چشمِ حیرت تو بتا کیسا تماشا ہو گیا۔۔۔ انور گل

عمراعظم

محفلین
چشمِ حیرت تو بتا کیسا تماشا ہو گیا
کس نے چھوڑا ہے تجھے اور کون تیرا ہو گیا

دے گیا دریائے دل کو ایک صحرا کا وجود
میرے دل کے راستے سے کون پیاسا ہو گیا

تذکرہ تھا شہر میں خاموشیوں کی لہر کا
کہ اچانک ہی گلی میں شور برپا ہو گیا

شہر کو بھی آ گیا چہرہ بدلنے کا ہنر
مان لو اب شہر بھی آپ جیسا ہو گیا

کس کی شہرت تھی تمہارے شہر میں بالائے بام
کو پستی میں گرا ہے کون رسوا ہو گیا

بارہا ایسا ہوا کہ سانس بھی رکنے لگی
بار ہا ایسا ہوا کہ حوصلہ سا ہو گیا

جب تلک دل میں رہا تو شبنمی انداز تھا
قطرہء خوں آنکھ میں آیا تو دریا ہو گیا

دل تڑپ ’اٹھتا ہے ترکِ دوستی کے نام پر
ہم بظاہر تو یہی کہتے ہیں کہ "اچھا ہو گیا"

کس لئے حرکت میں ہیں یہ ہم نوایانِ یزید
کیا کوئی پھر جانبِ کوفہ روانہ ہو گیا

کاٹ ڈالی ہم نے انور اپنے جذبوں کی زباں
جس سے دل کی بات کرتے تھے وہ بہرہ ہو گیا

انور گل
 
Top