چاند سے اُن کے چہرے پر گیسوئے مشک فام دو

تضمین بر "خال بہ کنج لب یکے طرہ مشکفام دو"

چاند سے اُن کے چہرے پر گیسوئے مشک فام دو
دن ہے کھلا ہوا مگر وقتِ سحر ہے شام دو

روئے صبیح اک سحر زلفِ دوتا ہے شام دو
پھول سے گال صبح دم مہر ہیں لَالَہ فام دو

عارضِ نور بار سے بکھری ہوئی ہٹی جو زلف
ایک اندھیری رات میں نکلے مہِ تمام دو

اُن کی جبینِ نور پر زلفِ سیہ بکھر گئی
جمع ہیں ایک وقت میں ضِدّیں صبح و شام دو

خیر سے دن خدا وہ لائے دونوں حرم ہمیں دکھائے
زمزم و بیرِ فاطمہ کے پئیں چل کے جام دو

ذاتِ حَسن حُسین ہے عَینِ شبیہِ مصطفیٰ
ذات ہے اک نبی کی ذات ہیں یہ اسی کے نام دو

پی کے پِلا کے مَے کشو! ہم کو بچیکُھچی ہی دو
قطرہ دو قطرہ ہی سہی کچھ تو برائے نام دو

ہاتھ سے چار یار کے ہم کو ملیں گے چار جام
دستِ حَسن حُسین سے اور ملیں گے جام دو

ایک نگاہِ ناز پر سیکڑوں جامِ مَے نثار
گردشِ چشمِ مست سے ہم نے پئے ہیں جام دو و

سطِ مُسَبِّحَہ پہ سر رکھیے انگوٹھے کا اگر
نامِ اِلٰہ ہے لکھا ’’ہ‘‘ اور ’’الف‘‘ ہے ’’لام‘‘ دو

ہاتھ کو کان پر رکھو پا بہ ادب سمیٹ لو
’’دال‘‘ ہو، ایک ’’ح‘‘ ہو، ایک آخرِ حرفِ ’’ لام‘‘ دو

نامِ خدا ہے ہاتھ میں، نامِ نبی ہے ذات میں
مُہرِ غلامی ہے پڑی، لکھے ہوئے ہیں نام دو

نامِ حبیب کی ادا جاگتے سوتے ہو ادا
نامِ محمدی بنے جسم کو یہ نظام دو

نامِ خدا مرقّعہ، نامِ خدا رخِ حبیب
بینی ’’الف‘‘ ہے، ’’ہ‘‘ دہن، زلفِ دوتا ہے ’’لام‘‘ دو

وحشی ہے ایک دل مِرا زلفِ سیاہ فام کا
بندشِ عشق سخت تر صَید ہے ایک دام دو

تلووں سے اُن کے چار چاند لگ گئے مہر و ماہ کو
ہیں یہ اُنھیں کی تابشیں، ہیں یہ اُنھیں کے نام دو

گاہ وہ آفتاب ہیں گاہ وہ ماہتاب ہیں
جمع ہیں ان کے گالوں میں مہر و مہِ تمام دو

بازیِ زیست مات ہے موت کو بھی مَمات ہے
موت کو بھی ہے ایک دن موت پہ اذنِ عام دو

اب تو مدینے لے بُلا گنبدِ سبز دے دکھا ح
اؔمد و مصطفیٰ تِرے ہند میں ہیں غلام دو

مولانا حامد رضا خان​
 
Top