انٹرویو چائے فلک شیر کے ساتھ

رات بھیگتی ہے تو دل گداز ہوتے ہیں.......صیقل آئینوں جیسی ارواح اپنی اصل کی خوشی کو محراب میں جا موجودہوتی ہیں........گاہے ایسے لوگوں کی خاموشی کلام کرتی ہے اور کلام اس کے مقابل گنگ ہو رہتا ہے........ایسے لوگ ، جن کے بارے میں ارشاد ہوا، کہ "نہ ان کو خوف لاحق ہو گا اور نہ وہ حزن کا شکار ہوں گے".......ایسے لوگوں کے درمیان کبھی وقت گزرے تو محسوس ہوتا ہے کہ مالک ہم پہ کتنا مہربان ہے اور محبت کی اتھاہ کا انداز ہ کتنا مشکل ہے........اس لیے کہ اگر آپ کے دوغلام ہوں......ایک بلا کا فرماں بردار اور دوسرا اس کے بالکل الٹ........تو نافرمان پہ عتاب عام حالات کی نسبت زیادہ ہوتا ہے.......مگر وہ مالک اپنے سب بندوں......کیا زاہد کیا رند.....ہر ایک پہ کیا کیا عنایات نہیں کرتا......فرماں بردار اور نافرمان کسی کو سانس اور آس سے محروم نہیں کرتا .......کبھی.......
میرے ایک ماموں کا ڈرائیور ریٹائرڈ فوجی تھا......کھانا ختم کرنے کے بعد وہ ہاتھ فضا میں بلند کرتا ور کہتا "تیرا لکھ واری شکر او میریا سوہنیا ربا! توں میں جیہے گناہگار نوں ٹکر دتا".....جب وہ "میں"کو کھینچتا .....تو وہ گویا مجسم عاجزی بن جاتا.......اسے دیکھ کر مجھ ہوس کے بندے کو خدا کی رحمتوں اور محبت کا بے پناہ احساس ہوتا۔......
اور میں الحمدللہ اس بات کا اعتراف کرنے میں ذرا بھی باک نہیں سمجھتا.....کہ گناہوں پہ جو پردہ اس مالک نے ڈالا ہوا ہے.......یہ اسی کی رحمت کا خاصہ ہے.....صرف اسی کی.......کیا ہم سب کے ساتھ اس کی یہی روش نہیں......اور انشاءاللہ اس کی رحمت و محبت سے یہی امید اگلی دنیا میں بھی ہے.....انشاءاللہ
میں گلیا ں دا روڑا کوڑا......مینوں محل چڑھایا سائیاں​
تشکیک کا مارا دانشور انکار کے صحرائے نار میں بھٹکتا ہے.....کوئی جائے اور اسے بتائے کہ چین اور سکون رزق میں بٹتا ہے.......اور ہر بھلی چیز اوپر سے نیچےاترتی ہے
ربنا علیک توکلنا والیک انبنا والیک المصیر
سبحان اللہ
 

فلک شیر

محفلین
آپ کو نہیں لگتا کہ ایسے اللہ کے نیک اور پیارے بندے اللہ پاک کے بالوں میں تیل لگا رہے ہوں اور ہم جیسے نافرمان گناہ کے پُتلے اُن چند لمحوں کو ہی غنیمت جان کر اللہ پاک کی گود میں اس کی رحمتوں کے ٹھنڈے سائے میں کچھ دیر کو سر رکھے آنکھیں موند لی ہوں :) :) :)
اور یہیں سے دل میں اُس پاک ذات کی محبت کا اقرار جاگ جاتا ہے :) :) :)
سبحان اللہ......ادی یہی تو محبت ہے نا!!!.............جس کو زوال نہیں اور جس میں سوائے وصال و مسرت کے اور کچھ نہیں........
:):):)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
شکریہ فرحت بہن...... :)
ہمارے والے ماسٹرز میں ادبیات کوئی ستر پچھتر فی صدی اور لسانیات باقی فی صد موجود تھیں.......البتہ مجھے ذاتی طور پہ لسانی نظریات کی قراءت و تفہیم سے تودلچسپی ہے....کیونکہ یہ بنیادی فکری سوالوں میں سے کئی ایک کے جوابات سے کسی نہ کسی طرح متعلق ہوتے ہیں......مگر وہ جو مخارج وغیرہ والا سلسلہ ہے.....اس سے کچھ خاص نہیں......ادبیات البتہ میرا اصل شوق تھا.......اور بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں نے اردو ادب کے ذریعے انگریزی ادب کو سمجھا.......اور اہل ادب کی بیٹھک تو توشہ خاص ہوتا ہی ہے...... :)
آپ کا ایم اے بہت دلچسپ اور زبردست معلوم ہوتا ہے۔
میرا مشاہدہ شاید درست نہ ہو لیکن اتفاق ایسا ہے کہ میں نے جن لوگوں صرف لسانیات میں ڈگری لیتے دیکھا ہے۔ ان میں اکثریت کی پروننسیئشن وغیرہ تو بہت اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن باقی بس گزارہ ہی ہوتا ہے۔ جب کہ ادب پڑھنے والوں کے ساتھ میرا تجربہ کافی مختلف رہا۔
ایک سوال اور کرنا چاہوں گی۔
آپ درس و تدریس سے منسلک ہیں اور آپ کے بچے بھی ابھی سکول جانے والی عمر میں ہیں۔ ایک مدرس اور ایک والد کی حیثیت سے آپ کو آجکل کی سکولنگ میں کیا کیا خوبیاں اور کمزوریاں محسوس ہوتی ہیں؟
 

فلک شیر

محفلین
چلیئے بھیا اب کچھ سوال میری طرف سے بھی :)

آپ نے کہا کہ آپ کی شادی جلدی یعنی کم عمری میں ہی ہوگئی تھی جو کہ اچھی بات ہےتو آپ کے خیال میں شادی کی بیسٹ عمر کون سی ہے؟
کیونکہ میں نے دیکھا جیسے جیسے انسان کی عمر اور تجربہ بڑھتا ہے ویسے ہی اُس کی ڈیمانڈ اور میعار بھی بڑھتا جاتا ہے اور آج کل جو شادیوں میں دیر سے دیر تر ہوتی جارہیں ہیں اُس کا ایک سبب یہ بھی ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں ؟
2،،اپنی زندگی میں آپ نے لوگوں کو کیسا پایا آپ کا اعتبار لوگوں پر بڑھا یا کم ہوا۔خاص طور پر ایسے لوگوں پر جن
کے ساتھ آپ نے پوری ایمانداری کے ساتھ کوئی تعلق یا رشتہ رکھا ہو اُن کے ساتھ کوئی اچھائی کی ہو ۔بدلےمیں آپ کو وہ ہی کچھ ملا جو آپ نے دیا ؟
3؛آپ نے اپنی لائف سے جو چاہا وہ پایا یا کبھی کہیں کمپرومائز بھی کیا؟
4؛؛آپ کے نزدیک ایک اچھے انسان کی کیا پہچان ہے؟
دیر کے لیے معذرت........:)
1۔شادی سے متعلق آپ کے سوال کا جواب میں دے تو دوں، لیکن ایک نیا پنڈورا بکس کھلنے کا خدشہ ہے۔ :)
ایک بات تو ہے کہ حسن، حسب نسب ، مال اور دین و اخلاق میں سے مرشد اعظم صلی اللہ علیہ و سلم نے دین و اخلاق کو ترجیح دینے کا حکم فرمایا ، پھر نوجوانوں سے کہا کہ نکاح کرو۔ اب رہی فی زمانہ جلدی یا بدیر نکاح کی، تو میں اس حق میں تو ہوں کہ جلد نکاح کیوں جائیں، کیونکہ اس سے معاشرہ بہت سی خرابیوں سے بچ جاتا ہے، لیکن آپ جس پوائنٹ پہ بات کر رہی ہیں ، وہ خاصا وزنی ہے۔ شادی companionshipکا نام ہے اور والدین کو اس بات کا خیال یقیناً رکھنا چاہیے کہ مختلف intellectual levelکے لوگ کیسے ایک دوسرے سے گزارا کریں گے۔ ورنہ پھر یہی ہوتا ہے کہ زندگی لوگوں کو گزارتی ہے نہ کہ وہ زندگی کو۔ اور میری رائے کے مطابق ایک بہت بڑی تعداد جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی، خاص طور پہ دیہاتی پس منظر والے، اس مسئلے کا شکار ہوتے ہیں۔
2۔مجموعی طور پہ میں انسانیت میں خیر کے غلبے کا قائل ہوں۔ اور یہ فکری سوال جن مصنفین کے ہاًں دیکھا ہے، ان میں سے بھی خیر کے پہلو والے لوگوں کے دلائل زیادہ مضبوط پاتا ہوں۔ یقیناً انسانی رشتوں میں سے کچھ وقت کے ساتھ دھندلا جاتے ہیں ۔ لیکن مجھے بچوں کے ساتھ رہ کر، اپنے کالج میں، بہت مثبت چیزیں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔
3۔اللہ کی نعمتیں ، اس قدر ہیں کہ شمار نہیں الحمدللہ۔ ہاں کچھ آدرش، مثالیے ہیں، جن کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں ہم بھی۔ان کی تلاش میں خیال اور حقیقت کے مابین تنی ہوئی رسی پہ چلنے کا اتفاق بھی ہوتا ہے اکثر۔
4۔اچھے انسان کی پہچان ویسے تو خالق کائنات نے طے فرما دی ہے۔ البتہ جن معروف معانی میں آپ دریافت فرما رہی ہیں، اس میں میرے خیال میں وہ شخص اچھا ہے ، جو اپنی ذات کا قتیل نہ ہواور ہمہ وقت اپنے بیان و عمل سے اردگرد کے لوگوں اور ماحول کو positivityہی positivityعطا کرے۔ :)
 

فلک شیر

محفلین
آپ کا ایم اے بہت دلچسپ اور زبردست معلوم ہوتا ہے۔
میرا مشاہدہ شاید درست نہ ہو لیکن اتفاق ایسا ہے کہ میں نے جن لوگوں صرف لسانیات میں ڈگری لیتے دیکھا ہے۔ ان میں اکثریت کی پروننسیئشن وغیرہ تو بہت اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن باقی بس گزارہ ہی ہوتا ہے۔ جب کہ ادب پڑھنے والوں کے ساتھ میرا تجربہ کافی مختلف رہا۔
ایک سوال اور کرنا چاہوں گی۔
آپ درس و تدریس سے منسلک ہیں اور آپ کے بچے بھی ابھی سکول جانے والی عمر میں ہیں۔ ایک مدرس اور ایک والد کی حیثیت سے آپ کو آجکل کی سکولنگ میں کیا کیا خوبیاں اور کمزوریاں محسوس ہوتی ہیں؟
آپ کے مشاہدے سے میں سو فیصد متفق ہوں۔ عموماَ ایسا ہی ہوتا ہے۔لسانیات وہ گداز کہاں سے لائے گی، جو ادب یعنی لفظ کے نصیب میں ہے۔ یہ ایسے ہی کہ ایک قاری قرآن ، جو مختلف انداز سے اور صحیح مخارج کے ساتھ تلاوت تو کر لیتا ہے ، مگر تلاوت نفس اور آفاق تو ایسے اسے ملنے کی نہیں۔
آج کل کی سکولنگ کے حوالے سے میں محسوس کرتا ہوں ، کہ اس میں بہت کچھ انقلابی کرنے کی ضرورت ہے۔ہم وہ نسل ہیں کہ ہمارے سامنے وہ کلچر ،جسے ہم بہت عزیز رکھتے ہیں ،ہمارے بچے اسے بہت حد تک بیگانہ جانتے ہیں۔ وہ مذہب، جس پہ ہم فخر کرتے ہیں،اس کی صرف رسوم رہ گئی ہیں۔اگر ان دونوں چیزوں کا کوئی کام رہ گیا ہے ، تو وہ ایک روحانی ٹچ یا ثقافتی show offکا۔اس سے آگے ان کا کوئی کام نہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارا تعلیمی نظام انہیں یہ باور کروا رہا ہے کہ دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے ان چیزوں سے پیچھا چھڑانا ہوگا۔ہم زبان سے تو یہ نہیں کہتے ، مگر ......
پھر یہ کہ تعلیمی اداروں میں قابل اساتذہ کا شدید فقدان ہے۔ اور جب میں کہتا ہوں "قابل اساتذہ".......تو یہ ان کے علم، علم منتقل کرنے مہارت، ذاتی رویوں کے ذریعے تعلم کی صلاحیت اور تحقیق و جستجو ابھارنے کا ملکہ........سب کچھ شامل ہے۔ جذباتی لحاظ سے ناپختہ کار، علمی لحاظ سے کام چلاؤ اور سستی شہرت کے متلاشی........شاید میرے الفاظ بعض احباب کومبالغہ محسوس ہوں......مگر حقیقت یہی ہے میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق۔
میرے کالج کے پرنسپل تو کہتے ہوتے ہیں کہ استاد بھرتی کرنے سے قبل باقاعدہ ISSBقسم کا ٹیسٹ لینا چاہیے لوگوں کی ذہنی اپج اور استعداد کار کا جائزہ لینے کے لیے۔
ایک اور اہم بات یہ بھی کہ پرائیویٹ سکولز پہ حکومت کا کسی قسم کا کوئی چیک نہ ہے، جو مرضی کوئی پڑھاتا ، سکھاتا ور سمجھاتا رہے تعلیم کے نام پہ.......حیرت ہے.......حیرت۔
ہمیں آج جتنا شدید خطرہ طالبانائزیشن سے محسوس ہو رہا ہے، کیا اس کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہوئے ایسے نصاب ترتیب دیں، جو ہمارے بچوں اور بچیوں کو اقدارواخلاق کے ساتھ بھی مزین کریں اور علم و تحقیق کے زیور سے بھی آراستہ لریں۔
اور اس بات کو کہنے میں مجھے ذرہ برابر بھی باک نہیں کہ علم آخر آخر خالق کی طرف رہنمائی کرتا ہیے اور منازل آسان کرتا ہے۔........ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام ہمارے بچوں کو "فاعلم انہ لاالہ الااللہ"کی طرف لے جا رہا ہے ہے یا کہیں اور۔
پھر یہ کہ تعلیمی نظام و نصاب کےinteractiveاورpractical approachپرمبنی نہ ہونے کی بھی مجھے شدید تشویش ہے۔اس وجہ سے ہم صم بکم عمی قسم کے لوگ دھڑا دحر معاشرے کو سپلائی کر ہے ہیں وار پھر امید رکھتے ہیں کہ وہ نابغے ہوں گے۔
اعلیٰ تحقیقی اداروں میں تحقیق کے نام پہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی چند جھلکیاں جو اس فقیر نے دیکھی ہیں۔بس چپ ہی بھلی۔الا ماشاءاللہ
اس کے علاوہ کہنے ک تو بہت کچھ ہے اس موضوع پہ، مگر............امید ہے تھوڑے کو بہت جانیں گی ۔ :) :) :)
 

فلک شیر

محفلین
فرحت کیانی
تعلیمی مسائل سے متعلق آپ کے سوال سے جڑا ہوا ایک اقتباس، جو فی زمانہ مکمل متعلق تو نہیں۔۔۔۔۔۔بہرحال کہیں نہ کہیں یہ مسئلہ بھی موجود ہے۔یہ مرزا فرحت اللہ بیگ کے مشہور مضمون "ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی ........کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی" کا اقتباس ہے۔
""میں نے کہا: مولوی صاحب ! آپ کی جماعت کہاں بیٹھتی تھی؟
کہنے لگے: پرنسپل صاحب کے کمرے کے بازو میں جو چھوٹا کمرا ہے، اس میں ہماری جماعت تھی۔
دوسرے پہلو میں جو کمرا ہےاس میں فارسی کی جماعت۔
دانی نے کہا:مولوی صاحب! آپ کے اختیاری مضمون کیا تھے؟
مولوی صاحب ہنسے اور کہا: میاں دانی ! ہم پڑھتے تھے ،آج کل کے طالب علموں کی طرح چوتڑوں سے گھاس نہیں کاٹتے تھے ۔ارے بھئی !ایک ہی مضمون کی تکمیل کرنا دشوار ہے۔آج کل پڑھاتے نہیں لادتے ہیں۔آج پڑھا ، کل بھولے۔تمہاری تعلیم ایسی دیوار ہے،جس میں گارے کا بھی ردا ہے،ٹھیکریاں بھی گھسیڑ دی گئی ہیں،مٹی بھی ہے،پتھر بھی ہے، کہیں کہیں چونا اور اینٹ بھی ہےایک دھکا دیا اور اڑا اڑا دھم گری۔ہم کو اس زمانے میں ایک مضمون پڑھاتے تھے ،مگر اس میں کامل کر دیتے تھے۔پڑھانے والے بھی ایرے غیرے پچکلیان نہیں ہوتے تھے۔ایسے ایسے کو چھانٹا جاتا تھا،جن کے سامنے آج کل کے عالم،محض کاٹھ کے الو ہیں""
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فرحت کیانی
تعلیمی مسائل سے متعلق آپ کے سوال سے جڑا ہوا ایک اقتباس، جو فی زمانہ مکمل متعلق تو نہیں۔۔۔ ۔۔۔ بہرحال کہیں نہ کہیں یہ مسئلہ بھی موجود ہے۔یہ مرزا فرحت اللہ بیگ کے مشہور مضمون "ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی ........کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی" کا اقتباس ہے۔
""میں نے کہا: مولوی صاحب ! آپ کی جماعت کہاں بیٹھتی تھی؟
کہنے لگے: پرنسپل صاحب کے کمرے کے بازو میں جو چھوٹا کمرا ہے، اس میں ہماری جماعت تھی۔
دوسرے پہلو میں جو کمرا ہےاس میں فارسی کی جماعت۔
دانی نے کہا:مولوی صاحب! آپ کے اختیاری مضمون کیا تھے؟
مولوی صاحب ہنسے اور کہا: میاں دانی ! ہم پڑھتے تھے ،آج کل کے طالب علموں کی طرح چوتڑوں سے گھاس نہیں کاٹتے تھے ۔ارے بھئی !ایک ہی مضمون کی تکمیل کرنا دشوار ہے۔آج کل پڑھاتے نہیں لادتے ہیں۔آج پڑھا ، کل بھولے۔تمہاری تعلیم ایسی دیوار ہے،جس میں گارے کا بھی ردا ہے،ٹھیکریاں بھی گھسیڑ دی گئی ہیں،مٹی بھی ہے،پتھر بھی ہے، کہیں کہیں چونا اور اینٹ بھی ہےایک دھکا دیا اور اڑا اڑا دھم گری۔ہم کو اس زمانے میں ایک مضمون پڑھاتے تھے ،مگر اس میں کامل کر دیتے تھے۔پڑھانے والے بھی ایرے غیرے پچکلیان نہیں ہوتے تھے۔ایسے ایسے کو چھانٹا جاتا تھا،جن کے سامنے آج کل کے عالم،محض کاٹھ کے الو ہیں""
جزاک اللہ۔
مجھے تو حرف حرف آج کی روداد لگ رہی ہے۔ جب تعلیم کاروبار بن جائے اور طلبا کسٹمر ، تو حالات ایسے ہی ہو جاتے ہیں۔
 

عمر سیف

محفلین
فرحت کیانی
تعلیمی مسائل سے متعلق آپ کے سوال سے جڑا ہوا ایک اقتباس، جو فی زمانہ مکمل متعلق تو نہیں۔۔۔ ۔۔۔ بہرحال کہیں نہ کہیں یہ مسئلہ بھی موجود ہے۔یہ مرزا فرحت اللہ بیگ کے مشہور مضمون "ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی ........کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی" کا اقتباس ہے۔
""میں نے کہا: مولوی صاحب ! آپ کی جماعت کہاں بیٹھتی تھی؟
کہنے لگے: پرنسپل صاحب کے کمرے کے بازو میں جو چھوٹا کمرا ہے، اس میں ہماری جماعت تھی۔
دوسرے پہلو میں جو کمرا ہےاس میں فارسی کی جماعت۔
دانی نے کہا:مولوی صاحب! آپ کے اختیاری مضمون کیا تھے؟
مولوی صاحب ہنسے اور کہا: میاں دانی ! ہم پڑھتے تھے ،آج کل کے طالب علموں کی طرح چوتڑوں سے گھاس نہیں کاٹتے تھے ۔ارے بھئی !ایک ہی مضمون کی تکمیل کرنا دشوار ہے۔آج کل پڑھاتے نہیں لادتے ہیں۔آج پڑھا ، کل بھولے۔تمہاری تعلیم ایسی دیوار ہے،جس میں گارے کا بھی ردا ہے،ٹھیکریاں بھی گھسیڑ دی گئی ہیں،مٹی بھی ہے،پتھر بھی ہے، کہیں کہیں چونا اور اینٹ بھی ہےایک دھکا دیا اور اڑا اڑا دھم گری۔ہم کو اس زمانے میں ایک مضمون پڑھاتے تھے ،مگر اس میں کامل کر دیتے تھے۔پڑھانے والے بھی ایرے غیرے پچکلیان نہیں ہوتے تھے۔ایسے ایسے کو چھانٹا جاتا تھا،جن کے سامنے آج کل کے عالم،محض کاٹھ کے الو ہیں""
:)
 
Top