چاند تاروں نہ چمن زاروں سے غزل نمبر 132 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
چاند تاروں نہ چمن زاروں سے
جی بہلتا نہیں نظاروں سے

تیرے دیدار کی عادت ہے مُجھے
کوئی حاجت نہیں گُل زاروں سے

پاس آتے نہیں شکایت ہے
لب کو میرے، ترے رُخساروں سے

تُم نہیں آتے جب تو ہم شب بھر
کرتے ہیں باتیں چاند تاروں سے

جو مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آتے
کرتے ہیں بات اُن اِشاروں سے

مِلتی ہے اِس سے یار کی رغبت
ہے ہمیں فائدہ خساروں سے

اپنی قِسمت میں ہی سکُون نہیں
کوئی شِکوہ نہیں سِتاروں سے

جب ہے تقدیر میں خِزاں اپنی
مِنتیں کیا کریں بہاروں سے؟

یہ مُحافظ ہیں گُل کی عِزت کے
ہے مُحبت گُلوں کو خاروں سے

یار جو حاسد و مُنافق ہیں
ہیں عدُو خُوب ایسے یاروں سے

ڈُوبنے والے پہ ہے کیا بِیتی
کیا کِسی کو خبر کِناروں سے

بھاگ جائیں گے یہ سارے گِیدڑ
شیر جب نکلیں گے کچھاروں سے

عِشق میں پھنس گئے جو وہ اس کے
کب نکل پائیں گے حِصاروں سے

دیکھ پروانے جل کے کہتے ہیں
عِشق ڈرتا نہیں انگاروں سے

ساقیا کُچھ تو اعلیٰ ظرفی رکھ
جام مت چِھینو بادہ خواروں سے

شُکر
شارؔق ہے میرے رب کا بہت
میں ہوں بہتر کئی ہزاروں سے
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر
اب یہ غزل ایک بحر پر آگئی ہے،
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
چاند سے پھول سے نہ تاروں سے
جی بہلتا نہیں نظاروں سے

مجھ کو عادت ہے دید کی تیری
کوئی حاجت نہیں بہاروں سے

تُم نہیں آتے جب تو ہم شب بھر
کرتے ہیں باتیں چاند تاروں سے

جو مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آتے
کرتے ہیں بات اُن اِشاروں سے

مِلتی ہے اِس سے یار کی رغبت
ہے ہمیں فائدہ خساروں سے

اپنی قِسمت میں ہی سکُون نہیں
کوئی شِکوہ نہیں سِتاروں سے

جب ہے تقدیر میں خِزاں اپنی
مِنتیں کیا کریں بہاروں سے؟

یہ مُحافظ ہیں گُل کی عِزت کے
ہے مُحبت گُلوں کو خاروں سے

یار جو حاسد و مُنافق ہیں
ہیں عدُو خُوب ایسے یاروں سے

کیا گزرتی ہے غرق ہوتے پر
کیا کِسی کو خبر کِناروں سے

سارے گیدڑ نکل کے بھاگیں گے
شیر جب نکلیں گے کچھاروں سے

عشق میں تیرے آ پھنسے ہیں جو
کب نکل پائیں گے حِصاروں سے

دیکھ پروانے جل کے کہتے ہیں
عِشق ڈرتا نہیں انگاروں سے

ساقیا کُچھ تو اعلیٰ ظرفی رکھ
جام مت چِھین بادہ خواروں سے

شُکر شارؔق ہے میرے رب کا بہت
میں ہوں بہتر کئی ہزاروں سے
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر
اب یہ غزل ایک بحر پر آگئی ہے،
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
چاند سے پھول سے نہ تاروں سے
جی بہلتا نہیں نظاروں سے
درست، لیکن محض قافیہ بندی ہے، جو مطلع میں گوارا بھی کی جا سکتی ہے
مجھ کو عادت ہے دید کی تیری
کوئی حاجت نہیں بہاروں سے
بہاروں سے حاجت؟ محاورہ تو بہاروں کی حاجت ہے
تُم نہیں آتے جب تو ہم شب بھر
کرتے ہیں باتیں چاند تاروں سے
بات کرتے ہیں چاند.... بہتر ہو گا کہ "یں" کے اسقاط سے بچا جا سکے
جو مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آتے
کرتے ہیں بات اُن اِشاروں سے
یہ بھی "بات کرتے ہیں" ترتیب سے روانی بہتر ہو سکتی ہے
مجھے سمجھ آنا بھی درست محاورہ نہیں
جو سمجھ میں مری نہیں آتے
مِلتی ہے اِس سے یار کی رغبت
ہے ہمیں فائدہ خساروں سے
مطلب واضح نہیں
اپنی قِسمت میں ہی سکُون نہیں
کوئی شِکوہ نہیں سِتاروں سے
درست
جب ہے تقدیر میں خِزاں اپنی
مِنتیں کیا کریں بہاروں سے؟
ٹھیک
یہ مُحافظ ہیں گُل کی عِزت کے
ہے مُحبت گُلوں کو خاروں سے
ایک گل کی عزت؟
اُن کی عزت کہو
یار جو حاسد و مُنافق ہیں
ہیں عدُو خُوب ایسے یاروں سے
یہ بھی واضح نہیں
کیا گزرتی ہے غرق ہوتے پر
کیا کِسی کو خبر کِناروں سے
واضح نہیں
سارے گیدڑ نکل کے بھاگیں گے
شیر جب نکلیں گے کچھاروں سے
یہ شعر نہیں، غزل کا "شیر" ہے
عشق میں تیرے آ پھنسے ہیں جو
کب نکل پائیں گے حِصاروں سے
ٹھیک
دیکھ پروانے جل کے کہتے ہیں
عِشق ڈرتا نہیں انگاروں سے
انگاروں کا نون معلنہ ہے، غنہ نہیں، معلنہ کے ساتھ بحر فعلاتن فعلن ہو جاتی ہے
ساقیا کُچھ تو اعلیٰ ظرفی رکھ
جام مت چِھین بادہ خواروں سے
درست
شُکر شارؔق ہے میرے رب کا بہت
میں ہوں بہتر کئی ہزاروں سے
کئی ہزاروں محاورے کے خلاف ہے، محض کئی ہزار کہا جاتا ہے
شاعر اچھا ہوں میں ہزاروں سے
بہتر ہو گا
 

امین شارق

محفلین
بہت شکریہ سر وقت نکالنے اور اصلاح کے لئے۔۔۔

تُم نہیں آتے جب تو ہم شب بھر
بات کرتے ہیں چاند تاروں سے فاعِلن فَعَل فاعِلن فَعَل
یہ مصرعہ تو اس بحر میں آرہا ہے۔

اصلاح کے بعد۔۔۔
جو سمجھ میں مری نہیں آتے
بات کرتے ہیں اُن اِشاروں سے فاعِلن فَعَل فاعِلن فَعَل

یہ مصرعہ بھی اس بحر میں آرہا ہے۔

مِلتی ہے اِس سے یار کی رغبت
ہے ہمیں فائدہ خساروں سے

یہاں کہنے سے مراد یہ تھی کہ جب بھی مجھے کوئی نقصان ہوتا ہے تو ٰیار کی طرف سے مجھے دلاسہ ملتا ہے توجہ حاصل ہوتی ہے ان کا رجحان میری طرف ہوتا ہے انکا پیار ملتا ہے۔
تو اس لئے کہا خسارے سے نفع حاصل ہوتا ہے۔

اصلاح کے بعد۔۔۔
یہ مُحافظ ہیں اُن کی عِزت کے
ہے مُحبت گُلوں کو خاروں سے

یار جو حاسد و مُنافق ہیں
ہیں عدُو خُوب ایسے یاروں سے

کہنا یہ چاہتا تھا کہ منافق اور حاسد دوستوں سے تو دشمن ہی بھلے جو کم از کم چھپ کر پیٹھ پیچھے وار تو نہیں کرتے۔۔

کیا گزرتی ہے غرق ہوتے پر
کیا کِسی کو خبر کِناروں سے

مطلب یہ تھا کہ جس پر گزرتی ہے بس وہ ہی جانتا ہے قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے سمندر اور کناروں کا صرف سہارا لیا گیا ہے اس شعر میں۔۔

سارے گیدڑ نکل کے بھاگیں گے
شیر جب نکلیں گے کچھاروں سے
یہ شعر نہیں، غزل کا "شیر" ہے
سر آپ کی اس بات کا مطلب نہیں سمجھ پایا؟؟؟

دیکھ پروانے جل کے کہتے ہیں
عِشق ڈرتا نہیں شراروں سے

کیا یہ اب درست ہے؟؟

اصلاح کے بعد۔۔۔

شُکر شارؔق ہے میرے رب کا بہت
شاعر اچھا ہوں میں ہزاروں سے
 
Top