چور

نظام الدین

محفلین
صرف عبادت گزار اور چور ہی رات کے بدن میں دھڑک رہے ہوتے ہیں -

عبادت گزار کے سامنے اس کا مصلیٰ ہوتا ہے اور چور کے سامنے اس کا مسئلہ -

عبادت گزار اندر کے سفر پر روانہ ہوتا ہے اور چور باہر کے سفر پر نکل پڑتا ہے -

وہ اپنے جوتے اتار کر بڑا با ادب ہو کر مختلف گھروں میں یوں داخل ہوتا ہے جیسے کسی مقدس مقام کی زیارت کو آیا ہو -

اگر اس کی آہٹ سے خلق خدا کی نیند میں خلل پڑتا تو وہ شرم کے مارے منہ چھپا کر بھاگ اٹھتا ہے -

کیونکہ ہر چور جانتا ہے کہ اگر وہ سامنے آگیا تو چور کے رتبے سے گر کر ڈاکو اور لٹیرا بن جائیگا -

اسی لیے تو جس گاؤں میں چور کا چکر لگ جائے وہاں کے سیانے اس کے پاؤں کے نشان سنبھال سنبھال کے رکھتے ہیں -

چور اتنا وضعدار اور رکھ رکھاؤ والا ہوتا ہے کہ کچھ مل جائے تو ٹھیک ورنہ چپ چاپ الٹے پاؤں لوٹ جائے گا -

ظاہر ہے وہ رشتےدار تو ہے نہیں کہ کہے اگر تمہارے پاس کچھ دینے کو نہیں تو کسی سے قرض لے دو -

(از ڈاکٹر یونس بٹ " شیطانیاں " )
 
رات دا جاگن اوکھا ہوندا
ہک جاگدا سخت بیمار راتیں
ہک جاگدا چور وی سند اوتے
ہک جاگدا پہرے دار راتیں
ہک جاگدا عشق دی مرض والا
ہک جاگدا یار دا یار راتیں
وارث شاہ ہن سبھے گلاں کوڑیاں
ہکو جاگدا پروردگار راتیں
 
Top