اقتباسات چاند کا سفر از اشفاق احمد

زبیر مرزا

محفلین
ہم دونوں کا گورنمنٹ کالج سے بندھن ایک بہت کمزور اور کچے سے دھا گے سے بندھا ہے ۔ ایک گم نام اور بے نام پگڈنڈی ہے جو خود رو جھاڑیوں اور گھنگیرلے رستوں سے الجھ الجھ کر بڑی مشکل سے من مندر تک پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے تب تک اٹھنے کو جی نہیں چاہتا جب تک کہ کوئی وہاں سے اٹھا نہ دے ! نکال نہ دے !!
بانو قدسیہ نے اور میں نے گورنمنٹ کالج کو کبھی بھی ایک درس گاہ نہیں سمجھا ۔ نہ کبھی ہم اس کی علمی روایت سے متاثر ہوئے اور نہ کبھی اس کے استادوں کے تجربئہ علمی سے مرعوب ہوئے ۔ اس کی قدامت، اس کی عمارت اور اس کی شخصی وجاہت بھی ہمیں مسحور نہیں کر سکی ____ اس سے کبھی کچھ لیا نہیں ، مانگا نہیں ، دیا نہیں ، دلوایا نہیں ۔ پھر بھی اس کے ساتھ ایک عجیب سا تعلق قائم ہے جسے ہم آج تک کوئی نام نہیں دے سکے ۔ دراصل ہم دونوں گورنمنٹ کالج کو درس گاہ نہیں مانتے _____ اس میں” سین ” کے حرف کو وافر سمجھتے ہیں !
 
جی سی کے لئےاپنی عقیدت کا اظہار کتنے اچھوتے طریقے سے کیا ہے۔ یہ بات انہی کی قلم سے نکل سکتی تھی۔ؕ
شئیرنگ کے لئے شکریہ مرزاصاحب۔ جزاک اللہ!!
اجی تلمیذ صاحب اس لفظ سین پر کوئی سمجھا بھی ہے یا کہ نہیں شائد میں ہی نہیں سمجھ پایا چلیں دیکھتےہیں باقی لوگ کیا کہتے ہیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
جناب عالی، اتنی کسر نفسی سے کام نہ لیا کیجئے صاحب۔ آپ جیسی ہستی اور 'درسگاہ' کے حوالے سے کی گئی اتنی سادہ سی بات نہ سمجھے، میں تو نہیں مان سکتا۔
 

مہ جبین

محفلین
واہ واہ کیا بات ہے اشفاق صاحب کی
لفظ " درسگاہ " اور" درگاہ " میں صرف ایک لفظ کا ہی فرق ہے
مگر صرف "س " ہٹانے سے اسکی گہرائی اور دسعت میں کتنا اضافہ ہوگیا ہے
اسکو سمجھنا واقعی ہر کسی کے بس کی بات نہیں
ایک کا مقصد محدود اور دوسرے کا مقصد لامحدود
بہت زبردست زبیر مرزا
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب شراکت
" بابا جی " کی پہلی گنجلک تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔
گہرے لوگوں کی گہری باتیں ۔
بلا شک بہت گہرا فلسفہ مخفی ہے اس وافر " سین " میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک سوال ابھرا کہ " گورنمنٹ کالج " کی بنیاد کس نے رکھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔؟
 
روحانی بابا جی، مہ جبین نے تو اب وضاحت سے لکھ دیا ہے۔
تلمیذ جی سین کو انہوں نے حرف وافر قرار دیا ہے دراصل اس میں حرف سین اس مقام پر ملانے والا ہے اور جو اجنبی پن اہل درگاہ کو درسگاہ میں نظر آتا ہے بعینہٖ ایسی مغائرت اہل درسگاہ کو درگاہ میں دکھتی ہے اسی لیئے اشفاق احمد حرف سین کو حرف وافر سمجھتے رہے۔
 
Top