چاہے جتنی قانون سازی کر لیں، اسٹیبلشمنٹ کے کردار تک انتخابات متنازع رہیں گے، بلاول

چاہے جتنی قانون سازی کر لیں، اسٹیبلشمنٹ کے کردار تک انتخابات متنازع رہیں گے، بلاول
ویب ڈیسک 03 مئ 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
608ff4d56dcc4.png

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے انتخابی اصلاھات ضروری ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحات بہت ضروری ہیں اور اگر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا فعال کردار ہے تو پھر ہم چاہے جتنی بھی قانون سازی کر لیں، انتخابات متنازع رہیں گے۔

کراچی میں بے نظیر مزدور کارڈ کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مزدور تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ہوں یا پھر گھروں میں کام کررہے ہوں، اگر آپ مزدور کارڈ میں رجسٹر ہوں گے تو ان کو بے نظیر مزدور کارڈ ملے گا اور وہ انہی سہولیات سے استفادہ کر سکیں گے جو صنعتی مزدوروں تک محدود رہی ہیں۔


انہوں نے کہا کہ بے نظیر مزدور کارڈ ایک انقلابی قدم ہے اور پورے پاکستان میں مزدوروں کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور لیبر پالیسی کے سلسلے میں بہت بڑا قدم اٹھایا گیا ہے اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں کیونکہ ہمارے نظریے اور منشور کے مطابق جب مزدور خوشحال ہو گا تو ہی ہماری صنعت اور معیشت خوشحال ہو گی۔


انہوں نے کہا کہ بے نظیر مزدور کارڈ سے ہم مزدوروں کو صحت اور علاج کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنا سکیں گے، زچگی کے دوران بھی یہ کارڈ قابل استعمال ہو گا، حادثے میں موت ہوتی ہے تو امدادی رقم فراہم کی جائے گی اور اس کے علاوہ بھی کئی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خواب ہے کہ بے نظیر مزدور کارڈ کو ہر مزدور کے ہاتھ میں پہنچا دیں تاکہ ہم سماجی تحفظ کی سوچ جانب بڑھ سکیں جو پیپلز پارٹی کے منشور کا اہم حصہ ہے۔

بلاول نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اس ملک کی خواتین کے لیے انقلابی قدم شروع کیا گیا تھا اور بے نظیر مزدور کارڈ سے ہم پاکستان کے مزدوروں کے لیے انقلابی قدم کا آغاز کررہے ہیں اور اس سے ہم ذوالفقار علی بھٹو کی لیبر پالیسی کو آگے لے کر چلیں گے۔




انہوں نے کہا کہ ای او بی آئی کا ورکرز ویلفیئر فنڈز کے اختیارات کی منتقلی کو 18ویں ترمیم کے مطابق 2015 تک منتقل ہو جانا چاہیے تھے لیکن یہ نہیں ہوا، لہٰذا ہم مطالبہ دہراتے ہیں کہ ای او بی آئی ورکرز ویلفیئر فنڈز کے اختیارات فی الفور صوبے کو دیے جائیں تاکہ صوبے اپنے مزدوروں کے لیے زیادہ کام کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر 6 لاکھ صنعتی مزدوروں کو یہ کارڈ دیے جائیں گے اور ان کی رجسٹریشن کا عمل الیکٹرانک ہو گا لہٰذا جو مزدور ابھی تک صنعتوں میں رجسٹر نہیں ہیں وہ خود کو رجسٹر کرائیں تاکہ اس سے استفادہ کر سکیں۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے مزدوروں کی رجسٹریشن کے عمل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت نادرا کے دفاتر میں کاؤنٹر موجود ہیں لیکن تعداد بڑھنے کے بعد بڑی صنعتوں میں بھی کاؤنٹر بنائیں گے تاکہ وہاں کے مزدور بھی خود کو رجسٹر کرا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈیمانڈ بڑھنے کے ساتھ موبائل سینٹرز بھی بنیں گے اور گاڑیاں مختلف علاقوں میں جا کر لوگوں کی اسی طرح رجسٹریشن کریں گی جیسے نادرا کی گاڑیاں کرتی ہیں اور نادرا کے کارڈز کی طرز پر ہی کارڈ بنائیں گے۔


ایک سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی مسلسل انتخابی اصلاحات پر کام کرتی آ رہی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ 2018 اور اسے قبل جو دھاندلی کی گئی، ایسا دوبارہ ہو اور اس کے لیے اصلاحات کرنی پڑیں گی جس کے لیے ہم تیار ہیں جبکہ الیکشن کمیشن اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ حکومت کے مؤقف کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا اور یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ دھاندلی کرنے والے کے ساتھ بیٹھ کر دھاندلی کو روکیں، اس سلسلے میں قانون سازی اور اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی روکنے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی نکتہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے اور اگر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا فعال کردار ہے تو پھر ہم چاہے جتنی بھی قانون سازی کر لیں، انتخابات متنازع رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اسٹیشلشمنٹ کو انتخابات سے دور رکھ سکتے ہیں، ان کا رویہ غیرجانبدار رہتا ہے تو پھر انتخابی اصلاحات کا بھی فائدہ ہو گا اور الیکشن میں دھاندلی بھی کم ہو گی۔

بلاول نے کہا کہ آپ سب نے دیکھا کہ این اے-249 کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی فعال کردار نہیں رہا تو ہم یہی چاہیں گے کہ اس اتفاق رائے کے ساتھ اصلاحات ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست اور انتخابی اصلاحات میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔


انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کو اگر انتخابات پر کوئی اعتراض ہے تو آپ کے پاس فورم دستیاب ہے، یہ ان کا حق ہے کہ اگر ان کے پاس کسی گڑبڑ کا کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو وہ الیکشن کمیشن سے ضرور امید رکھیں اور فوج سے اپیل نہ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن) ایک سیٹ ہار کر فوج سے انتخابی عمل میں مداخلت کی اپیل نہ کرے، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر فوج کا الیکشن میں کردار ہو تو یہ انتخابی عمل کے لیے نقصان دہ ہے جیسے کہ 2018 کے انتخابات میں پاکستان کے ہر پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوج تعینات تھی اور پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوج اسی انتخابات میں تعینات کی گئی تھی۔

بلاول نے کہا کہ 2008 اور 2013 میں جب دہشت گردی عروج پر تھی تو اس وقت فوج تعینات نہیں کی گئی تھی اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے ناصرف الیکشن متنازع ہوتے ہیں بلکہ پاکستان کی فوج بھی بلاوجہ متنازع ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مسلم لیگ(ن) کی جانب سے فوج سے کی گئی اپیل کے مطالبے کا ہرگز ساتھ نہیں دیتے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے یہ غیرذمے دارانہ مطالبہ ہے کہ پولنگ باکسز کو فوج کی تحویل میں دیا جائے، ہم اس مطالبے کی حمایت نہیں کر سکتے۔


ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کا واقعہ جس دن پیش آیا، اس دن ہمارے انتخابات چل رہے تھے، وہاں کام کو روکا جا چکا ہے اور مجھے اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ کی رپورٹ کا انتظار ہے۔

بلاول کی مزدور رہنماؤں سے ملاقات
پریس کانفرنس سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلاول ہاؤس میں مزدور رہنماؤں سے ملاقات کی، ملاقات کے موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، وزیر محنت سعید غنی اور وزیراطلاعات ناصرشاہ بھی موجود تھے۔

ملاقات میں مزدور رہنماؤں نے ملک میں موجودہ مہنگائی کے تناظر میں مزدوروں کے حالات پر بریفنگ دی اور سندھ حکومت کی جانب سے بے نظیر مزدور کارڈ کے اجرا کے عمل کو سراہا۔
 

حسرت جاوید

محفلین
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحات بہت ضروری ہیں اور اگر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا فعال کردار ہے تو پھر ہم چاہے جتنی بھی قانون سازی کر لیں، انتخابات متنازع رہیں گے۔
متفق۔
 

جاسم محمد

محفلین
جتنی قانون سازی کر لیں، اسٹیبلشمنٹ کے کردار تک انتخابات متنازع رہیں گے، بلاول
۷۳ کے آئین سے لیکر ۱۸ ویں ترمیم تک ہر انتخابات میں دھاندلی فوج نے کروائی۔ سول انتظامیہ کا تو اس میں کوئی قصور ہی نہیں تھا۔
“انتخابات کے دو دن بعد حکمران جماعت کے انتہائی اہم افراد اجلاس میں شریک تھے۔ سب خوش تھے کیونکہ اکیلے ان کی پارٹی نے نو پارٹیوں کو شکست دی تھی ۔ وہ سب مسکراتے چہروں کے ساتھ پی ایم ہاؤس میں موجود بھٹو کی طرف دیکھ رہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ کب وہ کچھ بول کر خاموشی توڑ دیں ۔ کچھ ہی لمحوں بعد بھٹو نے حفیظ پیرزادہ کی طرف دیکھا اور گویا ہوکر خاموشی توڑ ہی دی' "حفیظ کتنی سیٹوں پر گڑ بڑ ہوئی ہوگی"؟
حفیظ پیرزادہ نے برجستہ جواب دیا " سر تیس سے چالیس تک ۔۔۔۔ بھٹو نے یہ سنا تو وہاں موجود تمام افراد سے پوچھا ۔" کیا پی این اے والوں سے بات نہیں ہو سکتی کہ وہ ان تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کردیں ہم ضمنی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے ؟ اس کہانی کا ذکر بھٹو مرحوم کے دست راست اور انتہائی قابل اعتماد ساتھی مولانہ کوثر نیازی نے اپنی کتاب "اور لائن کٹ گئی" میں کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ سن کر میرے چودہ طبق روش ہوگئے کیونکہ میں پورے الیکشن کمپین کے دوران اس بات سے بے خبر رہا کہ بھٹو صاحب نے دھاندلی کا منصوبہ بھی بنایا ہے جس کی قطعاً ضرورت نہ تھی ۔ یہ وہ دور تھا جب 1977 ء کے انتخابات ہوچکے تھے جس میں پیپلز پارٹی جیت چکی تھی اور نو پارٹیوں پر مشتمل اتحاد (پی این اے) انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر سڑکوں پر احتجاج میں مصروف تھا”
https://daleel.pk/2019/04/14/99980/amp
 

جاسم محمد

محفلین
بلاول نے کہا کہ آپ سب نے دیکھا کہ این اے-249 کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی فعال کردار نہیں رہا تو ہم یہی چاہیں گے کہ اس اتفاق رائے کے ساتھ اصلاحات ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست اور انتخابی اصلاحات میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔
جہاں ہم جیتیں وہاں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی فعال کردار نہیں رہا۔ اگر وہاں الیکشن ٹھیک ہوئے ہیں تو الیکشن کمیشن نے نتائج کیوں روک رکھے ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
بلاول نے کہا کہ 2008 اور 2013 میں جب دہشت گردی عروج پر تھی تو اس وقت فوج تعینات نہیں کی گئی تھی اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے ناصرف الیکشن متنازع ہوتے ہیں بلکہ پاکستان کی فوج بھی بلاوجہ متنازع ہوتی ہے۔
بلاول کو کوئی یاد کروائے ان کے ابا جی نے ۲۰۱۳ کے الیکشن کو بھی دھاندلی زدہ قرار دیا تھا
PPP never lost polls except for 'RO elections': Zardari - Pakistan - Dunya News
 

جاسم محمد

محفلین
۱۹۷۷ کے انتخابات میں دھاندلی خود بھٹو نے کروائی تھی:
۷۳ کے آئین سے لیکر ۱۸ ویں ترمیم تک ہر انتخابات میں دھاندلی فوج نے کروائی۔ سول انتظامیہ کا تو اس میں کوئی قصور ہی نہیں تھا۔
“انتخابات کے دو دن بعد حکمران جماعت کے انتہائی اہم افراد اجلاس میں شریک تھے۔ سب خوش تھے کیونکہ اکیلے ان کی پارٹی نے نو پارٹیوں کو شکست دی تھی ۔ وہ سب مسکراتے چہروں کے ساتھ پی ایم ہاؤس میں موجود بھٹو کی طرف دیکھ رہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ کب وہ کچھ بول کر خاموشی توڑ دیں ۔ کچھ ہی لمحوں بعد بھٹو نے حفیظ پیرزادہ کی طرف دیکھا اور گویا ہوکر خاموشی توڑ ہی دی' "حفیظ کتنی سیٹوں پر گڑ بڑ ہوئی ہوگی"؟
حفیظ پیرزادہ نے برجستہ جواب دیا " سر تیس سے چالیس تک ۔۔۔۔ بھٹو نے یہ سنا تو وہاں موجود تمام افراد سے پوچھا ۔" کیا پی این اے والوں سے بات نہیں ہو سکتی کہ وہ ان تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کردیں ہم ضمنی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے ؟ اس کہانی کا ذکر بھٹو مرحوم کے دست راست اور انتہائی قابل اعتماد ساتھی مولانہ کوثر نیازی نے اپنی کتاب "اور لائن کٹ گئی" میں کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ سن کر میرے چودہ طبق روش ہوگئے کیونکہ میں پورے الیکشن کمپین کے دوران اس بات سے بے خبر رہا کہ بھٹو صاحب نے دھاندلی کا منصوبہ بھی بنایا ہے جس کی قطعاً ضرورت نہ تھی ۔ یہ وہ دور تھا جب 1977 ء کے انتخابات ہوچکے تھے جس میں پیپلز پارٹی جیت چکی تھی اور نو پارٹیوں پر مشتمل اتحاد (پی این اے) انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر سڑکوں پر احتجاج میں مصروف تھا”
https://daleel.pk/2019/04/14/99980/amp
جتنے کارنامے جرنیلوں کے ہیں اس سے زیادہ کارنامے جمہوری انقلابیوں کے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
توَ؟ اس میں میرا کیا قصور ہے؟ :rolleyes:
تو اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ سول انتظامیہ کا کردار مشکوک ہے جو ہر الیکشن کو متنازعہ بنا دیتی ہے۔ ڈسکہ الیکشن میں فوج نہیں تھی۔ بلدیہ الیکشن میں فوج نہیں تھی۔ اس کے باوجود دونوں جگہ ہارنے والوں کی درخواستوں پر الیکشن کمیشن کو نتائج روکنے پڑے۔ یہ صرف حالیہ ضمنی الیکشنز کا حال بیان کیا ہے۔ عام انتخابات میں کیا کچھ نہیں ہوتا ہوگا۔
 

حسرت جاوید

محفلین
اس میں میری دانست میں دو باتیں آتی ہیں۔
اول کہ قانون سازی کا عمل اسٹیبلشمنٹ کے غیر فعال ہونے کے انتظار میں منجمند نہیں کیا جا سکتا۔
دوم ممکن ہے اگر ہم مستقل پیمانوں پر جاری قانون سازی کے عمل کو جاری رکھیں تو اس کی بدولت اسٹیبلشمنٹ کا زور ٹوٹے۔
لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے وہ عناصر جن کا الیکشن سے بالواسطہ کوئی تعلق نہیں جب تک فعال رہتے ہیں الیکشن کا عمل متاثر ہوتا رہے گا۔
 

حسرت جاوید

محفلین
تو اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ سول انتظامیہ کا کردار مشکوک ہے جو ہر الیکشن کو متنازعہ بنا دیتی ہے۔ ڈسکہ الیکشن میں فوج نہیں تھی۔ بلدیہ الیکشن میں فوج نہیں تھی۔ اس کے باوجود دونوں جگہ ہارنے والوں کی درخواستوں پر الیکشن کمیشن کو نتائج روکنے پڑے۔ یہ صرف حالیہ ضمنی الیکشنز کا حال بیان کیا ہے۔ عام انتخابات میں کیا کچھ نہیں ہوتا ہوگا۔
میچورٹی آتے آتے آتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اگر غیر فعال ہو جائے تو چاہے دیر سے ہی سہی سیاستدان وقت کے ساتھ ساتھ میچور ہو جائیں گے۔ اب آپ کہتے ہیں بچہ پیدا ہوتے ساتھ ہی بولنا شروع کر دے تو یہ ممکن نہیں اور اس بات پہ آپ بچے کو مسلسل کوستے رہیں کہ بولتے کیوں نہیں اس سے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس میں میری دانست میں دو باتیں آتی ہیں۔
اول کہ قانون سازی کا عمل اسٹیبلشمنٹ کے غیر فعال ہونے کے انتظار میں منجمند نہیں کیا جا سکتا۔
دوم ممکن ہے اگر ہم مستقل پیمانوں پر جاری قانون سازی کے عمل کو جاری رکھیں تو اس کی بدولت اسٹیبلشمنٹ کا زور ٹوٹے۔
لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے وہ عناصر جن کا الیکشن سے بالواسطہ کوئی تعلق نہیں جب تک فعال رہتے ہیں الیکشن کا عمل متاثر ہوتا رہے گا۔
الیکشن کے دوران بطور سیکورٹی فوج کو بلوا لیں تو اس پر دھاندلی کا الزام لگ جاتا ہے۔ اور جب فوج موجود نہ ہو تو سیکورٹی کے فقدان کی وجہ سے پورا الیکشن دوبارہ کروانا پڑتا ہے۔ جیسا کہ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں ہوا۔ اور کل بلدیہ الیکشن میں مفتاح اسماعیل کی انوکھی فرمائش آئی کہ ووٹ سے بھرے ڈبے فوج کی تحویل میں دے دیں کہ پولیس پر اعتبار نہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
میچورٹی آتے آتے آتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اگر غیر فعال ہو جائے تو چاہے دیر سے ہی سہی سیاستدان وقت کے ساتھ ساتھ میچور ہو جائیں گے۔ اب آپ کہتے ہیں بچہ پیدا ہوتے ساتھ ہی بولنا شروع کر دے تو یہ ممکن نہیں اور اس بات پہ آپ بچے کو مسلسل کوستے رہیں کہ بولتے کیوں نہیں اس سے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔
اسٹیبلشمنٹ نے ۱۹۹۰ کے الیکشن میں نواز شریف کے حق میں دھاندلی کروائی۔ اس کا عدالت عظمی میں اعتراف بھی کیا۔ اس الیکشن کے علاوہ ہر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات سول انتظامیہ پر لگے ہیں۔ جس پر آج تک کسی نے معافی مانگی نہ اصلاح کی۔
1990 election was rigged, rules SC - Pakistan - DAWN.COM
 

علی وقار

محفلین
قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر شریک ہونا چاہیے اور اسٹیبلشمنٹ سے متعلق بلاول صاحب جو فرما رہے ہیں، وہ محض سیاسی بیان ہے۔ پنڈی بوائز کی جانب سے ایک ٹیلی فون کال آ جائے تو پیپلز پارٹی، نون لیگ اور تحریک انصاف کے اکابرین پھولے نہیں سماتے۔ ان کے لچھن ایسے نہیں کہ یہ سیاسی قیادت کوئی جوہری تبدیلی لا سکے۔ وہ جو ہیں نا، وہ سب کو الگ الگ کر کے مارتے رہے ہیں اور مارتے رہیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر شریک ہونا چاہیے اور اسٹیبلشمنٹ سے متعلق بلاول صاحب جو فرما رہے ہیں، وہ محض سیاسی بیان ہے۔ پنڈی بوائز کی جانب سے ایک ٹیلی فون کال آ جائے تو پیپلز پارٹی، نون لیگ اور تحریک انصاف کے اکابرین پھولے نہیں سماتے۔ ان کے لچھن ایسے نہیں کہ یہ سیاسی قیادت کوئی جوہری تبدیلی لا سکے۔ وہ جو ہیں نا، وہ سب کو الگ الگ کر کے مارتے رہے ہیں اور مارتے رہیں گے۔
پنڈی بوائز کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان نکمے سیاست دانوں کی جان ووٹوں کے ڈبے میں قید ہے۔ اب تو خیر سے ووٹنگ مشینیں لائی جا رہی ہیں جس کا سافٹویر پنڈی بوائز کی تحویل میں رہے گا۔ تاکہ بوقت ضرورت اسے اپڈیٹ کیا جا سکے۔
 

علی وقار

محفلین
پنڈی بوائز کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان نکمے سیاست دانوں کی جان ووٹوں کے ڈبے میں قید ہے۔ اب تو خیر سے ووٹنگ مشینیں لائی جا رہی ہیں جس کا سافٹویر پنڈی بوائز کی تحویل میں رہے گا۔
سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کی سروس فری۔
 

جاسم محمد

محفلین
میچورٹی آتے آتے آتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اگر غیر فعال ہو جائے تو چاہے دیر سے ہی سہی سیاستدان وقت کے ساتھ ساتھ میچور ہو جائیں گے۔ اب آپ کہتے ہیں بچہ پیدا ہوتے ساتھ ہی بولنا شروع کر دے تو یہ ممکن نہیں اور اس بات پہ آپ بچے کو مسلسل کوستے رہیں کہ بولتے کیوں نہیں اس سے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔
چاہے جتنی قانون سازی کر لیں، اسٹیبلشمنٹ کے کردار تک انتخابات متنازع رہیں گے، بلاول
ویب ڈیسک 03 مئ 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
608ff4d56dcc4.png

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے انتخابی اصلاھات ضروری ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحات بہت ضروری ہیں اور اگر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا فعال کردار ہے تو پھر ہم چاہے جتنی بھی قانون سازی کر لیں، انتخابات متنازع رہیں گے۔

کراچی میں بے نظیر مزدور کارڈ کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مزدور تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ہوں یا پھر گھروں میں کام کررہے ہوں، اگر آپ مزدور کارڈ میں رجسٹر ہوں گے تو ان کو بے نظیر مزدور کارڈ ملے گا اور وہ انہی سہولیات سے استفادہ کر سکیں گے جو صنعتی مزدوروں تک محدود رہی ہیں۔


انہوں نے کہا کہ بے نظیر مزدور کارڈ ایک انقلابی قدم ہے اور پورے پاکستان میں مزدوروں کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور لیبر پالیسی کے سلسلے میں بہت بڑا قدم اٹھایا گیا ہے اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں کیونکہ ہمارے نظریے اور منشور کے مطابق جب مزدور خوشحال ہو گا تو ہی ہماری صنعت اور معیشت خوشحال ہو گی۔


انہوں نے کہا کہ بے نظیر مزدور کارڈ سے ہم مزدوروں کو صحت اور علاج کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنا سکیں گے، زچگی کے دوران بھی یہ کارڈ قابل استعمال ہو گا، حادثے میں موت ہوتی ہے تو امدادی رقم فراہم کی جائے گی اور اس کے علاوہ بھی کئی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خواب ہے کہ بے نظیر مزدور کارڈ کو ہر مزدور کے ہاتھ میں پہنچا دیں تاکہ ہم سماجی تحفظ کی سوچ جانب بڑھ سکیں جو پیپلز پارٹی کے منشور کا اہم حصہ ہے۔

بلاول نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اس ملک کی خواتین کے لیے انقلابی قدم شروع کیا گیا تھا اور بے نظیر مزدور کارڈ سے ہم پاکستان کے مزدوروں کے لیے انقلابی قدم کا آغاز کررہے ہیں اور اس سے ہم ذوالفقار علی بھٹو کی لیبر پالیسی کو آگے لے کر چلیں گے۔




انہوں نے کہا کہ ای او بی آئی کا ورکرز ویلفیئر فنڈز کے اختیارات کی منتقلی کو 18ویں ترمیم کے مطابق 2015 تک منتقل ہو جانا چاہیے تھے لیکن یہ نہیں ہوا، لہٰذا ہم مطالبہ دہراتے ہیں کہ ای او بی آئی ورکرز ویلفیئر فنڈز کے اختیارات فی الفور صوبے کو دیے جائیں تاکہ صوبے اپنے مزدوروں کے لیے زیادہ کام کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر 6 لاکھ صنعتی مزدوروں کو یہ کارڈ دیے جائیں گے اور ان کی رجسٹریشن کا عمل الیکٹرانک ہو گا لہٰذا جو مزدور ابھی تک صنعتوں میں رجسٹر نہیں ہیں وہ خود کو رجسٹر کرائیں تاکہ اس سے استفادہ کر سکیں۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے مزدوروں کی رجسٹریشن کے عمل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت نادرا کے دفاتر میں کاؤنٹر موجود ہیں لیکن تعداد بڑھنے کے بعد بڑی صنعتوں میں بھی کاؤنٹر بنائیں گے تاکہ وہاں کے مزدور بھی خود کو رجسٹر کرا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈیمانڈ بڑھنے کے ساتھ موبائل سینٹرز بھی بنیں گے اور گاڑیاں مختلف علاقوں میں جا کر لوگوں کی اسی طرح رجسٹریشن کریں گی جیسے نادرا کی گاڑیاں کرتی ہیں اور نادرا کے کارڈز کی طرز پر ہی کارڈ بنائیں گے۔


ایک سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی مسلسل انتخابی اصلاحات پر کام کرتی آ رہی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ 2018 اور اسے قبل جو دھاندلی کی گئی، ایسا دوبارہ ہو اور اس کے لیے اصلاحات کرنی پڑیں گی جس کے لیے ہم تیار ہیں جبکہ الیکشن کمیشن اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ حکومت کے مؤقف کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا اور یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ دھاندلی کرنے والے کے ساتھ بیٹھ کر دھاندلی کو روکیں، اس سلسلے میں قانون سازی اور اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی روکنے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی نکتہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے اور اگر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا فعال کردار ہے تو پھر ہم چاہے جتنی بھی قانون سازی کر لیں، انتخابات متنازع رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اسٹیشلشمنٹ کو انتخابات سے دور رکھ سکتے ہیں، ان کا رویہ غیرجانبدار رہتا ہے تو پھر انتخابی اصلاحات کا بھی فائدہ ہو گا اور الیکشن میں دھاندلی بھی کم ہو گی۔

بلاول نے کہا کہ آپ سب نے دیکھا کہ این اے-249 کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی فعال کردار نہیں رہا تو ہم یہی چاہیں گے کہ اس اتفاق رائے کے ساتھ اصلاحات ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست اور انتخابی اصلاحات میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔


انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کو اگر انتخابات پر کوئی اعتراض ہے تو آپ کے پاس فورم دستیاب ہے، یہ ان کا حق ہے کہ اگر ان کے پاس کسی گڑبڑ کا کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو وہ الیکشن کمیشن سے ضرور امید رکھیں اور فوج سے اپیل نہ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن) ایک سیٹ ہار کر فوج سے انتخابی عمل میں مداخلت کی اپیل نہ کرے، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر فوج کا الیکشن میں کردار ہو تو یہ انتخابی عمل کے لیے نقصان دہ ہے جیسے کہ 2018 کے انتخابات میں پاکستان کے ہر پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوج تعینات تھی اور پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوج اسی انتخابات میں تعینات کی گئی تھی۔

بلاول نے کہا کہ 2008 اور 2013 میں جب دہشت گردی عروج پر تھی تو اس وقت فوج تعینات نہیں کی گئی تھی اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے ناصرف الیکشن متنازع ہوتے ہیں بلکہ پاکستان کی فوج بھی بلاوجہ متنازع ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مسلم لیگ(ن) کی جانب سے فوج سے کی گئی اپیل کے مطالبے کا ہرگز ساتھ نہیں دیتے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے یہ غیرذمے دارانہ مطالبہ ہے کہ پولنگ باکسز کو فوج کی تحویل میں دیا جائے، ہم اس مطالبے کی حمایت نہیں کر سکتے۔


ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کا واقعہ جس دن پیش آیا، اس دن ہمارے انتخابات چل رہے تھے، وہاں کام کو روکا جا چکا ہے اور مجھے اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ کی رپورٹ کا انتظار ہے۔

بلاول کی مزدور رہنماؤں سے ملاقات
پریس کانفرنس سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلاول ہاؤس میں مزدور رہنماؤں سے ملاقات کی، ملاقات کے موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، وزیر محنت سعید غنی اور وزیراطلاعات ناصرشاہ بھی موجود تھے۔

ملاقات میں مزدور رہنماؤں نے ملک میں موجودہ مہنگائی کے تناظر میں مزدوروں کے حالات پر بریفنگ دی اور سندھ حکومت کی جانب سے بے نظیر مزدور کارڈ کے اجرا کے عمل کو سراہا۔
قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر شریک ہونا چاہیے اور اسٹیبلشمنٹ سے متعلق بلاول صاحب جو فرما رہے ہیں، وہ محض سیاسی بیان ہے۔ پنڈی بوائز کی جانب سے ایک ٹیلی فون کال آ جائے تو پیپلز پارٹی، نون لیگ اور تحریک انصاف کے اکابرین پھولے نہیں سماتے۔ ان کے لچھن ایسے نہیں کہ یہ سیاسی قیادت کوئی جوہری تبدیلی لا سکے۔ وہ جو ہیں نا، وہ سب کو الگ الگ کر کے مارتے رہے ہیں اور مارتے رہیں گے۔
سزا یافتہ مجرم، جعلی بیماریوں کے نام پر بھگوڑے نے بھی انتخابی اصلاحات مسترد کر دی۔ اب حکومت آزادی کیساتھ انتخابی اصلاحات کر سکتی ہے۔ کیونکہ جو موجودہ نظام میں الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کرتے وہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ساتھ بھی یہی تماشہ کریں گے۔ لیکن تب فرق یہ ہوگا کہ موجودہ دور کے برعکس کاغذی ووٹ والی دھاندلی ختم ہو چکی ہوگی۔
 

علی وقار

محفلین
سزا یافتہ مجرم، جعلی بیماریوں کے نام پر بھگوڑے نے بھی انتخابی اصلاحات مسترد کر دی۔ اب حکومت آزادی کیساتھ انتخابی اصلاحات کر سکتی ہے۔ کیونکہ جو موجودہ نظام میں الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کرتے وہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ساتھ بھی یہی تماشہ کریں گے۔ لیکن تب فرق یہ ہوگا کہ موجودہ دور کے برعکس کاغذی ووٹ والی دھاندلی ختم ہو چکی ہوگی۔
مولانا میاں محمد نواز شریف مد ظلہ العالی کی بات میں وزن ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا میاں محمد نواز شریف مد ظلہ العالی کی بات میں وزن ہے۔
بات میں وزن ہے اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ساتھ دیگر سویلین بیروکریسی، ججز، صحافتی طبقہ وغیرہ بھی سیاست سے نکل کر اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری نبھانا شروع کرے۔ اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ فوج بیرکوں میں واپس چلی جائے جبکہ سویلین طبقات رائیونڈ اور لندن سے ہدایات لیتے رہیں۔ نظام ٹھیک کرنا ہے تو سویلین اسٹیبلشمنٹ کو بھی ساتھ میں ٹھیک کرنا پڑے گا جو کہ سیاست میں لتھڑی پڑی ہے۔ ریاست و حکومت سے زیادہ شریف خاندان کی وفادار ہے۔
 
Top