چاند پانے کا سپنا اور گرتی معیشت

جاسم محمد

محفلین
چاند پانے کا سپنا اور گرتی معیشت
عارف عزیز اتوار 22 ستمبر 2019
لاکھوں خاندانوں کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھنے والے مودی پر چاند تسخیر کرنے کی دُھن سوار ہے

نام نہاد سیکولر ریاست کا حکم راں مودی اکھنڈ بھارت اور ایشین ٹائیگر بننے کا خواب تو پورا نہ کرسکا، مگر اپنے جنونی اور انتہاپسند خیالات کے مالک ووٹروں اور حامیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس نے کشمیر میں درندگی اور سفاکی کی تمام حدیں پار کرلی ہیں۔

جذبۂ حریت سے سرشار کشمیریوں پر عرصۂ حیات تنگ ہے اور مودی سرکار کے باوردی قاتل وادی میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ ملکی و عالمی ذرایع ابلاغ پر پابندیاں عائد کر کے نہتے اور معصوم کشمیریوں کے ساتھ بدترین اور انسانیت سوز مظالم کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اسی دوران بھارت کا چاند کی سطح پر پانی کی تلاش کے لیے خلائی مشن بھیجنا (جو کہ ناکامی سے دوچار ہوا) بھی انسانیت کے ساتھ ایک بھیانک مذاق کہا جاسکتا ہے کہ جو بھارتی حکومت زمین پر آباد کشمیریوں کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترسا دے وہ کیسے انسانوں کی فلاح و بہبود اور سائنسی ترقی کا دعویٰ کرسکتی ہے۔ ایک خطیر رقم ایسے خلائی مشن پر جھونک دی گئی جس کا مقصد صرف دنیا اور خطے پر اپنی برتری ثابت کرنا تھا اور یہ کسی بھی طرح انسانی بھلائی کا عمل نہ تھا۔

موجودہ بھارتی حکومت کے ایسے فیصلوں اور اقدامات پر نہ صرف دنیا میں مودی کی بدنامی اور رسوائی ہورہی ہے بلکہ خود بھارتی دانش ور اور سنجیدہ و باشعور عوام اس کے خلاف میدان میں ہیں۔ ایک طرف بھارت میں موجودہ حکومت کو اس کی نااہلی، بدترین پالیسیوں اور بدانتظامی پر مطعون کیا جارہا ہے اور دوسری جانب دنیا بھر میں ہندوستان کی برباد ہوتی معیشت پر بحث ہو رہی ہے جسے حالیہ خلائی مشن کی بدترین ناکامی نے بھی ہوا دی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی سرکار اپنی جنتا کو بھوک کے عفریت اور افلاس کی دلدل میں دھکیل چکی ہے اور جیتے جاگتے انسانوں کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھ کر چاند پر قدم جمانے کی بھارتی کوششیں انسانیت کی توہین اور بدترین ظلم کی ایک شکل ہیں۔

یہی نہیں بلکہ مودی نے مذہبی انتہا پسندی اور طاقت کے جنون میں کشمیریوں کے آزادی کے نعرے کو کچلنے کا جو راستہ اپنایا ہے وہ قابلِ مذمت ہے اور اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کو چاہیے کہ اس کا فوری نوٹس لے اور کشمیر کو بھارتی درندگی سے نجات دلائے۔ معاشی طور پر خطرے سے دوچار ریاست کا جنونی سربراہ مودی اور اس کی حکومت کشمیر کی وادی میں خون کی ندیاں بہانے اور کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ان کا مقدر لکھنے کی کوششیں کررہی ہے جس کی دنیا بھر میں مخالفت کی جارہی ہے۔ برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے آئینی شق 370 ختم کر کے کشمیر کی دیگر ریاستوں میں خودمختاری سلب کر لی ہے۔

اس وقت جہاں بھارت کو اپنے خلائی مشن کی بدترین ناکامی پر جگ ہنسائی کا سامنا ہے، وہیں اس کی معاشی بدحالی بھی زیرِبحث ہے۔ چند سال پہلے تک ایک تصور تھا کہ چین اور جاپان کے بعد بھارت ایشیا کی سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے، لیکن مودی کی نحوست اس تصور کو بھی نگل گئی۔

عالمی سطح پر بھی ماہرینِ نے بھارت کی انحطاط پزیر معیشت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 2014 میں نریندر مودی نے حکومت قائم کی تو بھارتی میڈیا میں اسے معیشت کی ترقی کے لیے نوید قرار دیا۔ مودی کے لاڈلوں نے ٹاک شوز کے ذریعے عوام کو یہ بتایا کہ مودی سرکار کی پالیسیوں کی بدولت اقتصادی و معاشی میدان میں ان کا ملک مضبوط ہو گا اور اس طرح وہ خواب پورا ہو گا۔

جس کا وعدہ انتخابی مہمات میں کیا گیا تھا، مگر یہ سب دھوکا ثابت ہوا۔ مختلف بھارتی اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں ثقہ اقتصادی ماہرین کے تجزیوں اور مشاہدات پر مبنی رپورٹیں سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ 2016 میں معیشت میں تقریباً سات فی صد کی شرح سے اضافہ ہوا، لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیا اور اب صورتِ حال تشویش ناک ہے۔ کرنسی نوٹوں کی بندش کے بدترین نتائج، گرتی ہوئی معیشت اور بھارت میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت پر صرف حزبِ اختلاف ہی نہیں بلکہ حکم راں جماعت کی صفوں میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

بھارت کے سابق وزیز خزانہ یشونت سنہا نے حکومت کو ملک کی معیشت کی بربادی کا ذمہ دار قرار دیا تو ریاست آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے بھی جی ڈی پی میں گراوٹ کو سرکار کے غلط فیصلوں کا نتیجہ بتایا۔ اس سے قبل پارلیمان میں نوٹ بندی پر بحث میں من موہن سنگھ نے صاف کہا تھا کہ اس سے معیشت میں کم سے کم دو فی صد گراوٹ آئے گی جب کہ حکومت کا خیال تھا کہ اس سے جی ڈی پی کی شرح بلند ہو گی، مگر من موہن سنگھ کی بات درست ثابت ہوئی۔ اسی طرح ملک کے مختلف نام ور ماہرینِ معیشت نے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو مودی کے دور میں بدترین اقتصادی اور معاشی حالات کا سامنا ہے۔

بھارتی معیشت میں مندی ہی ایک مسئلہ نہیں بلکہ پچھلے دو برسوں میں حکومت اس سے نمٹنے میں ناکام نظر آئی ہے۔ عالمی ذرایع ابلاغ میں بھی مودی سرکار کے فیصلوں پر کڑی نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ ’’دی اکانومسٹ‘‘ نے سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا کہ مودی بڑے اصلاح کار بنتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ بعض اخبارات کے مطابق مودی کے قول و فعل میں تضاد ہے جو مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ بھارت کی کرنسی اور بانڈ مارکیٹ مشکل میں ہے اور انڈین مارکیٹ پر لوگوں کا بھروسا کم ہو رہا ہے جس کا سیدھا سا مطلب معیشت میں مزید گراوٹ ہو سکتا ہے۔

ایک طرف تو مودی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں ناکام نظر آتا ہے اور دوسری جانب انتخابات کے موقع پر کیے گئے وعدوں کی تکمیل بھی ایک بھیانک خواب بن گیا ہے۔ مودی سرکار نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ پورا نہیں کرسکی بلکہ اس کی پالیسیوں نے الٹا لوگوں کو بے روزگار کر دیا ہے۔

ایک حکومتی رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2016 سے 2017 کے درمیان بے روزگاری کی شرح گذشتہ 45 سال میں سب سے زیادہ تھی۔ سرکاری ملازمتوں کو چھوڑ کر نجی سیکٹر کی طرف چلیں تو وہ انحطاط کا شکار نظر آتا ہے جہاں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ملازمتیں پیدا ہوں۔ ملک میں بے روز گاری کی بلند شرح کا علم ایک سروے سے ہوا جسے حکومت نے منظرِ عام پر لانے سے انکار کر دیا تھا، لیکن سروے کے نتائج ’لیک‘ ہو کر میڈیا میں آگئے۔

نوجوانوں میں بے روز گاری کی شرح بہت زیادہ بتائی جارہی ہے جس میں ہر پانچ میں سے ایک نوکری کی تلاش میں ہے۔ اس سے قبل معیشت کے حوالے سے متحرک ایک نجی ادارے نے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافے پر تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ دسمبر 2018 تک یہ تعداد ایک کروڑ دس لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ ملک میں کرنسی نوٹوں کی بندش سے بھی معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور بے روزگاری بھی بڑھی۔ اس فیصلے سے کئی چھوٹے کاروبار بند اور بہت سی نوکریاں ختم ہو گئی تھیں۔ عالمی سطح پر معیشت اور روزگار کی بابت تشویش کا اظہار بھی مودی کو نہیں ہلا سکا اور اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے مودی نے اس سلسلے میں اعداد وشمار کو حکومت مخالف اور پروپیگنڈہ قرار دیا۔

بھارتی معیشت میں سست روی اور روزگار کے کئی ملین مواقع ختم ہو جانے پر ریاستی اداروں اور بہت سے ماہرین کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ منصوبہ بندی کے حوالے سے سرگرم حکومتی ادارے نیتی آیوگ کے نائب سربراہ راجیو کمار نے بھی اقتصادی سست روی پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ گذشتہ 70 برس کے دوران ملکی مالیاتی شعبے کی ایسی حالت کبھی نہیں رہی۔ اسی طرح بھارت کے مرکزی مالیاتی ادارے ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر نے بھی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کمپنیاں فکر مند ہیں اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔

مودی کے پچھلے دورِ حکومت میں اگرچہ معاشی صورتِ حال ملی جلی تھی، مگر ریزرو بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق آٹو موبائل سیکٹر پر اس اقتصادی سست روی کا سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ سوسائٹی آف انڈین آٹو موبائل (سیام) کے مطابق آٹو موبائل انڈسٹری میں دس لاکھ ملازمتوں کے ختم ہو جانے کا خطرہ اور بڑھ گیا ہے، اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ مختلف عالمی نشریاتی اداروں کی رپورٹوں اور تجزیوں میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالت بھی نہایت خراب ہے۔

اس شعبے سے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر دس کروڑ افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے، لیکن ملک بھر میں ایک تہائی اسپننگ ملیں بند ہو چکی ہیں اور جو چل رہی ہیں، وہ بھی خسارے میں ہیں۔ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن آف انڈیا نے ملک کے متعدد قومی اخبارات میں اشتہار شایع کروا کر مودی حکومت کی توجہ اس تشویش ناک صورت حال کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اب تک 25 لاکھ سے 50 لاکھ تک ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔ لدھیانہ میں سائیکلوں اور آگرہ میں جوتے کی صنعتیں خطرے میں ہیں اور ان سے منسلک کئی کاروباری ادارے بند ہو چکے ہیں جس نے بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔

ماہرین نے بھارت میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کے لیے شروع کردہ میک ان انڈیا پروگرام کو بھی حوصلہ افزا نتائج سے محروم قرار دیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی معاشی ترقی گزشتہ 15 سال کے دوران گھریلو صارفین پر انحصار کر رہی ہے جب کہ صارفین میں خرچ کرنے کا رجحان کم ہورہا ہے جس کے باعث صورتِ حال مزید ابتر ہورہی ہے۔

کاروں کی فروخت گذشتہ سات سال میں سب سے کم سطح پر ہے جب کہ ٹریکٹر، موٹر سائیکل اور اسکوٹر کی فروخت میں بھی کمی دیکھی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صارفین کی قوتِ خرید متاثر ہو رہی ہے جس کا براہِ راست اثر ملکی معیشت پر پڑ رہا ہے۔ مودی نے اپنے منشور میں انکم ٹیکس گھٹانے اور متوسط طبقے کی قوتِ خرید بڑھانے کی بات کی تھی لیکن موجودہ صورتِ حال میں حکومت اس پر عمل کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔

بھارت کو برآمدات کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں بھی حکومت کو سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ مختلف معاشی مبصرین کے تجزیوں کے مطابق صورتِ حال ابتری کی طرف جارہی ہے۔ اعداد و شمار اور ٹھوس حقائق کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی ایک رپورٹ دیکھتے ہیں۔

جس کے مطابق اپریل سے جون 2018 کے درمیانی عرصے میں بھارت نے 1064 ملین امریکی ڈالر کی مصنوعات برآمد کی تھیں، لیکن اس سال کے اسی عرصے میں ملکی برآمدات کی مالیت بہت زیادہ کمی کے بعد 695 ملین ڈالر رہ گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ کہ برآمدات میں 35 فی صد کی کمی ہوئی۔ دسمبر 2018 کی سہ ماہی میں معاشی ترقی کی شرح سست روی کے بعد 6.6 فی صد رہ گئی اور یہ اس سے قبل گزری چھے سہ ماہیوں میں سب سے کم ترقی کی شرح تھی۔

ماہرِمعاشیات پروفیسر ارون کمار نے ’’بی بی سی‘‘ سے حالیہ گفتگو میں ملکی معیشت اور ترقی کے حوالے سے جو انکشافات کیے ہیں وہ بھارتی سرکار کے دعووں کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ اس کے مطابق پانچ سہ ماہی قبل انڈیا کی معیشت آٹھ فی صد کی رفتار سے ترقی کر رہی تھی جو اب پانچ فی صد کی سطح پر ہے۔ ان کے مطابق تین برسوں میں معیشت کو تین بڑے جھٹکے لگے ہیں جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جب کہ معیشت میں سرمایہ کاری کی شرح آج 30 فی صد سے بھی کم ہوچکی ہے۔

رواں برس بھارت کے سابق چیف معاشی مشیر نے بھی کہہ دیا کہ انڈیا اپنی معاشی ترقی کی رفتار بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے، ایک قومی اخبار میں شایع ہونے والی ان کی تحریر مودی سرکار کے منہ پر ایک اور تماچا ثابت ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان نے معاشی ترقی ناپنے کا طریقۂ کار تبدیل کر کے سب کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے۔ اسی کے تحت سالانہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔

تاہم بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اقتصادی مشیروں نے اسے مسترد کردیا تھا۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد ہندوستان کی معاشی ترقی سوالات اور مباحث کی زد میں ہے۔ اسی حوالے سے چوٹی کے ماہرین نے اپنی رائے دے کر مودی سرکار کے دعووں کو مزید مشکوک کر دیا ہے۔ 2018 میں انڈیا کی معاشی ترقی کی رفتار دنیا بھر میں سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے مگر ماہرینِ اقتصادیات نے نئے طریقۂ کار کو نادرست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معیشت کی حقیقی تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

واضح رہے کہ 2015 میں ہندوستان نے اپنی جی ڈی پی ناپنے کے طریقۂ کار کو تبدیل کر دیا تھا جس کے بعد معاشی ماہرین کے مودی سرکار کے معاشی نمو کے بلند تخمینوں پر مباحث جاری ہیں جب کہ حکومت اپنے طریقۂ کار کو درست کہتے ہوئے اس کا دفاع کررہی ہے۔ اس کے مخالفین کی جانب سے مطالبہ ہے کہ ہندوستانی اور غیر ملکی ماہرین پر مبنی ایک آزاد پینل جی ڈی پی ڈیٹا کا جائزہ لے اور حقائق سامنے لائے۔

حالیہ خبر کے مطابق انڈیا کے ریزرو بینک نے مودی حکومت کو 24.8 ارب ڈالر اپنے ’سرپلس اور ریزرو سرمائے‘ سے دیے ہیں جس کا فیصلہ ماہرین کی ایک کمیٹی کی سفارش پر کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ سست روی کا شکار معیشت اور پبلک سیکٹر میں نوکریوں کی کٹوتی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنا ہے۔ تاہم حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے آر بی آئی سے رقم لینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

سابق وفاقی وزیر اور کانگریس کے راہ نما آنند شرما نے پریس کانفرنس میں تنقید کے دوران یہ بھی کہا کہ یہ فنڈ ایمرجینسی کے لیے تھا۔ یہ رقم اس صورت میں دی جاتی ہے جب ملک میں اقتصادی بحران پیدا ہوتا ہے۔ حالیہ فیصلے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھارت میں آر بی آئی کی خود مختاری پر بھی بحث کی جارہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے ریزرو بینک اپنا اعتبار کھو رہا ہے اور سرمایہ کار یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ یہ بینک سرکار کے کنٹرول میں ہے۔

معیشت کے ماہرین بھارت کو کساد بازاری کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں لیکن مودی سرکار اسے مسترد کرتے ہوئے معیشت کو سست روی کا شکار بتا رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ حکومتی پالیسیاں جلد اس کا حل نکال لیں گی۔
 

سین خے

محفلین
بھارت کی چاند کی سطح پر پانی کی تلاش میں کاوشیں قابل قدر ہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ چاند کے خلائی مشنز ترقی یافتہ ممالک پر ہی جچتے ہیں۔ انڈسٹریل ممالک میں غربت، صحت عامہ، فضائی آلودگی، توانائی وغیرہ کے مسائل نہیں ہیں۔ ایسے میں چاند کے خلائی مشنز پر بجٹ کا اتنا بڑا حصہ لگانا سمجھ سے باہر ہے۔
 
Top