(1)
عبد الباقی
عبدالباقی ایک منچلا نوجوان تھا ، موت کا کوف اسے تھا ہی نہیں ، جس روز اسے پھانسی دی جا رہی تھی ، اس دن بھی مسکراتا رہا ، گول متول چہرہ آنکھ ناک تیکھے، گورا رنگ ، گھنگھریالے بال ، تختہ دار پر بھی اکڑ کے رہا ، سوندھی نے چڑ کر اس بھنگی سے کہا کہ اس کے گلے میں ذرا تیڑھا رسا ڈالو تاکہ جان نکلنے میں ذرا دقت ہو، یہی ہوا ، عبدالباقی دیر تک تڑپتا رہا ، آخر جان ہار گیا ، وہ خان بہادر کے بیٹے پر جی جان سے عاشق تھا، رقابت میں قتل کر ڈالا ، اسے یقین تھا کہ آئندہ زندگی میں دونوں کی ملاقات ہوگی ، اور اسی یقین کے ساتھ اس نے تختہ دار کو لبیک کہا، جس صبح وہ پھانسی پا رہا تھا، اس رات دیر تک گاتا رہا ، اس نے دوہوں مصرعوں ، گیتوں اور ماہیوں کے دفتر الاپ ڈالے ، لحظ بھر کے لیے بھی تالو زبان سے نہ لگائی، موت کو موت ہی سمجھا ، چند دن ہمارے ساتھ رہا ، تاریخ پر امرتسر چلا گیا،وہاں سے موت کی سزا پا کر لاہور آگیا ، یہاں اپیل تک رہا ، جب اپیل خارج ہو گءی ، اور رحم کی درخواست بھی ضابطہ کے مطابق مسترد ہو گءی ، تو موت کی طرف اس تیزی سے قدم بڑھا کر چلا ، جیسے ماں نے اسی دن کے لیے جنا تھا ، بڑے بڑوں کا جی پھانسی کا تختہ دیکھ کر لرز اٹھتا ہے ، اور سینکڑوں سورما موت کو سامنے پا کر سہم جاتے ہیں ، لیکن عبدالباقی موت سے اتنا مطمءن تھا ، جیسے رہا ہو رہا ہو، اور اس کے لیے یہ ساعت بڑی ہی سعید ہے !!
عبد الباقی
عبدالباقی ایک منچلا نوجوان تھا ، موت کا کوف اسے تھا ہی نہیں ، جس روز اسے پھانسی دی جا رہی تھی ، اس دن بھی مسکراتا رہا ، گول متول چہرہ آنکھ ناک تیکھے، گورا رنگ ، گھنگھریالے بال ، تختہ دار پر بھی اکڑ کے رہا ، سوندھی نے چڑ کر اس بھنگی سے کہا کہ اس کے گلے میں ذرا تیڑھا رسا ڈالو تاکہ جان نکلنے میں ذرا دقت ہو، یہی ہوا ، عبدالباقی دیر تک تڑپتا رہا ، آخر جان ہار گیا ، وہ خان بہادر کے بیٹے پر جی جان سے عاشق تھا، رقابت میں قتل کر ڈالا ، اسے یقین تھا کہ آئندہ زندگی میں دونوں کی ملاقات ہوگی ، اور اسی یقین کے ساتھ اس نے تختہ دار کو لبیک کہا، جس صبح وہ پھانسی پا رہا تھا، اس رات دیر تک گاتا رہا ، اس نے دوہوں مصرعوں ، گیتوں اور ماہیوں کے دفتر الاپ ڈالے ، لحظ بھر کے لیے بھی تالو زبان سے نہ لگائی، موت کو موت ہی سمجھا ، چند دن ہمارے ساتھ رہا ، تاریخ پر امرتسر چلا گیا،وہاں سے موت کی سزا پا کر لاہور آگیا ، یہاں اپیل تک رہا ، جب اپیل خارج ہو گءی ، اور رحم کی درخواست بھی ضابطہ کے مطابق مسترد ہو گءی ، تو موت کی طرف اس تیزی سے قدم بڑھا کر چلا ، جیسے ماں نے اسی دن کے لیے جنا تھا ، بڑے بڑوں کا جی پھانسی کا تختہ دیکھ کر لرز اٹھتا ہے ، اور سینکڑوں سورما موت کو سامنے پا کر سہم جاتے ہیں ، لیکن عبدالباقی موت سے اتنا مطمءن تھا ، جیسے رہا ہو رہا ہو، اور اس کے لیے یہ ساعت بڑی ہی سعید ہے !!