چند اشعار در مدح صحابہ رضوان اللہ علیم اجمعین۔۔۔! والد گرامی جناب نصراللہ مہر صاحب

متلاشی

محفلین
استاذ گرامی جناب محمد یعقوب آسی صاحب۔۔۔ کیا

بعد ان کی محبت کے سفر صرف تھکن ہے
منزل کوئی پائے گا نہ پائی ہے کسی نے
کیا اس شعر کے پہلے مصرع سے وہی مفہوم ادا ہو رہا ہے جو شاعر کا مقصود ہے ۔۔۔ یا اُس کے اُلٹ ۔۔۔ کسی نے اس پر اعتراض کیا تھا۔۔۔؟ تسلی کے پوچھنا چاہ رہا تھا۔۔۔!
 
محترمہ! یہ روایت اگرچہ سند کے لحاظ سے موضوع ہے مگر صحابہ کو ستاروں سے تشبیہ دینا مسلم شریف کی ایک روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے درست ہے:
[ARABIC]عَنْ أَبِى بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ صَلَّيْنَا الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- ثُمَّ قُلْنَا لَوْ جَلَسْنَا حَتَّى نُصَلِّىَ مَعَهُ الْعِشَاءَ - قَالَ - فَجَلَسْنَا فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ « مَا زِلْتُمْ هَا هُنَا ». قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّيْنَا مَعَكَ الْمَغْرِبَ ثُمَّ قُلْنَا نَجْلِسُ حَتَّى نُصَلِّىَ مَعَكَ الْعِشَاءَ قَالَ « أَحْسَنْتُمْ أَوْ أَصَبْتُمْ ». قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ وَكَانَ كَثِيرًا مِمَّا يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ « النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ وَأَنَا أَمَنَةٌ لأَصْحَابِى فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِى مَا يُوعَدُونَ وَأَصْحَابِى أَمَنَةٌ لأُمَّتِى فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِى أَتَى أُمَّتِى مَا يُوعَدُونَ ».[/ARABIC]
(صحيح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب بیان ان بقاء النبی امان لاصحابہ، 7/ 183 ، الرقم:6629)

بہت درست فرمایا حضور آپ نے۔
 
استاذ گرامی جناب محمد یعقوب آسی صاحب۔۔۔ کیا


کیا اس شعر کے پہلے مصرع سے وہی مفہوم ادا ہو رہا ہے جو شاعر کا مقصود ہے ۔۔۔ یا اُس کے اُلٹ ۔۔۔ کسی نے اس پر اعتراض کیا تھا۔۔۔ ؟ تسلی کے پوچھنا چاہ رہا تھا۔۔۔ !

یہ تعقید معنوی کہلاتی ہے۔ یہاں شدت کچھ زیادہ ہو گئی ہے۔
باقی استاد محترم ہی فرمائیں۔
 
بعد ان کی محبت کے سفر صرف تھکن ہے
منزل کوئی پائے گا نہ پائی ہے کسی نے

اگر یہاں لفظ ’’بعد‘‘ کی اصل ’’بُعد‘‘ (دُوری) ہے تو شعر کا مفہوم درست ضرور ہے، واضح نہیں ہے۔
یعنی: ’’اُن کی محبت سے دُور رہ کر یا دُوری اختیار کر کے ۔۔۔۔ ‘‘

اردو میں لفظ ’’بَعد‘‘ کے معروف معانی (انگریزی: then، عربی: ثُمَّ) ہیں، قاری کا ذہن مندرجہ بالا معانی (دُوری) کی طرف مائل نہیں ہوتا۔

مناسب یہی ہے کہ اس مصرعے میں مناسب ترمیم کر لی جائے۔
 

تبسم

محفلین
:khoobsurat: بہت ہی اچھے لگے اشعار
ہیں آپ کے ہاتھوں ہی سے ترشے ہوئے ہیرے
اسلام کے دامن میں یہ تابندہ نگینے

بعد ان کی محبت کے سفر صرف تھکن ہے
منزل کوئی پائے گا نہ پائی ہے کسی نے
 
عمدہ اشعار ہیں۔
علم الحدیث کے حوالے سے جو گفتگو یہاں چل نکلی ہے، اس میں فریقین پر لازم ہے کہ اپنی اپنی بات پوری سند کے ساتھ بیان کر دیں، پھر اس بحث کو روک دیں (بحث در بحث سے گریز کریں)۔
اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے کہ وہ (ربِ کریم) جسے چاہے سیدھے راستے پر چلا دے۔
آمین، یہ مشہور موضوع حدیث ہے اس لیے سند بیان نہیں کی تھی۔ مزید بات بھی اسی لیے نہیں کی کہ بہرحال یہ شعر و ادب کا موضوع ہے ۔
محترمہ! یہ روایت اگرچہ سند کے لحاظ سے موضوع ہے مگر صحابہ کو ستاروں سے تشبیہ دینا مسلم شریف کی ایک روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے درست ہے:
[ARABIC]عَنْ أَبِى بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ صَلَّيْنَا الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- ثُمَّ قُلْنَا لَوْ جَلَسْنَا حَتَّى نُصَلِّىَ مَعَهُ الْعِشَاءَ - قَالَ - فَجَلَسْنَا فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ « مَا زِلْتُمْ هَا هُنَا ». قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّيْنَا مَعَكَ الْمَغْرِبَ ثُمَّ قُلْنَا نَجْلِسُ حَتَّى نُصَلِّىَ مَعَكَ الْعِشَاءَ قَالَ « أَحْسَنْتُمْ أَوْ أَصَبْتُمْ ». قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ وَكَانَ كَثِيرًا مِمَّا يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ « النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ وَأَنَا أَمَنَةٌ لأَصْحَابِى فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِى مَا يُوعَدُونَ وَأَصْحَابِى أَمَنَةٌ لأُمَّتِى فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِى أَتَى أُمَّتِى مَا يُوعَدُونَ ».[/ARABIC]
(صحيح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب بیان ان بقاء النبی امان لاصحابہ، 7/ 183 ، الرقم:6629)​

جزاک اللہ خیرا وبارک فیک ۔ آپ نے بالکل درست فرمایاِ ۔ تشبیہ کی حد تک بات درست ہے لیکن ۔۔۔ صاحب موضوع کی اجازت سے عرض کروں کہ شعر میں کہا گیا ہے :
ہیں مثل ستاروں کے مری بزم کے ساتھی​
اصحاب کے بارے میں یہ فرمایا نبی نے​
گویا یہاں تصریح ہے کہ یہ الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں ۔ جب کہ صحیح مسلم کی حدیث میں یہ لفظ نہیں ہیں ۔ اور دوسری طرف موضوع حدیث میں واضح طور پر موجود ہیں ۔ اصحابی کالنجوم ۔۔۔الخ۔
یہاں اس بات کو بھی مدنظر رکھیے کہ روایۃ باللفظ اور بالمعنی کی کیا شرائط ہیں اور امام مسلم رحمہ اللہ روایۃ باللفظ کے معاملے میں کتنے محتاط تھے ؟
کیوں نہ ہم دین دار لوگ شعر و ادب میں اصحابی امنۃ لامتی کو رواج دیں کہ وہ ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں اور اصحابی کالنجوم سے پرہیز کریں کہ وہ ایک واضع کے الفاظ ہیں ۔ یہ میرا آخری مراسلہ ہو گا ۔ برادر محترم کے حکم کے مطابق۔ اللہ تعالی ان کی دعا ہم سب کے حق میں قبول فرمائے ۔
 
آمین، یہ مشہور موضوع حدیث ہے اس لیے سند بیان نہیں کی تھی۔ مزید بات بھی اسی لیے نہیں کی کہ بہرحال یہ شعر و ادب کا موضوع ہے ۔


جزاک اللہ خیرا وبارک فیک ۔ آپ نے بالکل درست فرمایاِ ۔ تشبیہ کی حد تک بات درست ہے لیکن ۔۔۔ صاحب موضوع کی اجازت سے عرض کروں کہ شعر میں کہا گیا ہے :
ہیں مثل ستاروں کے مری بزم کے ساتھی​
اصحاب کے بارے میں یہ فرمایا نبی نے​
گویا یہاں تصریح ہے کہ یہ الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں ۔ جب کہ صحیح مسلم کی حدیث میں یہ لفظ نہیں ہیں ۔ اور دوسری طرف موضوع حدیث میں واضح طور پر موجود ہیں ۔ اصحابی کالنجوم ۔۔۔ الخ۔
یہاں اس بات کو بھی مدنظر رکھیے کہ روایۃ باللفظ اور بالمعنی کی کیا شرائط ہیں اور امام مسلم رحمہ اللہ روایۃ باللفظ کے معاملے میں کتنے محتاط تھے ؟
کیوں نہ ہم دین دار لوگ شعر و ادب میں اصحابی امنۃ لامتی کو رواج دیں کہ وہ ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں اور اصحابی کالنجوم سے پرہیز کریں کہ وہ ایک واضع کے الفاظ ہیں ۔ یہ میرا آخری مراسلہ ہو گا ۔ برادر محترم کے حکم کے مطابق۔ اللہ تعالی ان کی دعا ہم سب کے حق میں قبول فرمائے ۔
بسروچشم۔
جزاکِ اللہ خیرا۔
 
استاذ گرامی جناب محمد یعقوب آسی صاحب۔۔۔ کیا
بعد ان کی محبت کے سفر صرف تھکن ہے
منزل کوئی پائے گا نہ پائی ہے کسی نے​

کیا اس شعر کے پہلے مصرع سے وہی مفہوم ادا ہو رہا ہے جو شاعر کا مقصود ہے ۔۔۔ یا اُس کے اُلٹ ۔۔۔ کسی نے اس پر اعتراض کیا تھا۔۔۔ ؟ تسلی کے پوچھنا چاہ رہا تھا۔۔۔ !
یہاں بجز تو نہیں ؟
 
Top