چھیڑ کے ساز زر گری خلق خدا ہے رقص میں - رضی اختر شوق

شمشاد خان

محفلین
چھیڑ کے ساز زر گری خلق خدا ہے رقص میں
یوں کہ تمام شہر ہی ڈوب چلا ہے رقص میں

یہ جو نشہ ہے رقص کا اک مری ذات تک نہیں
کوزہ بہ کوزہ گل بہ گل ساتھ خدا ہے رقص میں

کوئی کسی سے کیا کہے کوئی کسی کی کیوں سنے!
سب کی نظر ہے تال پر سب کی انا ہے رقص میں

حسن کی اپنی اک نمو عشق کی اپنی ہاؤ ہو
ایک ہوا ہے رنگ میں ایک ہوا ہے رقص میں

کون یہ کہہ کے چل دیا ہو تری بستیوں کی خیر
آج ہوا بھی تیز ہے اور دیا ہے رقص میں

کوئی سواد وقت پر کوئی سرود ذات تک
پاؤں ہے سب کا ایک سا پھر بھی جدا ہے رقص میں

برج شہی سے دیکھنا ایسے فشار وقت میں
خاک بہ سر غزل بہ لب کون گدا ہے رقص میں
(رضی اختر شوق)
 
Top