چاھت کو ھم نے اُس کی نشانی سمجھ لیا - فاخرہ بتول

چاھت کو ھم نے اُس کی نشانی سمجھ لیا​
وہ تو سراب تھا جسے پانی سمجھ لیا​
اُس نے کہا کہ سارا جہاں ھے مِرا وجود​
اور ھم نے اِس جہان کو فانی سمجھ لیا​
گُزری جو دل پہ وہ بھی قیامت تھی باخُدا​
اور تُم نے اِس کو ایک کہانی سمجھ لیا​
خُوشبو کو ھم نے جار میں قیدی بنا لیا​
سانپوں نے اُس کو رات کی رانی سمجھ لیا​
سامان موت کا بھی وہ لائی ھے اپنے ساتھ​
پُھولوں نے جس کو اپنی جوانی سمجھ لیا​
اُس کا مزاج جھیل کی صورت ، پڑا رہا​
دریا کی ،جس کو ھم نے روانی سمجھ لیا​
اُس نے ابھی ابھی تو کہا تھا ھمیں ”بتول“​
اور ھم نے اِس کو یاد پُرانی سمجھ لیا​
فاخرہ بتول
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ کاشف اکرم وارثی صاحب شیئر کرنے کیلیے۔

آپ سے ایک استدعا یہ اپنی پسند کے کلام کو بزم سخن زمرے کی بجائے اسی کے ذیلی زمرے پسندیدہ کلام میں پوسٹ کیا کریں، یعنی جہاں یہ موضوع اب ہے۔

دوسرا یہ کہ براہِ کرم اپنی پسند کا کلام پوسٹ کرنے سے پہلے ایک نظر اس موضوع کو بھی دیکھ لیں۔

امید ہے خیال رکھیں گے۔

والسلام
 
شکریہ کاشف اکرم وارثی صاحب شیئر کرنے کیلیے۔

آپ سے ایک استدعا یہ اپنی پسند کے کلام کو بزم سخن زمرے کی بجائے اسی کے ذیلی زمرے پسندیدہ کلام میں پوسٹ کیا کریں، یعنی جہاں یہ موضوع اب ہے۔

دوسرا یہ کہ براہِ کرم اپنی پسند کا کلام پوسٹ کرنے سے پہلے ایک نظر اس موضوع کو بھی دیکھ لیں۔

امید ہے خیال رکھیں گے۔

والسلام

محترم منتظم جناب عزت مآب محمد وارث بھائی آپ کا بہت شکریہ ۔اصل میں نیا دھاگہ کہاں اور کس مقام پر سجانا تھا اس کشمکش میں کس سمجھ نہیں آیا پس آو دیکھا نا تاو دیوار میں کیل ٹھوک ڈالا۔ آئیندہ سے احتیاط برتی جاوے گی۔ اصل میں پنجابی پینڈو ہو "اردو " کے حسن سے واقف نہیں۔ اس لیے فورم کی اوکھی اردو کچھ کچھ سمجھ بھی نا آووے۔
 
Top