پی ٹی وی کے سنہرے دور کے 14 اشتہارات

حسیب

محفلین
ہو سکتا ہے۔ اسوقت جتنی یاداشت کام کرتی تھی بس اتنا ہی یاد ہے۔ البتہ یہ اچھی طرح یاد ہے کہ یہ چینل لاہور سے آتا تھا اور سگنل مسلم لیگ نو کی کارکردگی کی طرح انتہائی کمزور۔ ابو سے زد کر کے نیا انٹینا لگوایا تھا تب بھی رو رو کر ہی چلتا تھا :)
ہمارے یہاں (سیالکوٹ) پی ٹی وی کی نسبت ایس ٹی این کے سگنل زیادہ بہتر تھے
 
ہو سکتا ہے۔ اسوقت جتنی یاداشت کام کرتی تھی بس اتنا ہی یاد ہے۔ البتہ یہ اچھی طرح یاد ہے کہ یہ چینل لاہور سے آتا تھا اور سگنل مسلم لیگ نو کی کارکردگی کی طرح انتہائی کمزور۔ ابو سے زد کر کے نیا انٹینا لگوایا تھا تب بھی رو رو کر ہی چلتا تھا :)
چینل 1990 میں اسلام آباد میں پی ٹی این کے نام سے کھولا گیا تھا لیکن جلد ہی اس نے نام تبدیل کر کے کے ایس ٹی این رکھ لیا۔ موجودہ اے ٹی وی دراصل وہی پرانا ایس ٹی این ہے۔ ایس ٹی این صرف تین شہروں میں آتا تھا لیکن اب اے ٹی وی کے 20 بوسٹر شمالی علاقہ جات کو چھوڑ کر پورے پاکستان میں لگے ہوئے ہیں اور اچھی خاصی کوریج ہے۔ جہاں تک بات ہے این ٹی ایم کی تو وہ ایک پرائیویٹ ٹی وی کمپنی تھی جس نے ایس ٹی این سے عام دنوں میں روزانہ چار گھنٹے اور اختتام ہفتہ پر 5 گھنٹے کا ائیر ٹائم خریدا ہوا تھا۔ اور اس پر اپنے ڈرامے وغیرہ نشر کیا کرتے تھے
 

عبدالحسیب

محفلین
ہو سکتا ہے ہند کے سرحدی علاقوں میں انٹینے پہ پی ٹی وی کی نشریات آتی ہوں
جیسے یہاں ڈی ڈی 1 کی نشریات آتی تھی اور کبھی کبھار 2 کی بھی
چینلس کا تو علم نہیں البتہ ریڈیو پاکستان کی نشریات آجاتی ہیں۔ ایک دوست ہیں پنجاب کے سرحدی علاقے سے ، وہ بتاتے ہیں کہ وہاں ریڈیو پاکستان کو لوگ بے حد پسند کرتے ہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
اُن بھلے وقتوں میں ایس ٹی این پرسایٹس اینڈ ساونڈز آف فلاں فلاں کے نام سے ایک پروگرام آتا تھا اور اچھے بھلے چلتے چلتے تصویر کی جگہ ڈبے ڈبے سے آجاتے تھے جو کچھ دیر بعد خود ہی ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ہمیں بعد میں پتا چلا کہ یہ ٹرانسمیشن کی خرابی نہیں تھی۔:):)
 
اُن بھلے وقتوں میں ایس ٹی این پرسایٹس اینڈ ساونڈز آف فلاں فلاں کے نام سے ایک پروگرام آتا تھا اور اچھے بھلے چلتے چلتے تصویر کی جگہ ڈبے ڈبے سے آجاتے تھے جو کچھ دیر بعد خود ہی ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ہمیں بعد میں پتا چلا کہ یہ ٹرانسمیشن کی خرابی نہیں تھی۔:):)
ہاہاہاہا۔
ہم نے ان ڈبوں کے اندر جھانکنے کے لیے مختلف طریقے بھی استعمال کیے تھے اور صرف ایک طریقہ 'کچھ' حد تک کامیابی:p دلا دیا کرتا تھا
 

arifkarim

معطل
چینل 1990 میں اسلام آباد میں پی ٹی این کے نام سے کھولا گیا تھا لیکن جلد ہی اس نے نام تبدیل کر کے کے ایس ٹی این رکھ لیا۔ موجودہ اے ٹی وی دراصل وہی پرانا ایس ٹی این ہے۔ ایس ٹی این صرف تین شہروں میں آتا تھا لیکن اب اے ٹی وی کے 20 بوسٹر شمالی علاقہ جات کو چھوڑ کر پورے پاکستان میں لگے ہوئے ہیں اور اچھی خاصی کوریج ہے۔ جہاں تک بات ہے این ٹی ایم کی تو وہ ایک پرائیویٹ ٹی وی کمپنی تھی جس نے ایس ٹی این سے عام دنوں میں روزانہ چار گھنٹے اور اختتام ہفتہ پر 5 گھنٹے کا ائیر ٹائم خریدا ہوا تھا۔ اور اس پر اپنے ڈرامے وغیرہ نشر کیا کرتے تھے
aمجھے ایس ٹی این کے ڈرامے سوائے "کچے دھاگے" کے یاد نہیں ۔ البتہ اسپر آنے والے کاٹونز اور مزاحیہ پروگرامز اچھی طرح یاد ہیں۔ جیسے یہ Titanic کی پیروڈی:


اُن بھلے وقتوں میں ایس ٹی این پرسایٹس اینڈ ساونڈز آف فلاں فلاں کے نام سے ایک پروگرام آتا تھا اور اچھے بھلے چلتے چلتے تصویر کی جگہ ڈبے ڈبے سے آجاتے تھے جو کچھ دیر بعد خود ہی ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ہمیں بعد میں پتا چلا کہ یہ ٹرانسمیشن کی خرابی نہیں تھی۔:):)
یہ کیا تھا؟ :) کوئی لنک؟

ہاہاہاہا۔
ہم نے ان ڈبوں کے اندر جھانکنے کے لیے مختلف طریقے بھی استعمال کیے تھے اور صرف ایک طریقہ 'کچھ' حد تک کامیابی:p دلا دیا کرتا تھا
؟؟؟
 

عبدالحسیب

محفلین
اُن بھلے وقتوں میں ایس ٹی این پرسایٹس اینڈ ساونڈز آف فلاں فلاں کے نام سے ایک پروگرام آتا تھا اور اچھے بھلے چلتے چلتے تصویر کی جگہ ڈبے ڈبے سے آجاتے تھے جو کچھ دیر بعد خود ہی ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ہمیں بعد میں پتا چلا کہ یہ ٹرانسمیشن کی خرابی نہیں تھی۔:):)
ہاہاہاہا۔
ہم نے ان ڈبوں کے اندر جھانکنے کے لیے مختلف طریقے بھی استعمال کیے تھے اور صرف ایک طریقہ 'کچھ' حد تک کامیابی:p دلا دیا کرتا تھا
ہندوستان میں ڈبے ڈبوں کی جگہ سورج مکھی کے پھول آجایا کرتے تھے :):)
 

arifkarim

معطل
اشتہارات کے علاوہ پی ٹی وی کے ڈرامے، پیروڈی شوز بھی عوام میں یکساں مقبول تھے جیسے ڈرامہ سیریل دھواں، انگار وادی، سنہرےد ن، الفا براوو چارلی، عینک والا جن، دیس پردیس، گیسٹ ہاؤس، تین بٹا تین وغیرہ۔ یہ ڈرامے موجود دور کے سیریلز کی طرح پیسا کمانے کیلئے نہیں بنائے جاتے تھے البتہ قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے اور اسکو تقویت بخشنے کی غرض سے گاہے بگاہے لانچ کئے جاتے تھے۔ چونکہ چینلز کی تعداد ہی دو تھی یوں تعداد کی بجائے معیار قوم تک پہنچتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ یہ ڈرامے، سیریلز، کامیڈی شوز آج بھی ہماری قومی یاداشت کا حصہ ہیں جبکہ جیو، اے آر وائی اور دیگر نجی چینلزپر جاری "کچرے" کو کوئی پوچھتا بھی نہیں :)
 
Top