چھوٹی چھوٹی

منصور مکرم

محفلین
عرصہ قبل ایک اردو فورم پر ایک بندے کی تحریر پڑھی تھی۔جس میں اس بندے نے پاکستانی قوم کے نیکیوں کا مذاق کچھ اس انداز سے اُڑایا تھا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت جو نیکی کرتی ہیں ،تو ان میں سے چند یہ نمایاں ہیں۔
بھائی موٹر سائیکل کا سٹینڈ اُٹھالو
بہن اپنی چادر سنبھالو،موٹر سائیکل کے پہئے میں پھنس سکتی ہے وغیرہ
چنانچہ اسی طرح کی بعض باتوں کو جمع کرکے شائد یہ تاثر دیا گیا تھا کہ پاکستانی قوم یہ خدمت کرکےگویا اسکو بڑی نیکی سمجھتی ہے۔
عموما یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی آپ کے کسی کام پر طنز کرئے تو وہ طنزیہ انداز بندے کے ذہن میں گُھس کر بیٹھ جاتا ہے۔اور وقتا فوقتا آپ کے دماغ میں وہ بات گھوم گھوم کر آنے لگتی ہے۔
یہ خیال آتے ہی دوبارہ میرے ذہن میں وہ طنز والی بات گھوم گئی۔
اور اسی اثنا میں جب میں نے دیکھا تو سامنے سے بڑی تیز رفتاری سے ایک گاڑی آتے دِکھائی دی گئی۔لیکن اس سے پہلے کہ گاڑی ہم تک پہنچتی ، میں نے فیصلہ کرلیا کہ جو بھی ہو اس بندے کو بروقت خبردار کرو کہ جناب بائیں طرف معمولی سا بھی جھکنے سے آپ حادثے کا شکار ہوسکتے ہیں۔
چنانچہ فورا ہی میں نے گاڑی کی رفتار بڑھائی تاکہ اسکو مطلع کرکے سامنے سے آنے والے گاڑی سے بچ سکوں۔فورا ہی شیشہ کھولا اور اسکو خبردار کردیا۔
اسی واقعے سے ہی تحریک ملی کہ کیوں نا اسی پر ایک مضمون ہوجائے۔
تو جناب ہوتا یہ ہے ہم گوروں کی معمولی معمولی باتیں لے کر انکی تفریفوں کے پُل باندھنے لگ جاتے ہیں۔لیکن جب یہی کام اپنے کرتے ہیں تو بجائے انکی حوصلہ افزائی کے اُلٹا انکا مذاق اُڑانے لگتے ہیں۔حالانکہ یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں اگلے کی زندگی سنوار دیتی ہے۔
عرصہ قبل ایک دوست بنوں سے آکر مہمان ہوئے تھے، تو انہوں نے بتایا کہ سلیم (اسکا دوست) اپنی موٹر لےکر جا رہا تھا کسی دوسرے شہر،راستے میں کسی جان پہچان والے کو دیکھا کہ سڑک کنارے سواری کی گاڑی کا منتظر ہے اور ساتھ میں ایک زنانی بھی ہے برقع یا بڑی چادر میں۔
چنانچہ سلیم نے گاڑی روک انکو لفٹ کرایا،وہ آدمی آگے سیٹ پر بیٹھ گیا اور وہ عورت پیچھے بیٹھ گئی۔ ابھی سلیم تھوڑا ہی آگے گیا تھا کہ عورت کے منہ سے خوف ناک چیخ نکل گئی،اور یک دم عورت سیٹ سے گر کر گاڑی کی فرش پر آرہی۔
سلیم نے فورا سے پہلے جھٹکے سے بریک لگائے اور جب اتر کر دیکھا تو اس عورت کے دوپٹے کو ٹائر کے ساتھ پھنسا ہوا پایا۔
ہوا یہ تھا کہ جب عورت گاڑی میں بیٹھ گئی تھی ،تو ہیبت یا جلدی کی وجہ سے وہ اپنے چادر کو سمیٹ نہ سکی،اور چادر کا اکثر حصہ دروازے میں پھنس کر باہر رہ گیا تھا۔
چنانچہ عورت کی طبیعت خراب دیکھ کر سلیم واپس بنوں میں ہسپتال کی طرف گاڑی دوڑانے لگا۔
میرے والد صاحب اکثر صبح گھر کے قریب سڑک پر واک کرتے تھے۔ایک دن جب گھر پہنچے تو ہمیں بتایا کہ آگ تو اللہ نے موت سے بچا لیا ہے۔
جب پوچھا گیا کہ ہوا کیا ہے ،تو بتایا کہ جب میں سڑک پر واک کر رہا تھا تو تھوڑے فاصلے پر ایک سکول بس گذری ،سکول بس کے ٹائر کے دباؤ کے سبب سڑک سے ایک پتھراُڑکر انتہائی تیزی سے میرے والد صاحب کے سر کے قریب سے گذر کر دور جا گرا۔
ورنہ تو اگر یہ پتھر کسی کے سر میں لگ جاتا تو شائد ہی وہ بچ پاتا۔
لوگ کہیں گے کہ دیکھو سڑک سے پتھر ہٹا رہا ہے۔لیکن یہ خیال نہیں کریں گے کہ یہی پتھر کسی کا گھر اُجاڑ سکتا ہے۔
ایک حدیث شریف میں بھی یہی بات ہے کہ ایمان کا ایک ادنیٰ درجہ یہ بھی ہے کہ بندہ راستے سے موذی شے ہٹا دے۔
گویا اسلام بھی ان چھوٹے چھوٹے کاموں کے کرنے کی ترغیب دیتا ہےکہ اسی سے زندگی سنورتی ہے۔
تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں،جن سے انسان کو خوشی وراحت بھی مل سکتی ہے اور انہیں باتوں سے غفلت کی صورت میں نقصان بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔
ایک بار میں اپنے ایک دوست کے ساتھ گپ شپ لگا رہا تھا تو اسی دوران اس نے سوال کیا کہ اگر بالفرض آپ کسی مجلس میں چلے جائیں کہ وہاں کے لوگ آپ کو دیکھ کر گھبرا جائیں ۔تو آپ نے کونسا ایسا عمل کرنا ہے کہ وہ لوگ آپ سے خوفزدہ نہ ہوں؟
میں نے جواب دیا کہ جب آپ مجلس میں داخل ہونے لگیں تو سب سے پہلے وہاں سلام کریں۔جس سے وہ لوگ سمجھ جائیں گےکہ یہ بندہ غلط ارادے سے یہاں نہیں آیا ہے۔
پھر اس نے سوال کیا کہ سلام تو اسوقت ہوگا جب آپ انکے قریب پہنچ جائیں ۔
لیکن اگر وہ لوگ آپکو اتنا دور سے دیکھ رہے ہیں کہ جہاں سے سلام کہنا مناسب نہ ہو،اور وہ لوگ سوچ رہے ہوں کہ یہ اجنبی بندہ آرہا ہے،اب انکے دلوں میں ڈر جو پیدا ہوا ہے تو اسکو ختم کرنا ہے۔؟
پھر خود ہی انہوں نے زبردست جواب دیا کہ جب آپ دور سے انکے قریب آرہے ہیں تو بس صرف اپنے چہرے پر دھیمی مسکراہٹ لایئے تو وہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو بھی ہے لیکن بندہ کم از کم ایسا نہیں کہ اس سے خطرہ محسوس کیا جائے۔
cropped-something.jpg
اسی طرح ایک حدیث کا اردو ترجمہ بھی کہیں دیکھا تھا کہ جو بندہ کسی دوسرے انسان کو ایسا گھور کر دیکھے کہ جس سے وہ دوسرا بندہ خوفزدہ ہوجائے،تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس گھورنے والے کو ڈرائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا ڈرانا کیسا ہوگا بھئی(اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے ۔آمین)
تو کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہمیں اس جیسی چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو رواج دینا چاہئے۔ضروری نہیں کہ ہم لوگوں سے بڑی بڑی
توقعات رکھیں، کہ جن کے پورا نہ ہونے پر ہم ان پر کوئی سا بھی لیبل لگالیں۔ہم اپنی حد تک کوشش کریں کہ جتنا بھی ہم سے ہوسکے ،ہم چھوٹی چھوٹی اچھائیوں کو اپنائیں۔
کوئی ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر ہنسے تو بلا سے ہنس لے،لیکن اسکو ضرور ایک دن ان ہی نیکیوں کا احساس ہوگا۔
 
آخری تدوین:
Top