چند خاکے

فرید احمد

محفلین
(1)
عبد الباقی
عبدالباقی ایک منچلا نوجوان تھا ، موت کا کوف اسے تھا ہی نہیں ، جس روز اسے پھانسی دی جا رہی تھی ، اس دن بھی مسکراتا رہا ، گول متول چہرہ آنکھ ناک تیکھے، گورا رنگ ، گھنگھریالے بال ، تختہ دار پر بھی اکڑ کے رہا ، سوندھی نے چڑ کر اس بھنگی سے کہا کہ اس کے گلے میں ذرا تیڑھا رسا ڈالو تاکہ جان نکلنے میں ذرا دقت ہو، یہی ہوا ، عبدالباقی دیر تک تڑپتا رہا ، آخر جان ہار گیا ، وہ خان بہادر کے بیٹے پر جی جان سے عاشق تھا، رقابت میں قتل کر ڈالا ، اسے یقین تھا کہ آئندہ زندگی میں دونوں کی ملاقات ہوگی ، اور اسی یقین کے ساتھ اس نے تختہ دار کو لبیک کہا، جس صبح وہ پھانسی پا رہا تھا، اس رات دیر تک گاتا رہا ، اس نے دوہوں مصرعوں ، گیتوں اور ماہیوں کے دفتر الاپ ڈالے ، لحظ بھر کے لیے بھی تالو زبان سے نہ لگائی، موت کو موت ہی سمجھا ، چند دن ہمارے ساتھ رہا ، تاریخ پر امرتسر چلا گیا،وہاں سے موت کی سزا پا کر لاہور آگیا ، یہاں اپیل تک رہا ، جب اپیل خارج ہو گءی ، اور رحم کی درخواست بھی ضابطہ کے مطابق مسترد ہو گءی ، تو موت کی طرف اس تیزی سے قدم بڑھا کر چلا ، جیسے ماں نے اسی دن کے لیے جنا تھا ، بڑے بڑوں کا جی پھانسی کا تختہ دیکھ کر لرز اٹھتا ہے ، اور سینکڑوں سورما موت کو سامنے پا کر سہم جاتے ہیں ، لیکن عبدالباقی موت سے اتنا مطمءن تھا ، جیسے رہا ہو رہا ہو، اور اس کے لیے یہ ساعت بڑی ہی سعید ہے !!
 

فرید احمد

محفلین
(2)
اونکار ناتھ
دہلی کے ایک نوجوان اور لالہ اونکار ناتھ ہمارے ساتھ اسی وارڈ میں تھے ، بڑے ہی ہنس مکھ ، متواضع ، خوبرو ، کوش خصلت ، میر کا شعر ہے :
دلی کے نہیں کوچے اوراق مصور ہیں
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
انکار ناتھ ہو بہو اس کا عکس تھا، تعصب ان کے تصور میں سے بھی نہیں گذرا تھا ۔ گنتی بند ہونے سے پہلے ہر ساتھی کے پاس جاتے ، خیر خیریت پوچھتے ، اور یہ زبانی کلامی ہی نہیں تھا، ، بلکہ خدمت بھی کرتے تھے ، لوگوں کو کلھاکے خوش ہوتے ، دہلی سے ہفتہ میں دو بار ان کے لیے مٹھائی آتی ، دوستوں کو باقاعدہ بھیجتے ، اور اس میں خوشی محسوس کرتے تھے ، جتنے دن رہے ، چہل پہل رہی ، تمام لوگ عقیدہ و خیال کی بوقلمونی کے باوجود ان سے خوش تھے ، تیسرے ایک معمر انسان ڈاکٹر سکھ دیو لا تھے ، جن کا ذکر پہلے آچکا ہے ، کٹر آریہ سماجی ، لیکن بڑے خوش مزاج ، بڑھاپے میں بھی باغ و بہار ، لیڈروں کے واقعات سنا کر خوش کیا کرتے تھے ۔
 

فرید احمد

محفلین
(3)
اکبر
اکبر اپنی شادی کے مہینہ یا سوا مہینہ بعد جیل آگیا تھا ، اس کو اپنی بیوی کی جوانی اور جدائی کا شدید احساس تھا ، اچانک ماں پر مرض الموت نے حملہ کیا ، اور وہ جوان بیٹے کو ایک نظر دیکھ لینے کی خواہش لے کر مر گئ ، کچھ لوگوں نے چاہا کہ اکبر کو ایک دن کے لیے پیرول پر رہاءی مل جائے ، کیوں کہ انفرادی ستیہ گرہ کے دوران پنجاب کے بہت سے کانگریسی فرضی اور حقیقی رشتہ داروں کی بیماری یا موت کے عذر پر رہا ہوتے رہے تھے ، لیکن یہ ایک خاکسار کا معاملہ تھا ، کامیابی نہ ہوئی ، اکبر کے اعزہ جانزہ لے کر سنٹرل جیل کے دروازہ پر پہنچے ، سید امیر شاہ نے خدا ترسی کی اور میت کو ڈیوڑھی میں رکھوا دیا ،اکبر کو بلایا کہ ماں کا چہرہ دیکھ لے ، اکبر نے اشکبار چہرے کے ساتھ ماں کو آخری سلام کیا اور الٹے پاوں پچھاڑیں کھاتا بارک میں آگیا ، پھر دنوں تک آہوں میں مستغرق رہا ، لیکن بے بس تھا ۔
 

فرید احمد

محفلین
(4)
میگھ راج
میگھ راج ایک دھان ہان نوجوان تھا ، رنگ گیہویں کے خوشوں کی طرح صاف ، گالبی نورانی ، قامت پستہ اور منحنی ، آنکھیں روشن اور متحرک ، ماتھا کشادہ ، ناک ستواں ، بڑاہی خوش اخلاق اور خوش اطوار ، اس کی بیاض میں مومن ، میر ، غالب ، اختر، حفیظ ، بیدم ، اور اقبال کی بہت سے غزلیں درج تھیں ، رات کے تاریک سناٹے میں الاپتا تو سماں بندھ جاتا ، قدرت نے اس کی آواز میں جادو بھر دیا تھا ، مالکونسمیں ہر شخص گا لیتا ہے ، لیکن وہ عموما پہاڑی میں گاتا ، طبیعت موم کی طرح پگھلنے لگتی ، محسوس ہوتا جیسے زنجیریں ٹوٹ رہی ہوں ، وہ خود بھی غمگیں تھا ، اور اس کی آواز سے بھی آنسووں کا ترشح ہوتا تھا ، عموما بیدم کی یہ غزل گاتا :
وہ چلے جھٹک کے دامن میرے دست ناتواں سے
اسی دن کا آسرا تھا مجھے مرگ ناگہاں سے
 

فرید احمد

محفلین
(5)
ایک اور ساتھی
ہماری بد قسمتی سے انہی دنوں لدھیانے سے ایک اور ساتھی چرن شرما آ گیا ، کہنے کو ڈاکٹر لیکنن عطائی ، ذات کا برہمن ، لباس کانگریسی مگر ذہن مہاسبھائی ، چال چلن داغدار ، راجندر سنگھ آتش کا ہم نوا ، ہم لوگ تو شیر شنگھ سے بولتے نہیں تھے ، صرف راجندر سنگھ کھسر پھسر کرتا یا ب کالی چرن شریک ہو گیا ، اپنے برہمن ہونے کی وجہ سے پنڈت من موہن ناتھ سپرٹنڈنٹ جیل کا معتقد ہو کر معتمد ہونا چاہا ۔
پھر جانے کم بخت کو کیا سوجھی ، ایک دن خود ہی مشقت طلب کی ۔ اور چرخہ کاتنے لگا ، شپرٹنڈنٹ کے ہفتہ وار معاینہ پر ہم پریڈ نہیں لگاتے تھے ، اس نے باقاعدہ لگانی شروع کی ، ٹوکا اور روکا تو کہا میں آپ کا ساتھی نہیں ، گاندھی وادی ہوں ، ہم نے کہا گاندھی وادی یہ نہیں کرت جو تم کر رہے ہو ، ہم نے جو کچھ لگاتار جد وجہد سے حاصل کیا اس کو برباد کرنا چاہتے ہو ؟ تم نے خوشامد کی ایک نئی راہ نکالی ہے ، بولا میں برہمن ہوں ، سپرٹنڈنٹ جیل بھی برہمن ہے ، میں ان کی خوشامد نہیں ، تعظیم کرتا ہوں ، غرض اس قسم کے اشقلے چھوڑنے میں مشاق تھا ، ایک دن ہم نے اس کی مرمت کر ڈالی ، راجندر سنگھ آتش نے ہم سے تیسری دفعہ آنکھیں چار کیں ، اتفاق سے دو اور سکھ قیدی بھی آچکے تھے ، انہوں نے ہمارا ساتھ دیا ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کالی چرن اور راجندر سنگھ کچھ دنوں عیش کرنے جیل بھجوا دئیے گیے ، جہاں انہیں دودھ مکھن ملنے لگا ، ہم از سر نو"شیر سنگھی حرکات"کا شکار ہو گیے ۔
 
Top