پیڑواور پسلیوں میں دردکی ایسی لہراُٹھی کہ اس نے دہرا کردیا۔ جب جب یہ دردسے دہری ہوتیں اباّجی انھیں بالوں سے پکڑکرسیدھاکرتے۔۔۔۔۔(جاری ہے)
 

خاورچودھری

محفلین
اورپھرپیٹناشروع کردیتے۔چہرہ چھلنی ہو گیا تھا،ہونٹوں سے خون کے فوارے پھوٹ بہے تھے،نس نس میں گویادردکی لکیریں بن گئی تھیں ۔ اورجب اباّجی مارمار کر تھک گئے توانھیں دھکادے کرزمین پرڈال دیا…
”اباّجی!میری بھی توسنتے“
جب انھوں نے اپنی چیخیں ضبط کرتے ہوئے کہاتواباّجی نے سیدھے پاوٴں سے زوردار ٹھوکر ان کے ماتھے پرلگائی اوروہ دردسے بلک اُٹھیں ۔اس لیے نہیں کہ چوٹ بہت گہری تھی،اس لیے کہ اباّجی نے بھی انھیں بدذات،حرام کاراوررنڈی کہاتھا۔پھوپھو،بہروز اور نوروزیہ منظر دیکھتے رہے ،مگرکسی نے مداخلت نہ کی…اورکرتے بھی کیسے کہ وہی توان کی جان کے دشمن تھے۔
###
بانوخاتون کوجب ہوش آیاتووہ اپنے کمرے کی چارپائی سے بندھی ہوئی تھیں اور ان کے جسم پرلباس کے نام پردھجیاں تھیں۔انگ انگ سے خون رس رہاتھا اور رُواں رُواں درد سے پھٹ رہاتھا۔انھیں اپنے جسم پرلگنے والے گھاوٴسے زیادہ روح پرآنے والے زخموں سے تکلیف ہوئی تھی۔ان کے ذہن میں لسوڑے کے درخت تلے پیش آنے والا منظر پوری طرح جاگ چکا تھا …اورپھوپھوکی زبان سے نکلے ہوئے غلیظ لفظ پہلے سے زیادہ کریہہ معلوم ہورہے تھے۔ وہ نوروز جسے وہ ہمیشہ اپناسگابھائی سمجھتی آئی تھیں مجسم شیطان نظر آرہا تھا…وہ نہیں جانتی تھیں کہ انھوں نے اباّجی کے سامنے کیاکہانی گھڑی تھی، مگروہ ان دونوں ماں بیٹوں کاخون پیناچاہتی تھیں۔
”مجھے حرام زادی کہتی ہیں اورخودوارث ماموں کودن بھراپنے کمرے میں بند رکھتی ہیں“
بانو خاتون نے نفرت سے سوچا۔
”حرافہ توخودہیں،اباّجی کے گھرسے نکلتے ہی حویلی کے دروازے سے لگ جاتی ہیں اور ہر آتے جاتے مردکاوجودماپتی ہیں،گلی میں بیٹھے ہوؤں کوتاکتی ہیں۔“
سوچیں بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے دماغ میں زہربھی بڑھتاجارہاتھا۔
###
گھڑیاں،گھنٹوں،دنوں،ہفتوں اورمہینوں میں بدل گئیں…مگرقیدختم نہ ہوئی۔ پھوپھو ان کے سامنے کھانا ایسے رکھ کرجاتیں جیسے کسی کوڑھی اورجذامی کے آگے ڈال رہی ہوں ۔اُن کا بس نہیں چلتاتھاکہ وہ پھوپھوکودبوچ کران کی گردن سے لہوپی جاتیں۔اس سارے عرصہ میں ایک باربھی اباّجی اس طرف نہیںآ ئے تھے…اوروہ اپنے ناکردہ گناہوں کی سزاکاٹتی رہیں۔ پھرایک دن اباّجی آئے اوردرشت لہجہ میں کہا
”بانو!تمھیں کمرے سے رہائی مل رہی ہے…اورجان لو ایساکوئی قدم نہیں اُٹھاناکہ میں تمھیں قتل کرنے پرمجبورہوجاوٴں…اورہاں ڈھنگ کے کپڑے پہن لینا،کچھ لوگ تمھیں دیکھنے آ رہے ہیں۔“
بانوخاتون نے منت کے سے اندازمیں پکارا
”اباّجی…!“
”مت کہومجھے اباّجی“
اورپھراباجی نفرت سے منہ پھیرکرچلے گئے
بانوخاتون کے وجودمیں جیسے شعلے سے لپک گئے ہوں۔انھوں نے دکھ اور گھبراہٹ کی حالت میں سوچا
”کیامیں واقعی بدذات اورحرام کی جنی ہوں ، جواباّجی مجھ سے اس قدر نفرت کرتے ہیں“ گولی کی سی سرعت کی طرح ایک اورحقیقت ان پرواضح ہوئی کہ اباّجی نے تو کبھی ان سے محبت کی ہی نہیں تھی… وہ تواپنے کاروباراورجاگیرمیں ہمیشہ مصروف رہے… اور یہ پھوپھو کی لعن طعن اورباسی ٹکڑوں پرپلتی رہیں۔اب ان کے دل میں اباّجی کے لیے بھی نفرت بڑھ رہی تھی۔
###
یوں ہی ایک شام انھیں سلیم کے کھونٹے پر باندھ دیاگیا…وہ سلیم جس کانہ پہلے نام سناتھا،نہ دیکھاتھا۔خودمیں چھپی ہوئی یہ ایک پلنگ میں دبکی بیٹھی رہیں…سلیم آتا ہے ، حکم جاری کرتاہے…ایسے جیسے کسبیوں اورزرخریدوں کوجاری کیاجاتاہے اورپھررات بھر کتاگوشت کے لوتھڑے کو بھنبھوڑتا رہا ۔ آنے والے کئی دن بھی اسی طرح گزر گئے… دونوں کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی…سُورپلتارہا،کھیت اجڑتارہا۔تین ماہ گزرگئے پھر ایک صبح سلیم نے تین لفظ کہہ کرانھیں رونے کے لیے چھوڑدیااورکہہ گیا
”میں لوٹوں توتمھاری شکل نہ دیکھوں“
خدائے زندہ کے سامنے دوزانوہوکروہ اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی مانگتی رہیں ۔ جب دردچیخوں،آہوں اورسسکیوں میں بدل گیاتوپڑوسن چلی آئی
”اری کیوں جی ہلکان کرتی ہے کم بخت!نہ رو۔تم سے پہلے چارجیون اجاڑچکاہے موا۔ ارے لعنت ہوایسے والدین پرجوبن دیکھے ایسوں سے باندھ دیتے ہیں۔“
پڑوسن اورنہ جانے کیا کیا کچھ کہتی رہی…اوریہ توجیسے ہوش ہی کھوبیٹھی تھیں۔ جائیں تو جائیں کہاں؟اباّجی نے توگھرسے نکالنے کے بعدپلٹ کربھی نہ دیکھا… پھوپھو اور نوروز کا خیال آیاتوروح کوآگ لگ گئی۔ پورے وجودمیں جیسے چنگاریاں رینگنے لگی ہوں…روم روم سلگتارہا،دردبڑھتارہا،خون گھٹتا رہا ، وقت گزرتا رہا،دم نکلتارہا۔بہت سوچنے کے بعد وارث ماموں کاخیال آیاتواس کے ساتھ ہی یہ منظربھی ذہن میں جاگ بیٹھاکہ وہ توخوداپنی بیوی سے چھپ چھپ کرپھوپھوکی آگ بجھاتے ہیں…تب انھوں نے اپنے ٹوٹے ہوئے وجود کی کرچیوں کوسمیٹناشروع کیا۔ایک ایک کرکے انھیں زمین سے اُٹھایااورصاف کرکے اپنے پوٹلی میں باندھ لیا۔اب منزل کوئی نہیں تھی،صرف راستہ تھا…پُرخار ،پُر پیچ، پُردرد … دکھوں،تکلیفوں،آہوں،سسکیوں،یادوں اورنفرتوں سے پُر… ایک لمبانہ ختم ہونے والابے انت راستہ #
جتنی دُورچلوں میں پیارے
عمرکارستہ بڑھتاجائے
امرت دھاراکیسے پاوٴں
وہ چلتی رہیں،جلتی رہیں…اوراس چلنے اورجلنے میں انھیں ایک کرن دکھائی دے گئی۔سلیم کے ساتھ گزراہواوقت یادکرناان کے لیے سوہان روح تھا،مگراس نوزائدہ کاکیادوش جس نے ابھی دنیا میں سانس لیاتھا…احسان…نہ جانے کیاسوچ کرانھوں نے اس پھوٹنے والی روشنی کو احسان کانام دیاتھا۔
###
اب بانوخاتون تھیں،احسان تھااورکوچنگ سینٹر۔دن کے پہلے پہروہ ایک پبلک اسکول میں پڑھاتیں اورپچھلے پہراپنے کوچنگ سینٹرمیں ۔ دونوں ماں بیٹاعموماًساتھ ہوتے یا یوں کہیے ماں نے کوکھ سے جنم دینے کے بعدبھی بیٹے کوخودسے جدانہیں کیا تھا… اور خود چند لمحوں کے لیے بھی ماں کی شفقت نہ پاسکی تھیں۔ اِدھریہ پیداہوئیں،اُدھرماں ساتھ چھوڑ گئی ۔نہ بہن ، نہ بھائی،نہ گھر،نہ در…اباّجی…؟انھوں نے توجیسے زہرمیں بجھاہواتیران کے سینے میں چبھو چھوڑا تھا۔کوچنگ سینٹر،اسکول میں بدل گیا۔محنت رنگ لائی اوراحسان سے محبت بھی…معیشت بھی جواں ہوئی اوراولادبھی۔اب شایدان کے زخموں کے بھرنے کاوقت آن پہنچاتھا…یقینا وہ ماضی کوبھولناچاہتی تھیں…اورماضی سے وابستہ سب لوگوں کوبھی، مگرایساممکن نہیں تھا۔وہ جب کبھی پرنسپل روم میں کسی بچے کے ساتھ اس کے والد کودیکھتیں توبے اختیارانھیں احسان پر ترس آنے لگتااوران کی آنکھوں سے سیلابِ بلاخیز رواں ہوجاتا…اپنے اباّجی یادآجاتے ،جن کے سایے میں نہ سہی قربت میں توانھوں نے زندگی کے بیس برس گزارے تھے۔
”پھوپھو…کیوں کیامیرے ساتھ اس طرح آپ نے؟“
وہ سوچتیں اورپھربندآنکھوں آنسو اپنے حلق سے سینہ میں اُتارنے لگتیں۔اوروہ دن کتنا بھاری تھا جب احسان نے پوچھاتھا
”اماں!بابااورآپ کا کوئی رشتہ داراس دنیامیں زندہ نہیں ہے؟“
”نہیں بیٹے!“
اوروہ پھوٹ پھوٹ کررودیں…بالکل اسی طرح جیسے وہ اپنے اباّجی کی طرف سے دی گئی گالیوں پرروئی تھیں…تب احسا ن نے بڑھ کرماں کاہاتھ تھاما اورپھر اپنی آنکھوں سے لگا لیا
###
یہ احسان کی شادی سے چندبرس اُدھرکی بات ہے۔ایک روزوہ عوامی مرکزسے خریداری کررہی تھیں،اچانک ان کی نگاہ ایک شخص پرپڑی اورپھران کے وجود پرلرزہ طاری ہوگیا۔ جو کچھ منتخب کیاتھا،اسے وہیں چھوڑااورلجاجت سے کاوٴنٹرپربیٹھے شخص کوکچھ کہااور آ کر گاڑی میں بیٹھ گئیں…گاڑی کے پہیے اورہینڈل گھومتے رہے اوران کادماغ بھی۔
”سلیم کے ساتھ نوجوان لڑکی کون ہوسکتی ہے؟اس کی نوعمربیوی ؟نہیں…نہیں، پھر بیٹی ہوگی۔“
انھوں نے سوچا…
کئی دن تک وہ اس وجہ سے بیماررہیں۔ماضی کی یادیں ان کے ساتھ سایوں کی طرح چمٹ چکی تھیں۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
 

خاورچودھری

محفلین
پھرایک ایک رات کا اُجاڑپن ان کی روح اور دل کو زخمی کر نے لگا۔نفرت اور کر اہت سے وہ وقت کاٹتی رہیں ۔ ۔ ۔ اور اباّجی، پھوپھو، بہروز، نوروز، وارث ماموں اور سلیم کا نام لے لے کر تھوکتی رہیں
’’تف ایسے رشتوں پر۔ ۔ ۔ حیف میرا اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزرا‘‘
انھوں نے سوچا، مگر ؂
ہونی ، ہوکے رہتی ہے
فرق کچھ نہیں پڑتا
آنسوؤں کے بونے سے
٭٭٭
ایم بی اے کے بعداحسان فارغ تھا۔جاب کے لیے چندجگہوں پرکوشش کی ، مگر وہ ایسی کوشش نہیں تھی کہ باراور ثابت ہوتی۔ ۔ ۔ ویسے بھی اسکول کی آمدن اس قدرتھی کہ دونوں ماں بیٹاوقار سے وقت گزارسکتے تھے ۔تب احسان، بانوخاتون کے اسکول میں ان کا ہاتھ بٹانے لگا اور یہیں اس کی ملاقات عفت سے ہوئی۔عفت سائنس کی ٹیچرتھی۔ ۔ ۔ اپنے مضمون کے ساتھ پورا انصاف کر تی تھی، اسی سبب سے بانوخاتون بھی اسے پسند کر تی تھیں ۔پھر ایک دن احسان نے ماں کے سامنے اپنے دل کی بات رکھ دی۔ماں کوکیا اعتراض ہو سکتا تھا۔اِکو اِک بیٹا اور وہ بھی نازوں پلا۔ ۔ ۔ اور پھرعفت میں بھی کچھ کمی نہیں تھی۔
بانوخاتون کویادآیاعفت کی ماں نے دوسری شادی رچا لی تھی اور یہ بے چاری اپنی بیوہ نانی کے پاس رہتی تھی۔انھیں نے پالاپوسا اور پڑھایالکھایا۔ شادی طے ہو گئی۔نیشنل کر کٹ اسٹیڈیم کے کھلے میدان میں ولیمہ کی دعوت رکھی گئی۔بانوخاتون کا کون تھاجسے بلاتیں ۔لے دے کے اسکول اسٹاف۔ ۔ ۔ چند سہیلیاں اور احسان کے کچھ دوست ۔عفت کی طرف سے بہت لوگ تھے ۔بانوخاتون کو بتایاگیاکہ عفت کی ماں بھی اپنے شوہر سمیت شادی میں شریک ہو رہی ہیں ۔اِنھیں کیا اعتراض ہو سکتا تھابھلا۔
نیشنل اسٹڈیم کے صدر دروازے پرب اور دی گارڈمہمانوں کا استقبال کر تے رہے ۔ ان سے چندگزکے فاصلہ پر احسان کے دوست آنے والوں کو خوش آمدیدکہنے کے لیے کھڑے تھے ۔صدر دروازہ اور اس سے نکلنے وا لی شاہراہ کی دونوں اطراف میں روشنی کے قمقوں نے ایسا سماں باندھا تھا، جیسے ستارے زمین پر اُترآئے ہوں ۔زرق برق لباس پہنے بوڑھی عورتیں اور جوان لڑکیاں اپنے ہونے کی گواہی دے رہی تھیں ۔طرح طرح کے ذائقوں کی خوشبونے ماحول پر وجد کی سی کیفیت طاری کر رکھی تھی۔ ۔ ۔ مہمان آتے جاتے اور مخملیں نشستوں پربیٹھتے جاتے ۔ اسٹیج پر دولہا اور دلہن اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ موجود تھے ۔ رسمیں شروع ہوئیں ، سلامی دی جانے لگی۔ ۔ ۔ تب ایک شعلہ لپکا اور بانو خاتون کے جسم کو بھسم کر گیا۔
ہاتھوں میں پھول لیے سلیم ان کے سامنے تھا۔وہ سلیم جس نے ان کی زندگی کانٹوں سے بھر دی تھی اور ۔ ۔ ۔ اور اب اس کے ہاتھوں میں پھول تھے ۔عفت کی نانی نے تعارف کر اتے ہوئے بتایا
’’یہ سلیم ہیں ، عفت کے سوتیلے باپ‘‘
بانوخاتون کے اندرتباہی آمیزجھکڑچلنے لگے ، اعتمادکی دیواریں یکایک زمین بوس ہونے لگیں ، یوں لگتا جیسے ان کی دنیا اندھیرہوجائے گی۔ ۔ ۔ شادی کے سارے منظر ماضی کے زہر میں بجھ گئے ۔ چیخیں حلق کے اندر دم توڑنے لگیں ۔ ۔ ۔ ایک ایک کر کے اُن ساری راتوں کا دُکھ ان کی آنکھوں میں اُتر آیاجو انھوں سلیم کے ساتھ کاٹی تھیں ۔ اور اُدھرسلیم کے ہاتھ سے گل دستہ گر کر دونوں کے پاؤں چوم رہا تھا
’’بانوخاتون۔ ۔ ۔ تم!‘‘
سلیم نے کہاتو اسٹیج پرموجودسبھی لوگ چونک کر ان کی جانب دیکھنے لگے ۔عفت کی ماں نے احسان کی اماں کو مخاطب کر تے ہوئے کہا
’’آپ انھیں جانتی ہیں ؟‘‘
تب تک بانوخاتون خودکو سنبھال چکی تھیں ۔انھوں نے وقار اور طمانیت سے کہا
’’جی۔ ۔ ۔ لیکن تفصیلات بعد میں بتاؤں گی‘‘
’’قاضی جی نکاح پڑھوایے ‘‘
احسان کی اماں نے خوش دلی سے کہا، جیسے کوئی اَن ہونی ہوئی ہی نہیں ۔ حالانکہ ان کے دل و دماغ سمیت روح پربھی ایک قیامت گزر چکی تھی۔جسم کے سمندر میں ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں کو اس اندازسے سہا، جیسے بڑی تباہی کے آنے سے پہلے خودسمندر سہتا ہے ۔ ۔ ۔ وہ چاہتیں تو اس شادی کو رکوا سکتی تھیں ۔ ۔ ۔ مگرانھوں نے اپنے دکھوں پربیٹے کی خوشیوں کو قربان نہیں کیا۔
شادی کے ہنگامے ختم ہوئے ۔عفت، بانوخاتون کے نازوں پلے بیٹے کی بیوی بن کر ان کی کوٹھی میں آ چکی تھی۔شادی کا تیسرادن تھا۔ ۔ ۔ احسان کے سسرا لیوں نے آنا تھا اور اِدھر بانو خاتون کے دماغ کی رگیں چٹخ رہی تھیں ۔
’’یقیناسلیم بھی ان کے ساتھ ہو گا‘‘
انھوں نے نفرت سے سوچا اور پھرایک طرف تھوک دیا۔ ۔ ۔ مگر اب پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا تھا ۔ گئی بات کو تو گھوڑا نہیں پہنچ سکتا، زمانہ کی ستم رسیدہ بانو خاتون کیا کر سکتی تھیں ۔ انھوں نے اپنے وجودکو سمیٹا بالکل اُسی طرح جیسے پچیس سال پہلے سلیم کے گھر سے نکلتے ہوئے پوٹلی میں اپنے وجود کی کر چیوں کو باندھا تھا ۔ ۔ ۔ ایک وقار سے مہمانوں کا استقبال کر نے لگیں ۔سلیم سرجھکائے ، ندامت وپشیمانی کا پہاڑسرپراُٹھائے عفت کی ماں کے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا۔کھانے کے دوران سلیم اور بانوخاتون ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہے ۔ کھاناختم ہواتو اچانک عفت کی ماں نے احسان کو مخاطب کر تے ہوئے کہا
’’بیٹا!ہم پرانے رشتہ دارہیں ‘‘
بانوخاتون نے چونک کر اپنے بیٹے کی ساس اور اپنے سابقہ خاوندکی منکوحہ کی طرف دیکھا۔ وہ سمجھتی تھیں سلیم ایسی کوئی حرکت نہیں کر ے گا، جس سے بچوں کی زندگی متاثر ہو۔ ۔ ۔ مگرازل کے خود غرض شخص نے وہی کیاجو اس کی سرشت میں شامل تھا۔
’’امی یہ کیاکہہ رہی ہیں آپ؟‘‘
عفت نے اپنی ماں سے پوچھا
’’ٹھیک کہہ رہی ہوں بیٹی، بانوخاتون ، سلیم کے عقد میں رہ چکی ہیں اور احسان ان کا بیٹا ہے ۔‘‘
بانوخاتون نے چاہاکہ وہ چیخ چیخ کر اس بات سے انکار کر دیں اور کہہ دیں کہ احسان اس سانپ کا بیٹانہیں ہے ، مگروہ ایسانہ کر پائیں ۔ ۔ ۔ نہ جانے کیوں ؟
تب احسان کی سوا لیہ نظریں اپنی ماں کی جانب اٹھیں تو انھوں نے اثبات میں سرہلا دیا
’’لیکن اماں آپ نے مجھ سے کیوں کہا تھاکہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں رہا؟‘‘
’’تو پھرکیابتاتی تمھیں ؟‘‘
یہ لفظ اماں کی زبان سے نکلے ہی تھے کہ ان کے چہرے پرموجود کچھ شکنیں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔اس چہرے پر جو وقت سے پہلے بڑھاپے کی چادراوڑھ چکا تھا ۔
’’مگراماں اتنی بڑی بات آپ نے مجھ سے آج تک چھپائے رکھی‘‘
احسان نے قریباًروتے ہوئے کہا۔
’’کیسے بتاتی کہ تمھارے باپ نے مجھے کبھی بیوی سمجھاہی نہیں تھا، کیسے بتاتی کہ میں تین ماہ نُچتی رہی اور پھرنوچنے والے نے مجھے گھر سے نکال کر گلی میں پھینک دیا ۔ ‘‘
انھوں نے سوچا
ندامت اور تاسف سے ہاتھ ملتے ہوئے سلیم کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اور وہ صرف اتنا کہہ پایا
’’بانوخاتون مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔ احسان میں تمھارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں ‘‘
بانوخاتون نے نفرت سے زمین پرتھوکا اور وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئیں ۔ ۔ ۔ انھیں ایک ایک رات اور اُن سے وابستہ دکھ یادآتے رہے ۔ دل کے سمندر میں اُٹھنے وا لی خاموش موجوں نے طوفان کھڑا کر دیا۔وہ روتی رہیں ، دل کا لہو جلاتی رہیں ۔ انھیں دیکھنے کوئی نہ آیا۔ صبح جب وہ اُٹھیں تو ان کی طبیعت بوجھل تھی۔ ۔ ۔ مگرپھربھی ناشتے کی میز تک آ گئیں
’’ماسی کیابہونہیں اُٹھیں ؟‘‘
’’بیگم صاحبہ چھوٹی بیگم اور صاحب تو رات کوہی مہمانوں کے ساتھ چلے گئے تھے ‘‘
دکھ کا ایک پہاڑآسمان سے گراجس کے بوجھ تلے بانوخاتون دب گئیں ۔ ۔ ۔
’’واہ احسان وا!خوب میر ی محنتوں اور محبتوں کا صلہ دیاتو نے ‘‘
انھوں نے سوچا اور ماسی سے کہا
’’میں کمرے میں جارہی ہوں ، میرے لیے کچھ مت لانا‘‘
اور پھراپنے کمرے میں چلی آئیں ۔
’’سانپ کا بیٹا سانپ ہی ہوتا ہے ‘‘وہ بڑبڑائیں ۔ ۔ ۔ ’’محنت اور محبت‘‘
یہ دولفظ ان کے لبوں سے پھسلے ۔ ۔ ۔
’’بیگم صاحبہ جی!کچھ کھاپی لیں ، آپ رات کو بھی ایسے ہی سوگئی تھیں ‘‘
ماسی نے کہاتو بانوخاتون نے چاہاکہ وہ چیخ چیخ کر اس عورت کو بتائیں وہ رات کو سوئی کہاں تھیں ، وہ تو شب بھرپل صراط سے گزرتی رہیں ۔پھرانھوں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
’’اچھاچلو!جوس کا گلاس یہاں رکھ دو، میں پی لوں گی‘‘
ماسی نے بیڈکے ساتھ داہنی طرف پڑی ہوئی میزپرگلاس رکھا اور باہرچلی گئی۔
’’ماسی پھراچھی ہے ، اسے میراخیال تو ہے ۔احسان جس پر میں نے زندگی لٹا دی یوں پل بھر میں سارے رشتے توڑ کر چلاگیا۔ ۔ ۔ اور اباّجی جن کی محبتوں کے لیے ہمیشہ ترستی رہی ۔ ۔ ۔ اور پھوپھو جن کے لیے میں نے اپنے معصوم ہاتھ جلا کر روٹیاں پکائیں ۔ ۔ ۔ اور بہروزبھائی جن کے نہانے تک کا پانی میں نے بھرا۔ ۔ ۔ اور نوروز۔ ۔ ۔ (گھن آتی ہے اسے بھائی کہتے ہوئے )اس کے لیے کوئلے دہکا دہکا کر کپڑے استری کیے ۔ ۔ ۔ اور سلیم۔ ۔ ۔ جو تین ماہ صرف اپنی ہوس مٹاتارہا۔
اوہ ۔ ۔ ۔ خدایا!میں کس عذاب سے گزر رہی ہوں ۔اب تو ان دکھوں کی اخیر کر دے ۔‘‘
انھوں نے خودکلامی کی۔ ۔ ۔
پھرانھوں نے اپنے محنت آشناہاتھوں کو پیالہ بنا کر آنکھ سے نکلنے والے موتیوں کو ان میں بھر لیا۔ ماسی دوبارہ آئی تو جوس کا گلاس وہیں رکھا تھا۔ ۔ ۔ اور بانوخاتون کا چہرہ ہتھیلیوں کے پردے میں تھا۔
ان کے لیے وقت ایک بارپھرتھم چکا تھا۔ ۔ ۔ یاپھرماضی کی طرح پتھروں کی چٹان تلے آ چکا تھا ۔ وہ ان واقعات کو بھولنا چاہتی تھیں ، مگریہ ممکن نہ تھا ؂
دوست ، کہاں ہیں دوست
نیلے خون کی خوشبونے
رازاُگل ڈالے
لوگوں نے تو سنا تھا۔ ۔ ۔ مگربانوخاتون مارِآستین سے ڈسی گئیں ، ڈسی جاتی رہیں ۔
اب احسان اپنے باپ کے ساتھ رہ رہا ہے ۔اماں نے حصہ میں اسے اسکول لکھ دیا ہے ۔کبھی کبھاروہ اپنی بیوی اور بچوں رامش اور دانش کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے یہاں چلا آتا ہے ۔ ۔ ۔ لیکن اب کی بارتو نہیں آئے وہ لوگ۔ ۔ ۔ اماں کی بیماری پربھی نہیں ۔ماسی نے تو یہی بتایا تھا کہ احسان اور بہو کو اطلاع کر دی گئی تھی۔ ۔ ۔ اور بیگم ضراربتارہی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’اُف اللہ۔ ۔ ۔ یہ میرے ساتھ کیا ہوا؟‘‘
بانوخاتون نے سوچا۔
٭٭٭
ڈاکٹرکمرے میں داخل ہوتا ہے
’’بیگم صاحبہ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟‘‘
’’بہترہوں ، ڈاکٹرصاحب‘‘
بانوخاتون کی آوازدُورکسی وادی سے آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔
٭٭٭
وہ بوڑھے ما لی اور ماسی کے ساتھ گھرلوٹ چکی ہیں ۔کوٹھی کے چاروں اور پھیلے ہوئے سبزے سے ہوا اٹھکھیلیاں کر رہی ہے ۔ریاض پودوں کو پانی دے رہا ہے اور پودوں سے جدا ہو جانے والے پتوں کو اُٹھا کر ہتھ ریڑھی میں ڈال رہا ہے ۔بانوخاتون ادبی رسالے کا نیا شمارہ جھولی میں رکھے مطالعہ کر رہی ہیں ۔ دفعتاًاُٹھتی ہیں اور بے چینی سے زمرد سار گھاس کے فرش پر ننگے پاؤں چلتی ہیں اور بے تابی کے ساتھ ریاض کو پکارتی ہیں
’’ریاض۔ ۔ ۔ اِدھرتو آنا‘‘
’’جی بیگم صاحبہ‘‘
کہہ کر بوڑھاما لی اپنے کپڑے جھاڑتا ہواچلا آتا ہے
’’ریاض!تمھیں کتنے مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی؟‘‘

٭٭٭
 

خاورچودھری

محفلین
کرپٹ ونڈوز

٭٭٭

کر پٹ ونڈوز



’’علی دیکھنایارکمپیوٹرپھرنہیں آن ہورہا‘‘
’’جی سر‘‘
’’کون بیٹھتا ہے میری سیٹ پر؟‘‘
’’کوئی نہیں سر‘‘
’’پھرکیوں روزمیراکمپیوٹرڈسٹرب ہوجاتا ہے ؟‘‘
علی خاموشی سے سسٹم آن کر نے کی کوشش کر تا ہے ، مگراسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
’’سر۔ ۔ ۔ ونڈوزکر پٹ ہو گئی ہے ‘‘وہ کہتا ہے
’’ایک تو مارکیٹ میں کوئی چیزبھی معیاری نہیں آتی، جو بھی شے خریدودونمبر۔ایکس پی ونڈوز کی نئی سی ڈی پچھلے ہفتے ہی تو منگوائی تھی۔ایک ہفتہ میں دوبار انسٹا لیشن، حدہو گئی۔‘‘
تحسین نے تلخی سے کہاتو علی کے ہونٹوں پرمعنی خیزمسکر اہٹ پھیل گئی۔ ۔ ۔
’’کیوں بتیسی دکھارہے ہو؟‘‘
’’سر!اگرہم براہِ راست بل گیٹس سے معاہدہ کر کے مائیکر وسافٹ کے ونڈوزاستعمال کر تے تو وہ یوں کر پٹ نہ ہوتے ۔‘‘
علی نے کہاتو تحسین کی باچھیں کانوں کو چھونے لگیں ۔ ۔ ۔ اپنے قہقہے پرقابوپاتے ہوئے اس نے کہا
’’ہاں یار۔ ۔ ۔ ٹھیک کہتے ہوتم۔ہم خودبھی دونمبریے ہیں اور چور راستے سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔بل گیٹس کو معلوم ہوا، تو وہ ہم پربھی ہرجانہ کا دعویٰ کر دے گا۔روسی استاد تو خوش نصیب تھا اس کے لیے میخائل گورباچوف نے بل گیٹس سے دست بستہ معذرت کر لی تھی ، مگر ہمارے لیے کوئی نہیں بولے گا۔‘‘
اب قہقہ لگانے کی باری علی کی تھی
’’ سر!مطمئن رہیے ۔بل گیٹس اتنی آسانی سے یہاں تک نہیں پہنچ سکے گا۔چائنہ کی آسمان سے باتیں کر تی ہوئی مارکیٹوں میں بیٹھے ہوئے جعلسازوں سے نبٹتے نبٹتے اس کی عمر گزر جائے گی۔ ۔ ۔ اس کے چین سے لوٹنے تک ہم چین سے رہ سکتے ہیں ۔‘‘
’’ہوں ۔ ۔ ۔ چلودیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘
تحسین نے کہا
’’فائروال لگادوں سر۔ ۔ ۔ ؟‘‘
علی نے پوچھا
’’ہاں یہ بہتر رہے گا‘‘
’’ویسے سرآپ بھی تو کسی کو معاف نہیں کر تے ہیں ، پھرآپ کے کمپیوٹرپروائرس کا اٹیک نہ ہو تو کیا ہو؟‘‘
’’تو کیا میں کسی سے زیادتی کر تا ہوں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’میں نے یہ تو نہیں کہاسر!‘‘
علی نے قدرے لجاجت سے کہا
’’تمام پروگرامزانسٹال ہوجائیں تو مجھے بتادینا۔میں نیوزروم میں بیٹھا ہوں ‘‘تحسین یہ کہہ کر اپنے دفتر سے نکل جاتا ہے ۔ ۔ ۔
’’سرکے دماغ میں بھی ناں ۔ ۔ ۔ ‘‘
علی بڑبڑاتا ہوا کی بورڈاپنی جانب کھینچتا ہے
٭٭٭
پیراگون پلازا کی ساتویں منزل پر روزاس طرح کی باتیں ہوتی رہتی تھیں ۔ بیسیوں کمپیوٹرزپرکام کر نے والے کمپوزرز، پیج میکر ز اور سب ایڈیٹرزعلی کی خدمات حاصل کر تے ۔ ۔ ۔ علی ایم سی ایس کر نے کے بعدطویل عرصہ تک ملکی وغیرملکی اداروں کی دُھول پھانک چکا تھا، مگراسے کہیں بھی مناسب جاب نہ ملی۔ ۔ ۔ تب اس نے اِس روزنامہ میں کمپیوٹر لیب انچارج کی حیثیت سے نوکر ی کر لی۔ ۔ ۔ تنخواہ ۔ ۔ ۔ بس اتنی تھی کہ وہ خود کو صاحبِ روزگار کہہ سکتا تھا۔ ۔ ۔ اور وہ عمراحمد ۔ ۔ ۔ جس نے اس کے ساتھ ہی اپنی تعلیم مکمل کی تھی، ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں قابلِ رشک تنخواہ پرکام کر رہا تھا
’’چا لیس ہزار روپے ماہ وار، سیلولرفون کا خرچ الگ اور رہائش کی سہولت الگ۔ ۔ ۔ ‘‘
علی اکثر سوچتا تھا اور پھرعمراحمدکے والدکے اثرورسوخ کا سوچ کر خاموش ہو جاتا ۔
’’ظاہرہے لمبی سفارشوں سے ہی ایسی نوکر یاں ملتی ہیں اور جن کے پاس سفارشیں نہیں ہوتیں وہ معمولی تنخواہ پرکام کر نے پرمجبورہوتے ہیں ‘‘
اس دن بھی علی نے سوچا تھا۔ویسے تحسین صاحب جب سے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہو کر یہاں آئے تھے علی زیادہ خوشی سے کام کر نے لگا تھا۔وہ کارکنوں کے ساتھ خوش سلیقگی سے پیش آتے ، ہنس مکھ ، کم گو، کام سے کام رکھنے والے اور بلاوجہ رعب نہ ڈالنے والے تحسین تو جیسے علی کے دل میں ہی اُترگئے تھے ۔ ۔ ۔ اور وہ پہلے والا ایڈیٹر۔ ۔ ۔ خبیث !ہروقت زیرِلب بکتا رہتا۔ ۔ ۔ مالکوں کو بھی معاف نہیں کر تا تھا اور کارکنوں کو بھی نہیں بخشتا تھا۔ہروقت ایڈیٹری جھاڑتا ۔ ۔ ۔ سڑیل۔ ۔ ۔ خودکو، ٹی ایس ایلیٹ، حسرت موہانی ، فیض احمدفیض اور احمدندیم قاسمی سے بھی بڑاصحافی اور ایڈیٹر سمجھتا تھا۔ ۔ ۔ آغاشورش کاشمیری اور حمیداخترتو گویا اس کے سامنے پانی بھرتے تھے ۔ ۔ ۔ علی کی چکنی جبیں پرناگوارشکنیں نمودارہوئیں تو اس نے سرجھٹک کر اپناکام شروع کر دیا۔
٭٭٭
صوبہ کے سینئرصحافیوں کا وفد ترکی جانے کے لیے تیارہواتو تحسین بھی ان میں شامل تھا۔پاسپورٹ پرویزا لگ کر آ گیا تھا۔ ۔ ۔ مگرنہ جانے کیابات ہوئی کہ، اس نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا۔ ۔ ۔ علی جو اس کے ساتھ صحافتی اموربھی انجام دینے لگا تھاوہ اس وفد کے ساتھ چلاگیا۔ ۔ ۔ یہ بارباراُس کو تاکید کر تا
’’علی کھلی آنکھوں دورہ مکمل کرنا۔ ۔ ۔ ہراہم شخصیت اور مقام کی تصویرلینا۔ ۔ ۔ جس جگہ جاؤ وہاں کا حدوداربعہ، تاریخ اور خصوصیات ضرورنوٹ کرنا۔ ۔ ۔ اور ہاں ! عام لوگوں سے بھی ملنا اور ان سے برصغیرخصوصاًپاکستان کے مسلمانوں کے حوالے سے رائے لینا۔ ۔ ۔ یہ نہ ہوتم جا کر وہاں سوجاؤ اور پھر دوسرے اخبارات بازی لے جائیں ‘‘
٭٭٭
گورنرہاؤس کے سامنے معمول سے زیادہ گاڑیاں تھیں ۔تحسین اپنے تاجر دوست نجم کے ساتھ اپنی پرانی خیبرکار میں بہت دیرتک ٹریفک کی بے ترتیبی میں پھنسا رہا۔ بڑی مشکلوں سے وہ وہاں سے نکل کر مال روڈپرطاہرپلازاتک پہنچا۔وہاں بھی انسانوں کا بے کر اں ہجوم تھا۔یوں معلوم ہوتا تھاجیسے آدمی میں آدمی کاشت کیا ہوا ہے ۔ شایدتل دھرنے کو جگہ نہ ہونا والامح اور ہ ایسی ہی کیفیت دیکھ کر کسی نے تخلیق کیا ہو گا۔ شام کے سایے پھیل رہے تھے ۔ ۔ ۔ ہجوم بھی بڑھ رہا تھا۔گاڑی ایک طرف کھڑی کر کے یہ دونوں طاہر پلازا کی جانب بڑھ گئے
’’کوٹ ماسٹر‘‘
سائن بورڈپڑھ کر دونوں ایک ٹیلرکے شوروم میں داخل ہوئے ۔چاروں طرف مختلف النوع اور اعلیٰ کوالٹی کے سوٹ ترتیب سے چھت تک اونچی الماریوں میں لٹکے ہوئے تھے ۔ دروازے کی سمت میں شیشوں سے اندرمجسموں کو بھی خوبصورت پہناوے پہنائے گئے تھے ۔کچھ لوگ جو ابھی کچھ دیرپہلے آئے تھے ان مجسموں کو محویت سے دیکھ رہے تھے ۔عیدکے لیے سلائے گئے سوٹ تحسین اور نجم نے اُٹھائے ۔ ۔ ۔ رقم اداکی اور نیچے اُتر آئے ۔ باہر اندھیرا تھا۔ ۔ ۔ شایدلوڈشیڈنگ کے باعث بجلی کی رومعطل ہوچکی تھی۔ ۔ ۔ البتہ کچھ دُکانوں میں آن ہوجانے والے جنریٹروں کے باعث بلبوں کی ہلکی لوچھن چھن کر باہرآرہی تھی یا پھر سڑک سے گزرنے وا لی گاڑیوں کی ہیڈلائٹس اندھیرے کا سینہ اچانک چیر جاتیں تو دُور تک روشنی کی لہرپھیل جاتی۔
٭٭٭
’’خاموشی سے بیٹھ جاؤگاڑی میں ‘‘
گھبراہٹ سے پلٹ کر تحسین نے دیکھاتو دومسلح نقاب پوش اس کے پیچھے کھڑے تھے ۔ نجم کو دو اور نقاب پوشوں نے پکڑ کر پہلے ہی اپنی گاڑی میں ڈال لیا تھا ۔ تحسین نے یک بارگی سوچا
’’ڈاکوہوں گے ۔ ۔ ۔ لوٹ کر چھوڑدیں گے ، ان سے اُلجھنابے کا رہے ۔چندروپوں کے لیے خود کو زخمی کر وانادانش مندی نہیں ‘‘
پھرفیصلہ کن اندازسے آگے بڑھا اور کالے رنگ کی ٹیوٹا کر ولاکار میں بیٹھ گیا۔دونوں کی آنکھوں پرپٹیاں باندھی جانے لگیں ، تو انھوں نے مزاحمت کر نے کی کوشش کی مگراب یہ بے بس ہو گئے تھے ۔ ۔ ۔ ایک نقاب پوش نے اُلٹے ہاتھ سے وارکیا۔ ۔ ۔ واراس قدراچانک اور شدیدتھاکہ تحسین کے لیے سنبھلناممکن نہ رہا۔ ۔ ۔ نجم بھی سراپابے بسی کی تصویرتھا۔آنکھوں کے ساتھ ساتھ ہونٹوں پربھی ٹیپ چپکا دیاگیا اور ان کے ہاتھ پلاسٹک کی ڈوری سے باندھ دے ئے گئے ۔ ۔ ۔ اب تحسین کو اپنی حماقت کا احساس ہورہا تھا
’’مزاحم ہوتاتو زیادہ سے زیادہ ایک گولی چلا کر یہ لوگ بھاگ جاتے ‘‘اس نے سوچا
گاڑی مسلسل بڑھتی رہی۔ ۔ ۔ راستہ پھیلتارہا اور اس کی سوچیں بھی۔اس کی آنکھوں میں ان تمام صحافیوں کے چہرے گھوم گئے ، جنھیں نامعلوم لوگوں نے اغوا کر کے یا تو قتل کر دیا تھایاپھراپاہج بنا دیا۔ ۔ ۔ اس کے دماغ کے پردے پرقبائلی صحافی کی تصویر روشن ہوئی جس کی پشت پرہاتھ بندھے لاش اس کے غائب ہونے کے کئی دن بعدملی تھی۔ ۔ ۔ ایک اور قبائلی صحافی کا چہرہ سامنے آیاجس کے بھائی اور بھتیجے کو قتل کیاگیا تھا۔ ۔ ۔ خوداُسے اغوا کر کے کئی دن اذیت کا نشانہ بنایا جاتارہا۔ ۔ ۔ اُسے ملک کے دارالحکومت کے پوش ایریا میں قتل کیے جانے والے سینئرصحافی کا بھی خیال آیا۔ ۔ ۔ پھراس کی بند آنکھوں کے سامنے ا لیکٹرونکس میڈیاسے وابستہ کیمرہ مین اور رپورٹر کا چہرہ گھوم گیا۔تکلیف کی شدت سے اس کی کنپٹیاں سلگ رہی تھیں ۔ ۔ ۔ وہ اپنی بے بسی پر کڑھتا رہا۔ ۔ ۔ واہموں اور سوچوں کے ناگ اسے ڈستے رہے ۔کئی گھنٹوں کی اذیت ناک مسافت کے بعدجب انھیں گاڑی سے اُتاراگیاتو ان کا جسم بوجھل ہوچکا تھا۔ ۔ ۔ تھکاوٹ اور خوف نے ان کے قدموں کو زمین میں گاڑ دیا تھا۔ ۔ ۔ یوں معلوم ہوتا تھاجیسے ان کے کاندھوں پرکسی نے نانگاپربت اُٹھا کر رکھ دیا ہے ۔رات خاموش تھی۔ ۔ ۔ دُور کہیں سے گیدڑوں کی آوازگونجتی تو کتے بھی بھونکنے لگتے تھے ۔ ۔ ۔ اغوا کار مخصوص لہجہ میں آپس میں باتیں کر تے ۔ ۔ ۔ سرگوشی میں ایک دوسرے کو کچھ کہتے اور ساتھ ہی ساتھ انھیں بھی گھسیٹتے جاتے ۔ ۔ ۔ گھنٹہ بھرکا پیدل سفرصدیوں کو محیط لگتا تھا۔ ۔ ۔ رواں رواں چٹخ رہا تھا
٭٭٭
’’کیا ہو گاہمارے ساتھ۔ ۔ ۔ نہ جانے کون لوگ ہیں یہ۔ ۔ ۔ اور کیا چاہتے ہیں ‘‘
تحسین نے سوچا اور اس کے دماغ میں چیونٹیاں رینگنے لگیں
’’کھولودروازہ ۔ ۔ ۔ جلدی کر و۔ ۔ ۔ ‘‘
ایک کر خت آوازگونجی۔دروازہ اس طرح کھٹکھٹایا جا رہا تھا جیسے ہتھوڑے برس رہے ہوں ۔
’’کھولوسور۔ ۔ ۔ کہاں مرگئے ‘‘
دوبارہ صدابلند ہوئی۔ ۔ ۔ گڑگڑ۔ ۔ ۔ ڑڑڑڑڑ۔ ۔ ۔ دروازہ کھلنے کی آوازپیدا ہوئی۔ ۔ ۔ پھرایک کمرے میں انھیں دھکیل کر دروازے کو باہر سے چٹخنی چڑھا دی گئی۔ ۔ ۔ تحسین نے چیخنے کی کوشش کی، مگرچیخ اس کے گلے میں قتل ہوکر رہ گئی۔ ۔ ۔ بندھے منہ سے چیخ کہاں نکل پاتی ہے ۔دروازہ بند ہوا تو کچھ دیرسرگوشیوں کی آہٹ ان کے کانوں سے ٹکر اتی رہی، پھرخاموشی چھا گئی۔ ۔ ۔ قبرکی سی خاموشی۔رات جیسے تھم گئی تھی ۔ اور وقت جیسے زنجیروں سے باندھ دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ جکڑے ہاتھوں ، ٹیپ چپکے مونہوں اور بندھی آنکھوں نے ان کے دماغوں کو بھی تاریک کر دیا تھا۔خوف کے سیاہ ناگ پھن پھیلائے انھیں ڈسنے کو دوڑ رہے تھے ۔ ۔ ۔ کچی اور ننگی زمین کے فرش پرنہ ان سے بیٹھا جاتا نہ لیٹا۔ ۔ ۔ حشرات الارض کی آوازیں گہری خاموشی کا سینہ چیر رہی تھیں ۔کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کا شوربھی خاموشی توڑدیتا۔
تحسین جب تھکاوٹ سے بے حال ہوکر مٹی کے فرش پرلیٹاتو کچھ دیربعداسے اپنے وجود پر کوئی کیڑارینگتا ہوامحسوس ہوا۔ ۔ ۔ اس نے سوچا
’’لال بیگ۔ ۔ ۔ ٹڈی ہو سکتی ہے ۔ ۔ ۔ یاکوئی زہریلاحشرہ؟‘‘
وہ بدک کر اُٹھ بیٹھا اور باقی رات اس نے اٹھتے ، بیٹھتے کاٹی۔کیاقیامت کی رات تھی وہ۔ ۔ ۔
’’فہمیدہ کس حال میں ہو گی؟۔ ۔ ۔ اور بچے راہ تکتے تکتے سوگئے ہوں گے ۔جانے کتنی بار اس نے دفترفون کر کے معلوم کیا ہو گا اور ہرمرتبہ اسے بتایاگیا ہو گاکہ ’’تحسین صاحب تو سہ پہر کو گھرکے لیے نکل گئے تھے ۔ ۔ ۔ ‘‘اس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کے بارے میں سوچا ۔ اور شائستہ۔ ۔ ۔ وہ سوچ رہی ہو گی کہ بھائی عید کے لیے چوڑیاں لے کر آئے گا۔ ۔ ۔ اس نے نجم کے بارے میں سوچاجو اس کے ساتھ ہی کہیں پڑا تھا۔اسے خیال آیاممکن ہے اس کی وجہ سے اغوا کیا گیا ہو۔ ۔ ۔ اغوا برائے تاوان ہو۔ ۔ ۔ نہیں ، نہیں میری وجہ سے اسے اغوا کیاگیا ہے ۔ ۔ ۔ اُف خدایا!دکھ تو سینے سے پارہوکر رہے گا۔ ۔ ۔ ‘‘
سوچوں کی کڑیاں زنجیربنتی گئیں اور زنجیروں کا پھیلاؤبڑھتا رہا۔ ۔ ۔ بڑھتا رہا ۔ ۔ ۔ بڑھتا رہا۔ ۔ ۔
٭٭٭
دروازے کی چرچراہٹ نے اس کے دماغ کو خیالوں کی دنیاسے نکالا۔قدموں کی آہٹ مسلسل اس کے قریب آتی جارہی تھی۔ ۔ ۔ دفعتاًکوئی ہاتھ اس کے سرتک پہنچا اور پھر بالوں کو جکڑلیا۔لاتو ں اور گھونسوں کا سلسلہ نہ تھمنے کے لیے شروع ہوا۔پسلیاں ایک دوسرے میں گھستی ہوئی معلوم ہوئیں ، پیٹ میں اُٹھنے والے دردکا طوفان بڑھتاہی گیا۔ جب تکلیف سے ذرا آگے کی طرف جھکتاتوپیچھے سے کمر میں لات جڑدی جاتی اور وہ گھٹی آوازمیں کر اہ کر رہ جاتا۔ ۔ ۔ وہ اندازہ نہیں کر پارہا تھاکہ مارنے والے کتنے ہیں ۔بس ایک ہی طرح کی آوازیں گونجتیں
’’ اور مارو۔ ۔ ۔ ہڈیاں توڑدو۔ ۔ ۔ زندہ نہ چھوڑو‘‘
مکوں اور ٹھوکر وں کا دورختم ہواتو ڈنڈے کی عمل داری شروع ہو گئی۔ ۔ ۔ جہاں چوٹ پڑتی وہاں بجلی سی کوند جاتی۔ ۔ ۔ آنکھیں راکھ کاڈھیرہو گئیں ، دماغ سن اور ماؤف۔یوں محسوس ہوتا تھاجیسے جسم کا بال بال خون کی راہ گزربن چکا ہے ۔کیا ہونے والا ہے اور کیا ہو گاوہ یہ نہیں جان سکتا تھا۔ ۔ ۔ البتہ ایک آوازاس کے کانوں سے ہوتی ہوئی روح تک اُترگئی تھی۔
’’باقی کسر دوپہرکو نکا لیں گے ۔ ۔ ۔ چلو‘‘
دروازہ اسی چرچراہٹ کے ساتھ بندہو گیا۔تحسین کویوں محسوس ہوتا تھاجیسے اس کا سر، چہرہ اور پوراجسم لہوسے ترہوچکے ہیں ۔خون کی نمکین قطرے اس کے پھٹے ہوئے ہونٹوں سے حلق میں اُتر رہے تھے ۔وہ اپناچہرہ صاف کرنا چاہتا تھا، مگراس کے بندھے ہاتھ اس کے ارادے پرپانی پھیر دیتے تھے ۔ ۔ ۔ اس کے بعد کیا ہوا؟اسے کچھ یادنہیں ۔ ۔ ۔
٭٭٭
نجم کے پکارنے پرتحسین کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھاوہ پہچانانہیں جا رہا تھا۔ خون اور دھول کے دھبوں نے اس کی شناخت چھین لی تھی اور یہی حالت اس کی اپنی بھی تھی۔وہ اُس کا چہرہ صاف کر نے کے لیے اٹھنا چاہتا تھا، مگراس کے اپنے سینہ پر رکھی ہوئی دردکی گانٹھ نے اسے بے بس کر دیا۔ ۔ ۔ ایک کر اہ اس کی چھاتی سے نکلی اور فضا میں تحلیل ہو گئی۔ اس کے نتھنے بدبوسے پھٹ رہے تھے ۔ ۔ ۔ ناک صاف کر نے کے لیے ہاتھ قریب کرنا چاہا ، مگر وہ دماغ کا حکم بجالانے سے قاصر تھا۔یوں لگتا تھاجیسے اس کی دونوں بانہیں شل ہوچکی ہیں ۔بڑی مشکلوں سے وہ اپنی کلائیوں کو دیکھ پایا تھا، جن پر رسیوں کے نشان پوری طرح روشن تھے ۔
’’تحسین۔ ۔ ۔ کون لوگ ہیں یہ؟‘‘نجم نے پوچھا
’’مجھے اندازہ نہیں ۔ ۔ ۔ شایدمیرے دشمن ہیں ‘‘تحسین نے کہا
ایک جھٹکے سے دروازہ کھلتا ہے اور ایک باریش مسلح شخص اندرآن دھمکتا ہے
’’سناؤکیسی رہی ؟۔ ۔ ۔ فیچرلکھتے ہو۔ ۔ ۔ تحقیقی فیچر۔ ۔ ۔ سمگلنگ میں حکومتی شخصیات ملوث ہیں ، سپاہی سے لے کر آئی جی تک سب کو حصہ ملتا ہے ۔ ۔ ۔ معاشرہ کو ان ناسوروں سے پاک کرنا ضروری ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘
کہہ کر وہ تحسین کی جانب بڑھتا ہے اور انتہائی حقارت سے اپنی آنکھیں اس کے وجود میں گاڑ دیتا ہے ۔ بے رحمانہ اندازسے اپنادایاں پاؤں اُٹھا کر پوری قوت سے اس کے پیٹ پر مارتا ہے تو اس کی چیخ چھت کو پھاڑنے لگتی ہے ۔
’’تم کر وگے معاشرہ کو پاک۔ ۔ ۔ تم‘‘
ایک اور پاؤں اس کے سینے پرپڑتا ہے ۔
’’ہمیں آئینہ دکھاتے ہو۔ ۔ ۔ ہمیں ۔ ۔ ۔ ؟اپنی منحوس شکل دیکھو‘‘
وہ جیب سے نسوارکی ڈبیا نکالتا ہے اور اس سے چمٹا ہوا آئینہ اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے ۔
سارے منظر دُھندلے ۔ ۔ ۔ پوراچہرہ خون۔ ۔ ۔ ٹیسوں کو ضبط کر تے ہوئے تحسین نے کہا
’’میراموبائل فون دومیں گھربات کرنا چاہتا ہوں ‘‘
’’دیتا ہوں تمھیں فون۔ ۔ ۔ ‘‘
مسلح شخص غصہ سے دھاڑتا ہوا اس کی جانب بڑھتا ہے اور بندوق کا بٹ اس کے سینے پراس شدت سے مارتا ہے کہ اسے اپنی چھاتی کی ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔وہ درد سے دہرا ہوجاتا ہے ۔ ۔ ۔ مزاحمت چاہے بھی تو نہ کر سکے کہ، وجود میں دم ہی نہیں رہا تھا ۔ ۔ ۔ نجم ۔ ۔ ۔ اس کی بھی صرف زبان کار آمدتھی اور وہ اس سے کام لیتارہا
’’مت ظلم کر واتنا۔ ۔ ۔ خداسے ڈرو۔ ۔ ۔ اس کے قہرکو آواز مت دو‘‘
’’خاموش ہوجاؤ، دلیہ بنادوں گاتمھارا۔ ۔ ۔ ‘‘و ہ اس پرچیختا ہے
٭٭٭
کئی دن گزرگئے ۔ ۔ ۔ ان کے زخم مندمل ہونے لگے ۔جو لوگ انھیں اغوا کر کے لائے تھے وہ اب نہیں آتے تھے ۔ ۔ ۔ ان کی نگرانی پر دونوجوان مامور تھے جو انھیں کھانا بھی کھلاتے اور دوسری بدنی حاجات کا بھی خیال رکھتے ۔ ۔ ۔ کپڑے تو نئے لا کر نہیں دیے تھے ، البتہ نہانے اور پرانے کپڑوں کو دھونے کے لیے پانی ضرورمہیا کر تے رہے ۔ان کی حالت قدرے بہترہوئی تو انھوں نے خداکے سامنے سجدہ ریزہوناشروع کر دیا۔عبادت کر نے لگے ۔ ۔ ۔ تب ایک اور وضع کا ظلم شروع ہوا۔جوں ہی یہ نمازکے لیے کھڑے ہوتے ، ان کے پہرے داربلندآوازمیں گانے لگادیتے ۔ ۔ ۔ یہ منتیں کر تے اور وہ ٹھٹھامذاق۔ پھر ایک دن پہرے داروں کے ریڈیوپرانھوں نے اپنی گم شدگی کی خبرسنی۔ ۔ ۔ ان کے صحافی دوستوں نے ملک بھر میں ان کی باحفاظت بازیابی کے لیے بھوک ہڑتا لی کیمپ اور احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ریڈیوکی خبروں سے انھیں معلوم ہواکہ ان کو اغوا ہوئے انتا لیس دن گزرچکے ہیں ۔نوجوان چوکیداروں کو اپنی حماقت کا احساس ہواتو انھوں نے فوراً ریڈیو بند کر دیا۔
مگراب انھیں حوصلہ ہو گیا تھاکہ ان کے صحافی دوست انھیں رہا کر وا لیں گے ۔ ۔ ۔ دونوں اپنے بچوں کے لیے فکر مندتو تھے ، مگراب انھیں اطمینان سا ہو گیا تھاکہ ان کے رفیقِ کاران کا بھی خیال رکھ رہے ہوں گے ۔
٭٭٭
’’گورنرصاحب سے بات ہوچکی ہے ، وہ کہتے ہیں تحسین اور نجم کے اغواکو زیادہ نہ اچھا لیں ۔انشاء اللہ وہ برآمدہوجائیں گے ۔‘‘
احتجاجی کیمپ پہنچتے ہی پریس کلب کے صدر اور ایکشن کمیٹی کے چے ئرمین نے دیگر صحافیوں کو بتایا ۔
’’وزیراعلیٰ نے بھی یقین دہانی کر ائی تھی‘‘ایک صحافی نے کہا
’’وزیراعظم کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں بھی تو صحافیوں نے وزیراعظم کو آگاہ کیا تھا۔‘‘
دوسراصحافی بولا
ُ’’پولیٹیکل ایجنٹ اور وفاقی وزیر داخلہ نے بھی تعاون کر نے کوکہا تھا‘‘
ایکشن کمیٹی کا چیئرمین گویا ہوا
٭٭٭
کر اچی سے لے کر خیبرتک تمام چھوٹے بڑے شہروں میں صحافتی اور سماجی تنظیموں نے احتجاجی ریلیاں نکا لیں ۔خودتحسین کے اخباری مالکان کا رویہ انتہائی حوصلہ افزا رہا۔ ہر سطح پران لوگوں نے نہ صرف آوازاٹھائی بل کہ روزانہ اپنے اخبار میں ان کے اغوا سے متعلق خبروں اور مضامین کو نمایاں شائع کر تے رہے ۔ اخبارکے ادارتی صفحہ سے وابستہ سینئر صحافیوں نے بھی کالم لکھے ۔ ۔ ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غیرملکی میڈیاپربھی کوریج آئی۔ یقینا یہ اسی کوریج کا نتیجہ تھاکہ دنیا میں صحافت کی آزادی کے لیے کام کر نے وا لی تنظیم متحرک ہوئی اور اس نے یہاں آ کر احتجاج کر نے کا فیصلہ کیا۔ اور پھرغیرملکی صحافیوں کی اس تنظیم کے آنے کا دن مقرر ہو گیا۔ ۔ ۔ قبائل کے ایک گروہ نے بھی اغوا کاروں پرلشکر کشی کا اعلان کیا ۔جس دن سہ پہر کو صحافتی تنظیم کے وفدنے پہنچنا تھا اُسی روزدن کے پہلے پہروفاقی وزیر اطلاعات نے تحسین اور اس کے ساتھی کی بازیابی کا اعلان کر دیا۔ ۔ ۔ کچھ دیربعدٹیلی ویژن پر انھیں دکھایابھی گیا۔ ۔ ۔ وزیرموصوف نے انکشاف کیا
’’اغواکار اپنی گرفتاری کے خوف سے گھبراگئے تھے ۔وہ مغویوں کو دوسرے کسی مقام پر منتقل کرنا چاہتے تھے ۔جب ان کا گزر آبادی سے ہواتو وہاں تحسین اور نجم نے شورمچاناشروع کر دیا۔لوگ بیدارہو گئے ۔ ۔ ۔ اور فائرنگ شروع کر دی۔اغوا کارگھبرا گئے اور انھیں وہیں چھوڑ کر فرارہو گئے ۔ ۔ ۔ ‘‘
تحسین ، اس کے گھروالوں اور صحافیوں کے لیے اتناہی بہت تھاکہ وہ زندہ سلامت لوٹ آیا ہے ۔ ۔ ۔ پورے باسٹھ دن بعد۔ ۔ ۔ ورنہ یہاں کون سلامت لوٹتا ہے ۔
’’پاپا!آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے ؟‘‘
ننھی فریال نے پوچھاتو بے اختیارتحسین کی آنکھوں سے چشمہ جاری ہو گیا۔ ۔ ۔ تب کسی اور نے کوئی سوال نہ کیا۔ ۔ ۔ فہمیدہ نے بھی نہیں ، ماں جی اور اباّنے بھی نہیں اور شائستہ نے بھی نہیں ۔کسی نے اس سے نہیں کہاکہ اس کے بغیرعیدکیسے گزری اور یہ دوماہ اور دودن کا عرصہ کتنی صدیوں کو محیط ہوا۔ ۔ ۔
’’اللہ نے فضل کیا۔ ۔ ۔ تحسین لوٹ آیا‘‘
بوڑھے مرزاصاحب، تحسین کے اباّجی سے کہہ رہے تھے ۔ ۔ ۔ رشتہ داروں ، دوستوں اور صحافیوں کے چہرے خوشی سے سرخ ہورہے تھے ۔ ۔ ۔ مگرتحسین ابھی تک ان چودہ سوبیاسی گھنٹوں کی گرفت میں تھا جو اس نے اغوا کاروں کے ساتھ گزارے تھے ۔ایک ایک لمحہ سوئی بن کر اس کے احساس میں چبھتارہا
’’کیاقصورتھامیرا۔ ۔ ۔ سچ لکھناجرم ہے ۔ ۔ ۔ ؟کیوں مجھے اذیت میں مبتلاکیاگیا۔ ۔ ۔ کیوں میرے دماغ میں کیلیں ٹھونکی گئیں ۔ ۔ ۔ کیوں میرے گھروالوں کی نیندیں حرام کی گئیں ۔ ۔ ۔ یہ کیسامعاشرہ ہے جہاں جھوٹ کی حکم رانی ہے اور سچ پاؤں سمیٹے چھپابیٹھا ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘
اس نے نفرت سے سوچامگراگلے ہی لمحے وہ دفترجوائن کر نے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
’’قریشی صاحب!اغوا کارکوئی بھی تھے وہ مجھے سچ لکھنے سے روکنا چاہتے تھے ۔‘‘
تحسین نے دوسرے صوبہ سے آئے ہوئے ایک صحافی کو بتایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
علی ترکی کا سفرنامہ کمپوزکر رہا تھا۔ ۔ ۔ ایک کمپوزرنئے فیچر کا مسودہ دیکھ رہا تھا۔ ۔ ۔
تحسین نے اپناکمپیوٹرآن کرناچاہا، مگراس کی ونڈوز کر پٹ تھی۔ ۔ ۔
٭٭٭
 

خاورچودھری

محفلین
1۔۔۔ بوڑھا درخت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2۔۔ میں



بوڑھا د رخت



ان گنت سالوں سے اپنی بانہیں پسارے ، سرنیہواڑے وہ زمین میں گڑا ہوا تھا ، زمانوں کی گریزپاگھڑیوں اور لمحوں نے اس کے وجود پرکھردراہٹوں کی داستان رقم کر دی تھی ، ہرنئی ساعت میں اس کے وجود پر ایک لکیرکا اضافہ ہوجاتا اور یہ لکیرکچھ توقف کے بعدگہری شکن میں بدل جاتی۔پھریہ شکنیں اس کے وجود کا حصہ بن جاتیں ، اس کی شخصیت کی پہچان ہونے لگتیں ۔دیکھنے والوں نے خیال کیاکہ شایداس کی جلدازل سے ہی ایسی ہے ، لکیروں کا لباس اس نے پہلے دن سے ہی پہنا ہوا ہے ۔حالاں کہ ایسانہیں ہے ، ایسانہیں تھا۔اس کا وجود کبھی بہت نازک ، بہت دل کش، بہت خوب صورت تھا اور آج۔ ۔ ۔ آج صدیوں کی تھکاوٹ پہنے وہ زمین میں گویاگڑتا جارہا تھا، اس کی بانہیں سکڑتی جارہی تھیں ، اس کی خوشبو گھٹتی جا رہی تھی، اس کی ٹھنڈک مٹتی جارہی تھی، موسموں کے تغیرات اور لوگوں کی بے اعتنائیوں نے اس سے اس کا اعتبار، اس کا حسن، اس کا دبدبہ، اس کا قد اور خوش بوتک چھین لیے تھے ۔ ۔ ۔ اور اب وہ گئی رتوں کی راکھ میں انگلیاں پھیرتے پھیرتے کچھ تھک ساگیا تھا ۔ ۔ ۔ بل کہ اکتاہٹ کے نشانات اس کے چہرے پرثبت ہو گئے تھے ۔وہ کسی اور زمین میں نمو پانے کی خواہش رکھتا تھا۔بے رُخی اور ستم شعاری پرمائل لوگوں کے پاس اس کے دکھ کو سمجھنے کے لیے کوئی وقت نہیں تھا۔ہرکوئی اپنی اناکا اسیرہوکر اپنی زندگی میں مگن تھا۔ ۔ ۔ وہ بھی جن کی موم سی نازک جلدکو اس نے اپنے میٹھے فرحت بخش سایوں میں پروان چڑھایا تھا اور ۔ ۔ ۔ وہ بھی جو عمرکا ایک طویل حصہ اس کی چھاؤں میں گزار کر زندگی کی بوقلمونیوں سے آشنا ہوئے تھے ۔بیزاری اور بے دلی کے اس عالم میں تو اس پر اس کے سائے بھی گھٹ رہے تھے ، یوں وہ اپنی ذات کا اعتباربھی ختم کر چکا تھا۔کتنے ہی لوگ اس کے ٹھنڈے سایے میں بیٹھ کر خوشیاں سمیٹ گئے اور کتنوں نے جھلساتی دھوپ سے گھبرا کر اس کی میٹھی، ٹھنڈی چھاؤں میں سکھ کا سانس لیا۔ ۔ ۔ اس کا اندازہ ممکن ہی نہیں ۔اس نے کبھی بھی کسی آنے والے کو اپنے سے دُورنہیں رکھا، جو بھی آیا اسے کھلے دل سے اپنی بانہوں میں سمیٹ کر سینے سے چمٹا لیا ، مگر وقت نے دیکھا ، انھی لوگوں نے اس پرپہلاوارکیاجن کو زمانہ کے سردوگرم سے اس نے محفوظ کیا۔اتنامحفوظ کہ موسموں کی شدت ان پراثرانداز ہونے سے قاصرہو گئی۔طوفانِ باد و باراں کی سختی بجائے خودان کے لیے لطف کا باعث ہو گئی۔ ۔ ۔
اوخدایا!۔ ۔ ۔ آج تیشہ انھی ہاتھوں میں ہے جنھیں پکڑ کر اس نے چلنا سکھایا تھا۔وہ جانتا تھاکہ ، اب اس کی فریادسننے والاکوئی نہیں ہے ، جلدیابہ دیرکسی ستم ایجادکے ہاتھوں اس کی زندگی کا چراغ گل ہوجائے گا۔ ۔ ۔ یاپھرنئی ہوائیں اس کے وجود خستہ کو خس وخاشاک کی مانند اُڑا لے جائیں گی اور یہ نشان چھوڑ کر بھی بے نشان کہلائے گا، مگرپھربھی۔ ۔ ۔ پھربھی وہ چاہتا تھاکہ ایک بارہی سہی، ایک لمحہ کے لیے ہی سہی وہ چلے آئیں جن کی ہریا لی میں اس کا خون بہتا تھا ۔
وہ جنھیں کسی اور ہوانے آلیا تھابوڑھے درخت کی زبان کہاں سمجھنے والے تھے ، انھیں تو یہ بھی یادنہیں رہا تھاکہ ان کی اصل یہی تو ہے جو پکار رہا ہے اور وہ تو یہ بھی بھول گئے تھے کہ، ان کے تن اور وجودپربھی ایک دن کھردرے ملبوس نے اُترنا ہے ۔ان کے مضبوط بازوؤں نے سکڑ کر کمزورہونا ہے ، تنی ہوئی گردن نے ڈھلک جانا ہے اور کھلے سینہ نے اپنے آپ میں سمٹ جانا ہے ۔ اور شایدوہ یہ بھی فراموش کر بیٹھے تھے کہ ان کے چھوڑے ہوئے نشانات وجود میں ہوکر بھی معدوم ہو جائیں گے ، بالکل اسی طرح جیسے ان کی موجودگی میں بوڑھا درخت بے نشان تھا۔
دُورشیشم کے گھنے درختوں میں فاختاؤں کی صدائیں بیدارہوئیں اور ہواکے دوش پرسفر کر تے ہوئے آگے نکل گئیں ، کبھی کبھی اس گونج میں لٹورے کی آوازبھی مدغم ہونے لگتی۔ ان دہری آوازوں کی آمیزش نے احمدعلی کو ماضی میں دھکیل دیا تھا۔ایک ایک منظر اس کے دماغ پر رقص کر تا اور پھر خود میں محو ہو کر آنسوؤں کی صورت اس کی پتلیوں تک نکل جاتا۔اس لمحے وہ بائیں ہونٹ کے کونے کو اپنے بوڑھے دانتوں میں داب لیتا اور ایک کوشش سے اشکوں کو پینے کی دھن میں نکل جاتا۔ ۔ ۔ مگرپھربھی چہرے پرثبت دوغاروں کے کونے بھیگ جاتے اور وہ اپنی میلی آستین سے غاروں کے دھانوں کو رگڑ کر اُلجھ بیٹھتا ۔ مسلسل رگڑنے کے باعث غاروں کے گرداگرد سرخیوں کے پہاڑاُٹھتے جارہے تھے ۔اس نے سوچاکہ اکہترسال کے طویل عرصہ میں ایک باربھی تو اس نے کانٹوں کی فصل نہیں بوئی تھی، پھراس کے تمام کھیتوں میں ہمیشہ کانٹے کیوں اُگتے چلے آئے تھے ۔ ۔ ۔ کبھی اس نے میلامنظرنہیں دیکھا تھاپھراس کی آنکھیں پھوڑے کیوں بن گئیں تھی، کبھی اس نے غیرلمس کو محسوس نہیں کیاپھراس کی بانہیں شل کیوں ہو گئیں تھی۔وہ سوچتاگیا اور روتا گیا۔ ۔ ۔ مگر کہیں اسے یہ سراغ نہ مل سکاکہ وہ کن بے ضابطگیوں کا صلہ پارہا ہے ، کس تخم کی فصل کاٹ رہا ہے ؟ اسے یادآیاکہ شاہ جہاں پور سے چلنے والا قافلہ آٹھ افرادپرمشتمل تھا، جو منٹگمری تک پہنچتے پہنچتے سکڑ گیا تھا ۔ اب ایک وہ اور اس کی بیوہ پھوپھوتھیں ۔ ۔ ۔ جنھوں نے زندگی کو نئے سرے سے آغازکیا۔
بارہ کا سن ہوتا ہی کیا ہے ، اس عمر میں تو آدمی کو اپنی شناخت تک نہیں ہوتی زمانوں کی خبرداری کیوں کر ممکن ہے ۔اسی سن میں احمدعلی نے ایک تھڑا ہوٹل پر کام شروع کیا تھا ۔زندہ رہنے کے لیے جو ضروری تھا وہ اسے وہاں سے مل جاتا۔اس کی شرافت کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا تھاکہ چارسال بعد ہوٹل کے مالک نے اسے اپنی فرزندی میں لے لیا۔ اور پھرزندگی کی راہ پراس کا سفر رواں دواں ہو گیا۔ ۔ ۔ جوں جوں وقت کینچلی بدلتاگیا احمدعلی کے چہرے پر شکنیں بڑھتی گئیں ۔یہ شکنیں اس کے اپنے لیے نہیں تھیں بل کہ ان تینوں کے لیے تھیں جو اس کی تقسیم تھے ۔تینوں کو اس نے بڑی چاہ سے شہرکے مہنگے ترین پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھایا اور پھراعلیٰ تعلیم کے لیے گوروں کے دیس بھیجا۔ دو وہاں ٹھہر گئے ۔ ۔ ۔ اور ایک پلٹ آیا۔ اس لیے نہیں کہ اسے احمدعلی کی فکر تھی بل کہ اس لیے کہ وہ جس سے وابستہ ہو گیا تھاوہ وہاں رُکنانہیں چاہتی تھی۔
اسجدعلی سرکاری اسپتال میں ڈاکٹرمقررہو گیا تھا۔انگریزی ڈگری کے باعث اسے جلدمقبولیت حاصل ہو گئی تھی۔جب اس کا تبادلہ نسبتاًپسماندہ قصبہ میں ہواتو اس کی چاندی ہو گئی۔دھن اس پریوں برسنے لگاجیسے ساون کا بادل۔چند ہی سالوں میں اس نے شہر میں سب سے بڑابنگلہ اور تمام سہولیات سے آراستہ پہلا اسپتال تعمیرکیا۔سرکاری اسپتال میں تعیناتی کے دوران اس نے خوب اثرورسوخ قائم کر لیا تھا۔ جائزونا جائزمقدمات میں لوگوں کو اُلجھا کر علاقہ کے سر کر دہ لوگوں کے ساتھ تعلقات بنائے ، ان سے مال بٹورا ۔ ۔ ۔ اور پھرخودکو ان جیسابنانے کے لیے ان کے سانچے میں ڈھال لیا۔اب اس کے پاس کالے شیشوں وا لی انٹر کولر اور درجن بھراعلیٰ نسل کے کتے اور مسلح محافظ ہروقت موجود رہنے لگے تھے ۔ اکلاپے کا ماراحمدعلی جوکبھی اس جانب نکل آتاتو اسجدعلی کا توہین آمیزرویہ اس کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ، ناچاروہ اپنے گھر لوٹ جاتا۔ ۔ ۔ جو اس نے حلال کا ایک ایک روپیا جمع کر کے بنایا تھا۔ ۔ ۔ وہ گھر جو اسے شاہ جہاں پور کا بدل محسوس ہوتا تھا۔ ۔ ۔ وہ گھر جو اس کے رفیقِ سفرکی یادوں سے مہکتا اور کھلتا تھا۔ ۔ ۔ وہ گھرجہاں اسجدعلی پیدا ہوا اور پھر پہلا قدم اُٹھایا۔ ۔ ۔ حتیٰ کہ جوان بھی اسی گھر میں ہوا۔
پھرایک رات تیزآندھیاں چلیں ۔ ۔ ۔ بوڑھادرخت اپنی جڑوں سے اکھڑ چکا تھا ۔ صبح دم لوگوں نے دیکھاتو نام ورسرجن ڈاکٹر کا باپ اپنی چارپائی کے نیچے تڑپ تڑپ کر دم تو ڑچکا تھا ۔ ۔ ۔ اور جب اس کے بیٹے کو اطلاع دی گئی تو وہ سیکڑوں میل دُوراپنے جاگیر دار دوستوں کے پاس بیٹھ کر کتوں کی عادات پر گفتگو کر رہا تھا۔ ۔ ۔ مگرکتے کی وفاداری کا وصف اس کی آنکھوں سے اوجھل تھا۔
٭٭٭

میں



’’صبح بیدارہواتو پہلی نظروال کلاک پرپڑی۔11:45 کا وقت دکھاتے ہوئے گھڑیال کی سوئیوں پرغورکیاتو وہ جامدتھیں ۔میں نے سوچا گزشتہ رات تو نئی بیٹری ڈا لی گئی تھی پھر کیوں اس کی سوئیاں چلنابھول گئیں ۔موبائل آن کیاتو سگنل غائب تھے ، البتہ موبائل کی گھڑی 4:53 بجا رہی تھی۔جلدی سے بسترچھوڑا اور باہرگلی میں نکل آیا۔گلی کی بہتی نا لیوں میں محلے کے گھروں کے واش رومزسے برآمدہونے والا مواد شامل ہو رہا تھا۔کچھ خواتین اپنے گھروں کا کوڑا کر کٹ اپنے دروازوں سے باہرپھینک رہی تھیں ۔ ۔ ۔ جس سے ماحول میں مزید تعفن پھیل رہا تھا۔ میں جس وقت گلی سے گزر رہا تھامیرے لیے آزادانہ سانس لینا ناممکن تھا۔بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا آبادی سے دومیل باہر کھیتوں میں نکل آیا۔
ابھی پو نہیں پھٹی تھی۔ ارد گردکی چیزیں پوری طرح واضح نہیں دکھائی دے رہی تھیں ۔میں چلتے چلتے گندم کے کھیتوں کے قریب پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ مگر اب بھی گلی کا بدبو دار ماحول میرے نتھنوں کو چیر رہا تھا۔اوس میں ڈوبے ہوئے گندم کے کھیتوں کو دیکھ کر مجھے قدرے راحت محسوس ہوئی ، البتہ ایک پگ ڈنڈی پرچلتے ہوئے اچانک جب میرے پاؤں سے کوئی چیزٹکر ائی تو فطرتاًمیں نے ٹھوکر میں آنے والے چیزکو دیکھا ۔ یہ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے زہرکی خا لی بوتل تھی۔میں نے سوچا کسی کسان نے کھیتوں پراسپرے کر کے بوتل یہیں پھینک دی ہو گی۔چندقدم اور بڑھائے تو مزیدکچھ بوتلیں نظرآئیں ۔ مجھے کسانوں کی اس لاپروائی پر سخت افسوس ہوا۔ان زہرآلودخا لی بوتلوں کویوں راستے میں چھوڑدینامجھے بہت بُرا لگا ۔
صبح کی اذانیں گونجنے لگی تھیں ۔ مؤذن سونے والوں کو اُٹھ کر عبادت کی ترغیب دلا رہے تھے ۔میں اس معمول کی چہل قدمی سے واپس سیدھامحلہ کی جامع مسجدکی طرف لوٹا۔ محلے کی گلیوں میں ابھی تک تعفن کا راج تھا۔مسجد میں وضوبنانے کے لیے استنجا خانہ میں داخل ہوا تو یہاں بھی بدبونے میری ناک چیر کر رکھ دی۔ خود پر ضبط کر کے وضو کیا اور جوتیاں ہاتھ میں اُٹھا کر مسجدکے اندر داخل ہو گیا۔کہ، اس سے پہلے ایک بار اپنی جوتیاں گنوا بیٹھا تھا۔ امام صاحب نے نہایت اہتمام اور قرأت کی پابندی کے ساتھ نمازمیں سورئہ رحمٰن کی مقفیٰ آیات تلاوت کیں ۔ نماز کے بعدمختصروعظ میں انھوں نے ان آیات سمیت دیگر کچھ آیتو ں کا ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا۔ ۔ ۔ جن میں قول وفعل کے تضادکے حوالے سے تنبیہ کی گئی ہے ۔ کچھ باتیں گرہ میں باندھ لیں ۔ ۔ ۔ کچھ کانوں سے سرک گئیں ۔ گھر آیاتو خاتون خانہ ناشتا تیار کر رہی تھیں ۔
خاتون خانہ سے شکایت کی کہ ، آج کیوں ناشتا بنانے میں دیر کر دی ہے ؟ تو جواب ملا
’’آپ باہر گئے تو چندمنٹ بعدبجلی غائب ہو گئی۔ سوئی گیس کے لگے پائپوں سے ہوا برآمد ہو رہی تھی۔ ماچس کی پوری ڈبیاجلا چکنے کے بعدتو کہیں جا کر چولھا روشن ہوا۔‘‘
خیر۔ ۔ ۔ لقمہ توڑ کر منہ میں ڈالا تو عجیب سی بوسانسوں میں اٹک گئی۔ خاتون خانہ سے پوچھا
پکانے میں کوئی کسرتو نہیں رہ گئی؟ جواب ملا
’’اس بار جو آٹا آیا ہے اسے پکاتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے باسی ٹکڑوں کو پیس کر بنایا گیا ہو۔‘‘
چائے کا گھونٹ بھراتو ذائقہ ایساجیسے کوئی کیمیائی محلول گلے سے اُتر کر اس کی ساخت کوکھرچ رہا ہو۔
خاتون خانہ سے پوچھاکیاچائے کا برانڈ بدل لیا ہے ؟جواب ملا
’’نہیں ، دودھ سے بُوآرہی ہے ۔گوالے سے شکایت کی تھی ۔وہ کہتا ہے ان دنوں بھینسوں کو گوبھی کے پتے ڈال رہے ہیں ، اس وجہ سے شایدکچھ اثرآیا ہے ۔ذائقہ کے عادی ہو گئے تو بُو نہیں آئے گی۔‘‘
مجھے وہ رپورٹ یاد آئی جس میں بتایاگیا تھاکہ چائے کی پتی میں جان وروں کا خون ملایا جاتا ہے ، چنوں کے چھلکوں پر رنگ چڑھا کر بیچا جاتا ہے ۔معروف برانڈز کے خا لی ڈبوں میں خود ساختہ چائے ڈال کر بیچی جاتی ہے ۔میں نے وال کلاک پرنظرڈا لی وہ وہیں رُکا ہوا تھا ۔ قدرے جلدبازی سے لباس تبدیل کیا اور محلے کی بدبو دارگلیوں سے نکل کر ویگن اسٹاپ پر آ گیا ۔وین کی سامنے وا لی نشست خا لی تھی۔میں ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ گاڑی کے ہیلپر نے مجھ سے پوچھا
’’کیانہیں جانا؟‘‘
جاناتو ہے لیکن خواتین کے لیے مخصوص نشست پرکیسے بیٹھوں ؟
۔ ۔ ۔ میں نے کہاتو گاڑی میں موجو دسبھی لوگ میری جانب دیکھ کر مسکر ادیے ۔ایک ادھیڑعمر شخص اپنی نشست سے اُتر کر نیچے آ گیا۔اس کے ساتھ ایک جواں عمرشخص بھی تھا۔ دونوں نے فرنٹ سیٹ سنبھال لی۔میں ان کی خا لی کر دہ نشستوں میں سے ایک پربیٹھ گیا ۔ اگر ہیلپر کو انسان سمجھ کر دیکھا جائے تو نشستیں مکمل ہو چکی تھیں ۔ ۔ ۔ مگرنہیں ، ڈرائیورکے حساب سے ایک سیٹ خا لی تھی۔قریباًآدھ گھنٹہ انتظارکے بعد دو مسافر آ گئے ۔ ۔ ۔ اب ایک کو تو سیٹ پر بٹھا لیا گیا اور دوسراوین کے اندرکھڑا ہو گیا۔اس کھڑے ہوئے شخص کی وجہ سے پورا سفر عذاب بن کر اُترا۔
’’کیوں بھائی!دوروپے زیادہ کیوں کاٹ لیے ، ڈیزل کی قیمت کم ہوئی ہے بڑھی تو نہیں ، ،
ایک مسافرکی آواز آئی۔ہیلپرنے اسے جواب دینا ضروری نہ سمجھتے ہوئے ڈرائیور سے کہا ایک طرف گاڑی روکے اور احتجاج کر نے والے کو اُتار دے ۔سب خاموش تھے ۔ ۔ ۔ کسی نے بھی احتجاج کر نے والے کا ساتھ نہ دیا اور دوروپے زائد کے حساب سے سب نے خود بھی کر ایہ اداکیا۔ کفرٹوٹا خداخدا کر کے ۔ ۔ ۔ دفتر پہنچا تو ب اور دی گارڈ ’’ری پیٹرگن‘‘اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان دابے اونگھ بل کہ، سورہا تھا ۔اسے سلام کیاتو وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے پوچھاکیوں بھائی رات کو سوئے نہیں ؟۔ ۔ ۔ کہنے لگا
’’کیابتائے صیب، یہ کو مپنی والا ہے ناں ! دودوڈپٹیاں لیتا ہے ۔ رات کو ایک سیٹھ کے بنگلے پر جاتا ہے ۔سیٹھ لوگ کم بخت پارٹیوں پرجاتا ہے اور دیر سے آتا ہے ، اس لیے اَم سو نہیں سکتا ہے ۔صبح امارا’’ری لیور‘‘آتا ہے تو اَم یہاں آ جاتا ہے ۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا کیا تمھاری کمپنی تم سے زبردستی دو ڈیوٹیاں کر اتی ہے ؟کہنے لگا
’’نہیں صیب، پہلے اَم کاری لیورنہیں آتا تھا، تو زبردستی کر تا تھا۔ ۔ ۔ اب اَم خودڈبل ڈپٹی کر تا ہے ۔صیب تم تو جانتا ہے مہنگائی کتنا ہو گیا ہے ، گذر مشکل ہے ۔‘‘
میں اس کی باتیں سن کر سوچنے لگایہ محافظ ہے جو خود مسائل کا شکار ہے ۔ دفتر کا چپڑاسی ابھی نہیں آیا تھا۔ میں نے ’’ڈسٹر‘‘اُٹھایا۔ ۔ ۔ اپنی میز اور کر سی صاف کر کے بیٹھ گیا۔ مجھ سے آدھ گھنٹہ بعدچپڑاسی آیاتو میرے پوچھنے پر ہمیشہ کی طرح کہنے لگا
’’ سر! آپ کے علاوہ سبھی لوگ تو دس کے بعدآتے ہیں اور بڑے صاحب ۔ ۔ ۔ وہ تو بارہ بجے سے پہلے کبھی آئے نہیں ۔ پھر میں اتنی صبح آ کر کیا کر وں ۔‘‘
لیکن تمھیں تو صبح ساڑھے آٹھ بجے یہاں ہوناچاہیے ۔بجائے میری بات کا جواب دینے کے چپڑاسی
’’بڑے صاحب کاکمرہ صاف کر تا ہوں ‘‘ کہہ کر چلاگیا۔
’’نہیں صدیقی صاحب نہیں ، آج یہ کام نہیں ہو سکے گا، صاحب دن بھر دفتر میں موجود ہوتے ہیں ۔پھرکسی روزمیں خودفون کر کے آپ کو بتاؤں گا۔‘‘
میرا ’’کولیگ ‘‘اپنے سیلولر پرکسی کویہ کہتے ہوئے دفتر میں داخل ہوتا ہے ۔ہماری نظریں چار ہوتی ہیں ، رسماًایک دوسرے کا حال پوچھتے ہیں ۔میراکولیگ کہتا ہے
’’ماڈل ٹاؤن جب سے شفٹ ہوئے ہیں ، دفتر کا راستہ لمبا ہو گیا ہے ، اب اپنی گاڑی سے بھی دیرہوجاتی ہے ۔‘‘
میں اسے کوئی جواب نہیں دیتا ہوں ۔میں سوچتا ہوں میرا کولیگ مجھ سے جونئرہے اور اس کی تنخواہ بھی مجھ سے کم ہے ۔میں ابھی تک اپنے اباکے مکان میں رہتا ہوں ، مگر اس نے ماڈل ٹاؤن میں کوٹھی بنا لی ہے ، نئی گاڑی خریدلی ہے ، اس کے بچے مہنگے پبلک اسکولوں میں پڑھتے ہیں ۔ خیر!کام شروع ہوتا ہے ۔ لوگ آتے جاتے ہیں ۔کچھ لوگوں کو میں ہینڈل کرتا ہوں اور کچھ کو میرا کولیگ۔ ۔ ۔ مگربیچ بیچ میں وہ آنے والوں کو لے کر باہرنکل جاتا ہے ، ان سے ’’معاملہ‘‘ کر تا اور واپس آ جاتا ہے ۔
اب چھٹی کا وقت ہو گیا ہے ۔میراساتھی دن بھرکی ’’کمائی ‘‘کو اپنے بٹوہ میں سلیقہ سے رکھتا ہے اور مجھے مخاطب کر کے کہتا ہے
’’کیا کر یں جناب!اتنی مہنگائی میں تنخواہ پرگزران مشکل ہے ۔ ویسے لوگ خوشی سے دیتے ہیں ، میں زبردستی تو نہیں لیتا۔‘‘
وہ اپنے کوٹ کی جیب سے نئے ماڈل گاڑی کی چابیاں نکال کر اس اندازسے اُچھالتا ہے جیسے کوئی باؤلر گیند پھینکے سے پہلے اُچھالتا ہے ۔ہم دونوں ایک دوسرے سے رسمی جملے کہہ کر جدا ہوجاتے ہیں ۔
میں سوچتا ہوں لوگ اپنے حق کے لیے خوشی سے رشوت کیوں دیتے ہیں ؟ ۔ ۔ ۔ میں سوچتا ہوں کیا میں اس مہنگائی سے متاثر نہیں ہوا ہوں ؟
میں اسٹاپ پرکھڑا بس کا انتظار کر تا ہوں ۔کچھ لوگ اور بھی اپنے ٹھکانوں کو لوٹنے کے لیے گاڑیوں کے منتظرہیں ۔کچھ ماڈرن ٹائپ نوجوان اپنے مخصوص انداز سے سٹاپ پر کھڑی’’ورکنگ وومنز‘‘کو تاک رہے ہیں ۔یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی قصاب بکر ے کو دیکھ رہا ہو۔ میں سوچتا ہوں کیا ان لوگوں کا کسی عورت سے کوئی رشتہ نہیں ۔اِن کی طرف مائیں ، بہنیں ، بیویاں اور بیٹیاں نہیں ہوتیں ۔اتنے میں ہمارے پاس سے ایک شخص ’’مالش‘‘ کی صدابلند کر تے اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی تیل کی نصف درجن بوتلوں کوکھڑکاتے ہوئے گزرتا ہے ۔میری آنکھوں کے سامنے ریلوے اسٹیشنوں اور بڑے بس اڈوں کا منظر آ جاتا ہے ، جہاں اس طرح کے مالشی گھر سے بھاگ کر آنے والے کم سنوں کے شکار میں رہتے ہیں ۔ ان پرذہنی اور جسمانی تشدد کر تے ہیں ، انہیں نشے کی لت ڈالتے ہیں ، جوئے اور ڈکیتی کے طریقے سکھاتے ہیں ، معاشرے میں بدامنی پھیلانے کے گُرسکھاتے ہیں ۔اگلے ہی لمحے میرے دماغ میں سرسراہٹ ہوتی ہے اور مجھے خیال آتا ہے یہ کم سن بچے اپنے گھروں سے بھاگتے ہی کیوں ہیں ؟ پھرمیری آنکھوں میں کئی ایسے منظرگھوم جاتے ہیں ، جہاں والدین اپنے بچوں کا استحصال کر تے ہیں ۔ کبھی ’’ایموشنل بلیک میلنگ ‘‘کے ذریعے ۔ ۔ ۔ تو کبھی کسی اور طرح سے ۔ ۔ ۔
سوچیں بڑھتی جاتی ہیں ، باتیں کُھلتی جاتی ہیں ۔گاڑی میں بیٹھتا ہوں تو آدمی میں آدمی گڑے ہوئے ہوں جیسے ۔ ۔ ۔ سانس لینابھی محال ہوجاتا ہے ۔اپنے اُوپرچھتری کی مانند پھیلے ہوئے بے سلیقہ لوگوں کو دیکھتا ہوں تو دماغ کی رگیں چٹخ جاتی ہیں ۔سفرکی مشقت جھیلنے کے بعدجب اسٹاپ پر اُترتا ہوں تو میرے پڑوسی منشی صاحب بھی موجودہیں ۔انھوں نے ہاتھوں میں موسمی پھلوں اور سبزیوں کے تھیلے پکڑ رکھے ہیں ۔کہتے ہیں
’’ کیا بتاؤں جناب ! ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے ۔ قیمتوں کی بڑھوتری تو ایک طرف معیار کا بھی ناس ماراگیا۔‘‘
میں نے سوچا کارخانے داراپنی بنای گئی مصنوعات سے زیادہ نفع کمانے کے لیے کوالٹی کنٹرول پرتوجہ نہیں دیتے ۔پھر ہر چیزکی نقل اس کے ساتھ ہی تیار ہو کر مارکیٹ میں آ جاتی ہے ۔دودھ والا اگرپانی ملاتا ہے تو چائے والا خون اور پٹرول والامٹی کا تیل ، قصاب گوشت میں پانی ڈال کر اس کا وزن بڑھاتا ہے ، سبزی والاباسی سبزیاں فروخت کر تا ہے ، محافظ سو جاتا ہے اور چپڑاسی وقت پرآناتوہین سمجھتا ہے ، صاحب لوگوں کے آنے کا کوئی وقت نہیں ، ملازمین کا رشوت لینا ضروری ہے ۔ ۔ ۔ ورنہ مہنگائی کا مقابلہ نہیں ہو سکتا ، گاڑیوں میں انسانوں پرسوارہوکر سفر کرناناگزیرہے ورنہ زندگی کی گاڑی بھی چھوٹ سکتی ہے ۔
سوچوں کے انبارتلے دبا ہواگھرکی دہلیزپار کر تا ہوں تو خاتون خانہ کے کھانسنے کی آواز استقبال کر تی ہے ۔میں پوچھتا ہوں ، نیک بخت کیادوانہیں لی ؟ جواب ملتا ہے
’’ کئی دوائیں بدل چکی ہوں ، مگرکھانسی ہے کہ جاکے ہی نہیں دیتی۔‘‘
مجھے ایک اخباری رپورٹ یادآ جاتی ہے جس میں بتایاگیا تھاکہ اس وقت تقریباًہر دواکی دو نمبر موجودہے ۔بل کہ کئی دو نمبر ادویات سازباقاعدہ حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہیں اور اپنے ٹریڈمارک سے دوائیں فروخت کر رہے ہیں ۔مجھے وہ رپورٹ یادآئی جس میں اس مسیحا نما قصاب کے چہرے سے پردہ کھینچا گیا تھا جو دوا ساز کمپنی سے معاہدے کی بناپرہرمریض کو اس کا سیرپ بیچتا تھا۔سردرد، بدن درد، کھانسی، جوڑوں کا درد پیٹ کا درد، دل کا درد، غرض تکلیف کوئی بھی ہو، مریض کسی بھی عمر کا ہواسے یہ سیرپ پیناپڑتا تھا۔میں نے سوچاکیاوہ ادارے سوئے ہوئے ہیں جنھیں ’’کوالٹی کنٹرول‘‘کے شعبوں کی نگرانی پر مامور کیا گیا ہے ۔ سیکر ٹری ہیلتھ اور وزیرصحت کیا کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟پھرمجھے خیال آیا ان لوگوں نے ملک کے سیون اسٹار ہوٹلوں میں نہایت اہم موضوعات پر ہونے والے سیمینارز اور سمپوزیمز میں شریک ہونا ہے ۔ اور پھرمیری آنکھوں کے سامنے ، تعلیم، مواصلات، اطلاعات، خزانہ، دفاع ، خارجہ، داخلہ کے سیکر ٹریوں اور وزراکی مصروفیات کا منظر آیا۔ہرہرشخص درجنوں کیمرہ مینوں اور سیکڑوں صحافیوں کو اپنے سامنے بٹھا کر مستقبل کی حکمت عملیوں اور اپنی کام یابیوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ پرمٹوں ، پلاٹوں اور ٹھیکوں کے حصول کے لیے سیاست دانوں کی لمبی قطارتھی۔ہرکوئی اپنے نفع کے لیے قومی سرمایے پرقبضہ کر رہا تھا، اسے لٹا رہا تھا۔تب اچانک مجھے وزیر اعظم اور صدرکے ہنگامی دورے نظرآئے ۔ان کے وفود میں شامل وزرا، سیکر ٹری، دیگر اہل کار اور ان کی بیگمات شان و شوکت سے غیر ملکی دورے کر تے ہیں ۔ ۔ ۔ اربوں روپے اُڑاتے ہیں ، لوٹ آتے ہیں اور اپنے دوروں کی کام یابی کی نوید سناتے ہیں ۔خوش حا لی کا راگ الاپتے ہیں ۔ انھیں غربت اور بے کاری کے ہاتھوں جھلس جانے والے چہرے نہیں دکھائی دیتے ۔ ۔ ۔ محرومیوں اور بے بسیوں میں گھرے ہوئے لوگ ان کی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں ۔
خاتونِ خانہ میرے سامنے کھاناچن رہی ہیں ۔ میں ایک نوالہ توڑ کر منہ کے قریب لے جاتا ہوں ۔روٹی سے وہی صبح وا لی بُوآرہی ہے ۔ ۔ ۔ مگر میں بھوکا ہوں ۔پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے مجھے یہی کھانا ہے ۔میں عشاکی نمازپڑھنے کے لیے اپنے گھر سے پاؤں باہر نکالتا ہوں تو گلی میں پھیلی ہوئی بدبومیرے نفس کو قتل کر تی ہے ، مگرمجھے نماز بہ ہر حال پڑھنی ہے ۔مسجدکے اندر داخل ہوتے ہوئے اپنے جوتوں کو ہاتھ میں اٹھائے چل رہا ہوں کہ مسجدسے جوتے چوری ہو جاتے ہیں ۔امام صاحب سورئہ یوسف کی کچھ آیات تلاوت کر تے ہیں ۔نمازمکمل ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ میراسرجھکا ہوا ہے اور میرے دماغ پروہ واقعات روشن ہورہے ہیں ، جو گزشتہ چندبرسوں میں رونما ہوتے آرہے ہیں ۔ ۔ ۔ معبدوں میں نماز پڑھتے ہوئے بھائیوں نے بھائیوں کو بارود سے اُڑا دیا۔میں یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کویاد کر تا ہوں ۔ ۔ ۔ تاریخ کے کئی ورق چندساعتوں میں میرے سامنے کھل جاتے ہیں ۔میں گھرآتا ہوں ، خاتونِ خانہ سے کچھ امور پرگفتگوہوتی ہے اور آنے والے کل کے استقبال کے لیے تازہ دم ہونا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور سوجاتا ہوں ۔
میرا آئندہ دن بھی اسی طرح گزرے گا جیسا کہ آج گزرا ہے ۔‘‘
’’میں ‘‘کی کہانی ختم ہوئی تو میں نے سوچا’’میں ‘‘کی یہ باتیں سن کر معلوم ہوتا ہے جیسے ملک کے اندربہ جزاس کے کوئی اور نیک نہیں ، کوئی اور صاحب کر دار ، دیانت دار ، امین اور وفاپرست نہیں ۔میرے ذہن میں اپنا ایک شعرتازہ ہوا ؂
سب کے ہاتھوں میں آئنہ دے دو
سچ تو مشکل ہے کون بولے گا
میں نے ’’میں ‘‘کے ہاتھ میں آئینہ دیا۔ ۔ ۔ آئینے کی کر چیاں چاروں اور بکھری پڑی تھیں ۔

٭٭٭
 

خاورچودھری

محفلین
1---------دقیانوسیت------------ سانسوں کی مالا

دقیانوسیت



’’ہربات کی حدہوتی ہے ۔ ۔ ۔ جب تم یوں ہی بے دھیانی کو اوڑھنابچھونابنالوگے تو جینا مشکل ہوجائے گا‘‘
اماّں بی نے اوندھے منہ پڑے علی احسن سے کہاتو وہ تکیہ ایک طرف اُچھالتے ہوئے ایک دم سے اُٹھا اور انھیں اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا۔ ۔ ۔
’’چل ہٹ!۔ ۔ ۔ اب خوشامدیں نہ کر ‘‘
’’تو کیا اپنی پیاری سی امّاں بی سے محبت کرناخوشامدہے ؟‘‘
’’اچھا اچھا۔ ۔ ۔ چھوڑمجھے اور جلدی سے تیارہوکر نیچے آ جا۔ ۔ ۔ سب تمھارا انتظار کر رہے ہیں ‘‘
’’جی آپ چلیے ۔ ۔ ۔ میں آیا‘‘
سلطانہ ڈھیلے قدموں واپس لوٹ آئیں ۔ ۔ ۔ ماربل کی چکنی سیڑھیوں سے اُترنا ان کے لیے پل صراط طے کر نے سے کسی بھی طرح کم نہیں تھا۔ ۔ ۔ سیڑھیوں کے ساتھ لگے ہوئے آہنی پائپ کو اگرپکڑنہ رکھیں تو ایک سیڑھی نہ اُترسکیں ۔ ۔ ۔ ہال میں لگے فانوس کی سارے بلب روشن تھے ۔ ۔ ۔ ٹی وی بھی چل رہا تھا۔ ۔ ۔ باہرلان میں فوارہ بھی اپنے جوبن پرتھا۔ ۔ ۔ لان کے چاروں اور گنبدنمابلبوں نے رات کو دن میں بدل رکھا تھا۔ ۔ ۔ مین گیٹ کے اُوپر دونوں جانب تیزروشنی والے بلب ضیاتابی کا عنواں بنے ہوئے تھے ۔جب وہ حمنہ کے کمرے کے قریب سے گزر رہی تھیں تو وہ اپنے کمپیوٹرپرکسی سے وائس چیٹنگ میں مصروف تھی۔ ۔ ۔ اے ئر کنڈیشن آن تھامگر۔ ۔ ۔ ا س کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔
’’کس قدرلاپروا اور بے دھیان ہے یہ مخلوق؟‘‘
سلطانہ نے خودکلامی کی۔ ۔ ۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ صحن تک آ گئی جہاں ریٹائرڈپروفیسرعبدالصمداپنے چاروں بیٹوں اور بہوکے ساتھ پہلے سے بیٹھے تھے ۔
’’میاں صاحب زادے نہیں آئے آپ کے ساتھ؟‘‘
پروفیسرصاحب نے سلطانہ سے پوچھا۔ ۔ ۔ مگروہ خاموش رہیں
’’اَجی ہم سے کیابھول ہو گئی جو جناب کا مزاج نا آشنا ہو گیا ہے ؟‘‘
عبدالصمدنے اپنی بیگم کوکچھ مضطرب دیکھ کر کہا
’’پروفیسرصاحب!یہ سب کیادھرا آپ کا ہے ۔ ۔ ۔ اچھی گزر رہی تھی گاؤں میں ، مگرآپ کی ضد ہمیں یہاں لے آئی۔ ۔ ۔ نہ کوئی ادب آداب ہی سیکھ پایا ہے اور نہ ہی نفع نقصان کی پروا ہے کسی کو۔ ۔ ۔ میں پوچھتی ہوں ہزاروں یونٹ بجلی ضائع کر نے کی کیاضرورت ہے ؟بہورانی آپ کے پہلومیں بیٹھی ہیں ، مگران کے کمرے کا اے ئرکنڈیشن اور بلب بے کار چل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ حمنہ اور علی احسن کے کمروں کا بھی یہی عالم ہے ۔کوریڈور اور ہال سمیت صحن کی حالت بھی مختلف نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’بجا ارشادفرمایا آپ نے ۔ ۔ ۔ ہم نے اس بٹا لین کا انچارج آپ کو بنا دیا تھا، تو یہ آپ کی ذمہ داری تھی کہ سپاہیوں سے مناسب کام لیتیں ۔‘‘
شرارت کے سے انداز میں پروفیسرصاحب گویا ہوئے تو سلطانہ بیگم کو جیسے موقع مل گیا ہو ۔ ۔ ۔ وار کر نے کے لیے
’’خوب سمجھتی ہوں آپ کو۔ ۔ ۔ آپ کی بٹا لین کو۔ ۔ ۔ کہے دیتی ہوں اب مجھ سے مزیدیہ چونچلے برداشت نہیں ہوں گے ۔ ۔ ۔ سیدھی طرح سے اپنی عادتیں بدل ڈا لیے ، ورنہ میں بھائی صاحب کے ہاں گاؤں لوٹ جاؤں گی۔‘‘
فیصلہ کن اندازسے جب انھوں نے کہاتو سب نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔بہونے گھبراتے ہوئے کہا
’’امّاں بی!بس آخری موقع دے دیں ۔ ۔ ۔ ان شاء اللہ کل سے ویساہی ہو گاجیسا آپ چاہتی ہیں ۔‘‘
تب تک سلطانہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ چکی تھیں ۔
’’ٹھیک کہتی ہیں سلطانہ بیگم۔ ۔ ۔ بجلی کم خرچ ہو گی تو بل بھی کم آئے گا اور بچنے وا لی رقم کہیں اور کام آئے گی‘‘
پروفیسرصاحب نے سمجھانے کے اندازمیں کہا
’’مگراباّجی صرف ہمارے گھر میں یوں نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ پورے بلاک پرنظرڈا لیے ہربنگلے کی یہی کیفیت ہے ۔ ۔ ۔ آپ بھی امّاں بھی کا ساتھ دے رہے ہیں ‘‘
علی محسن نے قدرے ترشی سے کہاتو عبدالصمدنے فکر مندنظروں سے اُسے گھورا
’’اباّجی بل ہم دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ کماتے ہم ہیں ، پھرآپ لوگوں کو فکر مند ہونے کی کیاضرورت ہے ؟‘‘
پروفیسرصاحب بیٹے کی باتوں سے دُکھی ہو گئے تھے ۔ ۔ ۔ مگرانھوں نے خودپرضبط کر تے ہوئے کہا
’’بیٹا!ہم دونوں تو تمھارے ہی بھلے کاسوچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ایک بات یادرکھو!بھرا کنواں بھی سوکھ جایا کر تا ہے ‘‘
’’ہوتا ہو گا اس طرح بھی۔ ۔ ۔ مگریہ سب اس دورکی ضرورتیں ہیں ‘‘
پروفیسرعبدالصمدکے دماغ میں ایک حقیقی کر دار روشن ہورہا تھا۔ ۔ ۔ وہ اپنے بیٹوں کو بھی چونتیس سال اُدھرلے گئے
’’جھریوں بھرے چہرے پر دوآنکھیں یوں وا ہوتی تھیں ۔ ۔ ۔ جیسے تاریک غاروں کے دہانے سے بھاری سلوں کو سرکایا جارہا ہو۔زبان میں لکنت بھی آخری حدکو چھو چکی تھی۔بل کہ یوں تھاکہ منہ میں دانت نہ ہونے کے باعث بات ہی ٹھیک طرح سے نہیں ہو سکتی تھی۔اپنی طرف سے پوری قوت کے ساتھ بات کہی جاتی۔ ۔ ۔ مگرسننے والے کوہمہ تن گوش سے بھی کچھ زیادہ ہوناپڑتا۔اُدھربھی یہی عالم تھا، اِدھر سے بات ہوتی تو ایک کان کے ساتھ ہتھیلی کی دیوار بنا کر دوسرے کان پرہاتھ رکھا جاتا۔اچھاخاصاچیخنے کی مشق کر نے کے بعدوہاں بات پہنچتی۔اُوپر سے کمرکاخم بھی اپنی جگہ موجود تھا۔
یہ تھیں مائی فضیلت!شادی کے بعدایک بیٹے کی ماں بنیں اور جوانی میں بیوگی کی چادراوڑھ کر بیٹھ رہیں ، اللہ جانے کیوں ۔ ۔ ۔ ؟اسّی کی دہائی میں ہم ان کے پڑوسی بنے ۔ بیٹا ان کاکسی عرب ملک میں بڑھئی کاکام کر تا تھا اور اِدھربہو اور دوپوتیوں کی موجودگی کے باوجود بھی اپنا کھاتی پکاتیں ۔اسّی کے سن سے بہ ہر حال متجاوزتھیں ۔ ہماری طرف آ جایا کر تیں اور پھراپنی عمربھرکے تجربات سے آگاہ کر تیں ۔ان کی باتیں اب جو یاد آتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کس قدرحقیقت پسند خاتون تھیں ۔خوا جہ رحمت اللہ جری کایہ شعر ؂
جب بڑھاپے کا موڑ ملتا ہے
تجربوں کا نچوڑ ملتا ہے
ان پرصادق آتا تھا۔نصف کنال کے قریب صحن میں مائی فضیلت موسموں کی سبزیاں اُگایا کر تی تھیں ۔بازاری آٹے سے انھیں سخت اذیت ہوتی تھی۔اپنے ہاتھوں سے گھر میں پڑی چکی میں گندم کے دانے ڈالتی جاتیں اور جتنے وظائف یادہوتے ، ساتھ ساتھ پڑھتی رہتیں ۔ مائی کا کہنا تھا جو عورتیں رزق کو بے وضو ہاتھ لگاتی ہیں یاپھرپکاتے وقت اللہ کویاد نہیں رکھتیں ان کے ہاتھوں میں لذت نہیں آتی۔قدرت ان کے ہاتھوں سے ذائقہ چھین لیتی ہے ۔وہ ہر لقمہ منہ میں ڈالنے سے پہلے ’’بسم اللہ‘‘ اور جب حلق سے اُترجاتاتو ’’الحمدللہ‘‘کہتیں ۔وہ بازاری کھانوں اور سبزیوں پر اُٹھنے والے خرچ کو اسراف کاعنوان دیتیں ۔مائی کا خیال تھا جو لوگ صبح، دوپہر، شام کپڑے بدلتے ہیں اور خوامخواہ کی تیاریوں میں جُتے رہتے ہیں وہ حق داروں کا حق مارتے ہیں ، ضرورت مندوں پرظلم کر تے ہیں ۔ مائی کی کل ماہانہ آمدن ڈیڑھ سو روپے تھی، جو انھیں مکان کے کر ایہ کی مد میں آتی تھی۔ اسی رقم سے وہ اپناچولھاگرم رکھتیں اور کچھ پس انداز بھی کر لیتیں ۔پائی پائی جوڑ کر مائی نے مکہ اور مدینہ بھی دیکھے ۔ ۔ ۔ حج کی سعادت بھی حاصل کی۔
کمرے میں انھوں نے چا لیس واٹ کابلب اس اندازسے لگوایا تھاکہ وہ بہ یک وقت کمرے اور صحن کو روشن رکھتا۔مغرب سے عشا اور پھرصبح کی نماز کے لیے بلب روشن ہوتا ۔ ۔ ۔ باقی وقت میں بجھارہتا۔گرمیوں میں مائی کے کمرے کاپنکھاصرف دوپہر کو چلتا اور اگر رات میں گرمی بہت زیادہ ہوتی تو چلا دی اور نہ چارپائی صحن میں ڈال کر اس پر ’’مچھر دانی‘‘ تان لی جاتی اور چادرکو پانی سے بھگو کر اپنے پاس رکھ لیا جاتا۔ جب جب گرمی محسوس ہوتی ، چادر سے ٹھنڈ حاصل کی جاتی۔وہ پانی کے زیادہ استعمال پربھی ناراض ہوتی تھیں ۔ا یک بار ہمارے گھرکی ٹینکی سے پانی چھلکتا دیکھا تو کہا
’’نعمتیں جب اس طرح ضائع کی جائیں تو اللہ ناراض ہوکر ان میں کمی کر دیتا ہے ۔ یاد کر و ان لوگوں کو جو اُن جوہڑوں سے پانی پیتے ہیں جہاں سے جان وربھی پیتے ہیں ۔‘‘
مائی کاخیال تھاجن عورتوں کے تین سے زائدجوڑی کپڑے ہیں ان سے قیامت کے دن پوچھ ہو گی کہ، انھوں نے فضول خرچی کیوں کی۔سُرخی پاؤڈرکی لیپاپوتی کر نے وا لیاں تو انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں ۔مائی کہتیں
’’یہ اشیا ان عورتوں کے لیے جہنم کی آگ ثابت ہوں گی۔‘‘
ایک بارہمارے گھر میں ان سے کسی نے پوچھ لیامائی دوسری شادی کیوں نہیں کی؟تو ان کاجواب تھا
’’کم زورتھی، سوچتی تھی اگر کسی دوسرے شخص سے بول پڑھا لیے تو کہیں یتیم کی حق تلفی نہ ہو جائے ۔ ۔ ۔ یتیم کامال دوسرا استعمال کر لیتاتو روزمحشرمیری گردن پرگرفت ہوتی۔‘‘
کبھی کوئی اپنی تنگ دستی کاتذکر ہ کر تاتو وہ کہتیں
’’انسان پراللہ نے بہت سی نعمتیں اتاری ہیں ، اگروہ ان کا استعمال دیانت داری اور سلیقہ سے کر ے تو کبھی تنگ دستی کا شکار نہیں ہو گا۔جب اعتدال کی حدوں کو چھوڑدیا جاتا ہے ، لالچ اور بے ضمیری کو فروغ دیا جاتا ہے ، حق تلفی کو عادت بنا لیا جاتا ہے تو پھرانسان کی بھوک کبھی نہیں مٹتی۔وہ پیسوں سے نکل کر روپوں ، سیکڑوں اور ہزاروں کے پیچھے لگ جاتا ہے ۔اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے ، مگرہوس کی آندھیاں نہیں رُکتیں ۔جوں جوں وقت گزرتا ہے یہ تیز جھکڑوں میں اُڑتا رہتا ہے ۔‘‘
ایک بار کسی نے کہہ دیامائی مہنگائی بہت ہو گئی ہے ، خاوندپورے نوسوروپے مہینے کے کماتا ہے ، مگرمہینے کے اخیر میں ادھاراُٹھاناپڑتا ہے ۔مائی کاجواب تھا
’’مہنگائی نہیں ہوئی ہم نے اپنی ضروریات بڑھا لی ہیں ۔اپنی چادر سے پاؤں نکال لیے ہیں ۔میں اپنے بچپن میں ایک انڈے کے بدلے پاؤدودھ لاتی تھی۔ اب بھی انڈافروخت کر کے اسی رقم سے پاؤدودھ منگوا لیتی ہوں ۔‘‘
کیاوضع دار اور حقیقت پسندخاتون تھیں وہ۔ ۔ ۔ پودینہ کی چٹنی سے کھا کر اللہ کا شکر ادا کر تیں ، پنج گانہ نمازکے علاوہ نفلی عبادت میں بھی مصروف رہتیں ۔میں نے انھیں کبھی ناشکر ی کر تے ہوئے یا مایوس بیٹھے نہیں دیکھا۔اس قدر مطمئن، اس قدرشا کر وصابرشایدکوئی اور ہو ۔ پھرایک صبح بہونے دیکھامائی جائے نمازپربے سدھ پڑی ہیں ۔
وقت گزرگیا، بیٹا اور بہو بھی دنیا چھوڑ گئے ۔ ۔ ۔ اور اب پوتیاں ولایت میں اپنے خاوندوں کے ساتھ رہ رہی ہیں ۔ ۔ ۔ ان سب باتوں کو بھول کر جوان کی دادی کہا کر تی تھیں ۔ مجھے ایک جاننے والے نے بتایا تھاکہ وہ وہاں کسی فیکٹری میں کام کر تی ہیں ۔گھرکاخرچ مشکل سے چلتا ہے ، اس لیے انھیں اپنی ضروریات کے لیے کام کرنا پڑتا ہے ۔ بچوں کے اخرا جات کے لیے انھیں خاوندکاہاتھ بٹاناپڑتا ہے ۔ ‘‘
پروفیسرصاحب مائی فضیلت کی کہانی سنا کر خاموش ہوئے ہی تھے کہ علی محسن کہنے لگا
’’تو امّاں بی مائی فضیلت سے کون سی کم ہیں ۔ ۔ ۔ ہرمعاملہ میں کنجوسی اور دقیانوسیت دکھاتی ہیں ۔ ۔ ۔ اور ابّاجی اسّی کے سن کو گزرے ہوئے چھبیس برس ہو گئے ہیں ، اب بھی اگرہم اسی طرح سوچنے لگے تو ہم دنیاکے پاؤں کی دُھول بن جائیں گے ۔ ۔ ۔ ہرزمانے کی اپنی ضروریات اور تقاضے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مائی فضیلت بغیر پنکھے کے سوسکتی ہوں گی، مگراب اے ئرکنڈیشن کے بناسوناممکن نہیں رہا ہے ۔ ۔ ۔ اب چا لیس واٹ کے بلبوں سے گھر نہیں روشن ہوتے بل کہ روشنی کے لیے کئی ہزارواٹ کے بلب درکارہوتے ہیں ۔‘‘
علی محسن نے اپنی تقریرختم کی تو پروفیسرصاحب بغیرکچھ کہے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔
حمنہ ہاتھ میں کاغذلیے دوڑتی آرہی تھی۔ ۔ ۔ عبدالصمدجانے لگے تو پوتی نے کہا
’’داداجی!یہ نئی رپورٹ بی بی سی پرشائع ہوئی ہے ۔میں پرنٹ آؤٹ کر کے لے آئی ہوں ۔ ۔ ۔ دیکھیے تو‘‘
’’بٹیا اپنے باپ کو دو۔ ۔ ۔ میں صبح دیکھ لوں گا، اب تھک گیا ہوں ‘‘
’’مگرآپ بیٹھیے تو۔ ۔ ۔ بہت دل چسپ رپورٹ ہے ‘‘
کاغذاپنے باپ کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے حمنہ نے کہا
علی محسن نے کاغذپرلکھی ہوئی رپورٹ پڑھناشروع کی
’’آسٹریلیاکے سب سے بڑے شہرسڈنی میں ہفتہ کی شام سات بج کر تیس منٹ پرمشہوراوپیراہاؤس پربنے ٹ اور بلاکس کی بتیاں بجھا دی گئیں ۔اس کے اطراف میں بنے گھروں میں بھی کم وبیش یہی صورت حال تھی۔اس کے علاوہ ہاربربرج اور شہرکے تجارتی مرکزمیں آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتوں کی روشنیاں بھی گل کر دی گئیں ۔ ۔ ۔ ’’ارتھ اور ‘‘نامی اس مہم کا مقصدعالمی حدت میں کمی کی کوشش کرنا ہے ، جس وقت سڈنی میں ’’بلیک آؤٹ ‘‘ کیا گیا اس وقت شہرکے بڑے ریستورانوں اور تجارتی مراکزمیں موم بتیوں کی روشنی سے کام لیاگیا۔ ‘‘
علی محسن نے کاغذ واپس حمنہ کو دیا۔ ۔ ۔ پروفیسرصاحب بیٹے کے چہرے پرنظریں جمائے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ بیٹا خاموش تھا۔ ۔ ۔ مسلسل خاموش۔ ۔ ۔

٭٭٭


سانسوں کی مالا



گھرتو کیا اس نے خودکوہی بھلا دیا تھا۔سڑکوں کی فٹ پاتھوں پر رات سے دن کرنا اور بیزاری کانمونہ بنے بے وجہ گلیاں چھانتے پھرنا اس کا معمول تھا۔ ۔ ۔ جاڑے کی سرد راتوں میں کسی دکان کے چھجے تلے ، کانپتے ، ہانپتے بے طرح کے سود و زیاں کے شمار میں یوں مصروف رہتا، گویا اب ا س کی تدبیریں کارگرثابت ہوں گی۔ ۔ ۔ اور وہ زندگی کے دھارے میں پھر سے شامل ہوجائے گا۔
تکیہ اصحاب باباکے وسیع دالان میں صدیوں کی سزا کاٹتے بوڑھے پیپل کے کشادہ تنے سے پشت ٹکائے گھنٹہ بھر سے بیٹھے زمین کے سینے پرکڑھائی کر تے کر تے اس کی انگلیاں اچانک رک گئیں ۔ ۔ ۔ لگاجیسے لمحوں کی سسکیاں سنتے سنتے وہ خود بھی رو دیا ہو۔ خود رو جھاڑیوں کی طرح بڑھی ہوئی اس کی ڈاڑھی اور مونچھوں کے بیچوں بیچ نسبتاًسیاہی مائل ہونٹ لرز نے لگے ۔ ۔ ۔ اور پل جھپکے کی ساعت میں اکھیوں کی برسات نے خودروجھاڑیوں کو سیراب کر دیا۔ایک ہچکی سی بندھ گئی ۔ ۔ ۔ یوں جیسے بادل گرج رہے ہوں ۔
بابا اصحاب کی گزوں کو محیط قبرکے سرہانے بنے ہوئے طاقچوں میں روشن دیے دھمال ڈالنے لگے ، پیپل کے پتوں نے ہوا سے تال ملاتے ہوئے ماحول کی نغمگی میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ تب کسی طرح سے فیقے کی نظراس پرآن تھمی۔وہ یک بارگی اس کی طرف لپکا ۔ بے دھیانی پاؤں کی زنجیرہوئی اور وہ ایک جھٹکے سے اوندھے منہ زمین پرآرہا۔ ۔ ۔ رانا ہوٹل سے لائے گئے آلوؤں کے سالن نے اصحاب باباکے دالان کے حسن کو چار چاند لگا دیے ۔ مٹی کی ساختہ کشکول نماپلیٹ، دردسینے میں اُتار کر تین ٹکڑوں میں بٹ گئی، صوفی کی تندوری روٹیوں پرخارش زدہ کتیابے دھڑک جھپٹ پڑی تھی۔ادھرفیقے کی کر اہیں بھی موجی سائیں کے ہچکیوں میں مدغم ہو گئیں ۔
موجی سائیں لگ بھگ تین برس پہلے اس شہر میں وارد ہوا ۔ ۔ ۔ اور اصحاب باباکا تکیہ نشیں بنا۔جس قدراصحاب باباکے مزارکاصحن وسیع ہے اس سے کہیں زیادہ باباکادل کشادہ ہے ۔جوکوئی بھی مہمان ہوا۔ ۔ ۔ آخر کو میزبانی سے شرف یاب رہا، گویامالک ٹھہر گیا۔ اصحاب باباکے حوالے سے دوطرح کی باتیں مشہور ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ اشاعت دین کے سلسلہ میں کوئی صحابی رسولؐ یہاں آ رُکے تھے یہ انھیں کامزارہے ۔ ۔ ۔ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ بابا موصوف کانام صحاب یا اصحاب تھا۔اصل حال سے کوئی واقف نہیں ۔
٭٭٭
مجیب اپنے والدین کی اکلوتی اولادہونے کی وجہ سے انتہائی حساس واقع ہوا تھا۔ اسے بچپن ہی سے دینی ودنیاوی علوم حاصل کر نے کاشوق رہا تھا ۔ صبح کا آغازنمازفجر سے کر تا، نماز کی ادائیگی کے بعدمسجد میں ہی تلاوت کلام پاک کر تا اور باقاعدگی کے ساتھ مولوی صاحب سے تفیسرپڑھتا۔کالج بھی تسلسل سے جاتا اور کوئی ایک ’’پیریڈ‘‘ بھی ’’مس‘‘ نہ کر تا۔اِدھرتفسیر قرآن مکمل کی تو اُدھرMscبھی شان دارنمبروں سے پاس کر لی۔ اس کے والدین اسے دیکھ دیکھ کر جیتے ۔ ۔ ۔ گویا ان کے سانسوں کی ڈوری مجیب کے ہاتھ ہو۔
حسب معمول شہتوت کاگھنادرخت اپنی بانہیں پھیلائے اس کامنتظرتھا۔اس کی میٹھی، مسحور کر دینے وا لی چھاؤں ہمیشہ اس کے اعصاب جکڑ لیتی ۔ یہیں ۔ ۔ ۔ اسی لذت آمیز سایے میں بیٹھ کر وہ علینہ کی راہ تکا کر تا۔ ۔ ۔ اور جب وہ کھیتوں کی پگ ڈنڈیوں پرایک ادا سے سنبھل کر چلا کر تی تو مجیب اس سارے منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کر لیتا۔ اور پھراس خوش کن جادوئی کیفیت کا اسیرہو جاتا۔
مگر۔ ۔ ۔ آج شہتوت کی میٹھی چھاؤں بھی اس کے اضطراب میں کمی نہ کر سکی تھی۔کوئی پل تھا ، جو اسے چین لینے دیتا؟لمحے صدیوں کو محیط، وہ بے کل اور بے قرار۔ ۔ ۔ علینہ دُور سے آتی دکھائی دی تو وہ رات بھرکے سوچے ہوئے محبت آمیزلفظوں کو دُہرانے لگا۔جوں جوں وہ قریب آتی گئی ، مجیب کی حالت سنبھالے نہ سنبھلتی۔پورے وجود پرگویاکپکپی طاری ہو گئی ۔ شب بھرکے سوچے ہوئے تمام لفظ گونگے ہو گئے ۔کسی اَن دیکھی طاقت نے اسے خوف زدہ کر دیا تھا ۔ اتنا کہ کھڑا رہنا اس کے لیے مشکل ہو گیا۔اس قدرکم زورتو وہ کبھی نہیں تھا ۔ ساری قوتیں جمع کر کے اس نے علینہ کو روک ہی لیا۔
’’علینہ۔ ۔ ۔ اپناقُرب دے دو، ورنہ میں مر جاؤں گا‘‘
لرزتی زبان اور کپکپاتے ہونٹوں سے سرکنے والے الفاظ فضا میں تحلیل ہو گئے ۔زمین میں گڑی ہوئی نظریں علینہ کے سامنے کہاں اُٹھ پائی تھیں ۔ ۔ ۔ اس وقت بھی نہیں جب علینہ نے کہا تھا
’’مجیب!میں کب سے منتظر و مضطرب تھی، جانتے ہو ایک ایک پل کانٹوں پے گزرا ہے میرا‘‘
علینہ یہی کہہ پائی تھی کہ مائی شمّوکی آواز نے دونوں کو چونکا دیا۔
٭٭٭
علینہ اس کے اپنے ہی گاؤں کی تھی، مقامی اسکول میں بچوں کو پڑھاتی۔ ۔ ۔ کس سلیقے سے فرشتوں نے اسے سنوارا تھا۔ مصور ازل کی تمام تر عنایتوں اور مہربانیوں نے اسے شاہ کاربنا دیا تھا۔ گاؤں کاگاؤں ہی تو اس کامتمنی تھا۔کون تھا ایساجو اس نوبہارِ ناز کا اسیر نہیں تھا۔بولتے نقوش، کھنکتی، مسکر اتی آواز۔ ۔ ۔ مجیب سے لوگ بھی جو پاگل ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو ایسے ہی نہیں ۔
’’مجیب !کس قدرچاہتے ہومجھے ؟‘‘
علینہ نے اس سے پوچھا ۔ ۔ ۔ اور پھرمجیب نے اس کاہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تھا
’’بھلایہ کیاسوال ہوا۔ ۔ ۔ خودسے کوئی کتنی محبت کر تا ہے ؟ میں تمھیں خودسے الگ تھوڑی سمجھتا ہوں ۔تیری محبت میری شریانوں میں خون کی طرح دوڑرہی ہے ۔ میری سانسوں کا اعتبار تم سے ہے ‘‘
علینہ اس کے جواب پرخوشی سے نہال ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ وقت نے رُکناکہاں سیکھا ہے ، جو وہ مجیب اور علینہ کا انتظار کر تا۔بس سبک رفتاری سے گزرتاہی رہا۔
وہ رات مجیب پربہت بھاری تھی۔فیصلہ کرنا اس کے لئے ناممکن تھا۔ایک طرف اپنے اور علینہ کے والدین کی عزت کا سوال تھا، تو دوسری طرف سانسوں کی مالاکے بکھرنے کا خدشہ۔ علینہ اس کے لیے گھرتو کیازندگی چھوڑنے کو تیارتھی۔اس نے دردمندی سے ہی سہی فیصلہ تو سنا دیا تھا
’’مجیب!جیانہیں جائے گامجھ سے تیرے بغیر، اباکا انکار میں کہاں برداشت کر پائی ہوں ۔ ۔ ۔ علینہ کو اس دنیاسے کہیں دُورلے چلو!۔ ۔ ۔ دُوربہت دُور۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے مصحف رُخ پراپنی ہتھیلیوں کاغلاف چڑھا لیا تھا۔مجیب لفظوں کو تصویر کر نے کے ہنر سے ناواقف۔ ۔ ۔ بس سوچتا ہی چلاگیا۔وہ کم ہمت تھایاپھرمعاملہ فہم۔ ۔ ۔ جبھی تو اس نے یہ کہا تھا
’’علینہ!میں مایوس نہیں ہوں ، تمھارے ابومان جائیں گے ، تم حوصلہ رکھو‘‘
٭٭٭
کوئی نہیں جانتا تھاکہ مجیب کہاں چلاگیا۔البتہ اس کے عشق کے چرچے ضرور عام ہوئے ۔اس کی والدہ غم سے نڈھال، نیم پاگل، جو کوئی دکھائی پڑتا۔ ۔ ۔ اس سے مجیب کے بارے میں معلوم کر تی۔ ۔ ۔ دیواروں سے کہتی پھرتی۔اس کاوالد اس کی تلاش میں کہاں کہاں نہیں پھرا۔اخبارات میں اور ٹی وی پر گم شدگی کے اشتہارات چلے ۔ ۔ ۔ مگرسب بے سود۔ ایک سال، دوسال اور پھر تیسرے سال کا آخری سورج بھی غروب ہو گیا، لیکن مجیب نہیں پلٹا۔
٭٭٭
بابا اصحاب کے دالان میں عرس شریف کی تقریبات بڑے زوروشور سے جاری تھیں ۔مزارکے چاروں اور قطاراندر قطار دیے جلنے بجھنے کے عمل سے گزر رہے تھے ، فضا پر علی۔ ۔ ۔ علی۔ ۔ ۔ کے نعروں کی گونج چھائی ہوئی تھی۔زائرین عقیدت سے مزارکی طرف دیکھتے ، دعائیں کر تے ، منتیں مانتے ۔ ۔ ۔ موجی سائیں زائرین کے شور سے بے نیاز، دنیا و ما فیہا سے بے خبر، مزار شریف کے احاطہ کی خستہ جا لیوں کاسہارا لیے بہ چشم نیم بازنیم درازتھا کہ، ایک شخص اس کی طرف لپکا اور گھڑی بھر میں اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔پہلی باراسے اپنی شکستگی کا احساس ہوا۔خواہش اور کوشش کے باوجود وہ کچھ نہ کر سکا۔ انسانوں کے دائرے میں وہ ساکت وجامدصدیوں سے پڑے پتھرکی ماننددکھائی دیا۔حملہ اور نے اپنے دیگرساتھیوں کو بھی بلا لیا۔ایک شور۔ ۔ ۔ قیامت برپا کر دینے والا شور ۔ ۔ ۔ جو تھمنے کانام ہی نہیں لے رہا تھا۔آوازیں چاروں اور سے اس کاتعاقب کر تیں اور وہ چیخ چیخ کر کہتا
’’میں مجیب نہیں ہوں ، موجی ہوں ، موجی سائیں ‘‘
پھرحملہ اور وں میں سے ایک اس قریب آیا، نہ جانے اس نے کیابات اس سے کہی کہ وہ خاموشی سے ان کے ساتھ ہولیا۔موجی سائیں کاخدمت گار۔ ۔ ۔ فیقابھی دبے قدموں پیچھے پیچھے چلنے لگا۔زائرین عقیدت مندی میں مصروف ہو گئے ۔ موجی سائیں کے جان کاروں میں سے ایک نے کہا
’’آ جائیں گے سائیں !۔ ۔ ۔ انھیں کوئی کیاکہہ سکتا ہے ۔‘‘
٭٭٭
بابا اصحاب کے احاطہ سے نکل کر وہ سب موچی بازار کی تنگ وتاریک گلیوں سے ہوتے ہوئے بڑی سڑک پرآ گئے ، جہاں زندگی حسب معمول رواں دواں تھی۔لاری اڈے پر موجی سائیں نے فیقے کو اپنے سینے سے لگایا۔ ۔ ۔ اور واپس کر دیا۔کہنے والوں نے کیا نہیں کہا تھا اُسے ۔مجیب کی والدہ کی حالت ۔ ۔ ۔ علینہ کی جرأت کی داستاں ۔ ۔ ۔ گاؤں بھرکی باتیں ۔ ۔ ۔ رفتہ کے قصے ، فرداکے اظہاریے ، مگر اس کے لفظ تو کہیں کھوگئے تھے ، گویاوہ بولنا ہی بھول گیا تھا۔ اسے کچھ کہناہی نہیں تھاشاید۔لاری سے اُتر کر وہ ایک تانگے پر سوار ہو گئے ۔ اردگردکاماحول اسے کچھ مانوس، کچھ اجنبی دکھائی دیا۔
رانی ماں کی تاریک کنویں جیسی آنکھیں روشن ہو گئیں ۔
’’مجیب یہ کیاحال بنا لیا ہے تو نے ؟‘‘
کہتے ہوئے اس نے اپنی بانہیں موجی سائیں کو سینے میں بھرلینے کیلئے پھیلادیں ۔ جانے کتنی ہی دیرموجی سائیں رانی ماں کی چھاتی سے چمٹ کر روتا رہا۔ شاید دونوں روتے رہے ۔ پھر کتنی ہی شرمندگی، لجاجت اور منت کر تے ہوئے موجی سائیں نے رانی ماں کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا
’’ماں !مجھے معاف کر دے ، میں نے تمھیں ستایا ہے نا‘‘
اور رانی ماں ۔ ۔ ۔ جی واری، جی صدقے ، جی کہول ۔ ۔ ۔ ک اور د کر تی رہی۔
٭٭٭
مجیب کی واپسی پرگاؤں بھرخوش تھا۔ہرکوئی اس کی دل جوئی میں مصروف رہتا ۔ ۔ ۔ گزرے وقت کی باتیں سناتا۔ اور علینہ۔ ۔ ۔ ؟ بھلا علینہ سے زیادہ اس کی واپسی کی خوشی کسے ہوئی ہو گی؟اس نے تو مجیب کی خاطراپنی زندگی داؤپرلگائی تھی۔گاؤں کی کون لڑکی تھی بہ جزاس کے جس نے پسندکی شادی کانہ صرف اعلان کیا، بل کہ مجیب کے سواکہیں بھی شادی سے انکار کر دیا تھا۔علینہ نے مجیب کی خاطر بے غیرتی، بے حیائی کے طعنے تک سنے ۔وہ تو لمحہ لمحہ اس کے لئے مرتی اور جیتی رہی۔
علینہ اور مجیب کارشتہ طے ہو گیا۔محرم کی بیس تاریخ شادی کے لیے مقرر ہوئی ۔ دونوں خاندان قریب سے قریب ترہو گئے ۔ ۔ ۔ غم اور خوشی کے موسم بتا کر تھوڑی آتے ہیں ۔ خوشی سی خوشی تھی۔ ۔ ۔ وہ دونوں تو گزرے ہوئے سالوں کی راکھ تک کو دفن کر چکے تھے ۔ زخم یوں مندمل ہوئے گویاکبھی تھے ہی نہیں ۔ اور جانیے ۔ ۔ ۔ رستے زخموں پرکھرنڈآ جائیں تو دُکھ کا احساس کسے رہتا ہے ؟
دونوں طرف پوری شدومدسے شادی کی تیاریاں جاری تھیں ، ٹھیک چار دن بعد مجیب اور علینہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایک ہونے والے تھے ۔شادی کے لیے خریداری کی غرض سے مجیب اپنے ماموں زادبھائی شاہ میرکے ہم راہ نواحی شہرگیا۔وہ جمعہ کادن تھا۔ ۔ ۔ سولہ محرم کادن۔انھوں نے کچھ خریداری کر لی تھی، کچھ باقی تھی۔ دونوں بھائی شہرکی جامع مسجد میں نمازجمعہ کی ادائیگی کے لیے داخل ہو گئے ۔
کس قدرسرشاری اور ممنونیت سے وہ خداکے حضور جھکا تھا۔ ۔ ۔ رہ رہ کر اُسے علینہ یادآرہی تھی۔جوں جوں علینہ اس کے اعصاب پرحاوی ہوتی گئی وہ خداکی شکر گزاری میں بڑھتا گیا۔
٭٭٭
سانسوں کی مالاٹوٹ کر بکھرگئی تھی۔مجیب اور شاہ میرکی میتیں جب گاؤں لائی گئیں تو گاؤں بھر میں کہرام مچ گیا۔ہر آنکھ اشک بارتھی اور ہرزبان پر قاتلوں کے لیے بد دعائیں ۔ ۔ ۔ نامعلوم دہشت گردوں نے ان سمیت سات افرادکو نمازِجمعہ کی ادائیگی کے دوران اندھادھندفائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔
٭٭٭
 

خاورچودھری

محفلین
1---------سوداگر-------------2 عکس در عکس------------3 Impostor



ہیروں کا سوداگر



دل آرام ریسٹورنٹ کے باہرجب پہلی مرتبہ میری نظراُس پرپڑی تو میں نے اُسے کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ ۔ ۔ مگرجب وہ اکثرشام کے بعد وہاں دکھائی دینے لگاتو میں نے ایک دن اُس سے پوچھ ہی لیا۔
’’میں یہاں ہیرے فروخت کر نے آتا ہوں ‘‘
اُس کے اِس جواب سے میں شش در و متعجب ہوکر اُس کا منہ تکنے لگا۔میری حیرتوں کو بھانپتے ہوئے اُس نے اپنے کندھے سے بوری اتاری اور گویاہُوا
’’اِس طرح کیوں تک رہے ہو؟‘‘
اور پھر جلدی سے بوری کامنہ کھولا اور اُس سے درجنوں رنگ بہ رنگ پتھرنکال کر زمین پر پھیلادیے ۔ایک گول مٹول سرخی مائل پتھرمیری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا
’’یہ ملکہ الزبتھ دوم کے استعمال میں رہا ہے ، جب وہ آئینے کے سامنے جایا کر تی تھی تو یہ پتھر سنگھار میزپرموجودہوتا۔اس کی قیمت ایک لاکھ امریکن ڈالرہے ۔‘‘
سرمئی پتھرمیرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا
’’براہم لنکن کویہ موتی اُس کی اعلیٰ خدمات پیش نظر رکھتے ہوئے ایک امریکی سرمایہ کارجان ای ایگرنے تحفہ میں دیا تھا؛ اس کی قیمت پچپن لاکھ امریکن ڈالر ہے ۔، ،
بادامی رنگ کے چھوٹے سے پتھر کو دکھاتے ہوئے اس نے کہاکہ
’’یہ محبت کی نشانی ہے ۔ ۔ ۔ ویسے تو اربوں ڈالربھی اگرمجھے کوئی دے تو میں اسے نہ دوں ۔ ۔ ۔ مگر میراکاروباراس نوعیت کا ہے کہ میں اسے زیادہ دیرتک اپنے پاس نہیں رکھ سکتا؛یہ دو کر وڑ ڈالرکا ہے ۔لیڈی ڈیاناکو اس کے آخری عاشق دودی الفائدنے محبت کے آخری تحفے کے طور پر دیا تھا۔جب ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تو وہاں موجودایک شخص نے اِسے اُٹھا لیا تھا۔‘‘
نہ جانے کتنے اور موتی اور ہیرے اس کی بوری میں تھے ۔ ۔ ۔ جو کئی نام ور ہستیوں کے زیر استعمال رہ چکے تھے ۔میں نے اس سے پوچھا
’’یہ موتی کون خریدتا ہے ؟‘‘
تو اس نے بتایا
’’یہاں کورین، چائنیز، ملائشینز ، جرمنز اور عریبک لوگ آتے رہتے ہیں ۔میرازیادہ کاروبار ان سے رہتا ہے ، تاہم بعض اوقات کوئی پاکستانی تاجربھی مال اُٹھا لیتا ہے ، لیکن میں اِن سے زیادہ تجارت اِس لیے بھی نہیں کر تاکہ یہ لین دین ٹھیک نہیں کر تے ۔چھ ماہ پہلے کر اچی کے ایک تاجرکوڈیڑھ ارب ڈالرکے ہیرے دیے تھے ۔ ۔ ۔ اُس نے ایک ماہ کے اندر رقم دینے کاوعدہ کیا تھا، مگرتاحال رقم نہیں آئی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ انتہائی تیزی سے ہوٹل کی طرف دوڑا۔ ۔ ۔
٭٭٭
صحیح نام اس کا غالباً عبدالشکور ہے ۔ ۔ ۔ لیکن لوگوں میں وہ کئی ناموں سے مشہور ہے ۔کچھ نام اس نے خودچُنے تھے اور بعض اس کے القابات اور خطابات شمارکیے جا سکتے ہیں ۔ایک زمانے میں وہ’’شِکر ا‘‘کے نام سے شہرت کو پہنچا۔ ۔ ۔ یہ اس کا اپنارکھا ہوانام ہے ۔ پھروہ’’دونمبر‘‘کے نام سے جانا گیا۔یہ نام اُسے ان لوگوں نے دیاجو اس کے ’’کاروبار‘‘ کو جعلی سمجھتے ہیں ۔ کچھ لوگ’’آن وڑئی اوئے ‘‘(*)کہہ کر بھی اُسے مخاطب کر تے ہیں ۔جس کے جواب میں اس کے منہ سے پھول جھڑناشروع ہوجاتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور وہ ہیرے جن کی ما لیت اربوں سے زیادہ ہوتی ہے مخاطب کی جانب برسناشروع ہوجاتے ہیں ۔ اپنی توہین شکر ے سے کبھی برداشت نہیں ہوپاتی ، بھلے اس کا اربوں میں نقصان ہوجائے ۔پھینکے ہوئے ہیروں کو دوبارہ سمیٹنے کے بعدبیس کلوسے زیادہ وزن دار بوری کاندھے پراُٹھا کر کسی اور جانب چل پڑے گا۔
میں نے جب ہوش سنبھالاتو وہ اس شہر میں موجودتھا۔اُس وقت یہ حالت نہیں تھی اُس کی۔ 1986ء میں ایک مرتبہ اس نے بتایا تھاکہ وہ سائیکل پر دو مرتبہ تین ہزارکلومیٹر فاصلہ طے کر کے کر اچی گیا اور آیا ہے ۔تن سازی کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتارہا۔جس وقت مجھے یہ بتارہا تھا اُس وقت وہ اپنے موٹر سائیکل کو رکشا میں تبدیل کر رہا تھا۔ رکشا جب تیار ہوا تو وہ بڑے فخر سے شہر میں اُسے پھراتارہا۔ ۔ ۔ کیوں کہ اس کی بناوٹ میں استعمال ہونے والے پرزے اس کی اپنی انجینئرنگ کانتیجہ تھے ۔ دوسری بات یہ بھی تھی کہ وہ اس شہر کا پہلارکشا تھا۔رکشا کی تکمیل کے بعداُس نے خواہش ظاہرکی تھی
’’اگرمیرے پاس وسائل ہوتے تو میں بڑے پیمانے پر رکشا سازی کاکام شروع کر تا۔‘‘ دیکھنے والوں نے دیکھاکہ’’شکر ا‘‘دن بھرمیلوں کی مسافت طے کر کے رکشاپرآئس کر یم ، اچار اور دیگرکئی چیزیں بیچا کر تا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کی موٹرسائیکل خراب رہنے لگی۔ ۔ ۔ اور آخرکار اس نے موٹرسائیکل بیچ کر گدھا خرید لیا۔موٹرسائیکل کے پیچھے باندھی گئی گاڑی کو اس نے موٹرسائیکل سے جدا کر دیا تھا۔ ۔ ۔ پھروہی گاڑی اس کے گدھے کے کام آئی۔یعنی رکشا ، چاند گاڑی میں بدل گیا۔میں بتا چکا ہوں کہ شِکر ا میلوں پھرنے کاعادی تھا اور گدھے کے لیے یہ مسافت ناقابل برداشت تھی ۔ ۔ ۔ اس لیے وہ جلدہی اسے چھوڑگیا۔بس یہی دن تھے جو اسے معاشرے کی ٹھوکر وں پرچھوڑگئے ۔شروع میں وہ تفننِطبع کے لیے اپنی ذات کے حوالے سے بھی مزاح کر تا تھا ۔لوگ سن کر خوش ہوجاتے اور اسے چائے ۔ ۔ ۔ سگریٹ پیش کر تے ۔پھرلوگوں نے اسے مذاق کا نشانہ بنانامعمول بنا لیا۔ اور اب تو چھوٹے بڑے نے اس کی وہ خبرلی تھی کہ وہ خودسے بے خبر ہو گیا۔ اس کی حالت یہ ہے کہ وہ نصف من پتھروں کوہیرے سمجھ کر دن بھرکاندھے پر اٹھائے پھرتا ہے ۔ ۔ ۔ اور رات کو ان کو اپنے پہلو میں دبا کر سوتا ہے ۔
کئی برس گزرگئے ۔ ۔ ۔ شکر ے سے متعلق باتیں ہوا میں تحلیل ہونے لگیں ۔ ۔ ۔ لوگوں کی دل چسپیاں بدلنے لگیں ۔ ۔ ۔ ماحول میں تبدیلی آئی۔ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ دل آرام ریسٹورنٹ کے باہرپڑی کر سیوں پر بیٹھا ہوں ۔ ۔ ۔ دفعتاً دو نمبر آ جا تا ہے ۔ ۔ ۔ اب اس کی حالت انتہائی قابل رحم ہے ۔ چوکور میز کے ایک کونے پرپیرجما کر کہتا ہے
’’مال چاہیے ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
میں اُسے اس کے پرانے حال میں سمجھتے ہوئے کہتا ہوں
’’کیا جارج ڈبلیوبش سے ڈیل نہیں ہوئی۔ ۔ ۔ ؟‘‘
وہ اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پرتا لی کے سے اندازمیں مارتے ہوئے بہ آوازبلندقہقہہ لگاتا ہے ۔ ۔ ۔ تو سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔قدرے توقف کے بعدکہنے لگتا ہے
’’جناب۔ ۔ ۔ !وہ پرانی باتیں ہیں ۔ ۔ ۔ اب اور مال بکتا ہے ‘‘
’’اب کون سامال بکتا ہے ۔ ۔ ۔ شکر یا؟‘‘میں نے دل چسپی سے پوچھا
’’شراب۔ ۔ ۔ افیون۔ ۔ ۔ ہیروئن۔ ۔ ۔ چرس۔ ۔ ۔ نن باؤ۔ ۔ ۔ ویاگرا۔ ۔ ۔ ‘‘
دونمبرکے اس انکشاف سے میں چونک ساگیا۔ ۔ ۔ اب وہ مجھے حقیقتاًدونمبرمحسوس ہورہا تھا ۔ ۔ ۔ میں نے سوچاشایداس نے پاگل پن کابہروپ بھر رکھا ہے اور وہ اس اندازسے اپنا گھٹیا کام کر تاچلا آرہا ہے ۔مجھ سے رہانہ گیاتو میں نے پوچھا
’’تم بیچتے ہویہ سب چیزیں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
وہ پھرکھلکھلا کر ہنسا اور اُسی اندازسے اپنے ایک ہاتھ پر دوسراہاتھ مارا۔ ۔ ۔ کہنے لگا
’’میں کہاں بیچتا ہوں ۔ ۔ ۔ چودھری صاحب، راناصاحب، میاں صاحب اور شیخ صاحب بیچتے ہیں ‘‘
’’کیاوہ خودبیچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’بھلاخودکیوں بیچیں گے ؟کیاوہ شرفانہیں ہیں ؟‘‘
’’تو کون بیچتا ہے پھر۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’پیپا۔ ۔ ۔ لاٹو۔ ۔ ۔ سوہنا۔ ۔ ۔ مندری۔ ۔ ۔ بجنس۔ ۔ ۔ کارتوس۔ ۔ ۔ ‘‘
وہ خاموش ہوتا ہے اور پھر ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتا ہے ۔ ۔ ۔ جیسے مجھے سننا چاہتا ہو۔ میں پھر اُس سے سوال کر تا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’تم کیابیچتے ہو۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’میں ۔ ۔ ۔ میں تو آئینے بیچتا ہوں ۔ ۔ ۔ آنکھیں بیچتا ہوں اور آنکھوں کے موتی بیچتا ہوں ۔ ۔ ۔ لفظوں کے ہیرے بیچتا ہوں ۔‘‘
٭٭٭
(*آگھسا ہے )


عکس درعکس



’’یہ 27جنوری2005ئ؁ کادن تھا۔ ۔ ۔ جنوبی پولینڈکے شہرآشوچ کی جسموں کو جامد کر دینی وا لی سردی جسموں میں اُتر رہی تھی۔لوگ موٹے کمبل اوڑھے اُن لوگوں کویاد کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ جن کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ہٹلرکی افواج نے انھیں انتہائی ذلت آمیز طریقہ سے قتل کیا تھا ۔ ۔ ۔ اُن کی ننگی نعشوں کو اُوپرنیچے رکھاگیا تھا۔ ۔ ۔ اور ان تہ بہ تہ رکھی گئی نعشوں میں خواتین کے برہنہ۔ ۔ ۔ مگرمردہ جسم بھی تھے ۔ان باتوں میں کتنی صداقت ہے اس حوالے سے کوئی بھی حتمی بات ابھی تک سامنے نہیں آ سکی ہے ۔فطرت کے عین مطابق ان واقعات کے حوالے سے بھی دوگرہوں نے جنم لیا ہے ۔ایک وہ لوگ ہیں جو ان واقعات کو تسلیم کر تے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو ان کی نفی کر تے ہیں ۔
خیر۔ ۔ ۔ آشوچ میں منعقدہ تقریب میں ہٹلرکی فوج کے ہاتھوں یہودیوں کے نسل کش کیمپ سے بچ جانے والے افراد اور عالمی راہ نماشریک تھے ۔ آشوچ کے یخ بستہ ماحول کو آنسوؤں کی گرمی سے بھی گرم نہیں کیا جا سکا تھا۔ ۔ ۔ تب اسرائیل کے صدر موشے کاتساؤ نے کہا تھاکہ
’’ہم اب بھی مرنے والوں کی چیخیں سن سکتے ہیں ۔ اب جب کہ میں کیمپ کی زمین پرقدم رکھ رہا ہوں ، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں مرنے والوں کی راکھ پر چل رہا ہوں ۔‘‘
موشے کاتساؤکی یہ باتیں شرکا کے لیے سخت اذیت ناک ثابت ہوئیں ۔ ۔ ۔ اور سسکنے وا لی آوازیں چیخوں اور آہوں میں بدل گئیں ۔کیمپ میں سوگواری تھی ، مگر آشوچ کا ماحول جوں کا توں تھا۔تقریب میں بتایا گیاکہ اس کیمپ میں دس لاکھ افراد کو ریل گاڑیوں کے ذریعہ سے لایاگیا تھا اور 1940ء سے لے کر ستائیس جنوری1945ئ؁ تک ایک ملین سے زائد افراد کو ہلاک کیا جا چکا تھا۔ہلاک ہونے والوں میں بیشتر مرکزی یورپ کے یہودی تھے ۔ جنھیں ہم جنس پرستوں ، پولینڈ اور روسی قیدیوں کے ساتھ ٹرکوں میں آشوچ بھر کر لایا گیا تھا ۔ان تمام ہلاک ہونے والوں کی تعدادگیارہ لاکھ بتائی گئی۔ جن میں سے دس لاکھ یہودی تھے ۔آشوچ کی اس تقریب میں موشے کاتساؤکے علاوہ فرانسیسی صدرژاک شیراک، امریکی نائب صدرڈک چینی، برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا، روسی صدر ولادی میرپوٹن، پولینڈ کے صدرا لیگزینڈرکو ازنیوسکی اور جرمن صدرہارسٹ کوہلربھی شریک تھے ۔ آخرالذکر پر مکمل سکوت طاری تھا۔آشوچ کے کیمپ سے زندہ بچ جانے والے ایک یہودی آرنولو سٹیگر نے اُس وقت کویادکیاجب وہ آشوچ میں قیدتھا۔ بانوے سالہ روسی فوج کے افسر اناتولی شپیرونے اُن دنوں کی دھندکو سرکاتے ہوئے بتایاکہ
’’یہاں ننگی عورتوں کے ایک کے اُوپرایک رکھی گئی نعشوں کے انبارتھے ۔چاروں طرف خون ہی خون تھا۔ ۔ ۔ اور بدبونتھنوں کی چیر رہی تھی ۔ کوئی شخص اس ماحول میں پانچ منٹ کے لیے نہیں رُک سکتا تھا۔‘‘
یوں لگتا تھاجیسے آشوچ میں ہونے وا لی اس روزکی برف باری نے زندوں کاخون بھی منجمد کر دیا ہے ۔‘‘
پروفیسرصاحب ایک منٹ کے لیے خاموش ہوئے ۔ ۔ ۔ سگرٹ سلگایا اور دوبارہ گویا ہوئے
’’ایران میں ہولوکاسٹ پرکانفرنس ہورہی ہے ۔کانفرنس میں اس بات کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ آیا ہولوکاسٹ ہوابھی تھاکہ نہیں ۔ گزشتہ سال دسمبرکے وسط میں جنوب مشرقی ایرانی شہرزاہدان میں ہزاروں افراد سے خطاب کے موقع پر ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ہولو کاسٹ کو مفروضہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا
’’انھوں نے ایک کہانی گھڑلی ہے جسے وہ یہودیوں کاقتل عام کہتے ہیں اور اب وہ اسے خدا، پیغمبر اور مذہب سے اونچادرجہ دیتے ہیں ۔‘‘
انھوں نے اس موقع پریہ بھی کہا تھا
’’اگریورپ نے یہودیوں کاقتل عام کر کے ظلمِ عظیم کیا ہے تو مظلوم فلسطینیوں کو اس کی سزا کیوں دی جارہی ہے ۔ ۔ ۔ ؟ہماری پیش کش یہ ہے کہ آپ یورپ یا امریکا یا پھر الاسکا، آسٹریا یاجرمنی میں زمین کا ایک حصہ یہودیوں کو دے دیں تاکہ وہ اس پراپنی حکومت قائم کر سکیں ۔‘‘
خدالگتی بات ہے کہ اس سے صائب مشورہ کوئی اور انھیں نہیں دیا جا سکتا تھا۔ ۔ ۔ اور نہ دیا جا سکتا ہے ۔اگرہولوکاسٹ کا انکارجرم ہے تو پھرمغرب کو اپنے گنا ہوں کا کفارہ بھی خودادا کرنا چاہیے ۔
خیر۔ ۔ ۔ ہم واپس ایران میں ہونے وا لی اس کانفرنس کی جانب آتے ہیں جس میں تیس مختلف ممالک سے 67مفکر ین کی شرکت کی اطلاع آئی ہے اور ساتھ ہی ایرانی وزیر خارجہ منوچہرمتقی کایہ کہنابھی سننے کو ملا ہے کہ
’’کانفرنس کامقصدہولوکاسٹ کی تصدیق یا تردید کرنا نہیں ، بل کہ ان مفکر ین کو موقع فراہم کرنا ہے جو اس کے بارے میں یورپ میں اظہارِخیال نہیں کر سکتے ۔ ‘‘
منوچہر متقی نے حقیقتاًمغرب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔ وہ جو آزادی ء اظہار کے راگ الاپ الاپ کر مسلم معاشروں کوکھوکھلا کرنا چاہتے ہیں ، آج خوداپنے کہے ہوئے سے مکر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ بل کہ اُلٹے پاؤں بھاگناشروع ہو گئے ہیں ۔اس کی ایک مثال امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک حا لیہ بیان کی صورت دی جا سکتی ہے ، جس میں اس نے اس کانفرنس کو ایرانی حکومت کا ایک اور ہتک آمیزقدم قرار دیا ہے ۔ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ محمود احمدی نژاد صاحب کایہ کہناوزن رکھتا ہے کہ
’’کس طرح ساٹھ لاکھ یہودیوں کاقتل عام ممکن ہے ۔‘‘
مجھے اقوام متحدہ کے سیکر ٹری جنرل کوفی عنان کاوہ بیان یادآرہا ہے جو انھوں نے گزشتہ سال جنوری کے تیسری ہفتے میں نیویارک کی اس تقریب میں دیا تھاجو نازی کیمپوں سے آزادی کی ساٹھویں سالگرہ کے حوالے سے منعقدکی گئی تھی۔موصوف نے فرمایا تھا
’’وہ برائی جس نے ساٹھ لاکھ یہودیوں اور دوسروں کو ایذارسانی کے کیمپوں میں مصائب میں مبتلاکیا۔آج بھی وہ برائی اقوام عالم کو دھمکا رہی ہے ۔‘‘
اس بیان پرتبصرے کی گنجائش نہیں ۔یہ ان عالمی طاقتوں کی طرف واضح اشارہ ہے جو دنیا کا امن تباہ کر نے کے درپے ہیں ۔‘‘
پروفیسرصاحب نے سگرٹ کے دھوئیں کو سانس کے ذریعہ سے اپنے اندر کھینچا ؛ اور پھرایک خاص اندازسے دھوئیں کو فضا میں چھوڑتے ہوئے سلسلہ ء کلام جوڑا
’’یہ باتیں ضمناًدرآئی ہیں ، واپس کانفرنس پرآتے ہیں ۔کانفرنس میں شریک برطانیہ سے آنے والے ایک یہودی عالم اہرن کوہن نے کس قدرضبط سے یہ کہا ہے
’’ہم کہتے ہیں ہولوکاسٹ ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن اسے کسی طورپربھی فلسطینیوں کے خلاف زیادتیوں کے لیے جواز نہیں بنانا چاہیے ۔‘‘
اہرن کوہن جان لیں کہ ایرانی صدر کابھی یہی مؤقف ہے ۔ ۔ ۔ اور عام مسلمانوں کابھی کہ۔ ۔ ۔ یہودی اپنے اُوپرظلم کر نے والوں کو پہچانیں نہ کہ نہتے فلسطینیوں پر ظلم ڈھائیں ۔
میں سمجھتا ہوں ایران نے کانفرنس کا انعقاد کر کے ایک جرأت مندانہ قدم اُٹھایا ہے ۔دوسرے اسلامی ملکوں کو بھی اس کی تقلید کر نی چاہیے ۔ کیوں کہ جب کوئی ایک یورپی ملک نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے حوالے سے گستاخانہ خاکے شائع کر تا ہے تو پورا یورپی میڈیا اس کی تتبع کر تا ہے ۔ یہاں کوئی سلمان رشدی پیدا ہوتا ہے تو ’’آزادی ء اظہار‘‘کو جواز بنا کر اسے وہاں پناہ دے دی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مگر جب کوئی ان کا اپنا ’’ہولوکاسٹ‘‘کی حقیقت جاننے کی کوشش کر تا ہے تو اس پرمقدمہ قائم کر نے کا کہا جاتا ہے ۔کیابرطانوی مؤرخ ڈیوڈ آرونگ کی آسٹریا میں گرفتاری کو بھلایا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ؟ آرونگ وہی شخص ہے جس نے اپنی کتاب میں کہا تھاکہ
’’ہولوکاسٹ کے حوالے سے ہلاکتوں کی تعدادکو بڑھا چڑھا کر پیش کیاگیا تھا۔ ۔ ۔ اور آشوچ کیمپ میں گیس چیمبربھی نہیں تھے ۔‘‘
یہ ایک حوالہ ہے ۔کئی اور باتیں بھی ہیں جن سے ہمارے مؤقف کو تقویت ملتی ہے ۔ہم تو وہ ہیں جن کے نزدیک ایک انسان کو قتل کرناپوری انسانیت کو قتل کر دینے کے مترادف ہے ۔ اس لیے ہم کسی کے قتلِ عام پرخوش نہیں ہوتے ۔ ۔ ۔ لیکن اگرایران نے حقائق کی جان کاری کے لیے کانفرنس کا انعقادکیا ہے تو امریکا اور مغرب کو اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے کہ، ہم بھی گوشت پوست کادل رکھتے ہیں ۔‘‘
پروفیسرصاحب بات مکمل کر کے خاموش ہوئے اور اپنی کر سی کی پشت کے ساتھ سرٹکا کر خلاؤں میں گھورنے لگے ۔ ۔ ۔ محفل میں موجود لوگوں کی آنکھوں سے چشمے جاری ہو چکے تھے ۔ ۔ ۔ شایدآشوچ کے چیمبروں میں دم توڑنے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ یامسجداقصیٰ کی خاطرقربان ہونے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ یا پھر بغداد، تکر یت اور بعقوبہ میں رزقِخاک ہونے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ پکتیا، تورابورا اور کابل کی مٹی میں مٹی ہوجانے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ یاکوہلو، بگٹی اور سوئی کی گلیوں میں مار دیے جانے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ یا پھر وانا، وزیرستان اور کر اچی میں اَن دیکھی گولیوں کانشانہ بننے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ اور یاپھرلال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معاصرے کے دوران جاں بہ حق ہونے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ خود کش حملوں میں موت کو گلے لگانے والے سپاہیوں کے لیے ۔ ۔ ۔ یاپھران مقتولوں کے لیے جنھیں اپنا جرم تک معلوم نہیں تھا۔ ۔ ۔ بس آنسوؤں کی لکیریں بڑھتی جارہی تھیں ۔ ۔ ۔ مگر دماغ کی دیواروں سے ایک ہی جملہ باربارٹکر ارہا تھا
’’ہم وہ ہیں جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کاقتل سمجھتے ہیں ۔‘‘

٭٭٭

’’impostor‘‘



’’ اُسے خواب میں چلنے کی عادت تھی یاپھرچلنے میں سونے کی، جب ہی تو وہ راتوں کو اپنی آرام گاہ میں ٹہلتارہتا۔اگر بستر پر وجود کو گرا بھی دیتا تو اس کا دماغ اور آنکھیں جاگتے رہتے ۔اکثراوقات وہ خودکلامی میں ایسی ایسی باتیں کہہ جاتاکہ سننے والے انگشت بہ دنداں رہ جاتے ۔ ۔ ۔ حیران ہو جاتے اور سوچتے بھلایہ بھی کوئی کہنے کی باتیں ہیں ۔ ۔ ۔ خود کلامی ہی سہی ؛ہے تو پریشان کن۔اس کاخیال تھاکہ اس کے اردگردرہنے والے تمام لوگ زرخریدغلام اور لونڈیاں ہیں ۔ روشنیوں ، ہواؤں ، پانیوں ، موسموں ، آسمانوں ، زمینوں اور دُھوپ چھاؤں جیسی سبھی نعمتوں کاحق دار بہ جز اس کے کوئی اور نہیں ہے ۔ان شدت پسند اور غیر حقیقت پسندانہ خیالات سے اس کے سوچنے ، سمجھنے ، بولنے اور برتننے کی حسیات زنگ آلود ہونے لگی تھیں ۔ اس کے قریب رہنے والے لوگوں کے خیال میں وہ نفسیاتی مریض بن چکا تھا اور انھیں یہ بھی دھڑکالگارہتا تھاکہیں اس کے ہاتھوں کسی کی جان نہ ضائع ہوجائے ۔ مجبوراًقرابت داراس کی جائزونا جائزفرمائشوں اور مطالبات کو بے چون و چرامان لیتے ۔ ۔ ۔ اور پھروہ اس راہ ہولیتاجس پر اس کاجی چاہتا۔
مہینوں وہ غائب رہتا، اس کے جاننے والے نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں نکل جاتا ہے اور کیا کر تا رہتا ہے ، مگریہ ضرورجانتے تھے کہ وہ خودکوکبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا، کیوں کہ اس نے کسی بھی حالت میں ، کبھی بھی ، کوئی ایسی حرکت نہیں کی تھی ، جس سے اندازہ ہو سکتا ہوکہ وہ ایسا کر سکتا ہے ۔البتہ یہ ممکن تھا، جب وہ کسی اور کو نشانہ بنائے تو سامنے والابھی وار کر دے ۔ وہ بلاکاذہین دکھائی دیتا تھا، کبھی کبھی تو یوں معلوم ہوتا جیسے علوم کے تمام دفاتراس کے دماغ میں کھلے ہوئے ہیں اور وہ انھیں صرف ایک نظر دیکھ کر آگے نکلتا جارہا ہے ۔علم الکلام کا ماہر تھایاکم ازکم اندھوں میں کانا تھا، اس کے ہم محفلوں اور جاننے والوں میں اس جیساخوش گفتار ، خوش سلیقہ اور موقع شناس کوئی اور نہیں تھا۔ بولتا تھا تو یوں دکھائی دیتاجیسے اب کبھی خاموش نہیں ہو گا۔ ۔ ۔ مگرجب خاموش ہواتو سالوں کسی سے بات نہیں کی ۔ آس پاس کے لوگوں میں بعض کاخیال تھاکہ وہ ’’مرشدکے حکم سے چلّہ کاٹ رہا ہے ‘‘ اور بعض اسے Impostorکہتے ، مکار اور مکر وہ خیال کر تے ۔یہ تمام باتیں وہ جانتا تھا۔ ۔ ۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے قریب رہنے والوں میں کون کیارائے رکھتا ہے ، لیکن وہ عموماًاپناتاثر ظاہر نہیں کر تا تھا اور پھرکسی دوسرے وقت میں کسی اور طریقہ سے حساب بے باق کر دیتا۔اس کے اس ردعمل کوکم لوگ جانتے تھے ۔ ۔ ۔ کیوں کہ وہ براہِ راست کچھ نہیں کر تا تھا، جس طرح اس کی ہربات تہ درتہ ہوتی ، اسی طرح اس کاعمل تھا۔ ۔ ۔ ہرپرت کے نیچے سے دوسری پرت نکل آتی اور آدمی حیران رہ جاتا۔اگروہ پیا لی توڑنا چاہتاتو اسے سیدھے اندازسے پکڑ کر زمین پر نہیں پٹخ دیتا تھا۔ ۔ ۔ بل کہ اس کے لیے وہ میزسے ٹھوکر کھاتا اور اپنی ٹانگ سہلانے کے ساتھ ساتھ ٹوٹی پیا لی کو دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنی حکمت پر مسکر اتا رہتا۔ اس کی ان عادتوں اور حکمت عملیوں سے کم لوگ واقف تھے ۔ایک دفعہ اس نے کہا تھا کہ
’’طاقت صرف طاقت ہوتی ہے ، خیر اور شرکی بحث بے معنی ہے ، مجھے کوئی بھی طاقت ہاتھ آ جائے میں اسے استعمال کر وں گا۔شیطان اگر دنیا کو زیر کر نے میں معاونت کر تا ہے تو اسے دوست کہنے اور دوست رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔میں طاقت چاہتا ہوں ، حکم رانی چاہتا ہوں ، دوام چاہتا ہوں ۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، اس کے ایک ہم محفل نے اپناجوتا اُتار کر اس کے منہ پر دے مارا۔ ۔ ۔ اور پھرایک ساعت کے اندراسے گردن سے پکڑ کر دبوچ لیا، اس کے کندھوں پر اپنے دانت گاڑھ لیے اور اس دوران اپنی لاتوں کا استعمال بھی جاری رکھا، جب خود نڈھال ہواتو اس کی جان چھوٹی۔مٹی اور خون میں لتھڑا وجود لیے جب وہ اپنے گھر پہنچا تھا تو گھر والے حیران نہیں ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ اسی لیے انھوں نے اس سے کوئی سوال بھی نہیں کیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے وہ انھیں کچھ نہیں بتائے گا۔اس واقعہ کا اتنا اثرضرورہوا تھاکہ وہ اب کھلے عام اس طرح کی باتیں نہیں کر تا تھا اور جاننے والوں کو تو اس پربھی حیرت ہوئی تھی کہ اس نے مارنے والے سے نہ صرف معافی مانگ لی تھی ، بل کہ اس کی غیرموجودگی میں اس کی تعریفیں بھی شروع کر دی تھیں ۔‘‘
بزرگِمحترم کی بات کاٹتے ہوئے سائل نے کہاکہ یہ فرضی داستان مجھے کیوں سنانا چاہتے ہیں آپ۔ ۔ ۔ ؟کیوں آپ چاہتے ہیں کہ میں اس سوا ل کو بھول جاؤں جو میں نے آپ سے کیا ہے ۔جواباًان کے چہرے پر مسکر اہٹ کی ہلکی سے لکیرکھنچ گئی اور کہنے لگے
’’یہ تمھارے سوال کاجواب ہی تو ہے ، ذراصبر سے کام لو‘‘
اب سائل نے تفنن طبع کے لیے ان سے کہا۔ ۔ ۔ کہیں یہ غلام عباس کی کہانی’’بہروپیا‘‘ کا دوسرا ظہورتو نہیں ۔
’’قطعاًبھی نہیں ۔ ۔ ۔ وہ مثبت کر دارتھا، جس کی جستجو اور طلب خیرکی جانب تھی جب کہ جو تذکر ہ ہم کر رہے ہیں وہ منفی ہے ۔ ۔ ۔ سراسر منفیimpostorکالفظ اس کے لیے کم ہے ۔ وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک شخصیت کا مالک تھا۔‘‘
مکر رقطع کلامی پرمعافی کاخواست گارہوں ، میراسوال تو ابھی تک جواب طلب ہے ، سائل نے کہاتو محترم فرمانے لگے
’’میں مختصر کر تا ہوں !وہ فریبی تھا، اپنی حیثیت سے زیادہ جھوٹے دعوے کر تا تھا، جس عرصہ میں وہ غائب رہانہ جانے وہ کیا کر تا رہا۔ ۔ ۔ لیکن واپسی پر اس نے مشہور کر دیا تھاکہ جس طاقت کے حصول کے لیے وہ برسوں ماراماراپھرتارہا ہے ، اسے حاصل ہو گئی ہے ، اب وہ دنیا پر حکم رانی کی قدرت رکھتا ہے ، مگروہ ایسا کر ے گا نہیں ، کیوں کہ جس مرتبہ پروہ فائزہے اس کا تقاضایہ ہے کہ اس چھوٹے کام کو اور وں کے لیے چھوڑدیا جائے ۔ وہ کہتا
’’حکومت اور حکم رانی تو چھوٹے کام ہیں ؛ میرامنصب ان سے بڑا ہے ۔‘‘
کج فہموں نے اس کی اس بات کو مان لیا تھا اور اس کے ساتھ ہوبھی لیے ۔ان نادانوں کی تعداد میں روزبہ روزاضافہ ہوتاچلاگیا۔ ۔ ۔ جوں جوں یہ طبقہ بڑھتا گیا بہروپیے کی طاقت بھی بڑھنے لگی۔پھر اس نے اپنی اسی حکمت کے تحت شہر پرقبضہ کر لیا۔وہ جوکہتا تھاکہ حکومت اور حکم رانی سے مجھے کوئی نسبت نہیں باقاعدہ حکم ران ، بل کہ جابرحکم ران بن بیٹھا۔اس نے اپنے معاون کے کہنے پر چن چن کر ان لوگوں کو خس و خاشاک بنایاجو ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے مگر۔ ۔ ۔
مگراب اسے سونے میں چلنے یاپھرچلتے میں سونے کی عادت ہو گئی تھی۔رات رات بھروہ عام لوگوں کی طرح سو نہیں سکتا تھا۔ ۔ ۔ اور ایسے عالم میں جب وہ خودکلامی کر تا تو اس کے گھروالے اس کی ہذیان گوئی پراپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ۔دل ہی دل میں اس پرلعنت بھیجتے اور پھر اس کی یہ خودکلامی اس کے گھرکی دیوارپھلانگ کر باہرنکل آئی ۔ ۔ ۔ سڑکوں اور گلیوں پرپھیل گئی اور اب اسے اپنی بھی خبرنہیں رہی تھی۔ ۔ ۔ !شیطانی طاقت اس سے چھن چکی تھی اور اس کے معاون نے ایک اور Impostor کا تقر ر کر دیا
تھا ۔ ‘‘
وہ خاموش ہوئے تو سائل نے عرض کیا، جناب آپ نے تو ساری بات کو اُلجھا کر رکھ دیا ہے میں نے تو صرف اتناپوچھا تھاکہ ’’بادشاہ مکر م‘‘ نے جاپانی وزیراعظم جونی شیرو کوئی زومی کو ملّا محمد عمر کی بابت جو لطیفہ سنایا ہے اس پرآپ کاکیاردعمل ہے ۔ ۔ ۔ ؟جس کے جواب میں آپ نے فرضی داستان سناڈا لی۔بزرگ بولے
’’کہانی کوئی بھی فرضی نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ اور کوئی کہانی عبرت سے خا لی بھی نہیں ہوتی۔ میں تمھارے سوال کاجواب وضاحت سے دے چکا ہوں ، مگر ایک بات تمھارے سامنے اور بھی رکھتا ہوں ۔ ہیو گو شاویز نے بش کو بر سر عام شیطان کہا۔ ۔ ۔ بہ قول شاویزکے
’’ شیطان اور اس کی قوتیں خیرکاتعاقب کر رہی ہیں ۔‘‘
بزرگ خاموش ہوئے ۔ ۔ ۔ اپنی چادراُٹھا کر کاندھے پر رکھی اور چلے گئے ۔ ۔ ۔
ریڈیوپرخبرنگارکی آوازآئی
’’آج فلوجہ، تکر یت، بغداد اور بعقوبہ میں امریکی افواج کی فائرنگ سے سات سوکے قریب شہری جاں بہ حق ہو گئے ۔ ۔ ۔ اُدھرافغانستان کے علاقہ زابل میں بھی امریکی بمباری سے سیکڑوں شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع آئی ہے اور پاکستان کے قبائل میں جھڑپوں سے سینتا لیس شرپسندہلاک اور چھ سیکورٹی اہل کارشہیدہو گئے ہیں ۔‘‘

٭٭٭
 

خاورچودھری

محفلین
1------------ گم راہ ---------2 ---------- پرانا منظر-----------3-------روبوٹ


گُم راہ



میرے پاس کر نے کے لیے کچھ نہیں تھا۔کتابیں اُلٹتے پلٹتے کافی وقت گزر گیا ۔ ۔ ۔ مگرچین آکے ہی نہیں دیا۔ایک کے بعدایک کتاب اُٹھاتا۔ سرورق دیکھتا۔ ۔ ۔ اور پھر واپس رکھ دیتا ۔ تب بیزاری کے عالم میں گھر سے نکل کر شہر میں بہتے ہوئے آدمیوں کے ریلے کے ساتھ میں بھی بہہ گیا۔ آدمیوں کے ہجوم میں ایک لمحہ کے لیے میں نے محسوس کیا جیسے میں اپنی شخصی شناخت کھوچکا ہوں اور ایک بے ہنگم وبے مقصدبھیڑکاجزوبن کر رہ گیا ہوں ۔ ۔ ۔ مگرایسانہیں تھا۔میں آنے جانے والوں کے چہروں کو دیکھ کر ان پراُمڈتے ہوئے آثار وجذبات کو سمجھ سکتا تھا۔ ۔ ۔
کہیں بہت زیادہ اطمینان تھا۔ ۔ ۔ اور کہیں تفکر ات کے سائے بڑھ رہے تھے ۔ بازار میں آزاد اور خودمختیارتانگوں کی ریل پیل، رکشوں کی چنگھاڑ، سائیکلوں اور بغیر سائیلینسر موٹر سائیکلوں کی آمدورفت ایک عجیب بیزاری پیدا کر رہی تھی۔ ۔ ۔ میں نے محسوس کیاجیسے ہر شخص جلدی میں ہے اور اپنے کاموں کو جلد سے جلدنبٹانا چاہتا ہے ۔گویاحشرکاوقت قریب آیا چاہتا ہو۔دکاندار(اکثروبیشتر)بڑے خریداروں کی خوشامدوں میں مگن اور معمولی رقم رکھنے والے گاہکوں سے بے نیازی برت رہے تھے ۔کوچوان ظاہری لباس سے اندازہ لگا کر چلنے والوں کو سوار ہونے کی پیش کش کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ ٹھیلے والے اپنی چیزیں بیچنے کے لیے اونچی اونچی آوازیں لگارہے تھے ۔
یہ لکھنؤکابازارنہیں تھا۔ ۔ ۔ جہاں کے خوانچہ فروش ادب کی تمام منازل سے آشنا ہوتے تھے ۔ ۔ ۔ سو، بے ترتیب، سخت ، کٹھورآوازیں کانوں کے پردے چیر کر رکھ رہی تھیں ۔ ایک گلی سے دوسری اور پھرتیسری گلی سے نکلتا ہواشہرکاشہرچھان مارا۔جس جس جگہ سے گزرا ایک ہی کیفیت میں سب کو مبتلا پایا۔وہی جلد بازی اور نفسانفسی کاعالم اور خودغرضی اور بے جہتی کے مناظر۔ ۔ ۔ میں چلتاگیا۔ ۔ ۔ چلتاگیا۔ ۔ ۔ چلتاگیا۔دفعتاًمجھے اپنے کندھوں پرکسی ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔ مڑ کر دیکھتا ہوں تو ایک دیرینہ جان کارہے ۔ہاتھ ملایا، مگر دل کہاں ملتے ہیں اور ملتے بھی کیسے ، میں بھی اسی بے کر اں بھیڑکاحصہ ہوں جو ریلے کی صورت شہر میں بہہ رہا ہے ۔ پوچھاگیاکیاخریدنے آیا ہوں ، جواب دیاکچھ نہیں ۔ ۔ ۔ تو کہاگیا
’’آپ اور بازار میں بلاوجہ؟کچھ سمجھ نہیں آیا‘‘
میں نے کہا
’’بس کچھ ایسا ہی ہے ‘‘
اور دوبارہ ہاتھ ملا کر اس سے رخصت ہو جاتا ہوں ۔اس بے کارگھوماگھومی میں نہ جانے کتنا وقت صرف ہوا۔ ۔ ۔ اور پھرکس لمحہ میں شہرکے سو سالہ پرانے وسیع و عریض اسکول میں داخل ہوا۔’’بزم آرائی‘‘جاری تھی۔ملکی سیاست، مذہب، سائنس، ایجادات واختراعات، سماجیات، علم و ہنر ، عقل وشعورسمیت بے شمار موضوعات پرگفتگوہوتی رہی۔محفل کے شرکا ، کیا کچھ کہتے رہے ، کچھ یادنہیں ۔ ۔ ۔
بیزاری نے گھر چھڑوایا ، بازا ر اور اب اسکول کی فضاتنگ ہورہی تھی۔اسی عالم میں مسجدسے مؤذن کی آوازبلندہوئی۔ ۔ ۔ ایک گھڑی کے لیے سب لوگ خاموش ہوئے اور پھرسلسلہ ء کلام جوڑدیا۔کچھ لوگ مغرب کی نمازکے لیے اُٹھے ۔ ۔ ۔ ایک پل کی تاخیرکیے بنا میں بھی صف میں موجودتھا۔
’’مَثَلُ الَّذِینَ ے نفِقُونَ اَموَالَھُم فِی سَبیلِ اللّٰہِ، کَمثَلِ حَبَّۃٍ، اَنبَتِت سَبعَ سَنَابِلَ، فِی کُلِّ سُنبُلَۃٍمّاِ ئَۃُ حَبَّۃٍ، وَاللّٰہُ ے ضٰعِفُ لِمَن ے شَآ ئُ، وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ۔‘‘
پیش امام سورہ البقرۃ کی مذکورہ آیت تلاوت کر تے ہیں ۔نمازختم ہوتی ہے ۔شہر میں آدمیوں کاہجوم جوں کاتوں ہے ۔میں پیدل چلتے چلتے اپنے محلہ تک پہنچ آتا ہوں ۔میراپڑوسی کسی شخص کے ساتھ محوِ گفتگوہے ۔میں نرمی سے
’’ا سلام علیکم‘‘
کہہ کر گزرجاتا ہوں ، مگرپیچھے سے پکارا جاتا ہے
’’سنیے !‘‘
میں اُلٹے پاؤں مڑتا اور کہتا ہوں
’’جی فرمایے ‘‘
اجنبی کہتا ہے
’’میں اس محلّے کی آخری گلی کے بیچ والے مکان میں رہتا ہوں ۔ چا لیس سال محنت مشقت کی ۔ ۔ ۔ اور زندگی کوکاٹنے کے جتن کیے ۔جیسے مقررتھی گزرتی گئی ۔ گزشتہ دنوں میری بیٹی کی رخصتی ہوئی۔قرض لے کر بیٹی کو رخصت کیا۔میں شہر کے ناظم اور عشروزکواۃ کمیٹی کے چے ئرمین کے پاس گیا۔اُن سے درخواست کی، مگر ایک ماہ گزرنے کے باوجودکوئی پیش رفت نہ ہوئی۔قرض خواہ جان کو آرہے ہیں ۔میں بارباربیت المال اور عشر وزکواۃ کمیٹی کے مقامی سربراہ کے پاس جارہا ہوں ۔ ۔ ۔ اور اب مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ وہ لوگ مجھ سے اُکتا گئے ہیں اور شایدمیری مددنہیں کرنا چاہتے ۔‘‘
وہ ایک دم خاموش ہوا۔اپنی قمیص کی داہنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک کاغذمیری جانب بڑھاتے ہوئے کہنے لگا
’’آپ سوچیں گے میں جھوٹ بک رہا ہوں ، بہانہ بنارہا ہوں یا پھربھکاری ہوں ۔ ۔ ۔ ایسا نہیں ہے ۔یہ دیکھیے !یہ میری بچی کانکاح نامہ ہے ۔‘‘
ایک پل کے لیے جیسے وقت کی نبضیں چلنابھول جاتی ہیں ۔ ۔ ۔ تب وہ رونے لگتا ہے اور روتی ہوئی آواز میں کہتا ہے
’’میرے بچے آٹھ پہر سے بھوکے ہیں ، میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ زہرخرید کر کھا سکوں ۔ ۔ ۔ میں نہیں جینا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ میں نہیں جینا چاہتا ہوں ۔‘‘
میرے دل کے ایک کونے میں دردکی لکیرارتعاش پیدا کر تی ہے ۔میں اسے تسلی دینے کی کوشش کر تا ہوں ۔ صبرکی تلقین کر تا ہوں ، زندگی کی اہمیت سے آگاہ کر تا ہوں ۔میرے دماغ میں مغرب کی نمازمیں تلاوت کی گئی آیت کاترجمہ
’’اللہ کی راہ میں خرچ کر نے والوں (کے اس عمل )کی مثال اُس دانے کی سی ہے جس سے سات با لیں نکلیں ، اس طرح کہ ہربال میں سودانے ہوں ۔اللہ جس کے لیے چاہتا ہے ، بڑھا دیتا ہے ۔ اور اللہ بڑی وسعت والا ہے ، وہ ہرچیزسے واقف ہے ۔‘‘
لفظ بہ لفظ جاگتا ہے ۔میں اس کاہاتھ پکڑ کر دباتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور اس سے ٹھہرنے کی درخواست کر کے گھرآتا ہوں اور خاتونِخانہ سے کہتا ہوں
’’کھانے میں جوکچھ تیارہے دے دیں ‘‘
پھرماحضراس کی خدمت میں پیش کر تا ہوں ۔ ۔ ۔ اور آنسوؤں کی ایک لڑی میری آنکھوں سے جاری ہوجاتی ہے ۔میرا پڑوسی اپنی جیب سے کچھ نقدی نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھتا ہے ؛ جسے وہ بہت حجت کے بعدقبول کر تا ہے ۔میں اجنبی کے سامنے عرض کر تا ہوں
’’صبح میں ناشتالے کر حاضرہوجاؤں گا اور ان شاء اللہ میں آپ کے ساتھ چے ئرمین زکواۃ کمیٹی اور ناظم کے پاس بھی جاؤں گا۔‘‘
وہ ’’جی ۔ ۔ ۔ ‘‘کہتا ہواچل دیتا ہے ۔
میری رات یوں کٹتی ہے جیسے آگ کے بسترپرکسی نے ڈال دیا ہویاپھروجودکے اُوپر کسی نے بھاری چٹان رکھ چھوڑی ہو۔ ۔ ۔ میں صبح اپنے ناواقف محلے دار کے دروازے پر دستک دیتا ہوں تو ایک معصوم اپنی آنکھیں ملتا ہواباہرآتا ہے ۔میں اس کے والدکاپوچھتا ہوں تو وہ بتاتا ہے کہ
’’اباتو صبح ہی کہیں چلاگیا تھا‘‘
میں ناشتا اس کے ہاتھوں میں تھما کر لوٹ آتا ہوں ۔میں نے سوچا اگرہمیں کوئی دنیاوی سودے بازی میں ایک کے بدلہ میں سات سوکی پیش کش کر ے تو ہم تما م قوت لگا کر نہ صرف قبول کر یں گے ۔ ۔ ۔ بل کہ دوسروں کے سروں سے گزریں گے ، مگر یہاں معاملہ اور ہے ۔ ہماری کج فہمی اور نالائقی ہمیں حقیقی فایدے تک پہنچنے نہیں دیتی۔میں اپنے آپ کو ملامت کر تارہا اور اس معاشرہ کی بے حسی پر کڑھتا رہا ، جس کا میں بھی فرد ہوں ۔ میں نے حضرت عمرفاروق ؓ کے مثا لی عہدکویاد کیا ، جس میں کسی کتے کے بھوکارہ جانے کاغم امیرالمومنین کو چین نہیں لینے دیتا تھا۔ ۔ ۔ مجھے وہ بدویاد آتا ہے جو امیرالمومنین سے قمیص کا حساب مانگتا ہے ۔اذیت کا بارِ گراں بڑھتا گیا اور میراسرندامت سے جھکتارہا۔ ۔ ۔ میں بھی تو آدمیوں کی اسی بھیڑکا حصہ ہوں ، جو شہر میں کسی ریلے کی صورت بہہ رہا ہے ۔ اور وہ لیاقت آباد ، لاہو رکا چا لیس سالہ فداحسین جو غربت اور بیماری سے اُکتا کر خودکو ختم کر بیٹھا ہے ۔ اس کے پاس دوا لینے کے لیے پیسے نہیں تھے ۔ ۔ ۔ مگرزہرکے لیے تھے ۔
گم راہ تھاوہ ، کیوں کہ خودکشی حرام ہے ۔ ۔ ۔ ظلم کیا اس نے اپنی جان پر ۔ ۔ ۔ خیانت کی اس نے ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ تو کیاوہ اکیلادوزخ میں زقوم پیے گا۔ ۔ ۔ ؟

٭٭٭


پرانامنظر



’’اسکندرکانام تم نے ضرورسن رکھا ہو گا، اس کی فتوحات کاسلسلہ دنیاتک پھیلا ہوا تھا۔اس کی ہیبت سے انسان لرزاں رہتے تھے ، ملکوں کے سربراہ اس کانام سن کر چکر ا جاتے تھے ۔جو دم خم ظاہر کر تاوہ کچلا جاتا تھا اور جو زندہ رہنا چاہتاوہ اس کاتابع فرماں ہو جاتا۔ ہلاکو اور چنگیزکی کہانیاں بھی تو تم نے سن رکھی ہوں گی۔ ۔ ۔ اور ہٹلر کو تو تم جانتے ہی ہو گے ؟وہی نازی آمر ایڈولف ہٹلرجس نے دوسری جنگ عظیم میں اپنی سربراہی میں قائم کیے گئے کیمپوں میں مقیم لاکھوں یہودیوں کاصفایا کر دیا تھا۔جس نے روس نوازہندوستانی راہ نما سبھاش چندربوس کو ہندوستان کی آزادی کے لیے ان قیدیوں پرمشتمل فوج بنانے میں مدد دی تھی جنھیں جنرل رومیل نے اتحادی افواج کے لیے لڑنے پر گرفتار کیا تھا۔ اور اسی ہٹلرکی ہیبت ناکی سے دنیاکا سکون غارت ہوکر رہ گیا تھا۔ ۔ ۔ مگروہ لمحہ بھی آیاجب اس نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کاچراغ گل کر دیا۔ اور اب بش کی وحشت ناکیوں سے انسان کا سکون برباد ہوکر رہ گیا ہے ۔پُرامن رہنے والے بے گناہ لوگوں کو ان کے گھروں کے اندرموت کی وادی میں دھکیلاگیا۔بغدادکے گلیوں سے شروع ہونے والے ظلم کاسفرکابل اور اس کے نواحی علاقوں کو محیط ہو گیا۔خون کے ذائقہ سے زبان عادی ہو گئی تھی، اس لیے صبرنہ ہو سکا اور اب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دندناتاپھر رہا ہے ۔ہزاروں کاخون پی چکا ہے ، مگر ہنوز پیاسا ہے ۔ پہلے طالبان کی یہاں موجودگی کا بہانہ بنا کر یہاں نکل آتا تھا اور اب براہِ راست اسامہ کی یہاں موجودگی کا الزام لگا کر آیاکھڑا ہے ۔بے گناہ انسانوں کو ان کی اپنی زمین پر روند دینا چاہتا ہے ۔
ہاں ۔ ۔ ۔ !میں جانتا ہوں بش بھی اسکندرکی طرح دنیاکو فتح کر نے کے خواب دیکھ رہا ہے ۔ اسی پرکیاموقوف عراق میں شب خون تو اس کے باپ نے مارا تھا اور اس کے پیش رو، ویت نام میں بھی تو اُترے اور لڑے تھے ، مگر۔ ۔ ۔ مگر کیا ہوا، کیا ہوتا ہے ؟ کسی کو بھی اپنی سانس پر قدرت نہیں ، کوئی بھی اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو طول نہیں دے سکتا۔اسکندر نہیں رہا ، چنگیز ، ہلاکو اور ہٹلربھی ۔ ۔ ۔ تو بش کیوں کر رہ سکتا ہے ۔البتہ تاریخ کے اور اق پران کے مظالم کی تصویریں اب بھی ملتی ہیں اور انسان اب بھی ان کے نام سن کرناگواری ظاہر کر تے ہیں ۔‘‘
احسان الٰہی صاحب کاسلسلہ ء کلام دفتر میں آنے والے ایک شخص نے کچھ دیرکے لیے معطل کر دیا تھا، سلسلہ بہ حال ہواتو کہنے لگے :
’’انقلابی راہ نماسبھاش چندربوس ہندوستان کو آزاد دیکھنا چاہتا تھا۔اس کی آزادی کی خاطروہ گیارہ مرتبہ برطانوی حکومت کے ہاتھوں پابہ زنجیر ہوا اور آخرکارایڈولف ہٹلر کے کہنے پرہندوستان سے فرارہوکر جرمنی چلاگیا۔جس طرح کہ سبھاش چندربوس کی فوج بنانے میں ہٹلر نے معاونت کی تھی، اسی طرح اس نے اسے ہندوستان کا جلاوطن راہ نما بھی تسلیم کر نے کاعندیہ دے رکھا تھا۔ ۔ ۔ مگرجب روس نوازاس ہندوستانی انقلابی پرہٹلرکے سویت یونین سے ٹکر انے کے عزائم ظاہرہوئے تو وہ وہاں سے فرارہوکر جاپان چلاگیا۔
تم جانتے ہوہٹلرنے اسے ہندوستان کاحکم ران تسلیم کر نے کاعندیہ کیوں دیا تھا ؟ اس لیے کہ وہ اتحادی افواج پرظاہر کرنا چاہتا تھا کہ ’’ہٹلرکی طاقت ہندوستان تک پھیلی ہوئی ہے ‘‘ اسے ہندوستان اور اس کے عوام کی غلامی یا آزادی سے کوئی مطلب نہیں تھا، بالکل اسی طرح بش کے پیشواؤں نے کیا اور اب وہ خود کر رہا ہے ۔ عراق، افغانستان اور پاکستان کی ترقی اور خوش حا لی سے اسے کوئی دل چسپی نہیں اور نہ ہی ان ممالک کے راہ نماؤوں سے ۔ ۔ ۔ اگرہے تو اسے اپنے ذاتی مقاصدسے ۔جنھیں حاصل کر نے کے لیے گاہے وہ ’’امداد‘‘ دیتا ہے اور گاہے دھمکیاں ۔ جب ان سے کام بن نہیں پڑتاتو بلاروک ٹوک ان ممالک پرچڑھ دوڑتا ہے ۔‘‘
’’تم ہٹلرکاپوچھتے ہو!ہٹلربہت منظم شخص تھا۔نازی افواج کے کاندھے اس کے لیے ایسے استعمال ہوئے جیسے خوداس کے اپنے ہوں ۔ اس کے ساتھی ایسے تھے کہ اس کے اَبرو کی جنبش پرجان وارنے کو تیار رہتے ۔چٹانوں سے ٹکر ا جاتے ، مگرپیچھے نہ ہٹتے ۔ہٹلرکے نظم وضبط کا اندازہ اس سے کر وکہ اس کے پروپیگنڈا چیف جوزف گوبلز(جوہٹلرکے مرنے کے بعد نازی افواج کاخودساختہ سالاربنا)کی بیوی نے اپنے چھ کم سن بچوں کو زہر دے کر ہلاک کر دیا تھا اور خود بھی زہرکھا لیا تھا، تاکہ مخالف افواج کی قید میں نہ آئے ۔یہی نہیں اس کے اکثر ساتھیوں نے خود اپنے ہاتھوں اپنی جان پرگولیاں چلائیں اور بعض بھاگ نکلے مگر ۔ ۔ ۔ مگرانھیں میں اس کا ایک انتہائی قریبی ساتھی ، فوج کا اعلیٰ افسر سٹوفن برگ جو جرمنی کے رئیس خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ ۔ ۔ بھی شامل تھا۔اس شخص نے 22 جولائی1944ء کو مشرقی پروشیہ(اب پولینڈ)میں واقع ہٹلرکے دفتر میں بریف کیس کے اندربم نصب کر کے رکھ دیا تھا۔وہ تو ہٹلر کا جینا باقی تھا، اس لیے بچ گیا اور پھراس دھماکا کے صرف چند گھنٹوں کے بعدہٹلرنے سٹوفن برگ اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر واکے تختہ دارپرلٹکا دیا تھا۔
حیران ہونے کی ضرورت نہیں اب جرمن قوم ہٹلر کو ولن اور سٹوفن برگ کوہیرو سمجھتی ہے ۔20جولائی 2004ء کو جرمن چانسلرنے برلن میں ہزاروں افراد اور ملک کے صدر کے ساتھ مل کر سٹوفن برگ اور اس کے ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کر نے کا اہتمام کیا تھا۔ اب 18اگست 2006ئ؁ میں ممبئی میں شا کر صدیقی اور اس کے ہندوساتھی نے مل کر ’’ہٹلر کر اس‘‘کے نام سے کیفے کا افتتاح کیا تو اسرائیلی قونصلرجنرل ڈینیل زونشائین نے برہمی ظاہرکی۔ اس کاحق بنتا تھا ، مگرہندوستان میں موجودجرمنی قونصلرجنرل نے بھی کیفے کوہٹلرکے نام منسوب کر نے پرافسوس کا اظہار کیا۔ گویا ہٹلر خود جرمنوں میں بھی ناپسندیدہ ٹھہر چکا ہے ۔
ٹھیک ہے کچھ لوگ ہٹلرکے حامی ہو سکتے ہیں اور ہونے بھی چاہییں کہ شر اور خیر کی طاقتوں کاسفرساتھ ساتھ رہتا ہے ، مگرضروری نہیں جو ہٹلرکانام لے وہ اس کے نظریات اور فلسفے کی حمایت بھی کر تا ہو۔تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو، جن لوگوں نے ہٹلرکے ہاتھوں کی بنی ہوئی پینٹنگز اور اسکیچ 2 لاکھ 24 ہزارڈالرز میں انگلینڈ کے نواحی قصبہ میں خریدے ہیں ۔ ۔ ۔ وہ ہٹلر سے عقیدت رکھتے ہیں ، مگرممکن ہے یہ لوگ بھی سٹوفن برگ کی طرح ہوں ۔ ۔ ۔
وہ جو خود کو طاقت کا سر چشمہ سمجھنے لگا تھا۔ ۔ ۔ مگرآخرآخراپنے آپ سے خوف کھانے لگا۔ہٹلرکی ذاتی نرس 93سالہ ایرنافلیگیل نے 2 مئی2005ئ؁ کو اپنے انٹرویو میں بتایا تھاکہ ایڈولف ہٹلرآخری دنوں میں بہت زیادہ خوف زدہ تھا۔اسے یہ بھی دھڑکا لگا رہتا تھا ، کہیں جاسوس اس کے زہریلے کیپسولوں سے زہر نکال کر نقلی زہرنہ ڈال دیں اور وہ زندہ بچ جانے پر دشمنوں کے ہتھے چڑھ جائے ۔دشمنوں کی طرف سے ممکنہ اذیت کا تصور اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔‘‘
’’آپ کے خیال میں ہٹلر ہیرو تھا یا ولن؟‘‘
میں نے سوال کیا، جس کے جواب میں انھوں نے کہا
’’راشدمنہاس شہیدکے حوالے سے نذیرناجی کاکالم تم نے ضرور پڑھا ہو گا، میراجواب وہی ہے ۔‘‘
احسان الٰہی صاحب خاموش ہوئے تو میں نے اپناسوال دہرایاجس کے جواب میں کہنے لگے
’’میں سمجھتا ہوں کوئی بھی شخص اعتدال کی حدیں تجاوزکر تا ہے وہ خیر کا ساتھی نہیں ہو سکتا، اب ہیرو اور ولن کا لیبل خودلگا لیجیے ۔‘‘
احسان صاحب چلے گئے ہیں اور میں ۔ ۔ ۔ پرانے اور نئے منظرکے درمیان کی گم شدہ کڑیاں تلاش کر رہا ہوں ۔

روبوٹ

شہروں میں تماشے ہوتے رہے ہیں ۔ آنکھوں والے دیکھتے اور مسقبل کے امکانات سے آگاہ کر تے رہتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس روشنی سے فیض یاب ہوتا ہے یا نہیں ، مگر اب کہ جویہ نیاتماشا دیکھنے کو ملا ہے اپنے اندراس قدرجاذبیت رکھتا ہے کہ ہر کوئی اس جانب کھنچا جارہا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے پوری قوم اس تماشے کے سحر میں آ گئی ہے اور اسی عمل کو اپنارہی ہے جو تماشادکھانے والا چاہتا ہے ۔تماش بینوں میں چندایک ایسے ضرور ہیں جو ظاہرکیے جانے والے منظرکے پس منظر میں جھانکنے کی قوت رکھتے ہیں اور اس تماشے کے اصل سے آگاہ ہوکر دوسروں کو بیدار کرنا چاہتے ہیں ، تماشے کے طلسم سے نکالنا چاہتے ہیں ۔ تاجدارعادل بھی ان تماش بینوں میں شامل ہیں جوکھلی آنکھوں سے تماشے کے منظر اور پس منظرکو دیکھ کر مستقبل کے امکانات کی خبر دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں
تم بھی دیکھو جو ہم نے دیکھا ہے
شہر میں اک نیا تماشا ہے
کام یاب تماش گروہ ہے ، جو اپنے تماش بینوں کو شیشے میں اُتار کر من چاہی فضا قائم کر لے ۔شہرکا نیاتماش گربھی انتہائی زیرک اور مکارہے ، ا پنے فن پراس قدر قادرہے کہ کئی مستقل تماش بینوں اور نام ورتماش گروں کو بھی اپنے جادوکا اسیر کر لیا ہے ۔ بڑے بڑے جغادری چاروں شانے چت دکھائی دے رہے ہیں ۔ تاہم کھلی آنکھوں والے اس کی مکاری عیاں کر رہے ہیں ، قوم کو جگانے کے عمل سے گزر رہے ہیں ۔
واقعہ یہ ہے جب نیامداری فصیل شہرکو گرا کر شہر میں داخل ہوا تو شہروالوں نے بجائے اس کاراستہ روکنے کے اسے پھولوں کے ہار پہنائے ، اس کا شان دار استقبال کیا، اس کے قدموں تلے ہتھیلیاں رکھیں ، اس کے اشاروں پر رقصِ نجات پیش کیا، اسے مسیحا سمجھا ، اسے فرشتہ جانا، فاتح مانا، دلوں کی سرزمین کاوا لی گردانا۔مگرتھے کچھ۔ ۔ ۔ جنھوں نے شہر کی دیوارتوڑنے والے گھس بیٹھیے کو بُرا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ شہروالوں کی کور چشمی کا ماتم کیا ۔ انھیں اندھے پن سے چھٹکارادلانے کی جدوجہدشروع کی اور اس کوشش میں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانیں تک قربان کر بیٹھے ۔ انھیں پابہ جولاں کر چکے ، انھیں نذرِ زنداں کر گئے ۔ ۔ ۔ لیکن ان کی کھلی آنکھیں مزیدروشن ہو گئیں وہ قوم کو جگانے کے عمل میں اور زیادہ مستعدا ور متحرک ہو گئے ۔تماش بینوں میں سے بعض ان کی آواز پر اب جاگ رہے ہیں ، مگر اکثریت مداری کے سحر میں مبتلا ہوکر اس کے بتائے ہوئے عمل پر کار بند ہے ۔یہ عمل جو انھیں تباہی کی طرف لے جارہا ہے ۔یہ عمل جو انھیں ذلت و رسوائی کی طرف لے جارہا ہے ۔یہ عمل جو ان سے ان کی شناخت چھین رہا ہے ۔یہ عمل جو ان کی زبان و تہذیب اور مذہب واقدار کو ملیامیٹ کر رہا ہے ۔یہ عمل جو ان کے چہروں پر سیاہی مل رہا ہے ، ان کے چہروں کو مسخ کر رہا ہے ۔
ہائے بدبختی !یہ تماشے کے خمار سے نہیں نکل رہے ۔ اور جب ان کی پلکوں سے پتھروں کی بھاری سلیں سرکیں گے ، ان کے دماغوں پر پڑا اندھیراچھٹے گا، تو بہت دیرہوچکی ہو گی۔مداری بدل چکا ہو گا، تماشابدل چکا ہو گا، ماحول بدل چکا ہو گا، روایت بدل چکی ہو گی ، اقداربدل چکی ہوں گی، چہرے بدل چکے ہوں گے ، زبان بدل چکی ہو گی۔ایسے میں یہ تماش بین کسی نئے تماشے میں کھوجائیں گے اور پھر ان کی زندگیاں تماشوں میں گزرتی جائیں گے ۔دنیاکے سب کام، آخرت کے سب جام، ان سے چھٹ جائیں گے ۔پانی کے رُخ پربہتے جائیں گے ۔ ۔ ۔ بہتے جائیں گے اور راہ میں آنے والے پتھروں سے ٹکر اٹکر ا کر اپنے چہروں کو مسخ کر بیٹھیں گے ۔آئینہ ان اسے ان کی پہچان تک چھین چکا ہو گا۔ میں اس وقت کو سوچتا ہوں تو لرز۔ ۔ ۔ لرزجاتا ہوں ۔میری آوازیں مدہم ہو جاتی ہیں ۔ایک گھٹن سی پورے ماحول پرچھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، اسی عالم میں شہرکے کسی کونے سے صدا بلند ہوتی
’’تماش بینو!جاگو، طلسم سے نکلو، مداری مکار ہی نہیں دھوکے بازبھی ہے ۔‘‘
جب یہ گونج میری سماعتوں سے ٹکر اتی ہے تو مجھے اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے ، مجھے نئی زندگی کی نویدملتی ہے ، میں سوچتا ہوں کہ تماش بین اب زیادہ دیرتک مدہوش نہیں رہ پائیں گے ۔ مہینوں میں نہیں ، ہفتوں میں نہیں ، دنوں میں نہیں ، گھنٹوں میں نہیں ، منٹوں میں نہیں ، لمحوں میں بیدار ہو جائیں گے اور ایک نعرئہ مستانہ لگا کر مکار، دھوکے بازمداری کو دبوچ لیں گے ۔اس سے پل پل کاحساب لیں گے ۔اس سے جان جان کا حساب لیں گے ۔اس سے بات بات کاحساب لیں گے ، اس سے گل گل کاحساب لیں گے ، اس سے پات پات کا حساب لیں گے ، اس سے خار خارکاحساب لیں گے ۔یہ آب وگل جب اس کی مکاریوں کی داستان سنائیں گے تو جاگنے والے کیاکچھ نہیں کر گزریں گے ؟
مگریہ کیایہ سب تو میرے تصورات ثابت ہوئے ۔ظلم جاری وساری ہے ، تاریکیوں اور تباہیوں کے دن اسی طرح سے ہیں ۔تماش بین تو تماش گزارکے طلسم میں پہلے سے زیادہ کھوچکے ہیں ۔اب تو جاگنے والوں کی آوازیں بھی مدہم۔ ۔ ۔ اور مدہم اور پھرمعدوم ہوتی جارہی ہیں ۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ بھی مداری کے سحر میں آنے لگے ہیں ۔ان کی زبانیں خاموش ، ان کے قلم ساقط اور ان کی نگاہیں پتھرہونے کو آئی ہیں ۔ان کے چہرے بھی پیلے پڑنے لگے ہیں ۔
نہیں ، نہیں ۔ ۔ ۔ اس طرح تو ہم سب اپنی اصل سے ہٹ جائیں گے ۔ہم اپنی شناخت کھوبیٹھیں گے ، ہمارے چہرے مسخ ہوجائیں گے ۔جاگنے والوں کو جاگنا ہو گا۔ ہمارے سامنے اس عظیم انسان کے مثال موجود ہے جس نے مکاروں سے نبٹنے کے لیے میدان لگایا اور بھوک سے نڈھال ہوکر اپنے پیٹ پر پتھرباندھے ، مگر میدان نہیں چھوڑا۔ لڑتا رہا۔ ۔ ۔ اور جیتارہا ہے ۔اس کے ماننے والے ایک سے دو، دوسے چار اور چار سے تین سوتیرہ ہوئے اور اب ان کی تعدادایک ارب سے زیادہ ہے ۔کیایہ سب سو چکے ہیں ؟ کیا انھیں روبوٹ بنا دیا گیا ہے ؟کیایہ اب کبھی ہوش میں نہیں آئیں گے ؟

٭٭٭
 

خاورچودھری

محفلین
1-------کشکول----2------جھوٹی کہانی-------3----چیخوں میں دبی آواز



کشکول



زندگی کاپہیہ جوں توں کر کے گھسٹ ہی رہا تھا، روکھی سوکھی بھی مل جاتی تووہ صبر ، شکر کر کے پیٹ بھرلیتا۔خدانے اُسے بچے بھی بہت شکیب آشنادیے تھے ۔ ایک وقت بھی کھا لیتے تو قناعت سے ، تشکر سے جیتے ، مگراب نہ جانے کون سا آسیب تھا؛جو اس کے خاندان پرسایہ فگن رہنے لگا تھا؟چھوٹے بچے کی طویل بیماری کے بعدموت نے اسے نڈھال تو کر ہی دیا تھا، مگراس کی بیماری کے دوران پیش آنے والے حادثات نے اُسے معاشرے سے بغاوت پربھی پوری طرح تیار کر دیا تھا۔پہلے وہ لوگوں کی بے حسی کے قصے سنا کر تا، مگراب تو اُس کے ساتھ لوگوں نے جو رویہ رکھا تھاوہ اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکا تھا۔سرطان کے مرض نے یوں جڑیں پکڑیں کہ تن اور درخت ہو گیا اور وقت کی آندھیوں کے سامنے ا س کاگھرانہ ٹھہرنہ سکا۔پہلے پہل جب لطیف بیمارہواتو وہ اُسے محلے کے نان کوا لیفائیڈڈسپنسرکے پاس لے گیا، جس نے بچے کی نبضوں کو ٹٹولنے کے بعداُس کی دھڑکنیں کان رکھ کر سنیں اور دوسو روپے کے ’’نسخہ‘‘اپنے پاس سے دے دیا۔ کچھ افاقہ نہ ہوا تو دوبارہ اُسی سے رجوع کیا ۔ ڈسپنسرنے دوسوروپے مزیدلے کر نسخہ تبدیل کر دیا، مگربے چینی ایسی کہاں تھی جو تھمتی۔وقت کے ساتھ ساتھ لطیف کی حالت بگڑتی رہی۔مآلِ کار شہر کی بڑے سرکاری اسپتال کارُخ کر تے ہی بنی۔ ۔ ۔ مگریہاں آ کر اُس نے جس دنیاکو دیکھاوہ اُس کے گمان میں بھی نہ تھی۔
لمبی قطار میں کھڑے کھڑے جب دوگھنٹے گزرگئے تو اُسے ڈاکٹرکے پاس پہنچنے کے لیے پرچی ملی۔لاکھوں کی آبادی کے لیے قائم واحدسرکاری اسپتال میں صرف تین ہی تو ڈاکٹرتھے ، جو اپنی اپنی ڈیوٹیاں نبھارہے تھے ۔اُن کانمبرآیاتو اسپتال آئے ہوئے اُنہیں چارگھنٹے گزرچکے تھے ۔گرمی اور پیاس نے باپ بیٹے کو بے حال تو کیا تھاہی۔ ۔ ۔ مگر ڈاکٹر کے رویے سے اُن پرسکتہ طاری ہو گیا ۔ڈاکٹرنے توجہ دیے بنا اور بچے کو دیکھے بغیرپرچی پر قلم گھسیٹا اور پرچی دل اور کے ہاتھ میں تھمادی۔ ۔ ۔ پھر’’نیکسٹ‘‘ کانعرہ بلندکیا۔
وہ جو اپنے بچے کو اتنی دُور سے علاج کی غرض سے لے کر شہرکی بڑی اسپتال آیا تھارہ نہ پایا اور ڈاکٹر سے کہہ بیٹھا
’’ڈاکٹرصاحب!آپ نے تو اس کی نبض تک نہیں دیکھی اور دوالکھ دی‘‘
ڈاکٹر جو پہلے ہی اُکتایا ہوابیٹھا تھا اُسے بے نقط سناگیا
’’آ جاتے ہیں سرکاری اسپتال میں علاج کے لیے ، پرائیویٹ اسپتالوں میں جاؤناجو معائنے کا اتنا شوق ہے ۔جب ہزاروں میں فیس دو گے تو زبان نہیں چلاؤ گے ۔‘‘
مرتاکیانہ کر تا۔منوں پربھاری پاؤں گھسیٹتا ہوا اسپتال سے باہرنکل آیا۔ سڑک عبور کر کے میڈیکل اسٹورکی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اُسے یوں محسوس ہورہا تھا گویا وہ کے ۔ ٹوکی چوٹی سر کر رہا ہو۔سیلزمین نے پرچی دیکھی اور پھراُس کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا
’’چاچا‘‘بارہ سوروپے کی دوابنے گی، کیادے دوں ؟‘‘
اس کے حلق میں سانس اٹک چکی تھی، تھوک نگلنابھی کارِمحال ٹھہرگیا تھا۔نفی میں سر ہلاتے ہوئے سیڑھیوں سے لڑھکتا ہواباہرآ گیا۔
مہینہ بھرکی مشقت کے عوض اسے اکیس سوروپے ملتے ، جن سے وہ سات افراد پر مشتمل کنبے کے اخرا جات چلاتا۔انھی روپوں میں سے غمی خوشی نبھاتا اور پوشاک وپاپوش خریدتا۔نصیبوں جلی بیوی نے جب خاوند اور بیٹے کو نا مراد واپس لوٹتے پایا تو رو رو کر ہلکان ہو گئی۔جھولی پھیلا پھیلا کر ڈاکٹروں کو بد دعائیں دیتی جاتی ۔ ۔ ۔ اور آنسوؤں کو رزقِ خاک بنائے جاتی۔جیسے تیسے کر کے میاں بیوی نے رات آنکھوں میں بتائی اور صبح کی پہلی کر ن کے نکلتے ہی دل اور ترحم آمیز نظریں لیے اپنے دنیاوی مالک کے سامنے بیٹے کی بیماری کے لیے قرض مانگ رہا تھا۔
’’دل اور !تم پہلے ہی مجھ سے پانچ ہزار روپے قرض لے چکے ہو، ابھی تک تم نے وہ نہیں لوٹائے اور اب مزیدمانگ رہے ہو، اس طرح کام نہیں چلے گا۔ میں اب اور قرض نہیں دے سکتا۔‘‘
اڑھائی مرلے کے ڈربے نمامکان میں ایسی کوئی چیزبھی نہیں تھی جسے وہ گروی رکھ کر اپنے بیٹے کاعلاج کر واتا۔بیوی کے گہنے تو بنے ہی نہیں تھے ، جنھیں بیچنے کامرحلہ آتا۔ لے دے کر یہ مکان ہی تھاجو بہت بھاؤ اُٹھاتاتو چا لیس ہزار سے زیادہ کسی طورممکن ہی نہیں تھا اور پھراسے بیچنے کے بعدرہنے کابھی تو مسئلہ تھا۔اس لیے یہ خیال بھی سانسیں اکھیڑنے کا سبب بن رہا تھا۔
پڑوس کے حاجی صاحب قرض دینے پرآمادہ تو ہوئے ، مگراس شرط پر کہ مکان کے کاغذات ان کے پاس رکھے جائیں ۔چاروناچاریہ کڑوی گولی اُس نے نگل ہی لی۔ شہر کے بڑے ڈاکٹر نے اُسے بتایا
’’ لطیف کو خون کا سرطان ہے اور اس پرکثیر رقم خرچ آئے گی، جو رقم وہ لے کر آیا ہے یہ کم ہے ، تاہم وہ بچے کاعلاج شروع کر رہا ہے ، مگرمزیدرقم کا انتظام کرنا ہو گا۔‘‘
علاج ہوتارہا اور بچے کی حالت سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔حاجی صاحب کاقرض بڑھتا گیا اور دل اور کی پریشانی۔پھروہ مرحلہ بھی آن پہنچاکہ دل اور کے ہاں فاقے اُترنے لگے ۔ دونوں میاں بیوی مستقبل کے تفکر ات میں یوں گھرے کہ اپنابھی ہوش نہ رہا اور ایسے ہی ایک رات لطیف نے
’’ابا۔ ۔ ۔ ابا‘‘
کہہ کر اپنی جان بیماری کی نذر کر دی۔حاجی صاحب اس مشکل گھڑی میں بھی کام آئے ۔
ابھی بچے کاکفن میلانہیں ہوا تھا۔ ۔ ۔ بارہ سالہ بچی کو سانپ نے ڈس لیا اور اسپتال میں سانپ کے کاٹے کی ویکسین نہ ہونے کی بناپروہ اسپتال کی دہلیز پرہی دم توڑ گئی۔ ماں نے آسمان سے شکایت کر کے اپناسیناچیرلیا۔ ۔ ۔ مگرکہیں سے بھی تو اس کے درد کا درماں نہیں ہوا۔رہی سہی کسرحاجی صاحب نے مکان خا لی کر نے کاکہہ کر پوری کر دی۔
دل اور کو اس بات کاخدشہ تو پہلے سے تھاہی، مگرحاجی صاحب سے اس قدرجلدبازی کی توقع نہیں تھی ۔ گھر کے ’’بھانڈے ٹینڈر‘‘ایک عزیزکے ہاں امانتاًرکھے اور بیوی بچوں کو لے کر سسرال چلا آیا۔یہاں کون سی نعمتوں کے پہاڑ اُٹھے تھے جو سسرال والے زیادہ دیر اُسے برداشت کر تے ۔دنوں میں دل کدورتوں سے اَٹ گئے اور وہ خانہ بہ دوشی کی لمحے بِتانے پر مجبور ہوا۔ کسی جاننے والے نے دل اور کو بتایا تھاکہ حکومت غریبوں کی ما لی مدد کر رہی ہے ، اس سلسلہ میں درخواست فارم مقامی سیاست دان کے ہاں سے مل جائیں گے ۔ حال تو اس کامیرتقی میرؔ کے اس شعرکے مصداق تھا ؂
اب کیاکسوکے آگے دستِ طمع کر یں دراز
وہ ہاتھ سوگیا ہے سرہانے دھرے دھرے
مگرپھربھی دل پرپتھر رکھ کر وہ اس کے دولت کدے پرچلا آیا۔منشی نے کام پوچھاتو اس نے روتی آنکھوں مدعابیان کیا۔منشی نے کہا
’’بیٹھوابھی صاحب آتے ہیں ۔‘‘
ایک گھنٹہ سرک گیا، پھر دوسرا اور تیسرابھی ۔ ۔ ۔ صاحب نہ آئے ۔ منشی نے کہا
’’تم کل آ جانا میں شام کو ان سے بات کر لوں گا۔‘‘
نام پتا لکھوانے کے بعدلوٹا۔بوجھل قدموں سے جب گھرکی دہلیزپارکی تو بیوی کے حسرت زدہ چہرے پرہوائیاں اُڑرہی تھیں ۔ وہ شوہر سے پوچھے بغیر ہی سمجھ گئی کہ ناکامی ہوئی ہے ۔
سلورکی میلی تھا لی میں بیتی رات کابچا ہواشوربا اور کچے تنورپرپکی ہوئی اَدھ جلی روٹی اس کے سامنے رکھ کر دلاسا کے سے اندازمیں کہنے لگی
’’ فکر مت کر واللہ بہتر کر ے گا۔چونچ جو دی ہے چوگ تو دے گاہی۔‘‘
امیدویاس کے عالم میں رات کٹی، منہ اندھیرے جب دوبارہ مقامی سیاست دان کے ڈیرے پرپہنچاتو صاحب اپنے کارندوں کوکام لگارہا تھا۔دل اور نے تعارف کر ایاتو جواب ملا
’’دل اور !تم دیر کر چکے ہو اور ویسے بھی یہ کوئی لوٹ کامال نہیں ہوتا، جوہرکسی کی جھولی میں ڈال دیا جائے ۔‘‘
ناکام ونامراد جب واپس آرہا تھا تو اس نے ایک فیصلہ کیا۔ گھر پہنچتے ہی اس کو عملی جامہ پہنایا ۔ اگلے روزکے اخبار میں تین کالمی خبرشائع ہوئی
’’غربت اور قرض سے تنگ آ کر ایک شخص نے 3 بچوں اور بیوی کو قتل کر نے کے بعدخودکشی کر لی۔‘‘
میں نے خبرپڑھی تو حکم رانوں کاخیال آیاجوہرمحفل میں کہتے پھرتے ہیں کہ ’’ہمارے پاس 14ارب ڈالر کے ذخائرموجودہیں ، کشکول توڑ دیا ہے ، اب قرض لیتے نہیں ، دیتے ہیں ۔‘‘
***


جھوٹی کہانی



’’آج میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں ۔طاؤس منہ میں سونے کاچمچہ لے کر پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں زرتاب بیگم نواب زادی تھی اور والدبھی بڑی جاگیر کا مالک ۔زرتاب بیگم اپنے جہیز میں بہت کچھ لائی تھی۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ اس کے ساتھ چھ خادمائیں بھی آئیں ۔طاؤس اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔ اس کی ولادت پر دُور دراز سے ڈھول باجے والوں کو بلایا گیا تھا اور چا لیس دن تک جشن منایا جاتارہا۔آٹھوں پہرزرتاب بیگم کی حویلی نور و نکہت سے روشن ومعطر رہتی۔قرب و جوارکے جاگیر داروں نے نواب زادے کی ولادت پرتحائف کے انبار لگا دیے ۔ نواب کلیم الملک نے تو اپنی جاگیرکا ایک بڑاحصہ بھی طاؤس کو دے دیا۔ماں باپ پہلے ہی خوشی سے نہال تھے ، اور نومولودان کی ذات کامحور تھا۔ اس کی ناز برداریاں کر تے کر تے صبح سے شام ہوجاتی، مگر پھر بھی ان کاجی نہ بھرتا۔
خادمائیں واری جاتیں ، راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اُسے لوریاں سناتیں اور جوکبھی اس کے رونے کی معمولی سی آواز حلق سے نکلتی تو ان بے چاریوں کی شامت آ جاتی۔
وقت پورے پر پھیلائے اُڑتاگیا۔ ۔ ۔ جب اس کی عمر دس سال ہوئی تو گھر میں اس کے لیے اتا لیق مقرر کر دیا گیا۔والدین کے بے جا لاڈپیارنے اسے بگاڑ دیا تھا، جبھی اس کے دل میں استاذکالحاظ بھی نہیں تھا۔ جو سلوک وہ اپنے خادموں کے ساتھ کر تاوہی استاذ سے روا رکھتا۔استاذکچھ عرصہ تک تو اپنے طورپراُسے سمجھانے کی کوشش کر تارہا، مگربے سود ۔ ابھی استاذاس کش مکش میں تھاکہ، وہ نواب صاحب کو اس ضمن میں آگاہ کر ے ، اس کی اپنی طلبی ہو گئی اور نواب زادے کی گستاخی کر نے پراُسے علاقہ بدر کر دیاگیا۔
نیا اتا لیق مقررہوا اور اسے طاؤس کے مزاج سے متعلق آگاہ کر نے کے ساتھ تنبیہ کی گئی کہ ، خاص حد میں رہ کر نواب زادے کی تربیت کر نی ہے ۔ ۔ ۔ اگر یوں نہ ہوا تو زندان مقدر ہو سکتا ہے ۔ جب استاذنے یہ بندشیں دیکھیں تو اس نے ٹھان لیاکہ وہ وہی کر ے گاجو طاؤس چاہے گا۔طاؤس کادھیان علم کی طرف کہاں تھا، جو اسے اس میدان میں کام یابی ہوتی۔اپنے لا اُبا لی پن کے باعث بے کار مشغولات میں رہنے لگا۔ ابھی اس کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں کہ ایک خادم کی بیٹی پرفریفتہ ہو گیا۔اَدب کا تقاضا تھا۔ ۔ ۔ کنیز خود میں سمٹی رہی، اس کی نظروں سے اوجھل رہنے کی تگ ودوکر تی رہی، مگرکب تک؟مآلِ کار اُس کی ہوس کا نشانہ بنی۔باپ کو معلوم ہواتو اس نے اپنی بیٹی کاگلادبا دیا۔زبان پر حرفِاحتجاج نہیں لایا، بل کہ یوں ظاہرکیاجیسے کچھ ہواہی نہیں تھا۔ ۔ ۔ اور اس کی بیٹی تو طبعی موت مری ہے ۔
اُدھرنواب صاحب کے کانوں میں کہیں سے بھنک پڑگئی اور بیٹے سے ایک ملاقات میں اس واقعہ کی بابت سوال کیا ۔ بیٹا جو رذالت میں گھر چکا تھا ، کہاں ڈرنے والا تھا۔خودباپ نے بیٹے کے جوان ہونے
پر دل ہی دل میں خوشی ظاہرکی اور مسکر اتے ہوئے ، لاڈسے کہا
’’ہوجاتا ہے اس عمر میں ، لیکن دھیان رکھو، کہیں اُلجھ نہ پڑو۔‘‘
باپ کی طرف سے گویایہ ایک طرح کا ا جازت نامہ تھا۔اب اس نے پر پھیلانا شروع کر دیے ، جس چیزپراس کی نظر رُکتی جھپٹ پڑتا اور بے فکر ی سے راہ لیتا۔
اُدھرنواب صاحب کوکسی موذی مرض نے آلیا تھا، خاندانی حکیم نے تمام نسخے آز ما لیے ، مگرقرارتھاکہ آکے ہی نہیں دیا۔ جاگیر دار دوستوں نے بھی اپنے طبیب بھیجے ، مگرکچھ نہ بن پڑا ۔ ۔ ۔ اور بیماری نے جان لے کر چھوڑا۔باپ کامرنا تھاکہ طاؤس تمام قیودسے آزاد ہو گیا۔اب کلیاں نوچنا، پھول مسلنا اور ہوش چھوڑنا اس کامعمول بن چکا تھا۔اس کے گرد ایسے لوگوں کا ہر وقت جم گھٹارہتاجو رذیل خصلت رکھتے ۔اپنی جیب بھرنے کے لیے اُسے خباثت کے گڑھوں میں اُتارتے چلے گئے ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ اب کوئی بھی رات رقص و سرود اور لب وجام سے خا لی نہ جاتی۔زرتاب بیگم بیٹے کی اس حالت پرکڑھتی۔ ۔ ۔ مگراُسے بدکاریوں سے نہ روک پاتی۔نواب زادے کی یہ حالت دیکھ کر شروع میں اس کے والدکے دوستوں نے بھی سمجھانے کی کوشش کی، مگرجب طاؤس نے لحاظ نہ کیاتو وہ بھی اپنی راہ ہو لیے ۔ ماں بیٹے کے سدھرنے کی خواہش لیے سانس توڑ گئی۔
بگڑے ہوؤوں کا راہِ راست پرآنا اتنا آسان کہاں ہوتا ہے ؟بُروں سے تعلقات جو بڑھے تو انھوں نے بھی گھات لگاناشروع کی۔عیش کوشی نے جاگیر کے بوجھ سے آزاد کر دیا۔خادم ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑتے گئے ، مگروہ جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی مظلوم بیٹی کا گلا دبایا تھا، ساتھ رہا۔وہ حویلی جوکبھی طاؤس کے لیے راحتوں کی جاتھی قید خانہ میں بدل گئی۔باہرنکلتاتو قرض خوا ہوں کے تانتے بندھ جاتے ، مجبوراًحویلی کے تاریک کمرے میں دبکا رہتا۔
ایک شام نواب زادے نے ابھی آبِ احمرکاپہلاگھونٹ حلق سے اُتارا ہو گاکہ اس کے دماغ میں ماضی کے تمام منظر روشن ہوتے چلے گئے ۔جام ہتھیلی میں تھامے حویلی کے دالان میں چلا آیا، خادم پہلے ہی وہاں موجود تھا۔طاؤس حال سے بے گانہ ہوکر گویا ہوا
’’تم جانتے ہوپہلے گھونٹ کاذائقہ میں آج تک نہیں بھلاپایا ہوں اور پہلے لمس کی خوش بو سے ۔ ۔ ۔ آج بھی میراتن بدن معطر ہے ۔ پوچھوگے نہیں پہلالمس کس کا تھا؟‘‘
خادم نے سوا لیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھاتو اس نے کہا
’’تمھاری بیٹی کا، نہ جانے اچانک وہ مرکیسے گئی؟‘‘
اب خادم نے احتجاج نہیں کیا، بل کہ نہایت تیزی سے اُٹھا اور اسے دبوچ لیا۔خنجر سے اس کا سینہ چاک کر تے ہوئے کہا
’’اُسے میں نے قتل کیا تھا اور تمھارے باپ اور ماں کو بھی میں ہی زہر دیتارہا ہوں ۔‘‘
پھراس کاتن سر سے جدا کر کے حویلی کے دروازے پرڈال دیتا ہے اور خود رو پوش ہو جاتا ہے ۔‘‘
راوی خاموش ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ایک ادھیڑعمرسامع اپنی سانس تازہ کر کے راوی سے کہتا ہے
’’تم جھوٹ کہتے ہو۔ ۔ ۔ طاؤس شہر میں اب بھی پھرتا ہے ۔‘‘

***


چیخوں میں دبی آواز



میں بہت دیر سے اپنے وجود کو نوچ رہا ہوں ، چٹکیاں لے رہا ہوں ، چوٹ لگا رہا ہوں ۔میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیامجھ میں زندگی کی کوئی رمق باقی ہے ؟ میں بہت دیر سے اپنے دماغ کے خوابیدہ خلیوں کو جگانے میں مصرو ف ہوں ، اپنے دل کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے خون کی حالت دیکھنا چاہتا ہوں ، مگرشایدمیرے وجود کی ساری حسیات زنگ آلودہوچکی ہیں ، میرے دماغ کے تمام ترخلیے مرچکے ہیں ، ٹھاٹیں مارتا ہوادل کا لہو برف میں بدل چکا ہے اور میری ذات کے اظہار کی تمام علامتیں مٹی میں مٹی ہوچکی ہیں ۔میرے وجود کی گواہی دینے وا لی تمام قدریں تباہ ہوچکی ہیں ، میرے جسم کو خوب صورتی اور رعنائی عطا کر نے والے تمام لباس وقت کی بے لحاظ وبے قدرہواؤں کی نذرہوچکے ہیں ۔ ۔ ۔ اور میں اپنے شکستہ و برہنہ وجود کے ساتھ کھڑا ہوا ہوں ۔نہیں جانتا ہوں کہ دنیاکی نظریں ایسے انسان میں کیاتلاش کر رہی ہیں جو اپنے دماغ کے مردہ خلیوں اور اپنے دل کے سرد اور جمے ہوئے لہو کے ساتھ عریاں موجود ہے ۔
آپریشن کاپہلادن۔ ۔ ۔ دوسرا۔ ۔ ۔ تیسرا۔ ۔ ۔ چوتھا۔ ۔ ۔ اور پھرآخری دن بھی گزر گیا ۔میں ساکت ومبہوت ان تمام واقعات سے ایک طرف مٹی میں گڑارہا۔
کتنی جانیں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں جل کر خاکسترہوئیں ، کتنے ارمان رزقِ خاک ہوئے ، کتنے جواں بدن گولیوں کی آگ پی گئے ، کتنی اَدھ کھلی کلیاں بے لحاظ بارُودسے جھلس گئیں ، کتنے تازہ کھلے پھول مٹی میں روندگئے ۔ ۔ ۔ ؟میں نہیں جانتا۔
باپوں نے اپنے بیٹوں کے زخموں کوکیسے چاٹایاچاٹاہی نہیں ، میں نہیں جانتاکہ ماؤں نے اپنی بیٹیوں کو اپنے سینے سے کیسے لگایایاپھرلگایاہی نہیں ، میں نہیں جانتا بھائیوں نے اپنی بہنوں کے سروں پر دستِ شفقت کیسے رکھایاپھر رکھاہی نہیں ، میں نہیں جانتابے تاب گودیں اپنے وجودکے حصوں کی حدت سے کیسے لذت آشنا ہوئیں یا پھر ہوئیں ہی نہیں ۔میں نہیں جانتا سہاگنوں کے سروں کے تاج کیسے سلامت لوٹے یاپھرلوٹے ہی نہیں ۔جلتی آگ اور کھولتی گولیوں کی بارش نے کتنے گھر اُجاڑے اور کتنے در توڑے ، میں کہاں جانتا ہوں ۔ ۔ ۔ رسول مکر م صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے سینۂ پاک سے نکلی ہوئی کتاب کی حالت کیا ہوئی، منبرومحراب کی عظمتوں کاکیابنا، حدیث وفقہ کے اظہاریے کیا ہوئے ؟میں نہیں جانتا۔ ۔ ۔
وہ ایک شخص۔ ۔ ۔ ایک شخص، جسے ہٹ دھرم، انتہاپسند، خودغرض، ایجنسیوں کاگماشتہ، ریاکار، بڑبولا، اغواکارومنتشر دماغ کہاگیا۔سیکڑوں بے گناہ جانوں کے ضیاع کاقصوروار ٹھہرایاگیا ، کیا ہوا؟۔ ۔ ۔ میں نہیں جانتا۔
لوگ جلتے رہے ، پھول گرتے رہے ، کلیاں مسلتی رہیں ، سہاگ لٹتے رہے ، کوکھیں اُجڑتی رہیں ، بیبیاں بے پردہ ہوتی رہیں ، بیٹیاں درد سے بلکتی رہیں ، بھائی زخموں سے کر اہتے رہے ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ اور میں ایک طرف زمین میں گڑارہا۔
کتنے لوگ معبدخانہ میں بھوک اور پیاس سے نڈھال وبدحال رہے ؛ میں نہیں جانتا۔کون پتے کھا کر اور بارش کے پانی کی بوندیں پی کر زندگی سے جنگ لڑتا رہا اور کون دھوئیں کی آندھیوں سے نبردآزمارہا، میں نہیں جانتا ہوں ۔
آپریشن کاپہلادن ۔ ۔ ۔ دوسر ا۔ ۔ ۔ تیسرا۔ ۔ ۔ چوتھا۔ ۔ ۔ اور پھر آخری دن بھی گزر گیا۔میں زمین میں گڑا ہوا تھا، گڑا ہوا ہوں ۔وہ جگہ جہاں سروسینہ خالق کے سامنے جھکتے تھے ۔ ۔ ۔ خون سے لال تھی۔ ۔ ۔ گولیوں کی آوازمدھم ہوئی تو اس کی جگہ بوٹوں کی آواز نے لے لی۔ میرے بھائی اپنی ’’فتح‘‘ پر بکتربند گاڑیوں سے سرنکالے ’’وکٹری‘‘ کا نشان بنائے گزرتے رہے ، میرے بھائی اپنی فتح کی داستانیں مسلسل سناتے رہے ۔
لوگ چلتے رہے ، جیتے رہے اور میں مرتا رہا۔ ۔ ۔ مرتا رہا۔ اور دُوربیٹھے ہوئے لوگ ہماراتماشادیکھتے رہے ۔ہماراتماشا!کہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے جسموں کو چھلنی کیا ، اپنی ہی زبانوں سے خود پر زہراُگلا اور اپنے ہی غلبہ سے خودکو مغلوب کیا۔
اور اب۔ ۔ ۔ اب میں ’’زندہ‘‘ہوا ہوں تو مجھے اس ظلم کا احساس ہوا ہے ، جو آپریشن کی صورت ظاہرہوا تھا۔اب میں احتجاج کر وں گا ۔ ۔ ۔ پُرامن احتجاج۔ ۔ ۔ غیرمسلح احتجاج۔ ۔ ۔ اور پھر آنے والے دنوں میں ، نئے موقعوں سے مستفیدہوں گا۔ ۔ ۔
یہ احتجاج، دکھ، غم تو چندگھڑی کے ہیں یا پھر دکھلاوے کے ۔ ۔ ۔
حیف ، صدحیف!دماغ کے مردہ خلیوں اور سینے کے ٹھنڈے لہو کے باوجود میں خود کو زندہ سمجھتا ہوں ، سمجھتارہا، سمجھتا رہوں گا ۔ ۔ ۔ گولیاں چلتی رہیں گے ، معبدیں پامال ہوتی رہیں گی، سینہ ء پاک صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے نکلی ہوئی باتیں بے قدروں کا نشانہ بنتی رہیں گی ، بوٹوں کی آواز سنائی دیتی رہے گی اور وکٹری کا نشان بنائے ہاتھ اُٹھتے رہیں گے ۔
ہم اپنے زخموں کو چاٹتے رہے ہیں ، چاٹتے رہیں گے ۔ ۔ ۔
الاماں و الحفیظ! بہروپوں ، خود غرضوں ، مکاروں اور بے ترسوں میں گھری ہوئی یہ قوم اپنے دماغ کے مردہ خلیوں کے باوجودخود کو زندہ سمجھتی ہے ، اپنی نسوں میں جمے ہوئے خون کو زندگی کی علامت تصور کر تی ہے ۔ اور آسماں بھی خاموش ہے ، نہ ہی ٹوٹ کر گرا۔ ۔ ۔ اور نہ ہی زمین پھٹی۔ ۔ ۔ مگر میں زندہ ہوں
میں زندہ ہوں ، تبھی تو اس گونجتی آواز
’’تو کیاکوئی معجزہ نہ ہو گا؟
ہمارے سب خواب وقت کی بے لحاظ آندھیوں میں جل بجھیں گے
دونیم دریاوچاہِ تاریک وآتشِ سردجاں نوازی کے سلسلے ختم ہو گئے کیا؟
تو کیاکوئی معجزہ نہ ہو گا؟
خدائے زندہ!تیری سجدہ گزاربستی کے سب مکینوں کی التجا ہے
کوئی ایسی سبیل نکلے کہ تجھ سے منسوب گل زمینوں کی عظمتیں پھر سے لوٹ آئیں
وہ عفوکی، درگزرکی، مہرووفاکی بھولی روایتیں پھر سے لوٹ آئیں
وہ چاہتیں ، وہ رفاقتیں ، وہ محبتیں پھر سے لوٹ آئیں ۔ ۔ ۔ ‘‘
کو میں نے سنا اور اس کاہم نوا ہوا۔ ۔ ۔ مگرکیامحض لفظوں ، خواہشوں سے یہ سب ممکن ہوا ہے ؟ اگرممکن ہوتاتو سانحہ ء لال مسجدرونمانہ ہوتا۔اپنے جسے ایجنسیوں کا آلہ کار کہتے رہے ؛ پیوندِ خاک نہ ہوتا۔
اب خدا جانے کون سرخ روہوا؟۔ ۔ ۔ اگرچہ ہرایک خودکو داناوحق پرست سمجھتا ہے ، میں سوچتا ہوں ، اپنی بات پرجم جانے والوں اور وعدوں کو توڑ کر فخر کر نے والوں میں کتنا فرق ہوتا ہے ؟
بادشاہِ وقت کو للکارنے والے اس شخص کاجرم۔ ۔ ۔ ؟
مسجدوں کی شہادت کاگلہ اور نفاذشریعت کامطالبہ سبھی نے کیا۔ ۔ ۔ مگرمجرم ایک وہ ۔ ۔ ۔ ؟ آنٹی
کاقضیہ۔ ۔ ۔ مساج سینٹرکی روداد ، ویڈیوسینٹرزکاجلاؤ گھیراؤ ۔ ۔ ۔ جرم ہی نہیں بہت بڑے جرائم ہیں ۔ ۔ ۔ کر اچی میں گرنے وا لی اڑتا لیس بے گناہ لاشوں سے بھی بڑے ۔
بات کچھ اور تھی ، بات کچھ اور ہے ۔جسے ہرایک جانتا ہے ، مگرزبان پرلانے کی قدرت نہیں رکھتاکہ جان ہر ایک کو عزیز ہے ۔
جہاں بولنے والوں کا انجام ’’اس‘‘ کی طرح ہو، وہاں بولنے کی جرأت کون کر ے ؟جلتی آگ میں کون کو دے کہ، جب یہ ایمان ہی نہ ہوکہ نارگلزارہوبھی سکتی ہے ۔گھاٹے کا سودا کون کر ے ؟مگراُس نے کیا، جان گنوادی، الزام سرلیے اور لیتا رہے گا۔
اب رونے ، کر لانے والوں کو خبر ہو کہ ، جو سفر بادشاہ نے شروع کیا تھا۔ ۔ ۔ وہ جاری ہے اور رونے والوں کی زندگیوں تک جاری رہے گا۔
بادشاہ کی ڈھیل۔ ۔ ۔ ؟مذا کر ات۔ ۔ ۔ ؟مذا کر ات میں ناکامی۔ ۔ ۔ ؟وقت پرست عالموں کی خاموشی۔ ۔ ۔ ؟بادشاہ کے دنیاوی بادشاہ کی خوشی اور بادشاہ کے دوست کی ناراضگی ۔ ۔ ۔ ؟ حقیقت کیا ہے ؟ سب جانتا ہوں ، سب جانتے ہیں ، مگر۔ ۔ ۔ !
وقت کے بے ہنگم شور میں اس کی آوازبھی دب گئی تھی۔ ۔ ۔ تو میری آوازکون سنے ؟چیختا ہوں تو اپنے ہی کانوں کے پردے پھٹتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور آواز۔ ۔ ۔ آوازتو مردہ چیخوں میں دب بھی چکی۔ ۔ ۔ مربھی چکی۔

٭٭٭
 

خاورچودھری

محفلین
1---------زہر------------2----------آزادی


زہر



بہت سال بعدجب میرا اس سے سامنے ہواتو ایک لمحہ کے لیے میں اسے پہچان ہی نہ پایا، سراپاوہی تھا۔ ۔ ۔ مگرجس رُوپ سے وہ ظاہر ہوا تھا، گزشتہ سالوں میں اس کی یہ حالت کب دیکھ سکا تھا؟ اور دیکھتابھی کیسے ۔ ۔ ۔ پانچ ہزار روپے ماہ وارکمانے والاشخص بھلا تین ہزارکاسوٹ اور پچیس سوکے بوٹ کیسے برداشت کر سکتا ہے ۔25ہزارکاموبائل فون اور نئی آلٹو سے اُسے کیوں کر مطابقت ہو سکتی ہے ؟
لگ بھگ سات سال پہلے جب پہلی مرتبہ وہ میرے پاس آیا تھاتو حلیہ سے کسی چورا ہے کا مزدور لگتا تھا، مگراب۔ ۔ ۔ اب تو وہ ٹھیک ٹھاک ’’مزے ‘‘ میں تھا۔میری حیرتوں کو توڑتے ہوئے اس نے کہا
’’اَجی کیادیکھ رہے ہیں ، میں ہوں اسحاق، میرامطلب ہے خاکا‘‘
اور پھربازوپھیلا کر میری طرف بڑھ گیا۔ میں نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا، ابھی میں اس سے سوال کر نے ہی والا تھاکہ، اس کے موبائل سے چڑیوں کی چہچہاہٹ سنائی دی۔نہ جانے دوسری طرف کون تھا، البتہ یہاں سے کہاگیا
’’نہیں ، نہیں اس مرتبہ میرے تمام آدمی جائیں گے ، کسی ایک کو بھی ڈراپ نہیں کیا جا سکتا، یہ آپ کا مسئلہ ہے ، میرا اعتبارخراب نہ کر یں ۔‘‘
اور پھرموبائل بند کر دیاگیا۔
’’یہ حال ہے ان لوگوں کا، کام نہ دو تو تب منتیں کر تے ہیں اور جب دے دو تو ان کے نخرے بڑھ جاتے ہیں ۔بھلایہ بھی کوئی بات ہے ، 25 افرادکی رقوم تین ماہ سے اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں اور اب کہہ رہا ہے کہ دس آدمیوں کو اگلی بار روانہ کر دیں گے ۔‘‘
مجھے میرے سوال کاجواب مل گیا تھا۔لیکن ایک نئے سوال نے دماغ میں سرسراہٹ کی کہ، خاکے جیساشخص اتنا بڑاکام کیوں کر کر سکتا ہے ؟وہ تو جب میرے پاس بیٹھتا تھا ، گھنٹوں اس کامنہ نہیں کھلتا تھا۔ ۔ ۔ اور جوکبھی زبان چلتی بھی تھی تو جی، ہونہہ، بہتر سے بات آگے نہ بڑھتی۔ یقینا اتنی بڑی تبدیلی میرے لیے تعجب خیز تھی۔ میں اسی کش مکش میں تھاکہ اس سے پوچھوں ۔ ۔ ۔ مگراسی دوران اس کے موبائل میں پھرچہچہاہٹ پیدا ہوئی، موبائل آن ہوا
’’ہاں عمران! زرنگار کارپوریشن والوں کو دس آدمیوں کی فہرست دے دو، افضل ریکر وٹنگ ایجنسی والے کیاکہتے ہیں ؟، چلوٹھیک ہے ، ایک گھنٹہ بعدمجھے بتاؤ۔‘‘
ٹیلی فون کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسحاق نے بتایاکہ وہ گزشتہ چارسال سے بندے باہربھجوا رہا ہے ، مختلف اداروں کے ساتھ اس کی کمٹ منٹ ہے ، کر اچی ، لاہور اور پش اور میں اس نے اپنے دفاترکھول رکھے ہیں ۔ جہاں لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے ۔ میں نے پوچھاکہ تم اس طرف آئے کیسے ؟ وہ مسکر ایا اور پھر بولناشروع کیا
’’جن دنوں میں آپ کے یہاں آیا کر تا تھا، تب میں گھرکاخرچ چلانے سے قاصرتھا۔اس دوران ایک عزیز نے بتایاکہ سعودی عرب کے لیے بھرتی آئی ہے ، اگرتم چا ہوتو تمھاری بات کر وں ؟ میں اپنے حالات سے تنگ تھا، مجھے سہاراچاہیے تھا اس لیے فوراً تیار ہو گیا۔رشتہ داروں سے اُدھارپکڑا، بیوی کے زیورفروخت کیے اور ایک لاکھ روپے جمع کر کے ایجنٹ کے حوالے کر دیے ۔پانچ ماہ گزرگئے لیکن میں باہرنہ جا سکا، ایجنٹ غائب ہو گیا۔جس نے جہاں کا بتایا، میں وہاں اسے ڈھونڈنے نکل گیا۔ ۔ ۔ اور آخراس تک پہنچ ہی گیا۔ملنے پر اس نے کہاکہ ’’میرے ساتھ فراڈہو گیا تھا، اس لیے غائب ہو گیا۔اب ایک صورت ہے ، ملائشیا کے لیے بندے بھجوا رہا ہوں ، بندے لاؤ اور اپنی رقم وصول کر لو ، کام پکا ہے ۔‘‘اس طرح میں نے کام شروع کر دیا۔ خود تو مزدوری کے لیے باہرنہیں جا سکا۔ ۔ ۔ مگر لوگوں کو بھجوانے کاراستہ مل گیا ہے ، صاف ستھراکام کر تا ہوں ، کام ہوجانے پرمعاوضہ لیتا ہوں ۔‘‘
میں نے پوچھا اتناسب اسی کام سے کمایا ہے تو کہنے لگا
’’اللہ دے بندہ لے ۔‘‘
سنا ہے اور مشاہدہ بھی ہے ایجنٹوں کے ہاتھوں کئی گھر اُجڑے ہیں ، لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہوئی ہیں اور کئی ایجنٹوں کو رو پوش ہوتے دیکھا ہے ، کہیں تم کسی گرداب میں نہ پھنس جاؤ۔ میں نے کہا تو اس نے بلند آواز میں قہقہہ لگایا اور گویا ہوا
’’ہاں ۔ ۔ ۔ !ہوتا ہے اس طرح، میرے ساتھ بھی ہوا تھا، میری زندگی بھی اجیرن ہو گئی تھی ، قرض خوا ہوں کے ہاتھوں عزت تک غیرمحفوظ ہو گئی تھی، لیکن میں نے سمجھ داری سے کام لیا اور آج آپ کے سامنے ہوں ۔‘‘
اگرتمھیں چانس نہ ملتاتو تمھاراکیاحال ہوتا؟
’’شاید میں بھی اور وں کی طرح پریشان ہوتا‘‘
اس نے کہا۔ ۔ ۔ اور پھرکہنے لگا
’’چھوڑیے صاحب!یہ دنیا ہے یہاں اسی طرح چلتا ہے ، آپ سنائیں ؟‘‘
تمھارے سامنے ہوں ، میں نے کہا۔ایک نظراس نے میرے دفترکی چھت پر ڈا لی، پھرسیاہ شیشوں سے باہرکی طرف دیکھا، دفتر میں پڑی ہوئی چیزوں پراچٹتی نگاہ دوڑائی اور کہنے لگا
’’کافی خستہ حالت ہے ۔آپ کو دفتر بدلنا چاہیے یا کم از کم ڈیکوریٹ کرناچاہیے اور نیا فرنیچر بھی ڈلوانا چاہیے ۔‘‘
ہے تو !۔ ۔ ۔ مگر گزرہورہی ہے ۔ ۔ ۔ میں نے کہا۔
’’آپ چاہیں تو میں اس دفتر کو بنوا دیتا ہوں ، ہمارے ساتھ کام کیجیے ، دن پھرجائیں گے ۔‘‘
جب خاکایہ کہہ رہا تھاتو میرے ذہن میں ایک واقعہ نے انگڑائی لی جو اسی زمین پرپیش آیا اور مجھے ایک مہربان نے سنایا تھا۔پھرخودبہ خودمیری زبان سے اس واقعہ کابیان شروع ہو گیا۔
’’کوئی دولت مندشخص کسی بزرگ کاعقیدت مندتھا، وہ مہینہ میں ایک آدھ مرتبہ ان کے ہاں حاضری دیتا۔ایک بارجب وہ اپنے مرشدکے پاس بیٹھا تھاتو اس نے کہا:
’’ حضرت ہمارے یہاں طلائی دھاگے کاکھسہ(جوتا)بنتا ہے اگرآپ کہیں تو لے آؤں ‘‘
بزرگ نے کہا لے آؤ ۔ ۔ ۔ مگرجب پاپوش اعلیٰ ہوتو پوشاک بھی بڑھیا ہونی چاہیے ۔مریدنے کہا وہ بھی پیش کر دوں گا۔تو پھربزرگ نے کہاجب پیزار اور ملبوس اچھے ہوں ، تو پگڑی بھی ہونی چاہیے ۔مریدنے کہاوہ بھی حاضر کر دوں گا، بزرگ نے کہاجب انسان اس قدراچھے حلیے میں ہوتو اس کے پاس گھوڑ ابھی ہونا چاہیے ۔مریدنے کہاوہ بھی حاضر کر دوں گا، بزرگ
ایک قدم اور آگے بڑھے اور کہاجب یہ سب ہوتو گھوڑے کی نگاہ داشت کے لیے ملازم بھی ہوناچاہے ۔
مرید نے کہا یہ بھی ہوجائے گا۔ ۔ ۔ تو بزرگ نے کہاگھوڑے اور ملازم کی موجودگی میں مناسب رہائش بھی ہونی چاہیے ۔مریدنے کہا حضرت اس کابھی انتظام ہوجائے گا۔مرحلہ بہ مرحلہ جب بزرگ بڑھتے جاتے تو مریدبھی حکم کی تعمیل میں آگے نکلتا جاتا۔مآلِکار بزرگ نے کہا جب تم میرے لیے اتنے ترددات میں پڑوگے تو کیا یہ بہترنہیں ہے کہ تم کھسہ ہی نہ لاؤ۔مریدعقیدت مندہونے کے ساتھ ساتھ دانا بھی تھا۔ اپنے کہے ہوئے پرشرم سارہوا اور معذرت کر کے رخصت ہو گیا۔‘‘
میں خاموش ہواتو اسحاق کہنے لگا
’’میراخیال تھاکہ آپ کے نظریات بدل گئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ مگرآپ ہنوزاسی چکر میں گھرے ہوئے ہیں ۔آپ دولت سے کیوں نفرت کر تے ہیں ، آپ زندگی کی آسائشوں سے اپنا حصہ کیوں نہیں وصولتے ؟‘‘
میں نے جواب دیامجھے دولت سے نہ اس وقت نفرت تھی نہ اب ہے ۔ ۔ ۔ مگراس دولت سے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کانصیب تھی، ہاں میں نفرت کر تا ہوں قارون کی دولت سے اور میں پناہ مانگتا ہوں ایسی آسائشوں سے جو میرے لیے وبال بن جائیں ۔ دوسروں کے گھروں کو ا جاڑ دیں ، ان کاسانس لینامحال کر دیں ۔ لمحہ بھرکے لیے میں نے سکوت اختیار کیا تو اسحاق کہنے لگا
’’آپ کفرانِ نعمت کر تے ہیں ، دولت اور آسائشیں اللہ کی نعمت ہیں ۔‘‘
یقینا!لیکن اس صورت میں جب وہ حلال ہوں ، پانی بھی اللہ کی نعمت ہے ، سمندروں کے سمندر اور دریاؤں کے دریابھرے ہوئے ہیں ، ان کی زیادتی ناگوار نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مگرجب
یہی پانی کشتی کے اندر داخل ہوجائے تو زحمت بن جاتا ہے اور بعض اوقات انسان کی زندگی لے کر رہتا ہے ۔میں اس دولت اور اس آسائش سے پناہ مانگتا ہوں جوکشتی کے اندرآ جانے والے پانی کی مثال ہیں ۔ اور جب آدمی اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتا ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتاکس وقت پانی کشتی کے اندر داخل ہوا۔ ۔ ۔ اس کی آنکھ تو تب کھلتی ہے جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے ۔پھرکوئی بھی دولت، کوئی بھی گاڑی ، کوئی بھی واسطہ کام نہیں آتابہ جزاللہ عزوجل کی رحمت کے ۔
’’آپ چاہتے ہیں کہ انسان ہمیشہ دوسروں کے ہاتھ دیکھتارہے ۔‘‘
اسحاق نے کہا۔
نہیں ! دوسروں کے نہیں اپنے ہاتھ پربھروسہ کر ے اور اپنے ہاتھ کا میل کام میں لائے اور اس میل کے حصول میں اللہ کی رضاشامل کر لے تو یقینا اسے تنگی نہیں ہو گی۔جب ہم ایک خواہش کے پیچھے بھاگتے ہیں تو اگلے ہی قدم پرایک اور خواہش پیدا ہوچکی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔
اور یہ سلسلہ سانس کی آخری کڑی تک زنجیر ہو جاتا ہے ۔میں نے کہا۔
’’ہاں !بات تو ٹھیک ہے ، لیکن شاید اس طرح کی بندشوں کو قبول کرنا، اپنے بس کی بات نہیں ، شایدآپ کے بس میں بھی نہ ہو۔‘‘
یقینا میں بھی انسان ہوں ، لیکن اللہ کافضل مانگتا رہتا ہوں ۔جن راستوں کے تم اب آشنا ہوئے ہو، میں بہت پہلے ان سے آگاہ تھا، لیکن ربِّ کر یم کی رحمت نے مجھے ان پر چلنے نہیں دیا۔

’’ بجا سہی! لیکن جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس کے بڑے تقاضوں میں سے ایک تقاضا بے تحاشہ دولت بھی ہے ۔جس کے پاس جس قدرزیادہ دولت اور بڑی گاڑی ہو گی وہ معاشرے میں مہذب کہلاتا ہے ۔شرفا کی صفوں میں شمارہوتا ہے اور جو، جس قدرغریب ہوتا ہے ، اتناہی کم تر اور تہذیب نا آشنا کہلاتا ہے ۔‘‘
اسحاق خاموش ہواتو میں نے کہا
رضوانی صاحب کو جانتے ہو؟
’’ ہاں !انھیں کون نہیں جانتا‘‘
اسحاق تم بہت زیادہ ہوئے تو کر وڑپتی ہو گے ۔ ۔ ۔ رضوانی صاحب کھرب پتی نہیں تو ارب پتی ضرورہیں ۔ملک بھر میں ان کاکاروبارپھیلا ہوا ہے ۔ بل کہ یورپ کے کئی ممالک میں بھی ان کاکاروبارہے ۔پچھلے ہفتے انھوں نے مجھے اپنے ہاں دعوت پربلایا۔ ۔ ۔ اور لوگ بھی شریک تھے ۔کھاناشروع ہوا تو تمام مہمانوں کے سامنے انواع واقسام کے کھانے چن دیے گئے ۔ ۔ ۔ مگرجانتے ہورضوانی صاحب نے سلاد کے چندپتے اور ماش کی دال کے ساتھ چپاتی کے گنے ہوئے نوالے لیے ۔ ۔ ۔ اور جب کھیرلائی گئی تو وہ بھی انھوں نے نہ چکھی۔ میں نے کہا آپ کچھ لے نہیں رہے ، شاید بعد میں کھائیں گے ۔جس پر رضوانی صاحب کہنے لگے
’’نہیں ! میں اتناہی کھاتا ہوں ، اللہ کی طرف سے مجھ پر کچھ پابندیاں عایدہو گئی ہیں ۔کبھی تھوڑی سے بے احتیاطی ہوجائے تو مہینوں بیمار رہتا ہوں ۔‘‘
میرے خاموش ہونے پراسحاق نے کہا
’’خداکے لیے مجھے مت ڈرائیں ، زندگی بار بار نہیں ملتی اور میں زندگی سے اپناپوراحصہ وصول کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘
کون جانے زندگی کے پاس اس کاکتناحصہ ہے ، لیکن آدمی یہ ضرور جانتا ہے کہ آخرت کے لیے اسے کتناسرمایہ چاہیے ۔ابھی تم اس مقام پرنہیں ہوکہ لوٹ نہ سکو۔ جب سفیدکپڑے پر ایک داغ لگتا ہے تو اسے مٹایا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مگرجب داغوں کی تعدادبڑھنے لگے تو سفیدی کم ہوتی جاتی ہے ۔
ابھی میرے اور اسحاق کے درمیان مکالمہ جاری تھاکہ مسجدسے مؤذن کی آواز آئی
’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘
اور پھرہماری محفل برخاست ہو گئی۔
٭٭٭

آزادی



یہ14اگست1995ئ؁ کی سہ پہرتھی۔مزارقائدکے چاروں اور بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کاہجوم تھا۔لوگ اپنے قائدسے عقیدت کے اظہار کے لیے یہاں جمع تھے ۔ بچے خصوصیت کے ساتھ مزارکی جا لیوں تک پہنچنے کی کوشش کر تے اور جوکام یاب ہوجاتے وہ اندر جھانک کر منظر کو آنکھوں میں بھرلینے کی کوشش کر تے ۔
مجھے دفتر سے چھٹی تھی اور صبح ہی سے میں اپنے دوست خالدمحمودکے ساتھ شہرِقائدکی گلیوں میں مٹر گشت کر رہا تھا۔صدر سے مزارقائدتک کاسفرہم نے پیدل ہی طے کیا تھا۔اب جو یہاں بیٹھے تھے تو قوم کی تین نسلوں کو قائد سے محبت کا اظہار کر تے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔ جب میں نے مزارپرفاتحہ خوانی کی تو کم وبیش میرے بھی وہی جذبات تھے جو ایک پاکستانی کے ہو سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ تب بھی میں نے سوچا تھا اور اب بھی سوچ رہا ہوں کہ14اگست تو اس خطہ کی آزادی کادن ہے پھرمیری آنکھوں میں اشکوں کاسیلاب کیوں اُترا تھا۔ ۔ ۔ کیوں میری ہچکیاں تھمنے کانام نہیں لی رہی تھیں ۔ ۔ ۔ کیوں میرے پاؤں بھاری ہو گئے تھے ؟ہوش کی دنیا میں تو تب لوٹا تھاجب میرے ساتھی نے ٹھنڈامشروب میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا
’’تمھیں یوں اچانک کیا ہوجاتا ہے ؟23مارچ کو ہونے وا لی تقریب کے موقع پربھی تم یوں ہی روتے رہے ہو‘‘
میں اسے کیا جواب دیتا، مجھے تو خودمعلوم نہیں تھاکہ میرے ساتھ ایساکیوں ہوتا ہے ۔خوشی کے ان موقعوں پرمیری آنکھوں سے چشموں کا جاری ہوناخودمیرے لیے بھی عجیب ہی نہیں بہت عجیب ہے ۔آج بارہ سال بعدبھی میری کیفیت وہی ہے ۔ اگرچہ میں مزار قائدسے سیکڑوں میل دورہوں ۔ ۔ ۔ مگر میرے دل ودماغ کی کیفیت بالکل ویسی ہی ہے جیسی کہ تھی۔ لیکن اب مجھے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ اس خوشی کے موقع پرمیری آنکھوں میں نمی کیوں اُترآتی ہے ۔خیر۔ ۔ ۔ !
میں 14اگست1995ئ؁ کی بات کر رہا تھا۔جس لمحے میں ٹھنڈامشروب اپنے حلق میں انڈیل رہا تھاعین اسی وقت ایک باریش نحیف ونزاربزرگ میرے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے ۔ان کے ہاتھ میں بچوں کے لیے ٹافیاں پکڑی ہوئی تھیں ۔میرے دوست خالد محمود نے بزرگ کو مخاطب کر کے کہا
’’بابا!کچھ نہیں چاہیے ‘‘۔ ۔ ۔
مگر وہ اپنی جگہ سے نہ سرکے اور برابر میرے چہرے پرنظریں جمائے رہے ۔ میں آنسوؤں کو پونچھتا ہوا۔ ۔ ۔ اپنی ہچکیوں پرقابوپانے کی کوشش کر تا اور وقفہ وقفہ سے شربت کاگھونٹ بھی حلق سے اُتار دیتا۔یوں ہی کچھ دیرگزری تو بزرگ گویا ہوئے
’’کیوں روئے تھے میاں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
میں کیابتاتا، میں تو خودنہیں جانتا تھا۔ ۔ ۔ بس اتناکہا
’’معلوم نہیں ‘‘
تو بزرگ نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا
’’مگرمجھے معلوم ہے ‘‘
اور پھرخلاؤں میں گھورنے لگے ۔ ۔ ۔ تب آنسوؤں کی ایک ایک لڑی ان کی دونوں آنکھوں سے جدا ہوکر ان کے جھریوں بھرے چہرے پرپھیل گئی۔ان کے چہرے کارنگ لمحہ لمحہ بدلتا گیا ۔ ۔ ۔ اور پھر ان کی ہچکیاں بند ھ گئیں ۔پھر میں نے وہی سوال دہرایا جو انھوں نے مجھ سے کیا تھا۔میں نے دیکھاکہ، ان کی آنکھوں میں ایک غیرمانوس سی چمک نے سراُٹھایا اور پھر یکایک غائب ہو گئی ۔انھوں نے اپنی میلی آستین کو آنکھوں پر یوں ملاجیسے ان کے سامنے سے اندھیارے کی دیوارہٹارہے ہوں ۔
’’میں گیارہ برس کا تھاجب پاکستان بنا۔اباّ جالندھر کے نواح میں اسکول میں استاد تھے ۔ اماں گھرکاکام کاج ہی کر تی تھیں ۔تین بڑی بہنیں تھیں مجھ سے ، جو گھر میں ہی پڑھی تھیں اور اماں کاہاتھ بٹاتی تھیں ۔بجیاشائستہ میرے پھوپھی زادمنیراحمدسے منسوب تھیں ، اپیا آمنہ ان کے چھوٹے بھائی نذیراحمدسے اور میرا رشتہ ان کی بہن عذرا سے طے تھا۔ہمارے خاندان میں مذہبی تعلیم عام تھی، اسی سبب سے اڑوس پڑوس کے لوگ احترام کی نگاہ سے دیکھتے ۔ ہمارے اباّجی تو کبھی کبھار محلہ کی مسجد میں نمازبھی پڑھا دیا کر تے تھے ۔
یہ پاکستان بننے کے کچھ دن اِدھر کی بات ہے ۔ہماراقافلہ ہماری پھوپھو اور ان کے بچوں اور دیگر رشتہ داروں کو ملا کر ستائیس افرادپرمشتمل تھا۔ اماں نے دو گٹھڑیوں میں ضروری سامان باندھا۔ ایک گٹھڑی اپنے پہلومیں دبا لی اور دوسری اباّ کو دے دی۔دوسرے رشتہ داروں کے پاس بھی رختِ سفراس سے زیادہ ہر گز بھی نہیں تھا۔ ہر ایک کو ایک ہی لگن تھی کہ، بس کسی طرح سے اپنے دیس کی خوابوں ایسی سرزمین کو چوم لے ۔اپنے دیس تک پہنچنے کی خوشی میں قدم تیزی سے اُٹھتے جا رہے تھے ۔
ابھی صبح کے آثارنہیں جاگے تھے ، جب ہم روانہ ہوئے ۔خوشی سے قدم خود بہ خود اُٹھ رہے تھے ۔قیامت تو تب ٹوٹی جب تاک میں بیٹھے ہوئے ہندوؤں کے جتھے نے ہمیں آلیا۔گننے میں نہیں آتے تھے ۔ خاندان کے مردوں نے اپنی جانیں کٹوادیں ۔ ۔ ۔ مگراپنی عورتوں کی عصمتوں پرآنچ نہ آنے دی۔ ۔ ۔ مگرکب تک جوں ہی ان کے لاشے گرے ظالم ہندو ، بھیڑیوں کی طرح خواتین پرٹوٹ پڑے ۔‘‘
تب ایک چیخ سی ان کے حلق میں دم توڑگئی۔یوں معلوم ہوتا تھاجیسے ساون کی جھڑی برس کر ہی دم لے گی۔ زبان ان کاساتھ نہیں دے رہی تھی۔ایسالگتا تھاجیسے ان کی آوازکو قتل کیا جا چکا ہے ۔میلی آستین کو بار بار اپنی آنکھوں پرملتے اور پھر خلاؤں میں گھورنے لگتے ۔کچھ سنبھلے تو دوبارہ کہنے لگے
’’مجھے اماں نے پکڑ کر سرکنڈوں کی اوٹ میں چھپا لیا تھا۔وحشت سے میرے اوسان خطا ہو چکے تھے ۔ اس کے بعدکیا ہوا، مجھے معلوم نہیں ۔جب مہاجرکیمپ میں ہزاروں افراد میں خودکو موجود پایاتو ستائیس میں سے صرف دوباقی تھے ۔ اور لوگ کیا ہوئے ان کا کچھ سراغ نہ ملا۔ ہمیں بتایاگیاکہ ، ہم لوگ خوابوں کی سرزمین تک پہنچ آئے ہیں ۔ ۔ ۔ مگراب خوابوں کی تعبیر لانے والے جو نہیں رہے تھے ۔ ۔ ۔ بجیا، اپیا، شازیہ اور عذرا۔ ۔ ۔ اباّ، کوئی ایک بھی تو نہیں رہا تھا۔اماں کو تو جیسے چپ ہی لگ گئی تھی۔ ۔ ۔ اور جب بولتیں تو کسی ایک کانام پکار کر بے سدھ ہوجاتیں ۔ ۔ ۔ انہیں غشی کے دورے پڑنے لگے تھے ۔ کیمپ میں موجودڈاکٹروں نے کوشش کی انھیں بچانے کی۔ ۔ ۔ مگر وہ پچیس جانوں کاصدمہ نہ برداشت کر پائیں اور مجھے باربار مرنے کے لیے زندہ چھوڑگئیں ۔‘‘
رونے کاسلسلہ تھماکہاں تھا۔ ۔ ۔ روتے گئے ، روتے گئے ۔ ادھر میری اور خالدکی آنکھیں بھی جل تھل تھیں ۔
’’ کیمپ سے نکلاتو خوابوں کی زمین کاٹنے کو دوڑتی تھی۔ ۔ ۔ کہیں جائے پناہ نہ ملی۔کسی نے رحم کھا کر سیٹھ چونے والے تک پہنچا دیا۔انھی کے پاس جوان ہوا۔تنخواہ تو نہیں تھی ، البتہ ان کے گھر اور دکان پرکام کے عوض کھانا اور رہائش میسر آ گئے تھے ۔سیٹھ کاہے کو تھے بس نام ہی نام تھا۔ جب وہ دنیاسے رخصت ہوئے تو میں بھی دنیا کے رنگ دیکھنے نکل کھڑا ہوا۔ ریلوے اسٹیشن پر قلی گیری شروع کر دی۔ایک مزدورساتھی نے بتایاکہ صبح کے وقت میں اخباربیچنے سے آمدن بڑھتی ہے ؛تو یہ بھی کیا۔کب گھربسا، بچے ہوئے اور انھیں پالاپوسا ۔ ۔ ۔ اور پھر وہ جوان ہوئے ، سب رام کتھا ہے ۔بس اتنایادہے جب بڑے بیٹے نے ماسٹر کیا تو ایک لمحہ کے لیے مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے خوابوں کی سرزمین تعبیرآشنا ہونے کو ہے ۔ ۔ ۔ مگر بدقسمتی ایسی نہ تھی جو جان چھوڑتی۔ایک نودولتیے نے اپنی گاڑی کے نیچے اسے کچل کر ہمیشہ کے لیے معذور کر دیا۔یہاں تو اچھے بھلے شخص کو نوکر ی آسانی سے نہیں ملتی پھر میرا معذور بیٹا کیوں کر میراسہارابن سکتا تھا۔تین بیٹیاں ہیں ۔وہ اپنے گھروں کی ہو گئی ہیں ۔ ۔ ۔ اور میں اپنے ناکارہ ڈگری ہولڈر کے ساتھ زندگی کے دن گن رہا ہوں ۔‘‘
ایک لمحہ کے لیے وہ خاموش ہوئے اور پھرگویا ہوئے
’’ویسے سچی بات یہ ہے کہ یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کے خواب اباّنے مجھے دکھائے تھے ۔‘‘
میں جس شہر میں رہ رہا ہوں ، وہاں سے ہندوؤں کی بڑی تعدادنکلنے پرمجبور ہوئی تھی۔ ۔ ۔ وہی دکھ بے چارگی، لوٹ مار اور تشدد کی کہانیاں ۔ ۔ ۔ خدا جانے ان ہندوؤں کے ساتھ وہاں ہندوستان میں کیاپیش آیا ہو گا۔ کیا وہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے بانی کی سمادھی پرٹافیاں بیچتے پھر رہے ہوں گے یا پھر ۔ ۔ ۔ ؟
***
ا جازت اور فائل کے حصول کے لئے مصنف سے تشکر کے ساتھ
ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش
http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.250free.com
 
Top