فارسی شاعری چہ خوش باشد کہ دلدارم تو باشی - فخرالدین عراقی

حسان خان

لائبریرین
چه خوش باشد که دلدارم تو باشی
ندیم و مونس و یارم تو باشی

کیا ہی خوب ہو اگر میرا دلدار، ندیم، مونس، اور یار تُو ہو۔

دلِ پردرد را درمان تو سازی
شفای جانِ بیمارم تو باشی

(اور کیا ہی خوب ہو اگر) میرے پُردرد دل کا علاج تُو کرے اور میری بیمار جان کی شفا تُو ہو۔

ز شادی در همه عالم نگنجم
اگر یک لحظه غم‌خوارم تو باشی

اگر تُو ایک لحظے کے لیے میرا غم خوار بن جائے تو میں خوشی سے دنیا میں نہ سماؤں۔

ندارم مونسی در غارِ گیتی
بیا، تا مونسِ غارم تو باشی

(اِس) غارِ دنیا میں میرا کوئی مونس و یار نہیں ہے؛ (اے یار) آ جا تاکہ تُو میرا یارِ غار بن جائے۔

اگرچه سخت دشوار است کارم
شود آسان، چو در کارم تو باشی

اگرچہ میرا کام سخت دشوار ہے لیکن جس وقت تُو شاملِ کار ہو جائے، میرا کام آسان ہو جائے گا۔

اگر جمله جهانم خصم گردند
نترسم، چون نگهدارم تو باشی

جب میرا نگہدار تُو ہو، تب خواہ پوری دنیا میری دشمن بن جائے، مجھے خوف نہیں ہو گا۔

همی‌نالم چو بلبل در سحرگاه
به بوی آنکه گلزارم تو باشی

میں ہنگامِ سحر اس امید میں بلبل کی طرح نالہ کرتا ہوں کہ میرا گلزار تُو ہو جائے۔

چو گویم وصفِ حسنِ ماه‌رویی
غرض زان زلف و رخسارم تو باشی

جب میں کسی ماہ رو کے حُسن کے وصف بیان کرتا ہوں تو زلف و رخسار سے میرا مقصود تُو ہی ہوتا ہے۔

اگر نامِ تو گویم ور نگویم
مرادِ جمله گفتارم تو باشی

خواہ میں تیرا نام کہوں یا خواہ نہ کہوں، میری جملہ باتوں کی مراد تُو ہی ہوتا ہے۔

از آن دل در تو بندم، چون عراقی
که می‌خواهم که دلدارم تو باشی

میں نے عراقی کی طرح اس لیے تجھ سے دل لگایا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میرا دلدار تُو ہو۔

(فخرالدین عراقی)

سید شہزاد ناصر
 
کیا کہنے واہ واہ لطف آ گیا
اس غزل میں جو ترنم موسیقیت اور روانی ہے اس کا جواب نہیں
بہت خوب ترجمہ کیا آپ نے ایک دھاگے میں مجھے روحانی بابا نے اس غزل کے بارے میں بتایا تھا
اس غزل کے بارے میں روائت ہے کہ فخر الدین عراقی عالم فاضل انسان تھے آپ ہمدان کے مدرسے
میں درس دے رہے تھے کہ اچانک قلندروں کی ایک جماعت آن پہنچی اوریہ اشعار پڑھے

ما رخت ز مسجد بہ خرابات کشیدیم
خط بر ورق زہد و کرامات کشیدیم​

ترجمہ: ہم نے اپنا بوریا بستر مسجد سے اٹھا کر شراب خانے میں پہنچا دیا ہے۔ اور یوں ہم نے زہد و کرامات کے ورق (صفحہ، کاغذ، تحریر) پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا ہے۔

در کوئے مغاں در صف عشّاق نشستیم
جام از کف رندان خرابات کشیدیم​

ترجمہ: کوئے مغاں (شراب والے کی گلی) میں ہم عاشقوں کی صف میں جا بیٹھے ہیں۔ اور شراب خانے کے رندوں کے ہاتھ سے جام چھین لیا ہے۔

گر دل بزند کوس شرف شاید از این پس
چون رایت دولت بہ سماوات کشیدیم​

ترجمہ: اس کے بعد دل اگر کامیابی کے نقارے بجائے تو کچھ عجب نہ ہو۔ کیونکہ ہم نےاپنی سرکار کا جھنڈا آسمانوں میں جا کر گاڑ دیا ہے۔

از زہد و مقامات گزشتیم کہ بسیار
کاس تعب از زہد و مقامات کشیدیم​

ترجمہ: زہد اور روحانی مقامات کو ترک کر دیا کیونکہ اس زہد و تقویٰ کے ہاتھوں سختیوں کے بڑے جام پینے پڑے ہیں۔

ان اشعار کو سن کر عراقی بے تاب ہوگئے اورماہی بے آب کی طرح پھڑکنے لگے عمامہ پھینک دیا اور بے اختیار یہ شعر زبان پر جاری ہوا۔

چه خوش باشد! که دلدارم تو باشی
ندیم و مونس و یارم تو باشی
اس دھاگے کا ربط یہ ہے
http://www.urduweb.org/mehfil/threa...-ایک-غزل-ما-رخت-ز-مسجد-بہ-خرابات-کشیدم.60758/
بہت زبردست شراکت
شاد و آباد رہیں
 
Top